مشاہير ملت
سر سيد ايك مظلوم دانشور
الطاف احمد اعظمی
اگر دنیا کے مظلوم اہلِ علم کی ایک فہرست بنائی جائے تو یہ فہرست اس وقت تک نامکمّل رہے گی جب تک اس میں سرسیّد کا نام شامل نہ کیا جائے۔ آپ اسے مبالغہ پر محمول نہ کریں، یہ ایک حقیقت ہے جو اَوراقِ تاریخ میں محفوظ ہو چکی ہے۔ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے، جس میں مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں، جس شدّت اور تواتُر کے ساتھ اس ایک عظیم دانشور کی تحقیر و تذلیل کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال مشکل سے ملے گی۔انہیں مُلحد، لامذہب، کرسٹان، دہریہ، نیچری، کافر اور دجّال وغیرہ کے "خِطابات" سے نوازا گیا، حتّٰی کہ انھیں گالیوں سے بھرے خطوط لکھے گئے۔ سرسّید نے ایک ایسے ہی خط کو، جو مغلّظات سے بھرا ہوا تھا، محفوظ کر دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ وہ ان کی لائف میں ہی چھاپ دیا جائے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ اس قوم کے نادانوں نے اپنے ایک بہی خواہ کے ساتھ کیسا نازیبا سُلوک روا رکھا۔ سرسیّد کے سوانح نگار مولانا الطاف حُسَین حالیؔ پانی پتی نے اس خط کو "حیاتِ جاوید" میں شائع نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ انہی کے الفاظ میں سماعت فرمائیں:
"ہماری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس ملعون تحریر کو سرسیّد کی لائف میں نقل کر کے قوم کی نالائقی تمام دنیا پر ظاہر کریں۔" (حیاتِ جاوید: صفحہ نمبر 548)
سرسیّد کی مخالفت بلکہ مخاصمت کی کئی وُجوہ ہیں:
ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے قدیم نصابِ تعلیم کے خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ نصاب اب کارآمد نہیں ہے بلکہ ایک معنٰی میں مُضِرّ بن چکا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس میں ترمیم و اصلاح کر کے اسے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا جائے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم و فنون کو حاصل کریں، جن کو حاصل کر کے مغرب کی قومیں تیزی سے ترقّی کر رہی ہیں اور ان کی عظمت و شوکت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔
سرسیّد رحمهُ اللّٰه کی مخالفت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے مذہبی طبقے کے تقلید پسند رویّوں پر شدید تنقید کی اور اپنی کئی تحریروں اور تقریروں میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہی ہے یعنی ان کا تقلیدی رویّہ، جس کی وجہ سے ان کے اذہان منجمد ہو گئے اور ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علوم و فنون کی ترقّی رُک گئی اور وہ علم کے میدان میں دنیا کی دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے۔ اس صورتِ حال میں تبدیلی اسی وقت ہو سکتی ہے جب مسلمان تقلید کی روِش چھوڑ کر تحقیق و اجتہاد کی عادت ڈالیں۔
سرسیّد مرحوم کی مخالفت کی تیسری وجہ اور وہ زیادہ اہم ہے --- علماء نے سرسیّد کے عقائد کو اس بناء پر نادرست قرار دیا ہے کہ وہ فرشتوں کے وجود اور معجزوں کے منکِر تھے۔ انہوں نے اس خیال کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس تسلسل کے ساتھ پھیلایا کہ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس سے متأثّر ہو گیا اور وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سرسیّد کے عقائد درست نہیں تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے علماء نے اسلام کےبنیادی عقائد کے دائرے کو، جس کو نُصوصِ قرآن و سنّت نے قطعیّت کے ساتھ متعیّن کر دیا تھا، وسیع کر دیا ہے اور اس میں بہت سی ایسی چیزیں داخل کر دی ہیں جن کا براہِ راست اسلام کے بنیادی عقائد سےکوئی تعلّق نہیں ہے۔ یہاں میں یہ بات واضح کر دوں کہ اسلام کے بنیادی عقائد صرف تین ہیں:
