اسراف کا تصور عوام تو کجا ، خواص بلکہ بڑے بڑے علماکے دلوں سے بھی مٹ چکا ہے۔
سب سے پہلے میں اسراف سے متعلق قرآن کریم کی دو آیتوں کو ترجمہ وتفسیر کے ساتھ نقل کرتا ہوں اور پھر اسراف کی تفصیلات ایک جامع کتاب ‘‘الطریقۃ المحمدیۃ’’ سے پیش کرتا ہوں۔ چنانچہ سورۃ الاعراف میں ہے:
ترجمہ:-85‘‘اے آدم کی اولاد! ہرنماز کے وقت اپنی زینت وآرائش لے لو، اور کھاؤ اور پیو، مگر اسراف نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے’’۔
علامہ شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ‘‘ تفسیر عثمانی’’ میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: یہ آیات ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئیں جو کعبہ کا طواف برہنہ ہوکر کرتے تھے اور اسے بڑی قربت اور پرہیزگاری سمجھتے تھے اور بعض اہل جاہلیت ایام حج میں سدّ رمق سے زائد کھانا اور گھی یا چکنائی وغیرہ کا استعمال چھوڑ دیتے تھے، بعضوں نے بکری کے دودھ اور گوشت سے پرہیزکر رکھا تھا، ان سب کو بتلادیا کہ یہ کوئی نیکی اور تقویٰ کی باتیں نہیں، خدا کی دی ہوئی پوشاک جس سے تمہارے بدن کا تستَر اور آرائش ہے، اس کی عبادت کے وقت دوسرے اوقات سے بڑھ کر قابل استعمال ہے، تاکہ بندہ اپنے پروردگار کے دربار میں اس کی نعمتوں کا اثر لے کر حاضر ہو، خدانے جو کچھ پہننے اور کھانے پینے کو دیا ہے، اس سے تمتع کرو، بس شرط یہ ہے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔
’’اسراف’’ کے معنی ہیں ‘‘حد سے تجاوز کرنا’’ جس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً :حلال کو حرام کرلے یا حلال سے گذر کر حرام سے بھی متمتع ہونے لگے یا اناپ شناپ بے تمیزی اور حرص سے کھانے پرگر پڑے یا بدون ضرورت کھانے لگے یا بے وقت کھائے یا اس قدر کم کھائے جو صحت جسمانی اور قوت عمل کے باقی رکھنے کے لئے کافی نہ ہو یا مضر صحت چیزیں استعمال کرے، وغیرہ لفظ ‘‘اسراف’’ ان سب امور کو شامل ہے، بے جا خرچ کرنا بھی اس کا ایک فرد ہے، اسی تعمیم کے لحاظ سے بعض سلف نے فرمایا: ‘‘جمع اللّٰہ الطب کلہ فی آیۃ’’ خدانے ساری طب آدھی آیت میں اکھٹی کردی’’۔ (تفسیر عثمانی ص:۵۰۲)
یاد رہے کہ‘‘ اسراف’’ اور‘‘ تبذیر’’ دو الگ الگ الفاظ ہیں، لیکن دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، یعنی بے جا اور فضول خرچ کرنا۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے مبذرین کو شیطان کے بھائی قرار دیا ہے۔ ارشاد عالی ہے:ترجمہ:۔‘‘اور قرابت والے کو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دیدو اور مال کو فضول مت اڑاؤ، بے شک مال کو فضول اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے’’۔
مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں: یعنی قرابت والو ں کے مالی واخلاقی ہرقسم کے حقوق ادا کرو، محتاج ومسافر کی خبر گیری رکھو اور خدا کا دیا ہوا مال فضول بے موقع مت اڑاؤ، فضول خرچی یہ ہے کہ (مال) معاصی اور لغویات میں خرچ کیا جائے یا مباحات میں بے سوچے سمجھے اتنا خرچ کردے جو آگے چل کر تفویت حقوق اور ارتکاب حرام کا سبب بنے۔ یعنی مال خدا کی بڑی نعمت ہے جس سے بہت سی اسلامی خدمات اور نیکیاں کمانے کا موقع ملے ،اس کو بے جا اڑانا ناشکری ہے۔ جو شیطان کی تحریک سے وقوع میں آتی ہے اور آدمی ناشکری کرکے شیطان کے مشابہ ہوجا تا ہے، جس طرح شیطان نے خدا کی بخشی ہوئی قوتوں کو عصیان اور اضلال میں خرچ کیا اس (شخص) نے بھی حق تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو نافرمانی میں اڑادیا۔ (تفسیر عثمانی ص:۷۷۳،۸۷۳)
