ساٹھ کی دہائی کے اَواخِر کی بات ہے ،ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک عظیم الشّان کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا جس میں اس دور کے اکثر نامی گرامی شعرا نے حصہ لیا، جن میں ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، محبوب خزاں وغیرہ شامل تھے
مشاعرے کے آغاز ہی میں ایک نوجوان شاعر کو کلام سُنانے کی دعوت دی گئی ۔ایک چوبیس پچیس سالہ دُبلے پتلے سکول ٹیچر نے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے کاغذ کو بڑی مشکل سے سنبھال کر ایسے لہجے میں غزل سنانا شروع کی جسے کسی طرح بھی ٹکسالی نہیں کہا جا سکتا تھالیکن اشعار کی روانی، غزلیت کی فراوانی اور خیال کی کاٹ ایسی تھی کہ بڑے ناموں کی باری کے منتظر سامعین بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گئے۔جب نوجوان اس شعر پر آیا تو نہ صرف گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے شعرا یک لخت اٹھ بیٹھے بلکہ انھوں نے تمام سامعین کی آواز میں آواز ملا کر وہ داد دی کہ پنڈال کی محاوراتی چھت اُڑ گئی۔ شعر تھا:
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مَیخانے کا پتا
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نَین نشیلے تھے
لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے؟ اس سوال کا جواب غزل کے آخری شعر میں شاعر نے خود ہی دے دیا:
کون غلام محمد قاصر بیچارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
قاصر 1944 میں ڈیرہ اسماعیل خان سے 40 کلومیٹر شمال میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے پہاڑپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وہیں پر سکول ٹیچر بھرتی ہو گئے، تاہم ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور اردو ادب میں ایم اے کیا۔اسی دوران کہیں سے شعر کی چنگاری پُھوٹی جس نے بالآخر پورے ملک میں ان کے نرالے طرزِ ادا کے شعلے بکھیر دیے ،حتّیٰ کہ 1977 میں جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘تسلسل’ شائع ہوا تو اس کے بارے میں ظفر اقبال جیسے لگی لپٹی نہ رکھنے والے شاعر نے لکھا کہ میری شاعری جہاں سے ختم ہوتی ہے، قاصر کی شاعری وہاں سے شروع ہوتی ہے.
قاصر نے ظفر اقبال اور ان کے دور کے بعض دوسرے جدید غزل گو شعرا کی طرح زبان کے ساتھ زیادہ اٹھکیلیاں نہیں کھیلیں، بلکہ لسانی تشکیلات کے باوجود روایت اور کلاسیکی زبان کا دامن تھامے رکھا۔تاہم انھوں نے روایت میں بھی جدّت اور نُدرت کا مظاہرہ کیا ہے۔
میں بدن کو درد کے ملبوس پہناتا رہا
روح تک پھیلی ہوئی ملتی ہے عُریانی مجھے
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے، گھر کا سنّاٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
قاصر نے کئی مقبول ٹیلی ویژن ڈرامے بھی لکھے جن میں ‘بھوت بنگلہ’ اور ‘تلاش’ شامل ہیں۔
لاہور اور کراچی جیسے اردو کے بڑے دبستانوں سے دور بیٹھ کر شعر کی جوت جگانے والے قاصر کے موضوعات اور انھیں برتنے کا انداز سادہ ہے، لیکن اس سادگی میں بھی جذبے کی ایسی صداقت دکھائی دیتی ہے جو قاری کو چونکا دیتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘جب کوئی سچ مچ کا شاعر بات کہنے کا اپنا سلیقہ روایت میں شامل کرتا ہے تو پوری روایت جگمگا اٹھتی ہے۔’
نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے
جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اک شکن بھی کبھی
اگرچہ دل میں ہزاروں ملال رکھتے تھے
قاصر نے اپنے زمانے میں چلنے والی ادبی تحریکوں سے دامن بچائے رکھاانھوں نے ترقی پسندوں کی انگلی تھامی، نہ جدیدیت کے پیروکاروں سے زیادہ سروکار رکھا، لیکن ان کی وسعتِ نظر ایسی ہے جو انسانی نفسیات کی اتھاہ گہرائیوں میں کمال سہولت سے اتر جاتی ہے۔
کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
ہم ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
پہلے اِک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
کیا کروں مَیں، یقیں نہیں آتا
تم تو سچے ہو بات جُھوٹی ہے
قاصر کے ہاں روایت اور جدّت کے امتزاج کی ایک اور مثال یہ ہے کہ وہ اساطیری روایات کو پلٹ کر انھیں نیا رنگ عطا کر دیتے ہیں، اور ہزاروں بار سنی ہوئی بات بھی اچھوتی ہو جاتی ہے۔
بیکار گیا بَن میں؛ سونا میرا، صَدیوں کا
اس شہر میں تو اب تک سِکّہ بھی نہیں بدلا
آگ درکار تھی اور نور اٹھا لائے ہیں
ہم عَبَث طُور اٹھا لائے ہیں
پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی
لاکھ دجلے بنا، فُرات بنا
قاصر کی زندگی میں ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے، ‘تسلسل،’ ‘آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے،’ اور ‘دریائے گمان،’ جب کہ کلیات ‘اک شعر ابھی تک رہتا ہے’ مرنے کے بعد شائع ہوئی۔
یوں تو أحمد ندیم قاسمی، ظفر اقبال، أحمد فراز، قتیل شفائی، شہزاد احمد، صوفی تبسُّم، رئیس امروہوی جیسے کئی مشاہیر نے قاصر کی ستائش کی ہے، لیکن مشہور کالم نگار منّو بھائی نادانستگی میں اپنے ایک کالم میں قاصر کا یہ شعر میر کے نام سے نقل کر گئے:
کروں گا کیا جو محبّت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
کسی بھی نئے یا پرانے شاعر کو اس سے بڑھ کر داد نہیں دی جا سکتی۔غلام محمد قاصر کا انتقال 20 فروری 1999م کو ہوا۔وہ پاکستان کے واحد ادیب ہیں جنھیں مرنے کے بعد تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