من الظلمت الي النور
سٹيڈيم ميں قرآن كے نسخے سے اسلام تك
بي بي سي
آپ نے بہت سی شخصیات کے قبولِ اسلام کے واقعات سُنے ہوں گے مگر یوسف اوک نامی لندن کے رہائشی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بہت منفرد تھا۔ اُن کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ اولڈ ٹریفرڈ میں واقع مانچسٹر یونائیٹڈ سٹیڈیم سے قرآن کے نسخے کی دریافت سے ہوا۔یہ سنہ 2007 کی بات ہے اور یہ وہ وقت تھا جب یوسف مانچسٹر یونائیٹڈ کلب کے لیے کام کرتے تھے۔ ایک روز کام ہی کے دوران انھیں سٹیڈیم سے قرآن کا ایک نسخہ ملا۔اسلام کو تلاش کرنے کے اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’یہ تھوڑا عجیب تھا یعنی سٹیڈیم سے قرآن کا ملنا۔ اور جب مجھے وہ قرآن کا نسخہ ملا تو وہ تھوڑا گرد آلود تھا۔ اس نسخے کو دیکھتے ہی میرے اندر ایک احساس پیدا ہوا کہ میں اسے اٹھاؤں اور اسے صاف کروں۔‘بی بی سی کو اپنی یہ کہانی وہ شمالی لندن میں واقع انڈونیشیئن اسلامک سینٹر میں بیٹھے ہوئے بتا رہے تھے۔نیلی جلد والے قرآن کو صاف ستھرا کرنے کے بعد انھوں نے اسے اپنے کمرے میں رکھ لیا۔ یہ جان کر کہ گھر میں قرآن موجود ہے، یوسف کی شریک حیات نے اُن سے اختلاف کیا اور اس بات پر ناراض ہو گئیں۔یوسف کی ساتھی نے انھیں متنبہ کیا کہ ’یہ کتاب ہمارے گھر میں نہیں ہونی چاہیے۔ میں اسے کوڑے دان میں پھینک دوں گی۔‘یوسف نے جواب دیا ’اس سے پہلے کہ تم اس قرآن کو پھینکو، میں تمہیں کہیں پھینک دوں گا۔‘یوسف کا یہ جواب سُن کر ان کی ساتھی نے استفسار کیا کہ ’تم مسلمان نہیں ہو تو پھر ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘ یوسف نے جواب دیا کہ ’تم نے اس کتاب کی ایک لائن بھی نہیں پڑھی، پھر بھی تم اسے فوراً پھینک دینا چاہتے ہو۔‘ یوسف کی پیدائش ایک مسیحی خاندان میں ہوئی تھی۔
یوسف کے اس بھرپور دفاع کی وجہ سے قرآن کا نسخہ اسی گھر میں موجود رہا۔
اگرچہ اس وقت یوسف نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ خود حیرت زدہ تھے کہ ان میں اسلام کا دفاع کرنے کی شدید خواہش کیوں موجود ہے۔ انھوں نے اسے ’فطرت کی طرف واپس آنے کی خواہش‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔اور انھیں اپنے اندر چھپی اس خواہش کا احساس اس وقت بھی ہوا جب وہ اور اُن کے دوست سپین کے ایک سیاحتی مقام پر چھٹیاں گزار رہے تھے۔ وہ سیاحتی مقام ایسے نوجوانوں میں کافی مقبول ہے جو پارٹی کرنے اور شراب پینے میں وقت گزارنا چاہتے ہوں۔
وہ اور اُن کے دوست ’ایڈن‘ نامی نائٹ کلب کی طرف جا رہے تھے، اس نائٹ کلب کا تعمیری نقشہ کسی مسجد سے بہت ملتا جلتا تھا جس پر سنہری گنبد اور مینار بھی تھے۔ یوسف کے مطابق نائٹ کلب کے سامنے پہنچ کر ایک بار پھر ایک عجیب سا احساس ان کے اندر پیدا ہوا اور اسی احساس کے تحت وہ کلب میں داخل نہیں ہونا چاہتے تھے۔جب یوسف نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ ’میں آج رات کلب نہیں جاؤں گا‘ تو وہ غصہ ہو گئے۔ ایک دوست نے کہا کہ ’تم تو مسلمان نہیں ہو تو پھر تم اس جگہ کیوں نہیں جانا چاہتے؟‘ اس موقع پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور بالآخر یوسف نائٹ کلب میں داخل نہیں ہوئے اور اپنی راہ لی۔
ہبقول یوسف ان دو واقعات کے بعد ان کی اسلام قبول کرنے کی خواہش روز بروز بڑھتی گئی لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ان کا یہ فیصلہ مکمل طور پر درست اور صحیح ہو۔
چنانچہ انھوں نے ایسے بہت سے افراد سے رابطہ کیا جنھوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا۔ انھوں نے مذہب اسلام کے علما سے بھی رابطہ کیا اور سوالات پوچھے۔اُن کا اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اس وقت اور بھی پختہ ہو گیا جب وہ ایک ایسے مسلمان سے ملے جو اسلام کے بارے میں ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دے سکتے تھے، جیسا کہ اللہ اور پیغمبر اسلام کے حوالے سے وضاحت۔ اور جب انھیں اسلام کے بارے میں مختلف سوالات کے جوابات ملے تو وہ اسلام قبول کرنے کے اپنے فیصلے کے حوالے سے پُراعتماد ہوئے۔اور پھر وہ موقع آیا جب یوسف نے اپنے گھر کے قریب واقع ایک مسجد کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور کلمہ پڑھ لیا۔
یہیں سے یوسف کی ظاہری اور باطنی شخصیت کی مسلمان ہونے کی طرف منتقلی شروع کی، جس کی شروعات ایسی عادتوں کو ترک کرنے سے ہوئی جو اسلام میں جائز نہیں، انھوں نے داڑھی رکھ لی اور ہمیشہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کرتے۔یوسف کہتے ہیں کہ ’سچ پوچھیں تو تبدیلی کا یہ سفر آسان نہیں ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جو خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں، ان کے لیے یہ تبدیلی اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ اس دوران ثابت قدم رہیں۔ جو خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں انھیں مزید زیادہ طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘اس کے علاوہ اسلام قبول کرنے میں اُن کی مدد ’سٹیپس ٹو اللہ‘ نامی گروپ نے بھی کی۔ یہ گروپ دیگر چیزوں کے علاوہ ایسے برطانوی شہریوں کی مدد کرنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
بي بي سي 19 اپريل 2023