مشاہير ملت
صوفی خورشيد عالم
سجاد خالد
شیخ محمد حسن معروف بہٖ ہلال پینٹر میرے پہلے باقاعدہ استاد تھے۔ ان کی شخصیت اور اپنے ابتدائی سفر کی روداد 'ھلال پینٹر' کے عنوان سے الگ تحریر کی ہے جو ناتمام ہے۔ اس لیے یہاں ان کا تذکرہ اس قدر تفصیل کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ حافظ یوسف سدیدی رحمہ اللّٰہ اور سید انور حسین نفیس رقم رحمہ اللہ سے میں نے براہِ راست خطاطی نہیں سیکھی لیکن ان دونوں اساتذہ سے نظری استفادہ کیا ہے۔ اس مضمون میں ضمناً دونوں کا ذکر آ گیا ہے ۔
صوفی صاحب (صوفي خورشيد عالم )کے انتقال کے بعد آخری بار جب میں بیٹھک کاتباں گیا شاید 2004 یا پانچ تھا، وہ گرد سے اٹی ہوئی تھی، عامل صحافی یونین کا سائن بورڈ ایک دیوار کے سہارے ٹیڑھا کھڑا تھا اور ایک دھندلائے ہوئے فریم سے حافظ صاحب رحمہ اللہ کا لکھا ہوا یہ شعر مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں آب دیدہ تھا-
جتن جتن سِکھ چھڈیو ای, کدی تے ہار فقیرا ---جتن دا مُل کھوٹا پیسہ, ہارن دا مُل ہیرا
یہ شعر جس ذوق کے لوگوں کو پسند تھا وہ کھوٹے سکوں کا وزن نہیں اُٹھاتے تھے، وہ کسی سے جیتتے نہیں تھے بلکہ اپنے مقابل سے پہلے خود اس بات پر شرمندہ ہو جاتے تھے کہ کہیں وہ شرمسار نہ ہو۔ وہ جان بوجھ کر ہار جاتے تھے۔ اُن میں کوئی نہیں تھا جسے یہ تکلیف ہو کہ میں فلاں سے بہتر لکھ کر دکھاؤں۔ اُن میں وہ شخص موجود ہی نہیں تھا جسے کسی سرمایہ دار سے، کسی حکمران سے، کسی کم علم و فن سے کوئی انعام، مقام یا لقب چاہئے ہو۔ اُن کے خمیر پاک سر زمین سے نہیں بلکہ پاک سر زمین بنانے والے تھے۔
وہ اک خندہِ دلنشیں کا نمک ---وہ ہستی کا جوہر, زمین کا نمک --(جاوید)
اور میں صرف ناظر، محض راوی، ایک ادنٰی طالب---وہ شخص اب یاں نہیں ملے گا--(نعیم صدیقی)
کیمرے نے ایک کھنڈر کی بہت سی تصویریں محفوظ کر لیں جس کی عمارت عظیم تھی اور صاحبانِ مجلس (تاج الدین زریں رقم رح اور صوفی خورشید عالم خورشید رقم رح) کی رُوحیں کہیں محوِ سرگوشی تھیں کہ 'اب کیا ہو گا....... آگے کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔
میری مادرِ علم و فن کی وہ کھڑکی جس سے آنے والی روشنی میں یہ طالبِ فن صوفی صاحب رح کی زیرِ نگرانی مشق کرتا تھا۔بیٹھک کاتباں اندرون لوہاری دروازہ لاہور میں واقع تھی. اسے میرے دادا اُستاد تاج الدین زرین رقم رح.مصنف 'مرقعِ زریں' نے قائم کیا تھا. یہ قلمی نام غالباً مولانا غلام رسول مہر نے تجویز فرمایا تھا. پرویں رقم رح کا قلمی نام بھی مولانا ہی کا تجویز کردہ تھا۔وہ بیٹھک اپنی شان کے ساتھ میرے اندر کھڑی ہے لیکن سُنا ہے کہ میرے آخری پھیرے کے بعد وہ مسمار کر دی گئی تھی۔ پھر میں وہاں نہیں گیا۔ ایک بار جب اس راستے سے گزرنا پڑا تو دائیں بائیں نہیں دیکھا کہ میرا منظر باقی رہے۔
اب کبھی رات کو ٹہلتے ہوئے سوچوں کہ ماضی کیا ہؤا تو آنکھوں کو بھیگنے سے روک بھی نہیں پاتا کہ ایک ہستی ایسی تھی جو میرے لئے بزرگوں کی اس کہکشاں کا قطبی ستارہ بھی تھی اور میرے لئے اس شہرِ خوباں کا صدر دروازہ بھی۔
بہ سوخت حافظ و در شرطِ عشق و جانبازی---ہنوز برسرِ عہد و وفائے خویشتن است
