ميں نے اسلام كيسے قبول كيا

مصنف : ضيا چترالی

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : اكتوبر 2024

من الظلمت الی النور

ميں نے اسلام كيسے قبول كيا

امام الشیخ ویلیم ویب

ضيا چترالی

۔۔۔۔۔

رات کے کھانے میں دادا اور دادی اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ دادا شہر کی ممتاز مذہبی شخصیت اور اسکالر تھا۔ گپ شپ کے دوران اچانک 14 سالہ پوتے نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ "میں مسلمان ہوں، میں نے اسلام قبول کیا ہے، حق کی لذت محسوس کی ہے اور خدا کے نور کو دیکھا ہے۔"

ویلیم ویب نامی اس بچے نے جب یہ جملہ ادا کیا تو اس وقت اس کی ماں نے پانی پی رہی تھی۔ اسے اچھو آگیا۔ پانی اس کے منہ سے نکل کر کھانے کی ٹیبل پر گر گیا۔ وہ گلاس ہاتھ میں لیے اپنے بچے کو دیکھتے ہی رہ گئی۔ شاید اس کا دماغ اچانک خراب ہوگیا۔ یہ ہر ہفتے میرے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ چرچ جاتا ہے۔ لیکچر سنتا ہے۔ اسے کیا ہوگیا۔ پھر اس نے ویلیم کو گھور کر دیکھا اور کہا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟

دادا اور دادی خاموش تھے۔ انہیں اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ لیکن باپ نے ڈانٹنا شروع کیا اور ساتھ میں مسلمانوں کے نبیؐ کی شان میں بھی جو منہ میں آیا کہہ دیا۔ بڑے بھائی نے کہا کہ پریشان نہ ہوں، یہ مذاق کر رہا ہے۔ مگر ویلیم اپنے مؤقف پر چٹان کی ڈٹا رہا۔ اس گرما گرمی میں کسی نے کھانا کھایا اور کوئی ویسے ہی ٹیبل سے اٹھ گیا۔ سب حیران و پریشان تھے۔

یہ 1992ء کی بات ہے۔ ویلیم نے کسی مسجد یا اسلامک سینٹر میں جا کر اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا۔ لیکن وہ دین حنیف کے سائے میں آنے کا پکا عزم کر چکا تھا۔ اہل خانہ اسے سمجھاتے اور مسلمانوں کی "خامیاں" بیان کرکے اسے اپنے ارادے سے باز آنے کی تلقین کرتے رہے۔ 6 ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ مگر ساری فہمائش کا ویلیم پر الٹا اثر ہو رہا تھا۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے موقف میں مزید ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹا رہا۔ 6 ماہ بعد بالآخر اس نے قبولِ اسلام کا رسمی اعلان بھی کر کے باقاعدہ سند بھی لے لی۔

لیکن اس عرصے میں اس نے اپنے اخلاق وکردار سے اہل خانہ کا دل گھائل کر دیا تھا۔ اس میں اچانک ایسی تبدیلی آئی تھی کہ والدہ کو ایک دن کہنا پڑا کہ تمہارا بڑا بھائی میرے ساتھ چرچ جاتا ہے اور تم ہمارے مخالفین کی عبادت گاہ یعنی مسجد جاتے ہو۔ لیکن اس کا رویہ میرے ساتھ بہت برا ہے اور تم تو سراپا اطاعت بن چکے ہو۔ یہ تبدیلی کیسی؟ یہ کہہ کر ماں کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ ویلیم نے کہا مجھے میرے دین اسلام نے اس کا حکم دیا کہ میں اپنی ماں کو اپنی سر بٹھاؤں اور اس کے لیے پلکیں بچھائوں۔ والدہ نے کہا کہ بیٹا کتنا پیارا ہے تیرا دین۔

قبول اسلام کے بعد ویلیم نے اپنا نام تبدیل کرکے صہیب ویب Suhaib Webb رکھ لیا۔ ان کی ایمان افروز داستان پر عربی میں ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔ "حفید قس امریکی" نامی یہ کتاب لجنۃ التعریف بالاسلام نے تیار کرکے 2008ء میں شائع کی ہے۔ اس کے شروع میں لکھا ہے کہ ویلیم ویب اپنی والدہ کے ساتھ چرچ جاتا تھا۔ جہاں بچوں کو جو لیکچر دیا جاتا، اس میں انبیائے کرامؑ کے قصے سنائے جاتے۔ ویلیم ویب کہتے ہیں کہ ان قصص میں سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا یحییٰ علیہ السلام تک ہمیں توحید کی تعلیم ملتی ہے۔ توحید ہی بنیادی سبق ہے۔ لیکن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام میں آکر کہا جاتا ہے کہ وہی جنت کی کنجی ہیں۔ اس لیے ان کی عبادت کرو۔ یہ سن کر میں تذبذب کا شکار ہو جاتا تھا۔

