مصر کے جنوبی صوبے سیناء کے سیاحتی اور ساحلی شہر ''دہب'' میں رہنے والے ساٹھ سالہ امریکی مہاجر مسٹر ولیم اور موجودہ نام عبداللہ یوسف سے ملیئے جو آج سے پندرہ سال پہلے مصر کی سیاحت کے لیے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔
عبداللہ یوسف روزانہ دو گھنٹے لگا کر دودھ کے ساتھ چاولوں میں میں دار چینی، کشمش ، شہد، ناریل، مونگ پھلی، تل اور کرامیل ڈال کر کھیر بناتا ہے۔ پلاسٹک کی پیالیوں میں ڈال کر رات بھر کے لیے فریج میں ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیتا ہے۔ دوسرے دن دوپہر کو ٹھنڈی چیزوں کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے والے سفری بکسے میں ترتیب سے رکھ کر آس پاس کوٹی ہوئی برف ڈالتا ہے اور اپنے سائیکل پر لاد کر شہر کی سڑکوں پر بیچنے کیلیئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔
عبداللہ یوسف کہتے ہیں: میرے لیئے اسلام کی ابتداء تو یہاں ''دہب'' سے ہوئی۔ اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں سیاحت کے لیے دہب کے ہوٹل ''سیون ھیون'' میں ٹھہرا ہوا تھا ۔ اسی ہوٹل میں ٹھہرے میرے ایک پرانے دوست نے مجھے قران شریف کا نسخہ تحفہ دیا۔ قرآن پڑھتے ہی میرے دل پر اثر ہوا اور میں نے فوراً ہی اسلام قبول کر لیا۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بہت سمجھایا کہ وہ بھی اسلام قبول کر کے یہیں میرے ساتھ دہب میں ہی رہ جائیں مگر وہ مجھے چھوڑ کر واپس امریکہ چلے گئے۔ عبداللہ یوسف کہتے ہیں مجھے اپنا کام چھوڑنے کا کوئی قلق اور افسوس نہیں ہے (آپ امریکہ میں پیٹرولیم کے شعبہ میں بحیثیت انجینئر کام کرتے تھے)۔ مجھے اپنے خاندان کو واپس چھوڑ نے کا سب سے زیادہ افسوس ہوا۔اور یہ میری سب سے بڑی قربانی تھی جو میں نے اسلام کے لیے دی۔ ایسی عورت جس کے ساتھ آپ نے زندگی کے اکیس سال گزارے ہوں، دو ایسی بیٹیاں جنہیں آپ نے ناز و نعم سے پال پوس کر بڑا کیا ہو اور انہوں نے اب یونیورسٹیوں میں داخل ہونا ہو، کو چھو ڑکر ایک ایسے مشن کے لیے چل پڑناکوئی آسان کام نہیں ہوتا۔
عبداللہ یوسف صاحب اب تک قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پچاس سے زائد بار پڑھ چکے ہیں۔ سنت و حدیث کی بے شمار کتابوں کا مطالعہ کر چکے ہیں اور اسلام کو کئی آئمہ کرام سے بہتر سمجھتے ہیں۔ آسانی کے لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے عبداللہ یوسف قران کی کئی گہری باتوں کے مطالب بھی بآسانی سمجھنے والے ہیں۔
اسلام قبول کرنے کے بعد عبداللہ یوسف صاحب عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لے گئے۔ انہوں نے وہاں پر دعوت و تبلیغ سے جڑنے کے لیے کسی بھی قسم کی نوکری حاصل کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ انہوں نے اس کام کے لیے بہت منتیں اور ترلے کیئے مگر انہیں بتایا گیا کہ یہ ناممکن ہے۔عبداللہ یوسف اس وجہ سے بہت ہی مایوس ہوئے اور ٹوٹے دل کے ساتھ واپس مصر میں اپنی خود ساختہ سلطنت دہب میں آ گئے۔ عبداللہ یوسف دہب میں خوش و خرم اپنی زندگی گزارتے ہیں اور اپنے تئیں اللہ پاک کی بندگی، اس کے بندوں کی خدمت اور دلجوئی کا کام کرتے ہیں۔
نوٹ: دہب شہر کے فیس بک پر آفیشل پیجز کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا ہے کہ عبداللہ یوسف صاحب کو مسجد نبوی شریف میں خدمت کے کسی کام میں کھپا لیا گیا ہے جو کہ ان کی دلی آرزو، جستجو اور خواہش تھی- فیس بک پر میں نے الوداع کھیر فروش عبداللہ یوسف، تم دہب سے بہتر جگہ پر تشریف لے جا رہے ہو کے ٹرینڈ بھی دیکھے ہیں۔
٭٭٭