شیخ محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ (ھلال پینٹر) ہی تو تھے جن کے توسط سے میری آنکھوں کو نظارۂ بہشتِ خوش نویساں نصیب ہؤا. انہی کے طفیل میں حافظ یوسف سدیدی رح سے واقف ہؤا اور صوفی خورشید عالم رحمہ اللہ کی آغوشِ تربیت میں جگہ پائی. سید انور حسین نفیس رقم رح ہوں, الماس رقم رح ہوں یا پرویں رقم رح سب انہی کی وجہ سے میرے ذوقِ جمال کی سیرابی کا باعث بنے. انہی کی انگلی پکڑ کر میں لوہاری دروازے میں پون صدی سے قائم ضعیف دیواروں اور لرزتے ستونوں پر قائم بیٹھک کاتباں کی سیڑھی چڑھ کر عرشِ نستعلیق پر جانشینِ تاج الدین زریں رقم رح کے قدموں میں جا بیٹھا تھا۔
شیخ صاحب ہی کی نسبت تھی جس سے میرا تعارف کہکشانِ خط کے ایک بڑے ستارے سے ہؤا تھا جن کا نام صوفی عبدالرشید لطیف رقم رح تھا۔ آپ نستعلیق کی کتابت میں اُستاد عبدالمجید پرویں رقم رح اور اُستاد تاج الدین زریں رقم کے شاگرد تھے جبکہ بورڈ نویسی کے فن میں جناب رشید قریشی رح اور خلیفہ طفیل رح سے استفادہ کر رکھا تھا۔ عربی خطوط میں اُستاد ھاشم محمد الخطاط بغدادی رح سے اصلاح لیتے رہے تھے۔ عبدالرشید صاحب عمدہ مصور, انتہائی نفیس سُنار, ترکھان اور نقاش بھی تھے. وہ پچھتر برس کی عمر میں کبھی کبھی جوانوں کی طرح شوخ شرٹ اور پینٹ زیبِ تن کر لیتے اور کبھی جینز کے ساتھ آدھے بازو والی ٹی شرٹ میں بھی انتہائی سمارٹ دکھائی دیتے۔
زندہ دلی اور خوش خلقی جیسے گھٹی میں پڑی تھی. خلیج کی جنگ کے دوران کویت میں عراقی افواج کے قبضے کے نتیجے میں سیروں سونا اور جواہرات کے ساتھ بنا بنایا, سجا سجایا گھر چھوڑ کر ایک صندوقچہ اپنی کار میں رکھ کر ایران کے راستے تقریبا ًچالیس برس بعد پاکستان واپس آئے۔صندوقچے میں خطاطی کے سوا کچھ نہیں تھا. پوچھنے پر بتایا کی اس سے زیادہ میں کچھ بھی نہیں اُٹھا سکتا تھا کیونکہ گاڑی میں دوسرے مسافروں کا سامان رکھنا تھا۔
عمر میں خورشید، رقم رح، یوسف سدیدی رح اور نفیس رقم رح سے بڑے تھے اور زریں رقم رح کی شاگردی کے معاملے میں اچھے خاصے سینئر۔ صوفی عبدالرشید صاحب لاہوری رح کے اساتذہ میں خلیفہ طفیل رح کا ذکر آیا تھا. فی الحال مختصر سا تعارف کرواتا ہوں۔
خلیفہ طفیل صاحب پست قامت، تیز گفتار، چگی داڑھی اور درمیانی رنگت کے انتہائی مستعد اور دلچسپ شخص تھے۔ ان کی آواز میں مخصوص باریکی اور معصومیت تھی۔ لکھتے انتہائی سرعت کے ساتھ تھے۔ پیمائش کے لیے ہتھیلی اور انگلیوں کی مدد سے تیز تیز نشان لگا لیتے۔ ہم شاگرد چپٹی لکڑی سے ان نشانوں کو کبھی پنسل اور کبھی چاک سے ملا دیتے اور کبھی وہ اشارہ کر دیتے کہ رہنے دو۔ یہ وصف انہیں اپنے استاد سے ملا تھا۔ میں ان کی خدمت میں حاضری کے لیے رائل پارک میں فلم کے تصویری بورڈ بنانے والے ایک آرٹسٹ کے سٹوڈیو پر جایا کرتا تھا۔ محمد حسن شیخ صاحب اکثر نیم پلیٹ کچی کروانے مجھے سائیکل پر وسن پورہ سے بھیجتے تھے۔ کچا کروانے سے مراد یہ ہے کہ عام سفیدے میں ڈبو کر قلم سے مکمل مضمون لکھ دیا جاتا تھا۔ اس پر گیلا کپڑا پھیریں تو مٹ جاتا تھا۔ پینٹر اس پر پرغزے یا برش سے رنگ بھر لیتا تھا۔ یوں ایک خطاط کی بنی کمپوزیشن پینٹر کے ہاتھ سے پکے رنگوں میں فائنل ہو جاتی تھی۔ خلیفہ صاحب رائل پارک سے میلوں پیدل چلتے ہوئے وسن پورہ پہنچ جاتے۔ لکشمی چوک پر عارف بٹ صاحب (بٹ سائن آرٹ) کے سائن بورڈز کچے کرنے کے بعد راستے میں قدر دان پینٹروں کے بورڈز کچے کرتے کرتے منزلِ مقصود پر پہنچتے۔ ہر پینٹر سے کچھ نہ کچھ معاوضہ بھی لیتے۔ بورڈ نویسی یا جلی نویسی میں انہیں زریں رقم کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔ایک کام ساتھ ساتھ کرتے اور وہ یہ تھا کہ راستے میں آنے والی ہر مسجد میں گھس جاتے اور دینی کیلنڈرز اور پوسٹرز میں سے جو پسند آتا، بغیر اجازت اتار کر لپیٹ کر اپنی زنبیل (کینوس کا سبز تھیلا) میں چلے جاتے۔ یہ مالِ غنیمت بڑے فخر سے دکھایا کرتے تھے۔ ہم کہتے کہ یہ تو گناہ ہے۔ فرماتے ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ سونا کیا ہے اور مٹی کیا ہے۔ اچھی خطاطی تو ہمارے لیے ہے، جہاں نظر آئے گی، اٹھا لوں گا۔ وسن پورہ پہنچنے پر محمد حسن شیخ صاحب انہیں دیکھ کر کھل اٹھتے۔ چائے کے کئی دور چلتے جس میں شیخ صاحب شرارتاّ خلیفہ صاحب کے کام میں غلطیاں بتا بتا کر انہیں جوش دلاتے۔ دونوں زریں رقم کے شاگرد تھے۔ شیخ صاحب کیونکہ شاگرد سے پہلے زریں رقم کے دوست تھے اس لیے خلیفہ صاحب اکثر دب کر رہتے۔ ایک دو بار خلیفہ صاحب ناراض ہو گئے تو استاد صاحب نے منا لیا۔ خلیفہ صاحب نے بتایا کہ ایک بار غالباً فلم داغ کا بورڈ لکھ رہے تھے۔ یہ کام کہیں لکشمی چوک (لاہور) سے قریب کسی سینیما کے احاطے میں جاری تھا۔ حافظ یوسف سدیدی وہاں سے گزر رہے تھے۔ دیکھا تو لفظِ 'داغ' پر فدا ہوتے ہوئے خلیفہ صاحب کی خدمت میں غالباََ سو روپے کا نوٹ پیش
کیا۔ حافظ صاحب کے ہاں قدر شناسی کی یہ ادائے خاص تھی۔خلیفہ صاحب تاج الدین زریں رقم کے پہلونٹھی کے شاگرد, رازدار اور ہم پیالہ بھی تھے. تاج صاحب کے ابتدائی شاگردوں میں نقوش کے بانی اور معروف ادیب محمد طفیل بھی شامل تھے۔
اب یہ تو یاد نہیں وہ کون جانباز تھے جنہیں پرویں رقم رح کی بیٹھک میں اس ارادے سے شاگرد رکھوایا گیا کہ پرویں صاحب کے ہاتھ سے ملی ہوئی (شاگرد کی تختی یا کاغذ پر غلطی واضح کرنے کے لیے لکھے گئے الفاظ) 'اصلاح' کو رازداری اور پردہ نشینی کے ساتھ نقل کیا جائے گا اور یوں ان کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو گا کہ تاج صاحب جو بظاہر ان کے مقابل مارکیٹ کے نمایاں ترین کاتب ہیں انہی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہیں. وہ مجاہد اصلاح لا کر خلیفہ صاحب کے حوالے کرتا اور خلیفہ صاحب جو اس دلنواز سازش کے روحِ رواں تھے اس کاغذ کو اپنے استاد تاج صاحب کے حوالے کر دیتے. تاج صاحب کے احباب میں زیادہ تر پہلوان , شعراء, چھاپہ خانے والے اور کچھ بازاری مذاق کے لوگ بھی شامل تھے۔اب تاج صاحب کو اندر بٹھا کر باہر قفل لگا دیا جاتا. خلیفہ صاحب بیٹھک کی ڈیوڑھی میں دفاعی پوزیشن لیتے ہوئے بیٹھ جاتے اور ہر ملاقاتی سے کہتے ۔۔۔ "استاد جی ابھی تشریف نہیں لائے اس لیے بیٹھک بند ہے".
یوں زریں رقم جیسے عدیم الفرصت استاد کو مشق کے لئے وقت ملتا. خلیفہ صاحب خوب جانتے تھے کہ پرویں رقم کے خط سے ہم لوگ وہ محاسن اخذ نہیں کر سکتے جو تاج صاحب کر سکتے ہیں اور یوں ہم سب کا فائدہ ہو جائے گا۔
صوفی عبدالرشید فرماتے تھے کہ زندگی میں کئی بار اپنے اُستاد پرویں رقم کے تشکیل کردہ پیوندوں کو کچھ بدل کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن نظر میں بالآخر پروینی پیوند ہی جچتا تھا اور میں اپنی اختراع کو رد کر دیتا۔
اُن دنوں شوکت علی منہاس کسی نئے سائن بورڈ کی قلمی مشق لے کر صوفی خورشید عالم خورشید رقم سے اصلاح لینے آتے، عبدالرحمٰن عبدہُ خطِ ثلث سیکھتے، محمد عبداللہ یوسف اور میں نستعلیق کی مشق کرتے۔ صوفی صاحب کی جیب سے چائے کا ایک یا ہاف سیٹ بارہ ایک بجے آتا، میں اُن کے ساتھ چائے پیتا، کبھی کبھی اُن کے قلم تراشنے والے چاقو سے عبداللہ کے ہاتھ کے نفاست سے کٹے امرود کا ایک ٹکڑا مجھے دیا جاتا جسے میں احسان مندی اور شکرانِ نعمت کے ساتھ من و سلوٰی سمجھ کر تھوڑا تھوڑا کر کے دیر سے ختم
