مرا ورد نعتِ رسول ہو ، مرا قلب قلبِ حضور ہو
مرے ہر نفس میں درود ہو ، مرے گھر میں بارش نور ہو
میں پڑھوں کلامِ خدا اگر مجھے آئے روئے نبی نظر
پڑھے ان کے حسن پہ جب نظر تو جمالِ حق کا ظہور ہو
کھلے دل کی آنکھ اگر نہاں تو یہ راز تجھ پہ بھی ہو عیاں
وہی دیکھتا ہے تجلیاں جسے دیکھنے کا شعور ہو
کروں ان کے حسن کی گفتگو رہوں ان کے سامنے روبرو
نہ مجھے ہو خلد کی آرزو ، نہ خیال حور و قصور ہو
مرے لب پہ تیرا ہی نام ہو، مری مستیوں کو دوام ہو
جو کسی طرح نہ تمام ہو وہ عطا مجھے بھی سرور ہو
میں رہِ عمل میں فقیر ہوں میں غریب کب ہوں امیر ہوں
ترے گیسوؤں کا اسیر ہوں مجھے کیوں نہ اس پر غرور ہو
تیری رحمتوں کے محیط میں ہے محاط وسعت دوسرا
کوئی ایسی شے ہی نہیں شہا جو تری نگاہ سے دور ہو
تری آستاں پہ مری جبیں ہے ندامتوں سے جھکی ہوئی
تو شفیعِ روز حساب ہے مرا دور جرم و قصور ہو
یہی آرزو شہ زمن نہ اجڑ سکے مری انجمن
جہاں تیرے ذکر کا ہو چمن وہاں مشہدی بھی ضرور ہو