برصغیر پاک وہند میں مسلمان کی تعلیم وتربیت کا موجودہ نظام شاہ ولی اللہ دہلوی کی خاندانی درس گا ہ ،مدرسہ رحیمیہ کامعنوی اورنصابی تسلسل ہے۔خود یہ مدرسہ درس نظامی کاحصہ ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے مدارس عربیہ میں رائج ہے۔ دارالعلو م دیوبند1866ع سے اور اس سے تھوڑا سینئر دارالعلو م عزیزیہ بھیرہ 1860-2ع سے اور دیگر مدارس عربیہ درس نظامی کے نصاب اوراس کے طریقہ تدریس پر کاربند ہیں۔شیخ الہند مولانامحمود حسن(م1920:)اورمولانامحمد علی جوہر(م:1931)کے فکری تعاون سے جامعہ ملیہ دہلی ایک تعمیری کوشش تھی تاکہ جدید وقدیم کوملاکر دین کو سمجھنے والے اور سمجھانے والے علماء پیداہوں۔یہی جذبہ ندوۃ العلماء اور اس جیسے دوسرے تعلیمی مراکز کے قیام کاسبب بنا۔دین کی تفہیم وتعلیم کے سلسلے میں ایک کوشش مولاناشبلی نعمانی (م:1915ع) اورمولانا حمیدالدین فراہی(م:1930 )نے کی ۔ تعلیمی نظام کی اس نئی کوشش میں سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ تدریس ونصاب کا محور کتاب اللہ کوبنایاگیا جس پرسارے دین کی اساس ہے ۔اس سے پہلے تمام قدیم مدارس میں قرآن حکیم تدریس کابنیادی محورنہ تھا۔مولانافراہی نے1908ع میں قائم شدہ مدرستہ الاصلاح سرائے میراعظم گڑھ کاانتظام1912-15ع میں سنبھالا۔چنانچہ طلبہ کے لئے انہوں نے جدیدنصاب،جدید گرامر اورجدید طرز تدریس رائج کیا۔اس فکرنو کے تحت کثیرتعداد میں اہل علم تیارہوئے۔
اس مدرسے کے ایک فاضل اورانتہائی ممتاز شاگرد مولاناامین احسن اصلاحی تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی1904ع میں انڈیاکے ضلع اعظم گڑھ (یوپی) کے ایک گاؤں میں پیداہوئے۔مولانا اصلاحی مدرستہ الاصلاح اعظم گڑھ میں دوبار زیرتعلیم رہے۔ایک بار نصابی اوردرسی تعلیم کے لئے اوردوسری بار مولانافراہی کے محدود اورمنتخب حلقہ درس میں صرف قرآ ن حکیم کے مطالعے کے لئے۔مولانااصلاحی تکمیل کے بعدپہلے نہایت قلیل مشاہرے پرمدرستہ الاصلاح میں مدرس تعینات ہوئے۔"اخبار الاصلاح "کے ایڈیٹررہے وہاں اُنہوں نے دائرہ حمیدیہ منظم کیا اوراس کے تحت مولانا فراہی کی منتخب عربی تالیفات اورتفاسیر کے اُردوتراجم شائع کئے۔
1942ع میں مولانامودودی کی دعوت اورخواہش پرمولانااصلاحی جماعت اسلامی میں چلے آئے۔چنانچہ وہ اعظم گڑھ سے نقل مکانی کر کے پٹھان کوٹ پنجاب میں آبسے۔17 سال جماعت اسلامی میں تحریکی ،تنظیمی،تربیتی اورعلمی خدمات سر انجام دیں۔جماعت کے نائب امیر رہے جماعت اسلامی نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے لئے جب پارلیمانی جمہوریت کی راہ چن لی جس کے لئے موجودہ انتخابی عمل ناگریزہے۔تعبیر کی اس غلطی پرمولانا اصلاحی نے زبردست نکیرکی۔ماچھی گوٹھ کے تاریخی اجتماع میں ایک طرف جہاں نئی پالیسی پرجماعت نے مولانا مودودیؒ پر اعتماد کااظہارکیاوہاں جماعت اسلامی کے چیدہ چیدہ اہل علم اوراہل عزیمت نے سیاسی اورانتخابی پالیسی سے سخت اختلاف بھی کیا۔چنانچہ مولانامودودی اورجماعت کی مرکزی شورٰی کے ساتھ شدید اختلافات کے باعث مولانااصلاحی اوراُن کے قریبی دوست،دیگر احباب اوربعض نوجوان کارکن جماعت سے مستعفی ہوگئے۔