کرتا تھا۔استادِ گرامی صوفی خورشید صاحب انتہائی خوب رُو تھے لیکن باطن کے حُسن نے کردار میں ولیوں والا حِلم اور گفتگو میں گویا آبِ زم زم کے ساتھ شہد گھول دیا تھا۔ ان کی محفل میں کیا دیکھا، کیا سُنا، کیا محسوس کیا ۔۔۔ میں کیسے جِیا تھا وہ زمانہ، بتانا ممکن نہیں کہ لفظ اتنے ہی کم نصیب ہوتے ہیں۔
کبھی تصورِ استاد میں قلم میرا---کہیں پہ رکتا تھا اور کانپ کانپ جاتا تھا
کبھی روانئ خامہ کے اُس خیال میں کچھ---تھکا تھکا سا مرا شوق ہانپ جاتا تھا
(سجاد)
مجھے یاد ہے میں کبھی کبھی خطِ ثلث میں لکھا ہؤا کوئی لفظ اُستاد صاحب سے سیکھنے کے ارادے سے ساتھ لکھ کر لے جاتا۔ ایک دِن کسی لفظ کو دیکھ کر اُستاد صاحب خوش ہوئے اور کہنے لگے'تُسی ہُن کوئی ذرا لمّی عبارت لکھ کے لیاؤ۔ (اب آپ کچھ لمبی عبارت لکھ کر لائیں)'۔
میں بہت مطمئن ہؤا اور رات کو اُستاد مصطفٰی راقم کی لکھی ہوئی سورہ فاتحہ نقل کر ڈالی۔ اگلے روز اُستاد صاحب کی خدمت میں پیش کی تو اصلاح کے ساتھ مزید حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ استاد صاحب ان لغزشوں کی جانب انتہائی نرمی سے اشارہ فرما دیتے جنہیں میں محسوس نہیں کرتا تھا۔ان دنوں اصلاح کے لئے آنے والوں میں ماسٹر صدیق اور شریف صابری بھی آیا کرتے تھے. یہاں آنے والے پتا نہیں کیسے خود سے فنا فی الاستاد ہو جاتے تھے. وہی سادگی اور شرافت, وہی انہماک اور خود سپردگی, وہی تقوٰی اور لِلّہیت ان پر طاری ہو جاتے جو صوفی صاحب کے ساتھ جُڑے تھے۔ یک زمانہ صحبتِ با اولیاء والا معاملہ تھا۔
منظور انور صاحب ہم سے بہت سینئر تھے. ایک بار صوفی صاحب نے کہا ۔۔۔ "چلیں... آج منظور کے ہاں چلتے ہیں". میں اُستاد صاحب کا مہندی رنگ کے کینوس کا تھیلا اُٹھا کر دو قدم پیچھے چلتا تھا. منظور صاحب کے دفتر کا دروازہ کھلا تھا۔ دیکھا کہ وہ کچھ کتابت کر رہے ہیں۔ آہٹ پاتے ہی اُن کی نظر صوفی صاحب پر پڑی تو وہ فوراْ اُٹھ کھڑے ہوئے اور ننگے پاؤں دروازے تک پہنچے, جُھک کر اپنے اُستادِ گرامی کے ہاتھوں کو تبرک کی طرح چھوتے ہوئے راستہ دینے کے لئے ایک جانب با آدب کھڑے ہو گئے. مجھ سے بھی بڑے احترام سے مصافحہ کیا. پھر صوفی صاحب رحمہ اللہ کو اپنی نشست پر اور مجھے اُن کے ساتھ بٹھا کرسر جھکائے تواضع کا انتظام کرنے اجازت لے کر باہر چلے گئے۔ چائے کے ساتھ پائیلٹ بیکری کا تازہ کیک اور بسکٹ پیش کیے. اس دوران میں وہ اُستاد صاحب کی صحت اور گھر کے بارے میں پوچھتے رہے. صوفی صاحب نے میرا تعارف اپنے شایانِ شان کروایا تو منظور صاحب مجھے پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگے. میں سوچ رہا تھا کہ نسبت کیا چیز ہوتی ہے. میں پہلے ایک بار اِن کے دفتر آیا تھا تو کچھ خاص اہمیت نہیں ملی تھی بلکہ منظور صاحب کو میرا آنا یاد بھی نہیں تھا۔ جانے سے پہلے منظور صاحب نے فرمائش کی کہ تبرکاْ اُن کے دفتر میں آویزاں کرنے کے لئے کچھ لکھ دیں. صوفی صاحب نے غالباْ سُرخ روشنائی سے پون انچ قط کے قلم سے نستعلیق میں ’یا اللہ مدد ' تحریر فرمایا. ہم جانے کے لئے اُٹھے تو منظور صاحب نے اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی اور اصرار کیا کہ سجاد کو بھی ساتھ لائیں۔