ایک دن میں نے والدہ سے پوچھا کیا مسیح جنت کی کنجی ہیں؟ کہا جی ہاں۔ میں نے پوچھا ان کی عبادت کے بغیر جنت میں نہیں جا سکتے؟ کہنے لگی جی بالکل، ایسا ہی۔ میں نے کہا تو پھر مسیح کی پیدائش سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں، انہوں نے بھی مسیح کی عبادت کی تھی؟ والدہ نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر وہ جنت میں کیسے جائیں گے؟ والدہ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ یہ سن کر میں مزید شک کا شکار ہوگیا۔ پھر میرے شکوک و شبہات کا ازالہ میلکم ایکس کی اسلام کے تعارف پر مبنی کتاب پڑھ کر ہوا اور میں نے اسلام قبول کرنے کا دوٹوک فیصلہ کرلیا۔

ویلیم ویب 29 جون 1972ء کو امریکی ریاست اوکلاہاما میں پیدا ہوا تھا اور اب عیسائی پادری کے اس پوتے کا شمار دنیا کے 500 بااثر ترین مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ وہ امریکا کے مشہور ترین اسلامی داعی، مبلغ، اسکالر اور عالم دین ہیں۔ جامعہ ازہر میں صہیب ویب نے كلية الشريعة والقانون سے فراغت حاصل کی۔ پہلے واشنگٹن کی مرکزی مسجد اور اسلامی ثقافتی مرکز میں امام تھے اور اب اوکلاہاما میں ہی امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

مارچ 2011ء میں روئٹرز میں چھپنے والی ایک اسٹوری کے مطابق 14 برس کی عمر میں صہیب ویب کے اندر اچانک ایک روحانی انقلاب برپا ہوا۔ اس روحانی بے چینی کو دور کرنے کے لیے اس نے موسیقی کا سہارا لیا۔ اس نے مقامی کلب کو جوائن کیا اور Hip hop کے گلوکاروں کے ساتھ گلوکاری کرنے لگا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اسے ترک کرکے اپنی تعلیم پر توجہ دی اور جامعہ اوکلاہاما سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے ساتھ ایک سینیگالی عالم دین سے اسلامی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اوکلاہاما کے مدرسۃ الرحمۃ میں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ جامعہ ازہر چلے گئے۔

صہیب ویب اپنے شہر کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد کے امام و خطیب ہیں۔ اس کے ساتھ وہ الجمعية الإسلامية الأمريكية (Muslim American Society) کے رکن رکین ہیں۔ اسی سوسائٹی کی جانب سے انہیں جامعہ ازہر بھیجا گیا تھا۔ ویب صاحب امریکا میں اسلام کے حقیقی چہرے سے لوگوں کو روشناس کراتے ہیں۔ ان کے لیکچرز بہت مشہور ہیں۔ لوگ دور داز سے انہیں سننے آتے ہیں اور انہیں مختلف مقامات پر مدعو بھی کیا جاتا ہے۔ انگلش تو ان کی مادری زبان ہے، لیکن وہ عربی بھی خالص عرب لہجے میں بولتے ہیں۔ امام صہیب اسلامک سوسائٹی آف بوسٹن کلچرل سینٹر کے ریذیڈنٹ اسکالر ہیں اور امریکی مسلمانوں میں انتہائی بااثر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے بل ماہر اور سام ہیرس کے مسلمانوں سے متعلق غلیظ خیالات اور اسلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کا مفصل جواب دیا ہے۔

ایک مرتبہ خطبے کے دوران ایک طالب علم نے ان سے کہا کہ مسلمانوں کو ان لوگوں کی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہنا چاہئے۔ اس پر امام صہیب نے کہا کہ جب چاروں طرف سے مسلمانوں پر یلغار ہو رہی ہو تو اس وقت ہمیں متفکر ہونا چاہئے۔ امریکا کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں انہیں لیکچرز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ وہ خود بھی بہت متحرک ہیں اور جہاں جاتے ہیں، مسلم کمیونٹی کو یکجا اور متحرک کرکے دفاتر قائم کرتے ہیں۔ داعش کے فتنے کے خلاف صہیب ویب چٹان بن کر کھڑے ہوئے اور امریکی مسلم نوجوانوں کو اس فتنے سے بچانے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس لیے امریکی حکومت بھی ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ انہوں نے اپنے ہم خیال امریکی ائمہ کرام کا گروپ تشکیل دے کر اس فتنے کا مقابلہ کیا۔

