شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ (یوم وفات: 30 نومبر 1920ء)اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور برما وغیرہ پر مشتمل برصغیر کی علمی، دینی، سیاسی، تحریکی اور فکری جدوجہد کے دو عظیم نام ہیں جن کے تذکرہ کے بغیر اس خطہ کے کسی ملی شعبہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی، اور خاص طور پر دینی و سیاسی تحریکات کا کوئی بھی راہ نما یا کارکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا طبقہ سے ہو ان سے راہ نمائی لیے بغیر آزادی کی عظیم جدوجہد کے خد و خال سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتا۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دارالعلوم دیوبند کے اولین طالب علم تھے جو اپنی خداداد صلاحیتوں اور توفیق سے اسی مادر علمی کے سب سے بڑے علمی منصب صدر المدرسین تک پہنچے۔ وہ تعلیمی اور روحانی محاذوں کے سرخیل تھے لیکن ان کی نظر ہمیشہ قومی جدوجہد اور ملی اہداف و مقاصد پر رہی۔ حتیٰ کہ ان کا راتوں کا سوز و گداز اور مسند تدریس کی علمی و فنی موشگافیاں بھی ان کے لیے ہدف سے غافل کرنے کی بجائے اسی منزل کی جانب سفر میں مہمیز ثابت ہوئیں۔ اور بالآخر انہوں نے خود کو برطانوی استعمار کے تسلط سے ملک و قوم کی آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔
ان کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں پر ہزاروں صفحات لکھے گئے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔ مگر ہم ان کی تگ و دو کو دو تین حوالوں سے واضح کرنا چاہیں گے۔ معروف ہندو مؤرخ ماسٹر تارا چند کا کہنا ہے کہ:‘‘1888ء میں شیخ الہندؒ کو دارالعلوم دیوبند کے سربراہ ہونے کا ارفع درجہ حاصل ہوا۔ اپنی زندگی کے اوائل سے ہی انہوں نے اپنے مشن کا فیصلہ کر لیا تھا، جس کے لیے وہ اپنی زندگی کے آخری دن تک جدوجہد کرتے رہے۔ ان کا مشن ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔ 1905ء میں انہوں نے اپنے پلان کی نشوونما شروع کر دی اور دو محاذوں پر اپنا کام شروع کیا۔ ایک ملک کے اندر اور دوسرا ملک کے باہر۔ دونوں کو ایک ساتھ اور ایک وقت میں مسلح بغاوت کے لیے کھڑا ہونا اور انگریزوں کو ملک سے باہر دھکیل دینا تھا۔ ہندوستان میں اس مشن کا ہیڈ کوارٹر دیوبند تھا، اس کی شاخیں دہلی، دیناج پور، امروٹ، کراچی، کھیدار اور چکوال میں تھیں۔ بیرون ہند یاغستان جہاں سید احمد شہیدؒ اور مولوی عنایت علیؒ و شرافت علیؒ کے پیرو اب تک انگریزوں کے خلاف جہاد جاری رکھے ہوئے تھے، انہوں نے فوجی انتظام مہیا کیا اور حاجی صاحب ترنگ زئیؒ ان کے لیڈر مقرر کیے گئے۔ قریب رہنے والے قبیلوں اور ہندوستان سے آدمیوں اور رضا کاروں کی شرکت کی توقع تھی۔ یہ بھی امید تھی کہ افغانستانی حمایت کریں گے۔ یہ مسلح بغاوت صرف مسلمانوں کا مسئلہ قرار نہیں دی گئی تھی، بلکہ پنجاب سے سکھوں اور بنگال سے ہندو انقلابی پارٹی کے ممبران کو بھی تعاون کی دعوت دی گئی تھی۔’’
مولانا غلام رسول مہرؒ نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:‘‘ہندوستان میں گرفتاریاں شروع ہوئیں تو مولانا محمود حسنؒ کو تشویش ہوئی کہ بیٹھے بٹھائے گرفتار نہ ہو جائیں۔ ان کے نزدیک کام کا سازگار زمانہ آگیا تھا۔ اور وہ یہ چاہتے تھے کہ ہر قدم کے لیے آزاد رہیں، چنانچہ انہوں نے مجھے (ابوالکلام آزادؒ) کوبلا بھیجا۔ دہلی میں ملاقات ہوئی، دیر تک معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہی۔ میری قطعی رائے تھی کہ باہر نہ جانا چاہیے اور یہیں رہ کر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ اس اثنا میں گرفتاری کی منزل آجائے تو اسے قبول کیے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ باہر جا کرکچھ نہ ہو سکے گا اور دوسرے ملک کی بجائے اپنے ملک میں معطل بیٹھنا زیادہ بہتر تھا۔ لیکن مولانا محمود حسنؒ نے یہی مناسب سمجھا کہ پہلے حجاز جائیں، پھر ترکوں سے ربط ضبط پیدا کر کے ایران و افغانستان کے راستہ یاغستان پہنچ جائیں جسے وہ آزادی کے لیے تمام سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔’’چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ روانہ ہوگئے اور جن مراحل سے گزر کر وہ مالٹا کے جزیرے میں نظر بندی تک پہنچے وہ ایک مستقل تذکرہ کی متقاضی ہیں۔ لیکن جب وہ مالٹا کی اسارت سے رہائی کے بعد وطن واپس تشریف لائے تو آزادی وطن کے لیے ان کا مقصد اور ہدف تو وہی تھا لیکن طریق کار کے حوالہ سے ان کا رخ تبدیل ہو چکا تھا۔ اور وہ مسلح بغاوت کی بجائے پر امن اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی اور تحریکی جدوجہد کو اپنا نصب العین قرار دے چکے تھے، جسے دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے ایک مضمون میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