اسی طرح کبھی کبھی ہم اُستاد شاگرد پیدل نفیس شاہ رح صاحب کے ہاں چلے جاتے. شاہ صاحب اکثر مدرسے سے وابسطہ خطاطی کے شاگردوں میں گِھرے ہوتے جن میں سے ہر ایک اُن کی کوئی خدمت بجا لانے میں مستعد دکھائی دیتا. صوفی صاحب کو دیکھ کر وہ کھِل اُٹھتے اور کھڑے ہو کر بے ساختہ بغل گیر ہو جاتے۔ معانقے کا یہ دورانیہ معمول سے زیادہ ہوتا. پھر مجھ سے بھی محبت کے ساتھ ملتے. دونوں ایک دوسرے کے اہل و عیال اور صحت سے متعلق معاملات پر بات کرتے. پھر شاہ صاحب اپنا کتابت کردہ کوئی سرورق یا کتبہ دکھاتے اور صوفی صاحب سے رائے طلب کرتے. یہ معاملات انتہائی احترام کی فضا میں وقوع پذیر ہوتے اور شاہ صاحب کے شاگرد چپکے سے چائے کا انتظام کر لیتے. یہاں بھی میرا تعارف کروا دیا گیا جو شاہ صاحب کے دل میں تا عمر میرے لئے فراخی کا باعث رہا. یہاں تک کہ غیر حاضری میں بھی میرے تذکرے پر شاہ صاحب دعائیں دیتے. کیلیگرافی اسلامک کے نام سے اسلامی خطاطی کی تاریخ پر مبنی ویب سائٹ کے قیام پر شاہ صاحب نے کامیابی کی خصوصی دعا فرمائی تھی۔
صوفی صاحب رح کے پسندیدہ طبیب حکیمِ اہلِ سُنت جناب موسٰی امرتسری رحمہ اللہ تھے. آپ کے والد حکیم فقیر محمد چشتی علامہ اقبال اور پرویں رقم کے مشترکہ دوست تھے۔ آپ کا مطب ریلوے روڈ پر دواخانہ حکیم اجمل خان کے تقریباْ سامنے تھا. اور رہائش شادباغ میں میرے گھر کے عقب والی گلی میں. میں اپنی موٹر سائیکل پر اُستاد صاحب کو حکیم صاحب کے مطب پر لے جاتا جہاں اُن کے انتہائی مؤدب شاگرد چشمِ ما روشن کی تصویر بنے دکھائی دیتے۔حکیم صاحب جہاں طبی مشورے دیتے وہاں لاہور، ملتان، ایمن آباد، تاندلیانوالہ، واربرٹن، دہلی اور نجانے کہاں کہاں کے خوشنویسوں اور اُن کے تحریر کردہ مخطوطوں کی کھوج کا ذکر کرتے۔ اُستاد پرویں رقم رح کے کچھ کام ان کے پاس محفوظ تھے۔ اس امتیاز کی وجہ سے خوشنویس حضرات ان کی قدر کرتے تھے۔"جب میرے اُستاد صاحب کی کتاب موجود ہے تو میری کتاب کا چھپنا بے ادبی ہو گی۔ "یہ بات 70 سال کے ایک بزرگ اپنے استاد کی وفات سے تقریباً 40 سال بعد اپنے شاگردوں کی فرمائش کے جواب میں کہہ رہے تھے۔ صوفی صاحب اس بات پر مزید چند برس ڈٹے رہے، یہاں تک کہ ایک شاگرد (راقم الحروف) اور دو دوستوں (محمد حسن شیخ اور صوفی عبدالرشید لاہوری ) کی بات اس بنیاد پر مان گئے کہ استاد صاحب کی کتاب میں جو تفاصیل موجود نہیں ہیں، اُن کا ابلاغ نئے اہلِ فن کے لئے ضروری ہے۔
میں اُن دنوں موٹر سائکل بیچ کر سائیکل خرید چکا تھا۔ شادباغ سے صبح سویرے بادشاہی مسجد کے عقب میں سرکلر روڈ کی دوسری جانب امین پارک میں اُستاد صاحب کے گھر پہنچ جاتا تھا۔ یاد رہے کہ جس قیمت پر موٹر سائیکل فروخت کی تھی اس میں پانچ سو روپے شامل کر کے نئی سپورٹس سائیکل ملی تھی۔ اس یادگارِ زمانہ موٹر سائیکل کا خاکہ بندے نے 'مکھی' کے عنوان سے لکھ رکھا ہے۔میں صوفی صاحب کے گھر والی بیٹھک میں پڑی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر انتظار کرتا کہ وہ آئیں تو ہم کام شروع کریں۔ وہ کچھ مفرد حروف پہلے ہی سے لکھ رکھتے تھے تاکہ مجھے انتظار نہ کرنا پڑے۔ اس دوران میں اُن کے کمرے میں لگے فریموں کو رشک اور حیرت سے دیکھتا رہتا۔ میری نظر کسی ایک لفظ پر پہنچ کر منجمد ہو جاتی اور اس کے ساتھ ہی وقت ساکت ہو جاتا، عُمر رُک جاتی۔ "(کیا حال ہے) السلام علیکم، کیہ حال اے "
کے الفاظ مجھے حضورِ فن سے حضورِ صاحبِ فن میں لے آتے۔ میں سراپا ادب کھڑا ہو جاتا اور اُن کے بیٹھنے کے بعد اُن کے حکم پر مستعدی سے بیٹھ جاتا تھا۔پہلے دِن ہی آپ نے مجھے اُس تخت پوش پر بیٹھنے کو کہا جو میرے نزدیک تختِ شہنشہی سے بلند تر تھا کہ میرے پہلے استاد صاحب جب مجھے اُن سے ملوانے لائے تھے تو صوفی صاحب یہیں تشریف فرما تھے۔میں روبوٹ کی طرح وہاں بیٹھ گیا اور وہ چائے