ایک، اللہ وحدہٗ لاشریک له پر ایمان
دوسرا، اس کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان
اور تیسرا، آخرت پر ایمان
سرسیّد مرحوم اسلام کے اِن بنیادی عقائد پر بہت پختہ ایمان رکھتے تھے۔ اس سے زیادہ پُختہ جو بہت سے مسلمان رکھتے ہیں۔ 1884ء کو انہوں نے لاہور میں اسلام پر ایک طویل لیکچر دیا اور اس میں دوسری باتوں کےعلاوہ انہوں نے اپنے عقائد بھی صاف صاف بیان کیے۔ مولانا حالی نے اس تقریر کے کچھ منتخب حصّے "حیاتِ جاوید" صفحہ نمبر 763 تا 769 میں نقل کیے ہیں۔ آپ اس تقریر کو پڑھ لیں آپ کو اس میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملے گا جو خلافِ اسلام ہو اور ان کی ہر بات نُصوصِ قرآن و سنّت سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ میری اس وضاحت کے بعد اُمّید ہے یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان یہ کہنا چھوڑ دیں گے کہ سرسیّد کے عقائد درست نہیں تھے۔
علماء نے سرسیّد پر جو دو بڑے اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ وہ فرشتوں کے وُجود کے منکِر تھے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے وہ فِرِشتوں کے وُجود کے منکِر نہیں تھے البتّہ اس کی انہوں نے تأویل کی ہے اور فُروع میں تأویل کی گنجائش ہوتی ہے۔ امام غزالی ؒ نے اپنی مشہور کتاب "التّفرِقہ بینَ الاسلام والزّندَقہ" میں وُجود کے پانچ مراتب بتائے ہیں:پہلا، وُجودِ ذاتی یا خارجی-دوسرا، وُجودِ حِسّی-تیسرا، وُجودِ خیالی-چوتھا، وُجودِ عقلی-اور پانچواں، وُجودِ شِبہی
سرسید علیہ الرّحمہ فرشتوں کے وُجود کو وُجودِ شبہی کے درجے ميں رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے خیال کا اظہار اپنی تفسیر میں بھی کیا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا:"خدا کی بے انتہا قدرتوں کے ظُہور کو اور ان قُوٰی کو جو خدا نے تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کیے ہیں "ملک" یا "ملائکہ" کہا ہے۔" (تفسیر القرآن، جلد نمبر 1، سورۃ البقرۃ، صفحہ نمبر 43)
اس تأویل کے باوُجود وہ فِرِشتوں کے مخلوق ہونے کے امکان کو تسلیم کرتے تھے۔ لکھتے ہیں:
"میں کہتا ہوں جس طرح انسان سے فروتر مخلوق کا ایک سلسلہ ہم دیکھتے ہیں، اسی طرح انسان سے بر تر مخلوق ہونے سے انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے شاید کہ ہو، گو وہ کیسی ہی عجیب اور ناقابل یقین ہو۔" (تفسیر القرآن، جلد نمبر 1، سورۃ البقرۃ، صفحہ نمبر 41 - 42)
کیا اس اعتراف کے بعد یہ کہنا صحیح ہو گا کہ سر سیّد فرشتوں کے وُجود کے یکسر منکِر تھے۔ اگر علماء کو سرسیّد کی تأویل پر اعتراض ہے تو انہوں نے یہی اعتراض اُن علماء پر کیوں نہیں کیا جنہوں نے سرسیّد ہی کی طرح فرشتوں کے وُجود کی تاویل کی ہے؟ مثال کے طور پر تصوُّف کی دنیا کے مشہور عالِم اور وحدت الوجود کے امام و شارح شیخ محی الدّین ابن عربیؒ نے فرشتوں کو قُوائے عالَم قرار دیا ہے یعنی Forces of the Nature۔انھوں نے اپنے اس خیال کا اظہار اپنی مشہور کتاب "فُصوص الحِکم" میں کیا ہے۔ سرسیّد نے اپنی تفسیر کی پہلی جلد صفحہ نمبر 44 پر شیخ ابنِ عربی کی محوّلہ بالا کتاب سے طویل اقتباس دیا ہے، جس میں اس خیال کو دیکھا جا سکتا ہے۔ امام غزالیؒ نے بھی فرشتوں کے وُجود کی تأویل کی ہے، ان کے نزدیک فرشتے دراصل "صُوَرِ علمیہ" ہیں۔ یہ ایک متصوّفانہ اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ اچانک پیدا نہیں ہو گئی ہے بلکہ درَجہ بدرجہ علمِ الٰہی سے اس کا صُدور ہوا ہے اور اس صُدور کے پانچ مراحل ہیں:
پہلا: صُوَرِ علمیہ بلا امتیاز-دوسرا: صُوَرِ علمیہ بالامتیاز-تیسرا: عالَمِ ارواح-چوتھا: عالَم اَمثال-پانچواں: عالَم شہادۃ (یہی دنیائے رنگ و بُو جس میں ہم اور آپ زندگی گزار رہے ہیں)
فرشتوں کا وجود صُدور کے دوسرے مرحلے سے تعلق رکھتا ہے یعنی صُوَرِ علمیہ بالإمتیاز۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امام غزالیؒ فرشتوں کے وجودِ خارجی کے منکِر تھے۔ اتنا ہی نہیں امام صاحبؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ انبیاءِ کرام کو صفاءِ باطن کی وجہ سے بیداری کی حالت میں فرشتوں کی جو صورتیں نظر آتی تھیں وہ دراصل وجودِ حسّی ہے۔ وجودِ حسّی ایسا ہے جیسے آپ خواب میں چیزوں کو دیکھتے ہیں لیکن ان چیزوں کا وُجود صرف آپ کے حاسّہ میں ہوتا ہے۔ خارج میں ان کا کوئی وُجود نہیں ہوتا ہے۔ (دیکھئے علّامہ شبلی نعمانیؒ کی "کلام اور علم الکلام" صفحہ نمبر 193)
کیا ہندوستانی علماء نے شیخ ابن عربیؒ اور امام غزالیؒ کی تأویلات پر کبھی اعتراض کیا ہے؟ اور ان پر کفر کا فتوٰی صادر کیا ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہو گا۔ تو پھر علماء نے سرسیّد پر ہی کیوں اعتراض کیا ؟ انہوں نے فرشتوں کے وُجود کے بارے میں وہی بات کہی جو ان دونوں فاضلانِ وقت نے اپنی کتابوں میں لکھی ہے۔
سرسیّد پر دوسرا اعتراض علماء نے یہ کیا ہے کہ وہ معجزوں کو نہیں مانتے تھے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ معجزات کو کیوں نہیں مانتے تھے؟ اس علمی کِتمان کی تفصیل سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ معجزے کا کیا معنٰی ہے؟ قرآنِ مجید میں معجزے کا لفظ استعمال نہيں ہوا ہے بلکہ آیت یا آیات اور "سُلطان" کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ آیت کا مطلب نشانی ہے اور اس چیز کو بھی آیت کہتے ہیں جو بطورِ دلیل پیش کی جائے۔ معجزہ کی اصطلاح علماء اور فضلاء نے وضع کی ہے۔ انہوں نے معجزے کی تعریف یہ کی ہے کہ جو خرقِ عادت ہو یعنی واقعہ عادتِ جاریہ کے خلاف واقع ہو مثلاً آگ کی فطرت یا عادت جلانا ہے، اگر اس سے یہ عادت مَسلُوب ہو جائے اور وہ جلانے کا عمل چھوڑ دے تو یہی خرقِ عادت ہے اور اسی کا نام معجزہ ہے۔
دوسرےکئی علماءکی طرح سرسیّد نےبھی اس تعریفِ معجزہ پر اعتراض کیا ہے اور اسے نادرست قرار دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے جس چیز کی جو فطرت بنائی ہے، وہ اس سے کبھی جُدا نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے آگ ہی کی مثال دی ہے اور بتایا ہے کہ آگ کی فطرت جلانا ہے اگر اللّٰه چاہے تو اس کی فطرت کو بدل سکتا ہے یعنی اس سے عملِ احتراق (combustion) صادر نہ ہو لیکن اللّٰه قدرت کے باوجود ایسا نہیں کرتا ہے اور یہی سنّت اللّٰه ہے جو ناقابلِ تغیُّر ہے۔ انہوں نے اپنے اس خیال کی تائید میں قرآن مجید کی یہ آیت پیش کی ہے:فلن تجدَ لسنّۃ اللّٰه تبدیلاً (الفاطر: آیت نمبر 43)ترجمہ: تم اللّٰه کی سنّت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے۔
