یہ چند برس پہلے کا واقعہ ہے جو میری یادداشت میں جزئیات کے ساتھ محفوظ ہے۔مولانا طارق جمیل کے ساتھ ایک ملاقات طے تھی۔ میرے عزیز دوست حسن سے ان کی بات ہوئی تو انہوں نے ایک گھر میں آنے کو کہا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ اسلام آباد کا ایک وسیع و عریض فارم ہاؤس ہے۔ یہاں شادی کی ایک تقریب تھی اور مولانا اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے غالباً وقت کی تنگی کے باعث، یہ خیال کیا کہ ہمیں وہیں ان سے مل لینا چاہیے۔ہم پہنچے تو شادی کے انتظامات دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ فارم ہاؤس میں دور دور تک قیمتی قالین بچھے تھے۔ مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں نہیں، صوفے تھے۔ آمد پر تازہ پھلوں کے رس سے مہمانوں کی تواضع ہو رہی تھی۔ اس کے بعد ان گنت پکوان تھے جو شکم پروروں کے لیے لذت کا وافر سامان لیے ہوئے تھے۔ عارضی بیت الخلا تھے جو تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ تھے۔ یہ اہتمام خو اص و عام سب کے لیے تھا۔ امارت قدم قدم پر جلوہ آرا تھی۔ اسراف کا یہ مظاہرہ طبیعت میں تکدر پیدا کر رہا تھا۔
مولانا طارق جمیل کو یہاں نکاح کا خطبہ دینا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر جو کچھ کہا، اس نے میرے دل میں ان کی قدر میں اضافہ کیا۔ اس خطبے کا موضوع 'اسراف‘ تھا۔ انہوں نے اس پر معذرت بھی کی کہ ان کی باتیں میزبان کے لیے دل شکنی کا سبب ہو سکتی ہیں‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ میں خود کو یہ سب کچھ کہنے سے روک نہیں سکتا۔ بلاشبہ یہ فضول خرچی پر بہت موثر خطبہ تھا۔ میرا احساس ہے کہ حاضرین پر دیر تلک اس کا اثر رہا ہو گا۔ معلوم نہیں کہ وہاں موجود انواع و اقسام کے پکوان کس طرح لوگوں کے حلق سے اترے ہوں گے۔
مولانا طارق جمیل نے گزشتہ دنوں نواز شریف صاحب سے ملاقات کی تو ملک بھر میں ایک بحث کا آغاز ہو گیا۔ یہ بحث میری نظر سے گزری تو مجھے یہ چشم دید واقعہ یاد آیا۔ مجھے خیال ہوا کہ ایک داعی پر تنقید کرتے وقت شاید انصاف نہیں کیا گیا۔ یہ تاثر پھیلا کہ شاید وہ صرف امرا اور اربابِ اختیار کو دعوت دیتے ہیں۔ یہ تاثر کسی طرح درست نہیں۔ وہ خواص کو دعوت دیتے ہیں اور عوام کو بھی۔ خواص کی دعوت اخبار کا موضوع بنتی ہے مگر عوام کی دعوت کا ذکر میڈیا میں نہیں ہوتا۔ وہ ملک کے اندر اور باہر، میرے علم کی حد تک تبلیغی جماعت کے مروجہ طریقہِ کار کے مطابق گشت بھی کرتے ہیں۔ اس ملک میں دہشت گردی نے بہت سے لوگوں سے فجر کی باجماعت نماز بھی چھڑوا دی ہے۔ اگر طارق جمیل صاحب سے گشت چھوٹ گئی ہو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا
یہ اعتراض دعوت کی حکمتِ عملی سے بے خبری کی دلیل بھی ہے۔ مولانا امین احسن نے اپنی کتاب 'دعوت دین اور اس کا طریق کار‘ میں بالتفصیل بتایا ہے کہ انبیا اپنی دعوت میں سب سے پہلے لیڈروں اور راہنماؤں کو مخاطب بناتے تھے۔ انہوں نے لکھا: ''حضرت دانیال علیہ السلام نے اپنے وقت کے شہنشاہِ اعظم، بنو خذ نصر کو دعوت دی۔ یرمیاہ نبی نے شمال کے بادشاہوں کو دعوت دی۔ مسیح علیہ السلام نے سب سے پہلے علمائے یہود کو دعوت دی۔ اسی طرح حضرات نوح علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، سب کی دعوتیں قرآن میں مذکور ہیں۔ ان میں سے ہر نبی نے سب سے پہلے اپنے وقت کے اربابِِ اختیار اور متکبرین کو جھنجھوڑا اور ان کے افکار و نظریات پر ضرب لگائی۔ سب سے آخر میں آنحضرتﷺ کی بعثت ہوئی اور آپ کو حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ یہ لوگ عرب کی مذہبی اور پدر سرانہ حکومت کے اربابِ حل و عقد تھے اور اس کے واسطہ سے سارے عرب کی اخلاقی اور سیاسی راہنمائی کر رہے تھے۔‘‘