لینے چلے گئے۔ میں سوچنے لگا۔۔۔ جب ان کے لکھے موتیوں جیسے الفاظ سیاہی سے بھروں گا اور استاد صاحب کو پسند نہیں آئے گا تو وہ کہیں گے۔۔۔۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے، آپ اتنے مصروف رہتے ہیں، میں خود ہی کچھ کر لوں گا۔ مجھے معلوم تھا وہ کبھی حوصلہ شکنی نہ کریں گے۔صوفی صاحب اپنی کتاب کے لیے پھیکی سیاہی سے آرٹ پیپر پر نستعلیق لاہوری کے مفردات اور ابتدائی دو حرفی مرکبات لکھتے تھے جن میں سیاہی بھرنے کا کام میں کرتا تھا۔ میرے کام میں اگر کوئی اصلاح ضروری ہوتی تو بتا دیتے ورنہ کافی دیر دیکھنے کے بعد اگلا حرف بھرنے کی اجازت دے دیتے۔کاتب عام طور پر نب ہی سے گہرے رنگ کی سیاہی بھرتے تھے جس پر مجھے اس درجے کی دسترس حاصل نہیں تھی۔ اس لیے میں ونسر اینڈ نیوٹن کے زیرو سائز کے برش سے بھرائی کرتا تھا۔ اُستاد صاحب اس پر حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے آپ برش کو کیسے قابو میں کر لیتے ہیں۔ میں دھاتی نِب کے معاملے میں اپنی بے بسی کا اظہار کر بھی دیتا تو بھی وہ رشک کرتے۔یہ کام کرتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ میں تاریخِ خط کے ایک اہم ترین استاد کے کام کو محفوظ کرنے کے عمل کا حصہ بن رہا ہوں۔صوفی صاحب بہت کم بولتے تھے اور جب بولتے تھے تو سننے والا ان کی بات یاد کرنے کی کوشش کے ساتھ سُن رہا ہوتا تھا لیکن میں اتنا انتظار نہیں کیا کرتا تھا۔ کچھ صبر کے بعد ایک آدھ سوال داغ دیتا جو اکثر نشانے پر لگتا اور کچھ بوندیں اُن کے کلامِ پُر تاثیر کی برس جاتیں۔سوال کچھ اس طرح کے ہوتے تھے۔آپ کو کون سا شاعر پسند ہے؟" جوش "صوفی صاحب نے بتایا کہ لڑکپن میں وہ اُن مشاعروں میں شرکت کرتے تھے جو کپورتھلہ یا امبرسر (امرتسر) میں منعقد ہوتے تھے اور جوش کی ادائیگی اور لحن پر فدا تھے۔
آپ عبدالمجید پرویں رقم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟فرمایا-میرے استاد تاج الدین زریں رقم عبدالمجید پرویں رقم کو اپنا اُستاد مانتے تھے لیکن کھلے بندوں کبھی اعتراف نہیں کیا۔ وفات سے پہلے مجھے رازداری کے ساتھ بتایا تھا کہ"اُستاد صرف پرویں رقم ہی ہے، ہم ان کے سامنے کچھ بھی نہیں"۔
آپ نے کبھی کسی سے فرمائش کی؟کہا-جنرل ضیاءالحق آئے تھے بیٹھک پر۔ مجھ سے پوچھا کہ میں کیا خدمت کر سکتا ہوں، میں نے کہا .... بیٹھک کاتباں قومی ورثہ ہے، مالک مکان کے ساتھ مقدمہ چل رہا ہے، حکومت اگر اس کی قیمت ادا کر دے تو اچھا ہو گا'۔ جنرل صاحب نے وعدہ کیا کہ یہ کام ہو جائے گا۔ پھر کہا ۔۔۔۔ میں آپ کے لئے مزید کیا کر سکتا ہوں۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ اور کچھ نہیں چاہئے۔ جنرل صاحب اصرار کرنے لگے تو میں نے کہا ۔۔۔ حج کی خواہش تھی۔ جنرل صاحب نے خوش ہو کر کہا، یہ بھی ہو جائے گا لیکن کوئی اور خدمت جو میں کر سکوں آپ کی۔ میں نے کہا ۔۔۔ اگر آپ نے اتنی مہربانی کر دی ہے تو میرے دوست حافظ یوسف سدیدی کو بھی میرے ساتھ حج پر بھجوا دیں'۔
ایک سوال تھااستاد صاحب! آپ کو کسی پر غصہ آیا ۔۔۔ کہنے لگے۔۔غلام حیدر وائیں (سابق وزیر اعلٰی پنجاب) اپنے کام سے آتے رہتے تھے، میں نستعلیق میں اُن کا نام لکھ رہا تھا، جب میں نے حیدر کی 'ر' کو 'د' کے اُوپر لکھا تو وائیں صاحب کہنے لگے، اسے نیچے لکھیں (یعنی کرسی کی لائن یا بیس لائن پر) ۔ مجھے ان پر غصہ آیا تھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ بہر حال سمجھ گئے تھے۔میں استاد صاحب کو کبھی کبھی اپنی کوئی نظم اصلاح کے لئے بھی پیش کرتا تھا۔ جسے دیکھ کر وہ خوش ہوتے تھے۔ ایک بار ایک نظم کے ایک مصرعے کی اصلاح کی تھی جس میں مجھ سے بحر تبدیل ہو گئی تھی۔اپنے اشعار میں سے انہیں جو پسند تھے اُن میں سے چند یاد آ رہے ہیں۔