اسراف کی اقسام
۱)اسراف کی پہلی قسم یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے مال کو دانستہ طور پر سمندر میں یا کسی کنویں میں یا آگ میں ڈال کر تباہ کردیتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے یا اپنے مال کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے یا توڑ کر رکھ دیتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے یا اپنے باغ کا پھل پکنے کے بعد درختوں سے نہیں اتارتا یا کھیتی کی تیار فصل نہیں سنبھالتا، یہاں تک کہ پھل سڑ کر خراب ہوجاتا ہے اور فصل تباہ ہوجاتی ہے یا اگر اس کا مال جانوروں اور غلاموں کی صورت میں ہے تو اس کو گھر میں نہیں رکھتا ہے، جانوروں کو چارہ نہیں کھلاتا ہے اور سخت سردی میں غلاموں کو کپڑے نہیں پہناتا ہے، یہاں تک کہ جانور بھوک سے اور غلام سردی سے مر جاتے ہیں۔ یہ سب اسراف کے ضمن میں آتا ہے۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نوٹوں کے ساتھ ہاتھ صاف کرتے ہیں یا اس کو پھاڑدیتے ہیں یا کسی طرح جلا ڈالتے ہیں، ان کا یہ عمل اسراف میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔
۲)اسراف کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ: کوئی شخص مال تو جمع کرلیتا ہے، لیکن اس کی حفاظت نہیں کرتا، مثلاً: وہ مال اگر غلّہ کی شکل میں ہے توحفاظت نہ کرنے کی بنا پر اس میں تعفّن پیدا ہوجاتا ہے یا رطوبت پہنچنے کی وجہ سے غلہ خراب ہوجاتا ہے یا اس میں گھن اور کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں یا چوہے آکر اس کو خراب کرجاتے ہیں یا چیونٹیاں اس کو اڑالے جاتی ہیں یا کھانا سڑجاتا ہے۔ یہ خرابیاں غلے کے ساتھ ساتھ کھانے کی اشیا میں بھی پیدا ہوتی ہیں، مثلاً: روٹی یا گوشت یا شوربے یا پنیر یا آٹاوغیرہ۔اسی طرح یہ خرابیاں تر پھلوں اور سبزیوں میں پیدا ہوجاتی ہیں اور کبھی خشک میوہ جات میں بھی غفلت اور اسراف سے یہ خرابیاں آجاتی ہیں۔کبھی کپڑوں میں اسراف ہوتا ہے کہ ایک یا دو کے بجائے کئی کئی فضول جوڑے رکھے رہتے ہیں یا دسیوں لحاف بسترے اور کمبل فضول ریاکاری کے لئے پڑے رہتے ہیں یا طرح طرح کے گھریلو برتن جمع کئے جاتے ہیں اور بڑی بڑی الماریوں میں سجائے جاتے ہیں یا نمائش کی غرض سے علماء کے ہاں ضرورت سے زیادہ کتابیں خریدی جاتی ہیں اور اس میں اسراف کی حد تک تجاوز کیا جاتا ہے۔اسراف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا پکایاجاتا ہے اور پھر اس کو ضائع کرکے گرایاجاتا ہے یا بھوسے ٹکڑوں کی صورت میں فروخت کیا جاتا ہے یا دسترخوان پر دس دس قسم کے کھانے رکھے جاتے ہیں اور پھر برتن اور دسترخوان آلودہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور پس خوردہ کھانا کچرادان میں پھینکا جاتا ہے، یہ بدترین اسراف ہے، جس کا جواب قیامت میں دینا ہوگا۔اسراف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کھانا کھانے کے بعد برتن اور انگلیاں چاٹنے سے پہلے پانی سے دھولیتا ہے اور برتن اور انگلیوں سے لگاہوا کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ نیز دسترخوان پر روٹی کے گرے ہوئے تراشے اٹھائے بغیر پھینکنا بھی اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ سنت عمل برتن اور انگلیوں کا چاٹنا اور گراہوا تراشہ صاف کرکے کھانا ہے۔