مولانا اصلاحی نے یہ بھی بیان کیا کہ یہ سعادت عام طور پر اس طبقے کے حصے میں نہیں آتی۔ یہ بلال و صہیب جیسے خوش بختوں ہی کا مقدر بنتی ہے۔ تاہم معاشرے کے لیڈروں کے ایمان اور انکار کا جو اثر سماج پر پڑتا ہے، وہ دونوں صورتوں میں غیر معمولی اور دعوتِ حق کے لیے اہم ہوتا ہے۔ اس لیے مولانا طارق جمیل اگر راہنماؤں اور اربابِ اقتدار کو دعوت دیتے ہیں تو یہ انبیا کی سنت ہے۔ نبیﷺ کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قریش کو دعوت پر بلاتے اور ان کے ہاں دعوت پر جایا کرتے تھے۔اہم بات یہ ہے کہ طارق جمیل صاحب ان لوگوں سے کیا کہتے ہیں۔ دعوت کا تقاضا یہ ہے کہ مخاطَب کو اس کی سماجی حیثیت اور ذمہ داریوں کے بارے میں انذار کیا جائے۔ جیسے باپ کو بتایا کہ ایک والد کی ذمہ داری کیا ہے۔ اربابِ اقتدار کی توجہ دلائی جائے کہ اللہ کا دین انہیں کس طرزِ عمل کا حکم دیتا ہے۔ مولانا طارق جمیل کابینہ کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ مجھے معلوم ہے کہ وہاں انہوں نے اربابِ اقتدار کے فرائض پر بات کی ہے۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ ا نہوں نے نواز شریف صاحب سے بھی ان کی سماجی حیثیت کے مطابق ہی گفتگو کی ہو گی۔
ایسی ملاقاتوں کے حوالے سے میڈیا میں جو کچھ رپورٹ ہوتا ہے وہ قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کی بنیاد پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں روز لوگ بتاتے ہیں کہ کور کمانڈرز کے اجلاس میں کیا گفتگو ہوئی۔ یہ خیال کے گھوڑے ہیں جو لوگ دوڑاتے ہیں۔ اگر ان کی بنیاد پر رائے سازی کی جائے تو یہاں کب کا مارشل لا نافذ ہو چکا ہوتا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ پر ایسے قیاس آرائی کرنے والوں کے ہاتھوں کیا بیتی ہے۔ ایک واقعہ ایسے جزئیات کے ساتھ بیان کرتے ہیں جیسے وہ قلم پکڑے سرہانے کھڑے تھے جب دو افراد گفتگو کر رہے تھے۔میں یہ بھی نہیں جان سکا کہ حکمرانوں سے ناک چڑھا کر بات کرنا، ہماری روایت میں کب تقویٰ قرار پایا؟ میں جب امام ابو حنیفہ اور امام مالک جیسے اکابرین کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ لگتا ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ ان کا تعلق وہی تھا جس کی تعلیم رسالت مآبﷺ نے دی: خیر خواہی اور اطاعت، ا لّایہ کہ وہ کسی معصیت کا حکم دیں۔ خیر خواہی کا سب سے پہلا تقاضا نصیحت اور انذار ہے۔ ہمارے اسلاف اسی پر کاربند رہے۔ ایک داعی کے لیے جو چیز مذموم ہے، وہ اپنی حاجتوں کے ساتھ ایوانِ اقتدار کا طواف کرنا ہے۔ ہمارے اسلاف کا دامن اس سے پاک ہے۔ امام ابو حنیفہ کو منصب کی پیش کش ہوئی تو انہوں نے انکار کیا۔ لیکن اس موقع پر ان کا منصور سے جو مکالمہ ہوا، اس میں بھی وہ اسے 'یا امیرالمومنین‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔مجھے تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے وعظ، رطب و یابس کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ وہ صحیح اور ضعیف تو کیا، موضوع اور صحیح روایت میں بھی فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حدیث کے باب میں صوفیا اور واعظین کا تساہل معروف علمی واقعہ ہے۔ وہ اس طرزِ عمل کا دفاع کرتے
ہیں جس سے اتفاق محال ہے۔ اس تساہل نے دین کی تعلیمات کو جس طرح مجروح کیا ہے، اس کا مشاہدہ ہم آئے دن کرتے ہیں۔ اس پہلو سے بہت سے اہلِ علم نے تبلیغی جماعت پر نقد کیا ہے‘ جو معلوم ہے۔ لیکن یہ اعتراض کہ وہ نواز شریف سے کیوں ملے، دعوت اور اس کے طریقِ کار سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔سیاسی و سماجی راہنما، کھلاڑی اور فنکار رجحان ساز طبقات ہیں۔ عامۃ الناس ان کی تقلید کرتے ہیں۔ ان کو دعوت کا مخاطب بنانا دعوت کی حکمت کا تقاضا ہے۔ مولانا طارق جمیل یہ کام کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے اپنے لیے کوئی تقاضا نہیں کرتے۔ ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ خود ان کا اپنا طبقہ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایک داعی کا ہم پر یہ حق تو ہے کہ اس پر وہی تنقیدکی جائے، جس کا وہ سزاوار ہے۔***