جب کوئی خُوب رُو نظر آیا---باخدا مجھ کو تُو نظر آیا
خنجر زنی کا سیکھ کے فن مجھ فقیر سے---پہلے مرے گُلو پہ کیا اُس نے تجرِبہ
مدینے جا کے بھی آجائے دل میں گھر کا خیال---سلوکِ عشق میں سب سے بڑی خطا ہے یہی
تمام رات کیا میں نے انتظار اُن کا ---تمام رات سرِ رہ گزار گزری ہے
شاعری میں صوفی صاحب اُستاد احسان دانش سے اصلاح لیتے تھے۔ شورش کاشمیری مرحوم بھی انہی کے شاگرد تھے۔ صوفی صاحب بتاتے تھے کہ جب دانش صاحب شاگردوں کی اصلاح کرتے تو سب خاموش رہتے تھے لیکن شورش اصلاح پر کبھی خوش ہوتے اور کبھی یہ بھی کہہ دیتے'استاد! مزا نئیں آیا'
اور ہم سوچتے، کتنی بے ادبی ہے۔ایک بار احسان دانش رح نے صوفی صاحب سے فرمائش کی کہ اُن کا ایک پسندیدہ نعتیہ شعر خوش خط لکھ کر دیں۔ صوفی صاحب نے حکم کی بجا آوری کی اور شعر یہ تھا جس کے نیچے شاید صوفی صاحب نے اپنے قلم ہی سے اپنے اُستاد صاحب کی اجازت سے اُن کے دستخط بھی بنا دئے ہیں۔
دانش میں خوفِ مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز---میں جانتا ہوں موت ہے سُنت حضور (ص) کی
سُنا ہے یہ شعر ان کی لوحِ مزار پر کندہ ہے۔صوفی صاحب نے ایک دن پوچھا کہ کتاب کا نام کیا ہونا چاہیے۔ میں نے کہا"سریرِ خامہ کیسا رہے گا"
فرمایا۔۔ بہت اچھا ہے۔ یہ کتاب آپ کی وفات سے قریب پندرہ برس بعد 'کلکِ خورشید' کے نام سے شائع ہوئی۔ وہ خود ہوتے تو اپنا نام عنوان میں نہ آنے دیتے لیکن ان کے بیٹے جناب امداد حسین نے بہت اچھا فیصلہ کیا۔دس بجے کے قریب 'کلکِ خورشید' پر کچھ کام کر کے ہم استاد شاگرد پیدل بیٹھک کاتباں کی جانب روانہ ہو جاتے۔ راستہ زیادہ تر خاموشی کے ساتھ کٹتا۔ لیکن اگر کسی اچھے خطاط کا کام سامنے آ جاتا تو مجھ سے نہ رہا جاتا، میں اُن کی رائے ضرور لیتا۔ صوفی صاحب کے مسلک میں نفرت، استہزاء، بد تعریفی، تحقیر اور کم ظرفی نہیں تھی۔ وہ کمزور کام دیکھ کر ناگواری کا اظہار بھی نہیں کرتے تھے۔ بس مجھے اُن کے تبصرے میں جوش کی کمی سے اندازہ ہو جاتا تھا۔ اچھے کام کی دل کھول کر تعریف کرتے تھے اور خوشی ان کی آنکھوں سے جھلکتی تھی۔میں اکثر پیدل چلتے ہوئے بے خیالی میں اُن سے آگے نکل جاتا اور دھیان آتے ہی برابر یا کچھ پیچھے ہو جاتا۔ شیش محل روڈ سے نکل کر داتا دربار یا بھاٹی چوک ہوشیاری سے پار کرنا ہوتا تھا۔راستے میں میرے کچھ دوستوں کے گھر اور دُکانیں آتی تھیں لیکن میں اُن کی طرف مُڑ کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ صوفی صاحب آہستہ آہستہ پوچھنے لگے کہ دانتوں کا علاج کہاں سے کرواؤں، کبھی آنکھوں کے معاملے میں مشورہ کرتے۔ پھر طے ہو جاتا کہ وہ فلاں دِن میرے ساتھ چلیں گے۔
دیکھتے دکھاتے، باتیں کرتے ہم بیٹھک پر پہنچ جاتے جہاں ایک آدھ شاگرد پہلے سے مشق کر رہا ہوتا۔
آہستہ سا ایک سلام جس میں اپنی موجودگی کا احساس دلانےسے زیادہ دوسرے کا ادب دکھائی دیتا تھا۔
اب میری مشق کا وقت تھا۔ میں ایک گھنٹہ مشق کرتا اور اصلاح کے لئے پیش کر دیتا۔ صوفی صاحب ایک یا دو حروف میری مشق پر دوبارہ لکھ دیتے اور میں خامی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کبھی کبھی انہی سے پوچھ لیتا۔صوفی صاحب کے بارے میں یہ بات مانی جاتی تھی کہ وہ گفتگو بہت کم کرتے ہیں دوسرے وہ اصلاح صرف قلم سے کرتے ہیں، زبان سے نہیں بتاتے کہ کہاں نقص ہے۔ مجھے بھی یہی سبق پڑھا کر بھیجا گیا۔ اب مسئلہ یہ درپیش ہؤا کہ صوفی صاحب کے لکھے ہوئے لفظ کو دیکھ کر اپنے لفظ کا نقص تلاش کرنا میرے لئے مشکل تھا۔ کچھ دن تو میں شیخ محمد حسن رح (ھلال پینٹر) کی خدمت میں حاضری دیتا اور اصلاح دکھا کر اُن سے سمجھتا کہ کہاں غلطی ہوئی۔جب مجھے اُستاد صاحب کے پاس جاتے ہوئے کچھ دن گزر گئے اور اُن کی نرم طبیعت کا احساس مضبوط ہونے لگا تو میں نے کچھ کچھ دریافت کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ مثبت نکلا۔ جب مجھے اندازہ ہؤا کہ اس چوٹی کو سر کرنے کی اب تک کسی نے کوشش ہی نہیں کی ورنہ یہ تو نیچے سے دیکھنے والوں کو جُھک کر اُٹھا لیتی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ چند ہی دنوں میں اُستاد صاحب اپنا پسندیدہ کلام مجھے خود سے سُنانے لگے۔ تصوف پر کچھ کچھ گفتگو ہونے لگی اور میری اصلاح کا معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ ایک دن اپنے لکھے ہوئے ایک کتبے میں سے ایک لفظ دوبارہ لکھنے کا ارادہ فرمایاکتبے میں لکھا تھا
مولای صل وسلم دائماً ابداً---علٰی حبیبک خیر الخلقِ کلھمِ
اس شعر میں وہ 'حبیبک' کے لفظ سے غیر مطمئن سے ہو گئے تھے چنانچہ اُسی سائز کے قلم سے دوبارہ لکھا اور مطمئن ہو گئے۔ اس کے بعد مجھ سے کہا'آپ تو آرٹسٹ ہیں ذرا دیکھیں اِن میں کچھ فرق ہے بھی یا نہیں اور یہ کہ کون سا بہتر ہے'۔اس اچانک اُفتاد پر میں نے کچھ گھبراہٹ میں وہ دونوں لفظ سامنے رکھے اور پھر سانسیں بحال رکھتے ہوئے غور کرنا شروع کیا۔ دو تین منٹ تک تو مجھے اُن میں کوئی فرق محسوس ہی نہیں ہؤا اور میں شرمندگی محسوس کرنے لگا لیکن اب دیر ہو چکی تھی، اُن کا استفسار پھر سے ہؤا تو غور تیز تر کر دیا اور بہت معمولی سے دو فرق تلاش کر کے جان بچانے کی کوشش کی۔ صوفی صاحب مسکرائے اور فرمایا ہاں یہ بھی ہیں لیکن اصل فرق یہاں اور یہاں ہے۔ یوں میری تنقیدی صلاحیت کو بڑھانے کی شعوری کوشش کا آغاز ہو گیا، جس کا مظاہرہ بعد میں بھی ہوتا رہا۔ اب میں اس معاملے میں خود کو ممتاز محسوس کرتا تھا۔
کم و بیش دو ماہ کے عرصے میں تختیاں پاس کر کے میں رباعیات تک جا پہنچا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ صرف پہلی تختی پر کچھ شاگردوں کو ایک دو برس کا عرصہ لگ جاتا ہے تو لامحالہ دِل میں کہیں احساسِ برتری نے جگہ بنا لی۔ اسی ترنگ میں ایک دِن اُستاد صاحب ہی سے پوچھ بیٹھا کہ آپ نے تاج صاحب سے کتنے عرصے میں ابتدائی تختیاں نکالی تھیں تو جو جواب ملا اُس نے میری ہدایت کا سامان ضرورت سے کچھ زیادہ کر ڈالا اور خود پسندی کے کینچوے کا سانپ بننے سے پہلے علاج بھی ہو گیا۔صوفی صاحب نے فرمایا، میں نے تو اس طرح تختیاں نکالی ہی نہیں تھیں۔ میں جب تاج صاحب رحمہ اللہ کی بیٹھک میں حاضر ہؤا تو میرا کام دیکھنے کے بعد انہوں نے مجھے اپنے قریب بٹھا لیا اور مارکیٹ کا کام کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ بس کبھی کبھی میرے کسی متفرق لفظ کی اصلاح فرما دیتے تھے ورنہ میرے لکھے ہوئے کام کے نیچے اپنے دستخط کر دیتے۔ ممکن ہے آپ یہ پڑھ کر عجیب محسوس کریں لیکن شاگرد کے کام۔کی پذیرائی کا یہ بھی ایک طریقہ تھا۔
لوحِ دل پر سب بڑی تفصیل سے رقم ہے اور دِل کھول کر رکھ دینے کی خواہش بھی ہے لیکن بیان کا عجز اور تحریر کر پانے کی طاقت نہ پاتے ہوئے میں اس نوشت کو آگے بڑھانے سے معذوری محسوس کرتا ہوں۔
ارادہ تو ہے کہ ڈرائینگ، گرافک ڈیزائن، مصوری، مجسمہ سازی اور فوٹوگرافی کے اساتذہ کا اسی طرح ایک تذکرہ لکھوں کیونکہ یہ سب کچھ متوازی چل رہا تھا۔ دعا فرمائیے کہ اتنی ہمت جمع ہو جائے۔