اگر گرے ہوئے تراشے اٹھاکر مرغیوں اور بکریوں یا پرندوں اور بلیوں کو کھلا دیئے جائیں تو یہ اسراف نہیں ہوگا۔
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے جوتے اور پگڑی یا لباس کی حفاظت نہ کرے۔ پگڑی کا شملہ اگر کمر سے نیچے تک لمبا ہو تو یہ بھی اسراف ہے۔ قمیص کی آستین اگر انگلیوں تک پہنچ جائے تو یہ بھی اسراف ہے، نیز پاجامہ یا پتلون یا کرتہ اگر ٹخنوں سے نیچے تک جائے تو یہ اسراف بھی ہے اور حدیث کی ممانعت کی وجہ سے حرام بھی ہے۔غسل میں صابن کواور اسی طرح چراغ کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا بھی اسراف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زیب وزینت کی دیگر اشیا میں بھی اگر حد سے تجاوز کیا تو یہ بھی اسراف ہے۔ گھروں میں یا مساجد میں ضرورت سے زائد بجلی استعمال کرنا بھی اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ایک شخص کسی مجبوری کے بغیرمحض لاپروائی کی بناپر ایک عمدہ اور اعلیٰ قیمت چیز کو بہت کم قیمت اور نقصان کے ساتھ فروخت کرتا ہے یا اعلیٰ عمدہ مکان کو بہت کم کرایہ پر چڑھاتا ہے، نہ اس میں صدقہ کی نیت ہے، نہ کسی مسلمان کی ہمدردی کی نیت ہے۔ نیز یہ بھی اسراف کی شکل ہے کہ ایک شخص لاپروائی کے ساتھ بے کارمال کو بہت زیادہ قیمت پر خرید لیتا ہے یا بے کار مکان کو بہت زیادہ کرایہ پر لیتا ہے۔اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ مرد کے کفن کا کپڑا بہت اعلیٰ استعمال کیا جائے یا کفن کو مردے کے قدسے زیادہ استعمال کیا جائے۔ اسی طرح وضو بنانے میں پانی کو زیادہ استعمال کیاجائے ،یہ سب اسراف میں داخل ہے۔
مشکوٰۃ شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم کا گذر حضرت سعد کے قریب سے ہوا ،وہ وضو کر رہے تھے، آنحضرت ا نے فرمایا: سعد! یہ کیا اسراف کررہے ہو؟حضرت سعد نے فرمایا : یا رسول اللہ! وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ نبی اکرم ا نے فرمایا: ہاں! وضو میں بھی اسراف ہے ، اگر چہ تم ایک جاری نہر سے وضو بنارہے ہو۔(مشکوٰۃ،ص:۷۴)
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی سیر ہونے کے بعد بھی کھانا کھاتا رہے، ہاں! اگر مہمان کی غرض سے کھائے تو اسراف نہیں یا رمضان میں سحری کے وقت کھائے تو حرج نہیں۔
ابن ابی الدنیا اور بیہقی میں حضرت انس سے ایک روایت ہے کہ نبی اکرم ا نے فرمایا کہ: یہ بھی اسراف میں آتا ہے کہ تم (بلاروک ٹوک) ہر اس چیز کو کھاؤ جس کی تمہیں تمنا اور چاہت ہوجائے۔
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی دسترخوان پر کئی قسم کے کھانوں کو جمع کرے، ہاں اگر ایک قسم کے کھانے سے اکتاجائے یا مہمانوں کی وجہ سے مختلف قسم کے کھانے تیارکئے جائیں (بشرطیکہ کھانے کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہو) تو گنجائش ہے۔چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جو چاہو کھاؤ اورجو چاہو پیو، مگر دوچیزوں کا خیال رکھو، ایک اسراف کا، دوسرا تکبر کا۔
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ روٹی کو درمیان سے کھایاجائے اور اس کے کناروں کو ردی ٹکڑوں میں پھینک کرضائع کیا جائے۔
