زیر نظر قصہ ناقابل یقین حد تک سچا اور موت کے خوف تک سنسی خیز ہے۔ اسے مشہور سعودی صحافی، شاعر، کاتب اور مؤلف مشعل السدیری نے 8 اگست 2009 کو ''الشرق الوسط - اصدار نمبر 11211'' کے لیے لکھا۔ واضح رہے مشعل السدیری کوئی عام صحافی نہیں، سعودی شاہی خاندان کا چشم و چراغ ہے، شہزادہ ہے، ملک فھد بن عبدالعزیز اور اس کی دیگر بہن بھائیوں کے ماموں کا بیٹا ہے۔ حرم شریف میں ایک جزائری سے سنا ہوا قصہ لکھتا ہے:
میں جزائری ایئرلائن کے جہاز (ایئر بس) پر جزائر سے پیرس کے ہوائی اڈے ''اورلی '' کے لیے سوار ہوا۔ جب جہاز مرسیلیا کے اوپر سے گزر رہا تھا تو مجھے کاک پٹ کے پاس زور زور سے لڑنے اور توڑ پھوڑ کی آوازیں سنائی دیں۔ باقی کا قصہ سنانے سے پہلے میں آپ کو اس قصے کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں تاکہ باقی کی بات سناتے ہوئے آسانی رہے۔
پائلٹ کو واش روم کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اپنی کرسی چھوڑ کر ٹوائلٹ کی راہ لی۔ جہاز کو اس وقت ایک جزائری خاتون ''کو پائلٹ'' سنبھال رہی تھی۔ ''کوپائلٹ'' نے ایئر ہوسٹس سے اپنے لیئے کوئی چیز منگوائی جسے ایئر ہوسٹس نے دینے سے انکار کیا۔ کو پائلٹ اپنی سیٹ سے اٹھ کر سیدھا ایئر ہوسٹس کے سر پر جا پہنچی اور اسے بے نقط سنا ناشروع کر دیں۔ طرفین کی آوازیں اونچی ہوئیں اور اچھا خاصا ماحول خراب ہونا شروع ہوا۔ اسی اثناء میں پائلٹ بھی واش روم سے نکل آیا۔ دنگے فساد میں مداخلت کرنے سے پہلے اس نے کاک پٹ کا دروازہ کھلا ہوا دیکھنے پر سب سے پہلے دروازہ بند کیا تاکہ باہر کی آوازیں کاک پٹ میں نہ جائیں اور اس کے ''کو- پائلٹ '' کی توجہ اپنے کام پر مرکوز رہے۔ دروازہ بند کرنے کے بعد جیسے ہی پائلٹ دو لڑتی خواتین کے سر پر پہنچا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ لڑنے والی کوئی اور نہیں اس کی اپنی ہی کو پائلٹ تھی جو کاک پٹ کو خالی چھوڑ کر یہاں موجود تھی جبکہ پائلٹ نے اس کو کاک پٹ میں موجود سمجھ کر کاک پٹ کر دروازہ بند کر دیا تھا۔
ہوائی جہازوں کے دروازوں سے، کسی ممکنہ دہشت گردی کے سد باب کے لیے، 9-11 کے بعد باہر سے کھولنے کا نظام ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ پائلٹ اسے اندر سے ہی کھول سکتا ہے ورنہ نہیں۔اس صورتحال میں جہاز کے دیگر عملے اور پائلٹ کے پاس بس ایک ہی راستہ تھا کہ فوری طور پر ایمرجنسی کے استعمال والی کلہاڑی اٹھائیں اور جلدی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوں اور جہاز کا کنٹرول سنبھالیں۔
کنٹرول ٹاور نے جہاز کے پائلٹ سے رابطہ کیا، کوئی جواب نہ ملنے پر فوری طور پر ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا اور دو فرانسیسی فائٹر جہاز اڑا کر جزائری مسافر بردار جہاز کو حصار میں لے لیا گیا۔ یہ سب اس لیئے تھا کہ اگر جہاز میں خود کش واردات یا دوسری دہشت گردی کی کارروائی ہو رہی ہو تو جہاز کو پیرس شہر پر گرنے سے روکا جائے۔
جزائری کہتا ہے کہ کاک پٹ کے اطراف میں شور اور توڑ پھوڑ کی آواز سن کر ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ ہمارا جہاز ھائی جیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ھائی جیکرز نے مسافروں کو اور جہاز کے عملے کو دھوکا دینے کے لیے ہوائی عملے جیسے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ میں نے دیگر چند مسافروں کو ساتھ ملا کر اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور ہم سب نے کھڑے ہو کر ان پر دھاوا بول دیا۔ اس افتاد سے وہ لوگ اور بھی بد حواس ہو گئے۔ ہم میں سے ایک نے ان سے کلہاڑی چھین کر پیچھے کی طرف دوڑ لگا دی تاکہ کم از کم یہ کلہاڑی تو ان کے ہاتھ نہ لگے۔ اب وہ لوگ ہم سے بچتے اس کلہاڑی والے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ بمشکل اسے قابو کر کے انہوں نے کلہاڑی واپس حاصل کی۔ اسی اثناء میں میرا داؤ لگ گیا اور میں نے پائلٹ کو پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا اور اس کے اوپر چڑھ گیا۔ وہ نیچے سے کہہ رہا تھا اوئے میں پائلٹ ہوں، میں پائلٹ ہوں۔ میں نے اسے دو چار گھونسے ایسے ٹکا کر جڑے کہ اس کے ناک منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ میری خونخواری دیکھ کر عملے میں سے ایک آدمی نے کلہاڑی میرے سر پر دے ماری جس سے میں بیہوش ہو گیا۔عملے نے دروازہ توڑ کو فوری طور پر کنٹرول ٹاور کو جواب دیا اور اپنے ساتھ پیش آنے والی صورتحال سے آگاہ کیا۔
بعد میں مسافروں کو بتایا گیا کہ ہمارے جہاز کو تباہ کر دینے کے لیے فرانسیسی جنگی
جہازوں کو دس منٹ کا وقت دیدیا گیا اور ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ کاک پٹ کا دروازہ اس آخری وارننگ سے پہلے ہی کھل گیا تھا۔
درج بالا واقعے میں آسمان و زمین میں عورتوں کی چل رہی جنگ پر کوئی بات اضافی مماثلت شمار کی جائیگی۔
یہ وقعہ انٹرنیٹ پر لاکھوں بار موجود ہے ما سوائے شرق الوسط والی سائٹ کے۔تاہم بیشتر موثوق اخبارات اور سائٹس پر دیکھنے کے بعد اس واقعے کا ترجمہ اور تلخیص آپ کیلیئے پیش کی ہے۔
قصے کی ابتداء یوں ہوتی ہے کہ واقعہ بیان کرنے والے جزائری کی حرم مکی میں سدیری سے ملاقات ہوتی ہے جس کے سر پر گہرا زخم ہوتا ہے۔ پوچھنے پر بتاتا ہے کہ یہ کلہاڑی کا زخم ہے۔ مزاحاً پوچھا جاتا ہے کہ تم لکڑہارے ہو کیا؟ تو وہ اصل واقعہ سناتا ہے۔
٭٭٭