رمضان قمری تقویم کا نواں مہینا ہے۔یہ مہینا مسلمانوں ہی کے لیے نہیں، انسانوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔یہ وہ مہینا ہے جب گمراہی کے صحرامیں بھٹکتی انسانیت کی صداے العطش آسمان نے سنی اور باران ہدایت کو عرب کے بیابانوں پر برسنے کا حکم دیا۔ پھر اس سرزمین سے ہدایت کے وہ چشمے ابلے جن سے پوری انسانیت سیراب ہوگئی۔یہ وہ مہینا ہے جب ظلم کی چکی میں پستی اور سسکتی ہوئی انسانیت کی صداے العدل کا جواب کائنات کے بادشاہ نے عدل سے نہیں، احسان سے دیا اس طرح کہ قیامت تک کے لیے قرآن کو وہ فرقان بناکر زمین پر اتارا کہ جس کی ہدایت نے دھرتی کو امن و سکون سے بھر دیا۔
ماہ رمضان ایک دفعہ پھر اہل زمین کے سروں پر سایہ فگن ہونے کو ہے۔اس حال میں کہ آج ہر طرف ظلم اور گمراہی کا دوردورہ ہے۔انسانیت کے مصائب کا علاج آج بھی یہی ہے کہ قرآن کی ہدایت لوگوں کے سامنے رکھی جائے اور لوگ اسے قبول کرلیں۔سو خیال و خامہ اسی خدمت کے لیے یکجا ہوتے ہیں۔صاحب توحید نے قرآن اور رمضان کا تعلق اس طرح بیان کیا ہے:
‘‘رمضان کا مہیناہے جس میں قرآن نازل کیاگیا، لوگوں کے لیے رہنما بنا کر اور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے سراسرہدایت بھی ہیں اور حق وباطل کا فیصلہ بھی۔ ’’(البقرہ۲:۱۸۵)
قرآن کی ہدایت کیا ہے ؟ اگر اسے ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ انسانوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرنے آیا ہے جو انھیں ان کی موت کے بعد درپیش ہوگا۔یعنی ان کے مالک کے حضور پیشی کامسئلہ، اپنے اعمال کی جواب دہی کا مسئلہ، جنت سے محرومی اور جہنم کی آگ کا مسئلہ، ابدی ذلت یا دائمی عیش کا مسئلہ، مگر بڑی عجیب بات ہے کہ یہ ہدایت جس کا تعلق دنیا سے نہیں آخرت سے ہے، زندگی سے نہیں موت سے ہے،انسانوں کی زندگی اور ان کی دنیا کے سارے مسائل کا واحد ممکنہ حل ہے۔
اس دنیا میں انسان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ کہ وہ ایک فانی دنیا میں ابدی قیام کے اسباب ڈھونڈتا ہے،یہ کہ وہ ایک سرائے میں رہ کر کسی دائمی مستقر کے آرام ڈھونڈتا ہے۔اقبال نے جو بات فرنگ کے لیے کہی تھی ،وہ ہر فرزندزمین کے بارے میں درست ہے:
ڈھونڈرہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام
اس عیش اور آرام کی تلاش میں انسان خدا و آخرت کو بھول جاتا ہے۔وہ فانی دنیا کو اپنا مقصد بناتا اور ہر اخلاقی قدر کو فراموش کردیتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان نوع انساں کا شکاری بن جاتا ہے۔ پھر ظلم اور گمراہی کی وہ ساری اقسام وجو دمیں آتی ہیں جن سے بحرو بر میں فساد پھیل جاتا ہے۔انسانوں کی جان، مال، عزت وآبرو انھی جیسے انسانوں کے ہاتھوں پامال ہوتی ہے ۔انسان کا اخلاقی وجود اس کی حیوانی خواہشات کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے۔
اس صور ت حا ل کا واحد حل وہ قرآنی ہدایت ہے جو پوری قوت کے ساتھ قیامت کے ہولناک زلزلے سے انسانوں کو ڈراتی ہے۔وہ اس روز سے انسانوں کو خبردار کرتی ہے جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کردی جائے گی اور حسن وزینت کے تمام آثار مٹاکر زمین ایک چٹیل میدان بنادی جائے گی۔وہ دن کہ جب لوگ اپنے سوا ہر چیز کو بھول جائیں گے:
‘‘اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو۔ بے شک قیامت کی ہلچل بڑی ہی ہول ناک چیز ہے۔جس دن تم اسے دیکھوگے،اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھوگے ،حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے ،بلکہ اللہ کا عذاب ہے ہی بڑی ہول ناک چیز۔’’(الحج ۲۲:۱ ۔۲)
جو لوگ قرآن کی اس پکار پر توجہ دیتے ہیں اور آخرت کی کامیابی کو اپنی منزل بنالیتے ہیں ، قرآن ان کے سامنے ایک واضح نصب العین رکھتا ہے۔ فرمایا:
‘‘بے شک فلاح پاگیاوہ شخص جس نے پاکیزگی اختیار کی’’۔(الاعلیٰ۸۷:۱۴)
‘‘اورنفس گواہی دیتا ہے اور جیسا اسے سنوارا۔پھر اس کی نیکی اور بدی اسے سجھادی کہ فلاح پاگیاوہ، جس نے اس کو پاک کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے آلودہ کیا۔’’(الشمس۹۱:۶۔۱۰)