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ دسترخوان پر ضرورت سے زیادہ کھانا رکھا جائے، تاہم اس میں بھی یہ شرط ہے کہ کھانا ضائع ہوجائے یا شہرت اور دکھاوا مقصود ہو، تو اسراف ہوگا، ورنہ اسراف نہیں ہوگا۔
بہرحال اگر کوئی شخص نفیس کھانا کھاتا ہے یا نفیس ولطیف لباس استعمال کرتا ہے یا عمدہ مکان تعمیر کرتا ہے اور یہ چیزیں شرعی حدود کے اندر ہوں اور حلال مال سے ہوں تو یہ اسراف میں نہیں آتا ہے، البتہ کراہت سے خالی نہیں ہوگا، کیونکہ ایک مسلمان کی پوری ہمت اور نظر آخرت پر مرکوز رہنی چاہئے۔
اسراف میں یہ بھی آتا ہے کہ کوئی شخص اپنا مال گناہ کے کاموں میں استعمال کرے، اس میں ایک گناہ اسراف کا ملے گا اور دوسرا گناہ اس کا ملے گا کہ اس نے معصیت کا ارتکاب کیا۔حضرت مجاہدؒ سے روایت ہے کہ اگر کوئی شخص جبل ابوقبیس کے برابر سونا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں خرچ کرے تو اس میں اسراف نہیں ہے، لیکن اگر ایک درہم بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کرے تو یہ اسراف میں شمار ہوگا۔ ایسے صدقہ کرنے میں بھی اسراف ہے کہ آدمی خود مفلس ہوکر دوسروں کا محتاج بن جائے یا اس کے ذمہ پر بھاری قرضہ ادا کرنا ہے اور وہ اپنا مال صدقہ کررہا ہے، بلکہ مقروض آدمی کے لئے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ روٹی کے ساتھ بطور سالن زیتون یا سرکہ استعمال کرے، اس کو چاہئے کہ پہلے قرض ادا کرے۔ میرے خیال میں اسراف کی سب سے بڑی ذمہ داری گھروں کی خواتین پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ گھریلو خرچہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اگر خواتین کفایت شعاری کی عادت ڈالیں تو مسلمانوں کے معاشرے کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
اسراف کا علاج
اسراف کا علاج تین طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ پہلا طریقہ ‘‘علمی’’ ہے۔ وہ اس طرح کہ آدمی اسراف کے برے انجام کو سمجھنے کی کوشش کرے، یعنی وہ یہ علم حاصل کرے کہ دنیا اور آخرت میں اسراف کے عواقب کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اسراف کے علاج کا دوسرا طریقہ ‘‘عملی’’ ہے، وہ اس طرح کہ آدمی تکلف کرکے اپنے آپ کو قابو میں رکھے اور بے جا خرچ نہ کرے، بلکہ اپنے اوپر ایک نگران مقرر کرے جو اس کو اسراف کے خطرات سے ڈراتا رہے۔
اسراف کے علاج کا تیسرا طریقہ ‘‘قلعی’’ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اسراف کی جڑوں کو پہلے معلوم کرے اور پھر اپنی زندگی سے اسراف کی ان جڑوں کو کاٹ کررکھ دے، یعنی اسراف کے تمام اسباب کا ازالہ کرے۔
اسراف کے دنیوی اور اخروی برے اثرات سے بچنے کے لئے عوام اور خواص، علماء-04 اور صلحا سب پر لازم ہے کہ وہ کثرت سے استغفار کیا کریں، بلکہ استغفارکو اپنے اوپر لازم کریں۔ امید ہے اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا۔ایک صاحب علم نے لکھا‘‘اے دین دار حضرات! تمہارے محلات تو شاہِ روم قیصر کی طرح ہیں اور تمہارے مکانات شاہ فارس کسریٰ کی طرح ہیں، تمہارے لباس طالوت کی طرح ہیں اور جوتے جالوت کی طرح ہیں، تمہارے برتن فرعون کی طرح اور سواریاں قارون کی طرح ہیں، تمہارے دسترخوان دور جاہلیت کی طرح ہیں، تو تم میں محمدیت کہاں سے آئے گی؟