‘‘اسارت مالٹا سے رہائی کے بعد اگرچہ پیرانہ سالی اور مالٹا کی مرطوب و نا موافق آب و ہوا کی بنا پر عوارض و امراض کی کثرت نے آپ کو جسمانی طور پر بالکل نڈھال کر دیا تھا، لیکن جہد و عمل کا جذبہ اب بھی جوان تھا اور حریت وطن کا شوق فراواں اسی طرح شباب پر تھا۔ مالٹا سے واپسی پر ممبئی میں خلافت کمیٹی ارکان اور مہاتما گاندھی آپ سے مل چکے تھے۔ آپ نے وہیں سے دوسری جنگ چھیڑنے کا عزم کر لیا جس کے لیے حسب ذیل اصول مرتب کیے:
(1)۔ آزادی وطن کے لیے پر امن جدوجہد
(2)۔ مسلم و غیر مسلم پر مشتمل مشترکہ محاذ کی تشکیل
(3)۔ قدیم و جدید علوم کے اداروں اور ان سے وابستہ افراد میں اشتراک عمل و یگانگت
(4)۔ ملکی و سیاسی امور کی قیادت کے لیے جمہوریت کی پاسداری
(5)۔ مسلکی تعصبات اور تفرقہ انگریزی سے اجتناب اور
(6)۔ قوم مسلم کے لیے سنت نبویؐ اور اسوہ حسنہ کی پیروی اور تعلیم دین اور تبلیغ اسلام۔
چنانچہ انہی اصول ششگانہ کے تحت خلافت کمیٹی کے لیے ترک موالات کے فتویٰ سے نئی جہد و جنگ کا آغاز کر دیا۔ بعد میں اس فتویٰ کو جمعیۃ علماء ہند کے متفقہ فیصلے کی حیثیت سے 500 علماء کے دستخطوں کے ساتھ شائع کیا گیا۔ ہمیں اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہے کہ خلافت کمیٹی ہو یا جمعیۃ علماء ہند، ان دونوں نے حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک حریت کی کوکھ سے جنم لیا اور خود انڈین نیشنل کانگریس نے آزادی اور مکمل خود مختاری کا سبق اس تحریک سے سیکھا۔’’
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ تو اپنی تحریک کو اس مرحلہ تک پہنچا کر دنیا سے رخصت ہوگئے مگر ان کے بعد جس شخصیت نے اس مشن کو سنبھالا اور انتہائی جانگسل اور صبر آزما جدوجہد کے ساتھ منزل تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا، انہیں دنیا شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اور اپنے عظیم استاذ کی طرح ان کی جدوجہد اور تگ و تاز بھی تاریخ کے ایک مستقل باب کی
حیثیت رکھتی ہے جس سے واقف ہونا ہر با شعور مسلمان بالخصوص ہر شعوری دیوبندی کے لیے ضروری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ دہلی سے شائع ہونے والے ‘‘آل انڈیا تنظیم علماء حق’’ کے ترجمان جریدہ ‘‘فکر انقلاب’’ نے حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کی سرپرستی اور مولانا محمد اعجاز قاسمی کی نگرانی میں ان دو عظیم شخصیتوں کے حوالہ سے دو ضخیم معلوماتی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے جس پر مدیر محترم جناب احسن مہتاب اور ان کی ٹیم کے ارکان شکریہ اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے بارے میں خصوصی اشاعت مارچ 2014ء میں شائع ہوئی ہے، جبکہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی حیات و خدمات پر خصوصی اشاعت ایک سال قبل فروری 2013ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ حضرت مدنیؒ پر خصوصی اشاعت سوا آٹھ سو صفحات اور حضرت شیخ الہندؒ والی اشاعت پونے آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اور ان میں بیسیوں ممتاز ارباب قلم کی وقیع نگارشات کے ذریعہ استاذ اور شاگرد کی حیات و خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو کم وبیش سبھی ضروری پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ بلکہ بعض تحریروں کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود ان واقعات کا مشاہدہ کر رہا ہے اور ان میں شریک ہے۔
حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت شیخ الاسلامؒ کے بارے میں ان دو ضخیم خصوصی نمبروں کی اشاعت ہمارے تحریکی اور تاریخی لٹریچر میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ اور ہماری رائے ہے کہ انہیں ہر دینی جماعت اور ہر دارالعلوم کی لائبریری کی زینت ہونا چاہیے تاکہ علماء، طلبہ اور دینی کارکن اپنے ان بزرگوں کے حالات زندگی، خدمات، جدوجہد اور اسلوب و ذوق سے آگاہی حاصل کر کے انہیں سرمہ چشم بصیرت بنا سکیں۔
٭٭٭