یہ آیات کھول کر بتاتی ہیں کہ آخرت کی کامیابی کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنا تزکیہ کرتا ہے یا نہیں۔ یہ تزکیہ رہبانیت جیسی کوئی چیز نہیں ،بلکہ ایمان و اخلاق کی آلایشوں سے خود کو بچانے کا عمل ہے۔ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نفس انسانی میں خیر و شر کا پورا شعورشروع دن ہی سے موجود ہے اور اسی علم کی بنیاد پر انسان یہ جانتا ہے کہ اسے اپنے آپ کو کن آلایشوں سے بچانا اور کن چیزوں کو اختیار کرنا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں انسان اخلاق سے عاری نہیں ، بلکہ فطرت کا عطا کردہ پاکیزہ لباس پہن کر آتاہے۔ اس لباس فطرت کے دامن میں شرک کا کوئی داغ اور الحاد کا کوئی دھبا تک نہیں ہوتا۔اس پر ظلم کی میل اور ہوس کی گندگی نہیں لگی ہوتی،مگر دنیا میں موجود شیطانی ترغیبات ،حیوانی خواہشات اور ماحول کے اثرات انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال دیتے ہیں۔وہ فطرت میں موجود خیر و شر کے تصورات کو بھول کر خواہش نفس کی پیروی اختیار کرتا ہے۔جیسے جیسے وہ اس راہ پر آگے بڑھتا ہے، یہ گرد آلود راستہ دامن دل اور لباس فطرت کو غلیظ سے غلیظ تر کرتا چلاجاتا ہے۔غفلت کی دھول اور سرکشی کی کالک فطرت کے حسن کو نری غلاظت میں بدل دیتی ہے۔انسان پہلے پہل خیر و شر کی تمیز کھوتا ہے اور پھر معاشرے میں ہر شر خیر اور ہر خیر شر بن جاتا ہے۔فطرت میں پیدا ہوجانے والی اس کجی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں پیغمبر بھیجے ، کتابیں اتاریں،بھولا ہوا سبق یاد دلایااور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتار ا۔قرآن نہ صرف تزکیہ کے نصب العین کو انسانوں کے سامنے رکھتا ہے ،بلکہ ایمان و اخلاق اور فکرو عمل کی آلایشوں کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔
قرآن کی اس ہدایت کی روشنی میں ہر بندۂ مومن کی زندگی کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو فطرت میں موجود اور قرآن میں بیان کردہ ان آلایشوں سے بچائے۔انسان جیسے ہی یہ عمل شروع کرتا ہے ،اس کا براہ راست نتیجہ اس کے اخلاقی وجود پر مرتب ہوتا ہے۔شرک و الحاد کی گندگی کو دھونے کے بعد انسان اپنے جیسے انسانوں کو خدا بناتا ہے نہ خواہش نفس کو اپنا معبود ٹھہراتا ہے۔ آخرت کی کامیابی کا نصب العین تقاضا کرتاہے کہ انسان کی جان، مال ، وقت اورصلاحیت کا ایک حصہ لازماً ذاتی مفادات سے بلند ہوکر صرف کیا جائے۔ایسے پاکیزہ لوگوں کے معاشرے میں نہ طاقت ور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں اور نہ اہل ثروت غربا سے بے نیاز اپنی مستیوں میں مگن رہتے ہیں۔انسان اپنے ابناے نوع کے ساتھ اس یقین کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں کہ کل روزقیامت ہر معاملہ رب العالمین کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔وہ عدالت جہاں فیصلے مادی نہیں ،بلکہ اخلاقی قانون کی بنیاد پر ہوں گے۔ چنانچہ دھوکا، فریب، بددیانتی، خیانت اور جھوٹ اور معاشرے میں پائی جانے والی ان جیسی تمام اخلاقی گندگیاں اوصاف حمیدہ کے لیے جگہ چھوڑ دیتی ہیں۔یوں دھرتی نور ایمان سے چمک اٹھتی ہے۔
فلاح آخرت اور اس کے لیے پاکیزگی کے حصول پر انسان کو متحرک کرنے والی سب سے بڑی چیز خدا کے حضور پیشی کا خوف ، اس کی پکڑ کا اندیشہ ، اس کے عذاب کا ڈر اور اس کا تقویٰ ہے۔ یہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو روزوں کی فرضیت کا سبب ہے۔ ارشاد ہوا:
‘‘ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔’’(البقرہ۲:۱۸۳)
یہ تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کہ رمضان میں قرآن کی بار بار تلاوت انسان کو جہنم کے عذاب اور خدا کی پکڑ سے بے خوف نہیں رہنے دیتی۔دوسری طرف روزے میں کھانے پینے سے رکنا انسان کونہ صرف پرہیز گاری کے آداب سکھاتا ہے، بلکہ اسے اس مضبوط قوت ارادی سے آگاہ کرتا ہے جسے استعمال کرکے وہ ہر اخلاقی ناپاکی سے بچ سکتا ہے۔
سو اب جبکہ رمضان کی آمد آمد ہے، آئیے ـــرمضان کے استقبال کا عزم کرتے ہیں۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں قرآن صرف ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے،آئیے ـــ قرآن کو ہدایت کے لیے پڑھنے کا عزم کرتے ہیں۔یہ عزم کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں گے۔یہ جاننے کے لیے پڑھیں گے کہ قرآن جس دن کی مصیبت سے خبردار کرنے آیا ہے ،وہ کون سا دن ہے۔ فکر و عمل اور اخلاق و عقیدہ کی ان گندگیوں کو جاننے کے لیے پڑھیں گے جن سے بچے بغیر جہنم کی آگ سے نہیں بچا جاسکتا ہے۔
رمضان ثواب کا مہینا ہے۔ آئیے ـــ اسے ہدایت کا مہینا بنادیں۔یہ بھوک پیاس سے رکنے کا مہینا ہے۔آئیے ـــ اسے تقویٰ حاصل کرنے کامہینا بنادیں۔یہ قمری تقویم کا نواں مہینا ہے۔آئیے۔ اسے ایمانی تقویم کا پہلا مہینا بنادیں۔
٭٭٭