22 سال قبل فلپائن چھوڑنے کے بعد ایک بار پھر امریکی فوج وہاں لوٹنے کی تیاریوں میں ہے۔امریکیوں کی آمد کے اس اعلان کے ساتھ ہی توجہ ایک بار پھر ان بچوں کی طرف لوٹ رہی ہے جن کے باپ ایسے امریکی فوجی تھے جو انھیں اور ان کی ماؤں کو 22 سال پہلے چھوڑ کر چلے گئے اور پھر کبھی ان کی خبر بھی نہ لی۔
ایسے ہی لوگوں میں ایک میری جین سٹیفنز ہیں جو اب ایک خستہ حال کمرے میں اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس کمرے میں دو دریاں ہیں جن پر وہ سوتے ہیں۔ ان کی باقی گھرہستی ایک چولھے، ایک صوفے اور ایک ٹی وی پر مشتمل ہے۔وہ منیلا کے اْس علاقے میں رہتی ہیں جہاں دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکی فوجی اڈا تھا اور اْس کے گرد جسم فروشی کا علاقہ۔ امریکی فوجی اڈا تو ختم ہو گیا لیکن جسم فروشی کا علاقہ موجود ہے اور میری جین اب اس علاقے کے شراب خانوں میں کام کرتی ہے۔وہ اپنی ساری توانائیاں اپنے بچوں کی پرورش پر صرف کر رہی ہے۔ بچے کوئی کام نہیں کرتے اور میری جین کی آمدنی بھی انھیں صرف روٹی پانی ہی دے پاتی ہے۔
فلپائن میں یہ فوجی اڈے دو دہائی سے زیادہ عرصے تک موجود رہے۔ ان پر امریکہ کے ہزارہا بری بحری اور فضائی فوجی متعین ہوتے رہے اور ان کی ویتنام اور کوریا کی جنگوں کے سلسلے میں آمدو رفت بھی رہی۔
اسی دوران انھوں نے یہاں کی مقامی لڑکیوں سے تعلقات بھی قائم کیے۔ انھی میں سے ایک میری جین بھی ہیں جن کے امریکی فوجیوں سے تعلقات رہے۔میری کہتی ہیں ‘جب وہ پہلی بار ملتے ہیں تو محبت جتاتے ہیں، محسوس کراتے ہیں کہ ان کا تعلق وقتی نہیں ہے لیکن پھر وہ جاتے ہیں تو ان کی کوئی خبر ہی نہیں ملتی۔’وہ بتاتی ہے کہ اس کا ہر بچہ ایک الگ باپ سے ہے اور وہ سب امریکی فوجی تھے۔ایک اندازے کے بعد امریکی باپوں کے فلپائن میں ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ بچے ہیں، جن میں سے بہت سوں کو ضرور اپنے باپوں کا خیال آتا ہو گا۔یہ سب لوگ دارالحکومت منیلا کے شمالی علاقوں میں ان مقامات کے گرد رہتے ہیں جہاں امریکی فوجی اڈے ہوا کرتے تھے۔
میری جین خود بھی ایک امریکی فوجی باپ اور فلپینی ماں کی اولاد ہے اور اپنے بچوں کی طرح اپنے باپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔وہ بتاتی ہے ‘میرے باپ سیاہ فام امریکن تھے۔ میری ماں ایک بار کے کاؤنٹر پر کام کرتی تھی جب اْس کی ملاقات میرے باپ سے ہوئی۔’‘وہ خاصے عرصے تک اکٹھے رہے لیکن ان کی شادی نہیں ہوئی کیوں کہ میری نانی اس تعلق کی مخالف تھی۔ اسی لیے وہ میری ماں کو چھوڑ کر چلے گئے’۔
فلپائن کا معاشرہ روایتی کیتھولک ہے اور امریکی فوجیوں کے اِن بچوں کے ساتھ بالعموم امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کے لیے ‘ایمریشین’ (امریکی ایشیائی) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور انھیں ‘طوائفوں کے ناجائز مخلوط بچے’ بھی کہا جاتا ہے۔ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جنھیں ان کی مائیں بھی اس لیے چھوڑ کر چلی گئیں کہ وہ ان کی پرورش نہیں کر سکتی تھیں یا انھیں معاشرے کا سامنا کرتے ہوئے شرم آتی تھی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے اکثر انتہائی غربت اور افلاس میں پلے کچھ ایسے بھی تھے جنھیں کچھ والدین نے گود لے لیا۔
"دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر والد اپنے بچھڑے ہوئے بچے کو قبول بھی کر لے تو امریکی قوانین کے تحت ایسے بچوں کو امریکی شہریت ملنا آسان نہیں ۔ اس میں کچھ آسانیاں تب پیدا ہوئیں جب 1982 میں امریکی کانگریس نے ایسے تھائی، ویتنامی، کمپوچیائی، لاؤسی اور فلپائنی بچوں کا اپنے باپوں کے پاس آنا آسان بنا دیا"