معجزے کی تعریف میں علماء نے یہ چیز داخل کردی ہے کہ وہ سبب سے عاری ہوتا ہے یعنی محض اللّٰه کے علم اور قدرت سے واقع ہوتا ہے، اس کا کوئی سبب نہیں ہوتا ہے۔ سرسیّد نے علماء کے اس خیال کو اس بِنا پر تسلیم نہیں کیا کہ یہ خیال علّت و معلول (Cause & Effect) کے اصولِ مسلّمہ کے خلاف ہے۔ ارسطو کے عہد سے آج تک یہ اصول ایک معتبر اصول سمجھا جاتا رہا ہے۔ دنیا کے بہت سے واقعات وحوادِث اور اشیاء کا مطالعہ اس اصول کی تصدیق کرتا ہے۔ اس اصول کے مطابق اس دنیا میں کسی چیز کا وُجود یا کسی واقعے کا صُدور علّت کے بغیر خارج از امکان ہے۔ اس بِناء پر معجزے کا وُقوع بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ علماء اسی واقعہ پر معجزے کا اطلاق کرتے ہیں جس کا کوئی سبب نہ ہو۔ سرسیّد نے بتایا کہ علماء جن واقعات کو معجزہ کہتے ہیں، ان کا بھی کوئی نہ کوئی سبب ہو گا جو عام حالات میں مخفی ہوتا ہے۔ کئی جیّد علماء نے اس خیال کو تسلیم کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدِّث دہلویؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "حُجّۃ اللّٰه البالغۃ" کے باب "حقیقۃ النّبوّۃ وخواصھا" اور اپنی دوسری مشہور کتاب "التّفھیمات الالٰھیۃ" صفحہ نمبر 55 پر لکھا ہے کہ معجزے اسباب سے عاری نہیں ہوتے بلکہ ان کا بھی کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے جو عام طور پر نگاہوں سے مخفی ہوتا ہے اور اسی کتاب یعنی "التّفھیمات" میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت رسولِ اکرم ﷺ کو کوئی مافوقَ الفطرت (Supernatural) معجزہ نہیں دیا گیا۔ اور اس سلسلے میں قرآن مجید میں کوئی ادنٰی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔ انہوں نے شقّ القمر کو بھی معجزہ تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ واقعہ "قُربِ قیامت کی علامت" ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آج تک کسی دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث عالِم نے شاہ ولی اللہ ؒ پر اعتراض کیا ؟ انھیں منکرِ معجزہ ٹھیرایا؟ نہیں ! انھوں نے ایسا نہیں کیا اور اس لیے نہیں کیا کہ شاہ صاحب ان تینوں مکاتبِ فکر کے مقتدٰی ہیں۔ علماء نے سرسیّد کے مذہبی افکار کی تردید و تنقیص ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے علمی مقام و مرتبہ کو مجروح کرنے اور ان کی مذہبی خدمات پر پردہ ڈالنے کی بھی پوری پوری کوششیں کی ہیں۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، میں صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ چند روز پہلے کی بات ہے میں نے یوٹیوب پر ایک صاحب کو تقریر کرتے سنا۔ یہ صاحب ہند و پاک کے ایک مشہور خطیب اور مصنّف ہیں مگر اب بقیدِ حیات نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پہلے سرسیّد کی خوب مدح سرائی کی اور کہا کہ وہ مسلمانوں کے بڑے بہی خواہ، غم گُسار اور محِبِّ قوم تھے اور پھر ارشاد فرمایا کہ اس مقام سے آگے بڑھ کر ''متکلّمِ اسلام و مفسّرِ قرآن'' بن بیٹھے۔ "بن بیٹھے" کے الفاظ انہی خطیب صاحب کے ہیں جو انہوں نے تعریضاً استعمال کئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرسّید میں اتنی علمی لیاقت نہیں تھی کہ وہ علمِ کلام اور علمِ تفسیر کے میدان میں داخل ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ان خطیب صاحب نے سرسیّد کی تفسیرالقرآن کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ تفسیر علمی، تاریخی اور کلامی لحاظ سے ایک بلند پایہ تفسیر ہے۔ ميں نے اس موضوع پر ایک مبسوط مقالہ لکھا ہےجو شبلیؒ اکیڈمی (اعظم گڑھ) کے معروف علمی رسالہ "معارف" میں دو قسطوں میں شائع ہو چکا ہے۔ سامعین سے گزارش ہے کہ وہ "معارف" کے اپریل اور مئی 2020ء کے شمارے اگر کہیں سے مل سکیں تو ان کو ضرور پڑھیں۔ ان سے معلوم ہوگا کہ سرسیّد کس پائے کے مفسّر تھے۔ جہاں تک علمِ کلام کا تعلّق ہے تو اس میدان میں بھی سرسیّد کا امتیاز مُسَلَّم ہے۔ وہ ہندوستان میں جدید علمِ کلام کے بانی ہیں۔ یہ بات فقط میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ متعدد اہلِ علم نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ جناب ابوالکلام آزاد جس پائے کے عالم، مفسّر ہیں اس سے آپ واقف ہیں۔ انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:"سرسیّد ہی دنیا میں وہ پہلا شخص ہے جس نے پہلے پہل یہ ضرورت محسوس کی کہ جدید علمِ کلام کی ضرورت ہے۔" (سرسیّد بازیافت، پروفیسر عتیق الرَّحْمٰن، صفحہ نمبر 19)
سرسیّد کی کلامی خدمات بھی بہت شاندار ہیں۔ یہاں میں صرف ایک خدمت کا ذکر کرتا ہوں۔ اہل مغرب بالخصوص مستشرقین (Orientalists) نے اسلام پر بہت سے اعتراضات کیے ہیں۔ ان میں سےایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلام غلامی کا حامی ہے اور اس نے رسمِ غلامی کو ممنوع قرار نہیں دیا ہے۔ مغرب کے اس لَغو الزام کی تردید کے لیے پوری دنیا کے مسلمانوں میں جو شخص آگے بڑھا، اس کا نام سرسیّد ہے۔ انہوں نے اردو میں ایک مبسوط مقالہ "اِبطالِ غلامی" کے عنوان سے لکھا اور اس میں بڑے مضبوط علمی، تاریخی، کلامی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ مذہب اسلام واحد مذہب ہے جس نے رسمِ غلامی کو ممنوع قرار دیا ہے۔ جناب ابوالکلام آزاد نے سرسیّد کی اس کلامی خدمت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:"یورپ اسلام پر بڑے زور سے معترض ہے کہ وہ انسان کو اس کی فطری آزادی سے محروم رکھتا ہے اور غلامی کی ناپاک رسم کا حامی ہے۔ اس اعتراض کو رفع کرنے کا سب سے پہلے اسلامی دنیا میں سرسیّد کو خیال ہوا اور مرحوم نے عقلی و نقلی دلائل سے اسلام کو اس رسم کی اعانت سے بری ثابت کیا اور لکھا کہ مسلمانوں کے افعال کا بانئ مذہب ذمّہ دار نہیں ہو سکتا اور پھر اس سبجیکٹ پر ایک مبسوط رسالہ "تبریۃ الاسلام" لکھ کر اس بحث کا بالکل خاتمہ کر دیا۔ یہ سرسیّد کی کتاب "ابطالِ غلامی" کا عربی ترجمہ ہے۔ مولانا آزاد کا یہ مضمون اخبار "وکیل" ، امرتسر، 1904ء میں شائع ہوا تھا۔
میری اس تقریر سے دو باتیں بالکل واضح ہو گئیں اور سامعین بھی مجھ سے یقیناً اتفاق کریں گے۔
پہلی بات یہ کہ انّیسویں صدی اور اس کے بعد بھی معدودے چند اہلِ علم کو چھوڑ کر سرسیّد کے پائے کا کوئی دوسرا بالغ نظر محقّق اور جامعِ علوم دانشور پیدا نہیں ہوا، یہ دوسری بات ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم دانشور کی ناقدری کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ سرسیّد کے عقائد اور بعض دوسرے مذہبی افکار پر بعض مغربی علوم کے فاضلین اور علماءِ ایران و توران نے جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے بیشتر نادرست ہیں اور ان کی کوتاہی فکر و نظر کی دلیل ہیں۔ اس میں کچھ جذبۂ حسد اور فتنۂ معاصرت بھی شامل ہے۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ تفسیرِ قرآن میں سرسیّد سے کچھ غلَطیاں ہوئی ہیں مثلاً جِنّات کے "خارجی وُجود کا انکار" وغیرہ، مگر چند غلطیوں کی وجہ سے اس تفسیر کی خوبیوں اور ان کے دوسرے کمالات کی پردہ پوشی سخت ترین علمی ناانصافی ہے۔ آخر وہ کون عالم اور مفسّر ایسا گزرا ہے جس کے علمی کاموں میں نقائص نہیں ہیں اور اس کے قلم نے کہیں لغزش نہیں کھائی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف سر سیّد احمد خان کو ہی نشانۂ طعن و تنقید بنایا جاتا ہے؟ کیا ہمارے علماء قرآن مجید کی اس آیت سے واقف نہیں ہیں؟اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (انصاف کرو، یہ بات تقوٰی سے قریب تر ہے)