مدینے کی طرف جاتے ہوئے گھبرا رہا تھا
جلال ایسا کہ دل سینے سے نکلا جا رہا تھا
مثالِ فردِ عصیاں تھی کتابِ عمرِ رفتہ
کوئی مجھ میں تھا جو صفحے اُلٹتا جا رہا تھا
بُلاوے پر یقیں تھا اور قدم اُٹھتے نہیں تھے
عجب سیلِ الم آنکھوں میں اُمڈا آرہا تھا
ہر اک بولا ہوا جملہ ، ہر اک لکھا ہوا لفظ
لہو میں گونجتا تھا اور قیامت ڈھا رہا تھا
اور ا یسے میں اُسی اک نام نے کی دستگیری
وُہی جو منتہائے ہر دُعا بنتا رہا تھا
بُہت نا مطمئن آنکھیں اچانک جاگ اُٹھیں
کوئی جیسے دلِ کم فہم کو سمجھا رہا تھا
مدینہ سامنے تھا ، منتظر تھا در سخی کا
دلِ آزردہ اپنے بخت پر اترا رہا تھا
دُعا بعد از دُعا ، سجدہ بہ سجدہ اشک در اشک
میں مشکِ خاک تھا اور پاک ہوتا جا رہا تھا