اس سلسلے میں ایمریشین ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق سے انتہائی وحشت ناک تصویر سامنے آتی ہے۔
ایمریشین ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی یہ رپورٹ 2010 میں جاری کی گئی۔رپورٹ کے مطابق وہ بچے جنھیں ان کی مائیں بھی چھوڑ گئیں۔ ذلت آمیز غربت میں رہتے ہیں۔ نہ تو ان کے پاس رہنے کو گھر ہوتا ہے اور نہ ہی کھانے کو کچھ، کیوں کہ انھیں کام بھی نہیں ملتا۔ انھیں شراب اور منشیات کی لت لگ جاتی ہے، بہت سے دست درازیوں کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ ان کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ والد یا والدین نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی سماجی تنہائی اور پسپائی کا شکار رہتے ہیں۔ان میں سے بہت سوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ انھیں صرف رنگ کی وجہ سے کام نہیں دیا جاتا۔
افریقی امریکی نسل کے باپ کی 23 سالہ اولاد ایشلے ڈسکلیئر کا کہنا ہے ‘اکثر دوسروں سے مختلف رنگ کا ہو کر بڑا ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لوگ صرف اس لیے آپ کو کام پر نہیں رکھتے کہ آپ کا رنگ کچھ اور ہے۔’
اس کی تصدیق میری جین بھی کرتی ہیں وہ کہتی ہیں ‘جب رنگ کالا ہوتا ہے تو لوگ آپ کے طرح طرح کے نام رکھتے ہیں، کوئی آپ کو نیگرو کہتا ہے اور کوئی ‘بلوٹا’ (فلپائنی لفظ)، شروع میں تو یہ باتیں آپ کو بہت بری لگتی ہیں لیکن جوں جوں آپ بڑے ہوتے ہیں، عادی ہوتے جاتے ہیں۔’
لیکن ایمریشین میں سے اکثر اب تک یہ امید رکھتے ہیں کہ انھیں ان کے والد مل جائیں گے۔ اگرچہ بہت سے معاملوں میں تلاش بے نتیجہ ہی رہی ہے۔ اگر سراغ مل بھی جائے تو باپ کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ اپنے بچے کو قبول کر لے آسان نہیں ہوتا۔
20سالہ کرسچن جیکسن ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھیں ان کے والد مل گئے۔ ان کی والدہ 20 سال کی تھیں جب ان کی مشی گن کے فوجی سے ملاقات ہوئی۔ جب اس کے والد واپس امریکہ جا رہے تھے تو ان کی والدہ ماں بننے والی تھیں۔
کریسچن 17 کی ہوئیں تو انھوں نے اپنے والد کو تلاش کرنا شروع کیا۔ آخر وہ اپنے والد کا فیس بک پروفائل تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور انھیں پیغام بھیج دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں وہ بہت دنوں تک صرف اس ڈر سے فیس بک پر نہیں جاتی تھیں کہ ان کے والد نے ان کے پیغام کا جواب نہیں دیا ہو گا۔ لیکن جب انھوں نے اپنی ایک دوست کہنے پر اپنے نام آنے والے پیغام دیکھے تو ان میں اپنے والد کا پیغام بھی پایا اور وہ اْس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ وہ بتاتی ہیں ‘تب سے اب تک ہم رابطے میں ہیں’۔
پھر امریکی فوجی اڈے
"ایک بار پھر ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ فلپائن چین کے خلاف امریکی تحفظ چاہتا ہے اور امریکہ بھی اس خطے میں فوجی موجودگی چاہتا ہے۔ اس لیے نئے فوجی اڈے بن رہے ہیں۔"
نہ تو یہ فوجی اڈے مستقل ہوں گے اور نہ ہی یہاں فوجیوں کی بڑی تعداد مقرر کی جائے گی لیکن ایمریشین کے حوالے سے ان اڈوں کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے ‘22 سال پہلے امریکی فوجی اڈے یہاں سے ختم ہوئے تھے، اس کے بعد سے تمام عرصے میں امریکی فوجیوں کے بچوں نے اپنے باپوں سے ملنے کا انتظار کیا، بہت سوں کو باپ ملے بہت سوں کو نہیں ملے، اب ایک بار پھر اڈے قائم کیے جا رہے ہیں تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہو گا کہ مزید ہزاروں فلپائنی ایمریشین بچے پیدا ہوں گے’۔(بحوالہ بی بی سی ۲۱ مئی ۲۱۰۴)