غزل

مصنف : سرور مجاز

سلسلہ : غزل

شمارہ : دسمبر 2014

Click here to read in English

اْس سمت چلے ہو تو بس اتنا اْسے کہنا
اب کوئی نہیں حرفِ تمنا اْسے کہنا

 

اْس نے ہی کہا تھا تو یقیں میں نے کیا تھا
اْمید پہ قائم ہے یہ دْنیا اْسے کہنا

 

دْنیا تو کسی حال میں جینے نہیں دیتی
چاہت نہیں ہوتی کبھی رسوا اْسے کہنا

 

کچھ لوگ سفر کے لیے موزوں نہیں ہوتے
کچھ راستے کٹتے نہیں تنہا ، اْسے کہنا

 

زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستہ اْسے کہنا

 

وہ میری رسائی میں نہیں ہے تو عجب کیا
حسرت بھی تو ہے عشق کا لہجہ اْسے کہنا