داعش اور امام صاحب کے مابین یہ معرکہ انٹرنیٹ پر لڑا گیا۔ جس میں ائمہ کے گروپ کے ہتھیار قرآن کریم اور احادیث نبویؐ تھے۔ مذکورہ ائمہ کرام داعش کے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے ان کو جھوٹا ثابت کرتے رہے، جو مسلمانوں کے خلاف بھی قتل اور اذیت رسانی کی کارروائیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے مذہبی علمی مراجع کا سہارا لیتی ہے۔ صہیب ویب کی تقریر اعتدال پر مبنی ہوتی ہے، جس میں وہ روزمرہ کی زندگی اور دنیاوی امور پر گفتگو کرتے ہیں، جو کہ سخت گیر عناصر کو نہیں بھاتی۔ امام صاحب کے نزدیک داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ قرآن کریم میں تحریف کرتی ہے اور مذہبی متون سے اس کا سہارا لینا قطعاً باطل ہے۔

امام صہیب اس میدان میں اکیلے نہیں ہیں۔ کیلی فورنیا میں شیخ حمزہ یوسف بھی ہیں، جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا سہارا لے کر داعش کے انحراف کو نمایاں کرتے رہے ہیں اور نوجوانوں کو اس تنظیم کے زیر اثر آنے سے روکتے ہیں۔ یہ معاملہ داعش سے چھپا ہوا نہیں ہے، جس نے امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک مغربی دنیا میں رہنے والے 11 ائمہ مساجد کو قتل کی سنگین دھمکی دی ہے۔ صہیب ویب کے خیال میں جو لوگ داعش سے منسلک ہوتے ہیں انہیں برین واشنگ کرکے گمراہ کیا گیا ہے، ان میں بعض تنہائی کا شکار ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ بعض تو نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف داعش کی کارروائیوں کا قرآن و حدیث میں کوئی جواز نہیں ملتا۔ داعش نے امام صہیب کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ہم نواؤں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں، جو ان ائمہ کرام کے پیچھے کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں۔

اپریل 2016ء میں داعش نے صہیب ویب کے مرتد ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ امریکی ایف بی آئی نے ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا۔ ایف بی آئی کے ترجمان اینڈرو ایمس کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو دھمکیاں موصول ہوئی ہیں، ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پوری مدد کی جا رہی ہے۔ تاہم ائمہ کرام اس امر پر مُصر ہیں کہ اسلام میں شدت پسندی کی کوئی جگہ نہیں۔ عام طور پر مغرب کی جانب سے مذہبی شخصیات پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ داعش کے خلاف بلند آواز کے ساتھ بات نہیں کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرف شدت پسند تنظیمیں ان افراد کو کفر کا آلہ کار شمار کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ائمہ کرام دائیں بازو کے گروپ کے ساتھ بھی برسر جنگ ہوتے ہیں، جو آخرکار حقیقی اسلام کے پیغام اور شدت پسندی میں کوئی فرق نہیں کرتے۔

الشیخ صہیب ویب 2010ء سے 500 بااثرترین مسلم شخصیات کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں مسلم ایسوسی ایشنز کی جانب سے کئی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ وہ خیراتی کاموں کی بھی روح رواں ہیں۔ انہوں نے نائن الیون واقعہ میں بیوہ اور یتیم ہونے والوں کے لیے فنڈز جمع کیے۔ ہم جنس پرستی کے خلاف بھی صہیب ویب ایک مؤثر آواز ہیں۔ 2007ء میں اس حوالے سے انہوں نے ایک کتاب بھی تحریر کی، جس میں ہم جنس پرستی کو نفسیاتی مرض قرار دیا۔ اس کتاب میں انہوں نے ہم جنس افراد کے قبول اسلام کی داستان بھی لکھی ہے۔ صہیب ویب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 19 اپریل 2013ء کو تمام مذاہب کے امریکی رہنمائوں نے مشترکہ طور پر انہیں اپنا نمائندہ بنایا اور ان کی قیادت میں مذہبی رہنمائوں نے میراتھن ریس دھماکوں کے متاثرین سے ملاقات کی۔ (ضیاء چترالی۔ زیر طبع کتاب سے اقتباس)