جماعت اسلامی کے اندراورجماعت اسلامی سے باہر مولاناکی اعلیٰ پائے کی تحقیقی،علمی اورتحریکی تصانیف کی تفصیل اس طرح ہے۔
* اُصول فہم قرآن
* مبادی تدبر قرآن
* مبادی تدبر حدیث
* تدبرقرآن سیٹ 9جلدیں
* مجموعہ تفاسیر فراہی (ترجمہ)
* تدبرحدیث (صحیح بخاری) جلد1
* تدبرحدیث (صحیح بخاری) جلد2
* تدبرحدیث (شرح موطاامام مالک)
* تزکیہ نفس2 جلدیں
* حقیقتِ تقویٰ
* حقیقتِ تقویٰ
* حقیقتِ شرک وتوحید
* دعوت دین اور اُس کا طریق کار
* اسلامی ریاست
* اسلامی قانون کی تدوین
* اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل
* تفہیمِ دین
* قرآن میں پردے کااحکام
* اسلامی معاشرے میں عورت کامقام
* فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن حکیم کی روشنی میں
* مقالات اصلاحی جلد نمبر1
* مقالات اصلاحی جلد نمبر2
* بانی مدیر ماہنامہ" میثاقِ" لاہور
* مدیر" الاصلاح"اعظم گڑھ (انڈیا)
مولانا اصلاحی کی علمی خدمات میں تین کام بہت قابل قدرہیں۔
پہلاکام قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لئے ایسے اصول مرتب کرنا جو عقل و استدلال کے اوروحی الٰہی اور شارع علیہ السلام کی تعلیم و اطاعت کے مطابق ہوں ۔یہ صرف قرآن حکیم ہے جس کی محفوظیت اور کاملیت پرایمان ہے۔کسی مجموعہ حدیث کو گو یہ درجہ حاصل نہیں ہے لیکن قرآن کو سمجھنے اور اقامت دین کے لئے سنت ہی وہ ذریعہ ہے جو رہنمائی کرتا اور مقصودحاصل کرنے میں مدد دیتاہے۔دوسرا کام دین کی دعوت اور اقامت کے لئے اور اس کام کو سرانجام دینے والے کارکنوں کی تربیت اورتزکیہ کے لئے کیا فکری اور عملی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اس ضمن میں فرد کی اصلاح اور اس کے نفس کے تزکیہ کے لئے قرآن وسنت کونسی راہ متعین کرتے ہیں۔تیسرایہ کہ ایک اسلامی ریاست کے خدوخال کیاہونے چاہئیں۔ایک اسلامی ریاست کے مختلف ستونوں کے مقاصد اوراداروں کی ہئیت کیاہوگی۔اس اہم ایشوپرمولانا نے زبردست تحریری کام کیاہے۔
مولاناطویل علالت اورلمبی عمر کے بعد15دسمبر 1997ع کولاہورمیں انتقال کرگئے ۔
مولانا اصلاحی نے اپنے اُستاد امام فراہی کے فکر قرآنی کوبڑی محنت سے سمجھا اوراس کی بنیاد پرقرآن حکیم کی عظیم الشان تفسیر"تدبرقرآن" لکھی جو9جلدوں پرمشتمل اور خوبصورت ادبی زبان،اعلیٰ طرزِتحریر، شاندار اسلوب بیان اورموثر طریقہ استدلال کانمونہ ہے۔جدید اذہان کی تسلی اورمغربی تعلیم وتمدن کے اشکالات اوراعتراضات کے جوابات اس امر کاثبوت ہیں کہ قرآن ہی اسلام کی بنیاد اورمسلم تہذیب،تاریخ،تمدن اورتعلیم کا سرچشمہ ہے۔یہ ایک رحجان ساز تفسیر ہے جوقرآن کوقرآن سمجھنے اورسنت وسیرتؐ سے دین کواپنانے میں مدددیتی ہے۔
***