گزشتہ دنوں لمز یونیورسٹی میں طلبا سے مخاطب ہونے کا موقع ملا، یہ طلبا ایک عربی کورس مکمل کرنے کے اختتامی مرحلے میں تھے۔ ابتدائی کلمات کے بعد سوال و جواب کی نشست رہی، سوچا کہ اس گفتگو کو تحریری شکل دے کر اپنے قارئین کی خدمت میں بھی پیش کر دیا جائے۔
عزیزانِ گرامی! خالقِ ارض و سما نے خاتم النبینؐ کوکامل و اکمل پیغام ِہدایت کے ساتھ بھیجا، اور اس ارفع شان کے ساتھ بھیجا کہ اب قیامت تک نہ تو کسی الہامی کتاب کی ضروت رہی’ اور نہ ہی کسی نبی اور رسول کی۔ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے کہ ہم نے قرآن کو عربی میں نازل کیا، لفظ عربی کے ایک معنی تو عربی زبان کے ہیں اور ایک معنی صاف اور واضح زبان کے بھی ہیں، یعنی قرآن کریم کے پیغامِ ہدایت میں کوئی اشتباہ اور اشکال نہیں۔ خالقِ کائنات کی یہ ازلی سنت رہی کہ وہ ایک اَمر سے بہت سے کام لے لیتا ہے۔ مثلاً کان سے سماعت کا کام لیا گیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک کام توازن قائم رکھنے کا بھی لیا جاتا ہے۔ میڈیکل شعبے سے وابستہ لوگ بخوبی واقف ہیں، ناک کے بانسے سے سونگھنے کا کام بھی لیا گیا او ر ہوا کو صاف اور نمدار کرنے کاکام بھی اسے سونپا گیا ہے۔ علیٰ ھٰذاالقیاس! عربی میں قرآن نازل کرنے میں ایک حکمت تو یہ طے پائی کہ ایسی فصیح زبان ہی شایان شان تھی کہ مالک کائنات اس زبان میں اپنے رسولِ مکی و مدنی العربیؐ سے بلا واسطہ مخاطب ہوتا، اور پھر بالواسطہ باقی تمام انسانوں سے۔
ہمیں رسولِ پاک ؐسے اللہ کریم کی جو بات قرآن کے طور پر وصول ہوئی’ وہ ہمارے لیے قرآن ہے،ہمیں جس کلام کے متعلق اللہ کے رسولؐ نے فرما دیا کہ اسے قرآن کے طور پر لے لو’ اسے ہم نے قرآن سمجھا، جس کلام کو اپنی ذات کی جانب منسوب کیا’ وہ ہمارے لیے حدیث ٹھہرا۔
اُس حکیم و علیم ذات نے قرآن بڑی حکمت کے ساتھ نازل کیا ہے۔ عربی زبان میں قرآن کے نازل ہونے میں بڑی حکمتیں ہیں، ایک یہ کہ زبان فصیح ترین ہے، زیادہ سے زیادہ معانی کی ترسیل کم سے کم الفاظ میں ممکن ہے، دوسرا یہ کہ قرآن کے اوّل مخاطب مکہ کے عرب تھے، انہیں اپنی زبان کی فصاحت و بلاغت کا بھرپور ادراک تھا، باقی زبانوں کے ساتھ تقابل میں وہ کسی اور زبان کو عربی کے ہم پلہ نہ پاتے، اس لیے وہ عربی کے علاوہ ہر دوسری زبان بولنے والے کوعجمی(گونگا)بولتے۔ عربی زبان میں قرآن کا نزول اب رہتی دنیا تک عرب و عجم کیلئے ایک جائے امتحان بھی قرار پایا۔ عربی سے اپنی زبان میں ترجمہ دراصل ہمارے تقویٰ کا امتحان بھی ہے۔ عربی زبان میں ایک ہی لفظ کے معانی موقع محل اور سیاق و سباق کے مطابق اتنے زیادہ مختلف ہوتے ہیں کہ بسا اوقات متضاد معانی بھی ایک لفظ میں سمٹ جاتے ہیں۔ مثلاً لفظ ‘‘حرام’’ کے معانی مقدس بھی ہیں اور ممنوع بھی۔ لفظ ‘‘ضالاً’’ کے معانی گمراہ بھی ہے اور تنہا اکیلا، اور تلاش میں سرگرداں بھی پائے گئے۔ محض زیر زبر کے فرق کے ساتھ معانی زیر و زبر ہو جاتے ہیں-85 مِثلُکم کے معانی اور ہیں او مَثَلُکم کے معانی اور -85 میم پر زیر کے ساتھ مثل سے مراد ایسی ایک جیسی چیز ہے جس کی ہیت تو مشابہ ہو لیکن جنس ایک جیسی نہ ہو، جبکہ میم پر زبر کے ساتھ مثل کے معانی عین ہم جنس اشیا ہیں’ جو ایک دوسرے کے مشابہ ہوں۔ مثلاً ایک سونے کی کرسی کی ہو اور دوسری ہم شکل لکڑی کی کرسی ہو’ تو اِس کے متعلق کہیں گے کہ یہ کرسی اُس کی مِثل ہے، جبکہ دونوں کرسیاں لکڑی کی ہوں گی’ تو انہیں کہا جائے گا کہ وہ ایک دوسرے کی مَثَل ہیں۔ اُردو زبان میں ایک نقطہ محرم سے مجرم کر دیتا ہے اور عربی میں محض زیر، زبر اور پیش سے یہ مرحلہ درپیش آسکتا ہے-85 مثلاً قَتَل اگر قُتِل ہوگیا تو قاتل سے مقتول ہو جائے گا، شِفا اور شَفا میں وہی فرق ہے’ جوزہر اور تریاق میں ہے۔ زبر کے ساتھ شفا’گڑھا ہوتا ہے۔معلوم نہیں ہم قدم قدم پر اپنے لیے کیسے گڑھے کھود رہے ہیں۔ صرف زیر اور زبر ہی نہیں بلکہ بے ادب ادائیگی اور تلفظ بھی معنی اور ایمان میں خلل ڈال دیتے ہیں، چنانچہ کہا گیا کہ رسولِ مکرم ؐکو مخاطب کرنے کیلئے ‘‘راعنا’’ (ہماری طرف دیکھئے) نہ کہو، بلکہ ‘‘انظرنا’’ (ہماری طرف نظر کیجیے) کہو، کہ اہل یہود لفظ ‘‘راعنا’’کو اِس تلفظ کے ساتھ کھینچ کر بولتے تھے کہ اَدب کے منافی تھا۔ اِسی طرح لفظ ‘‘اُمّی’’ ہے، اس کے عمومی معنی تو ‘‘ان پڑھ’’ کے ہیں، لیکن قرآن کے باب میں یہ بے تعلق لوگوں کا اَن گھڑ ترجمہ ہے۔‘‘ اُمّی’’ کے اصل معانی سرچشمہ کے ہیں، اس لفظ کا مادہ‘‘اْمّ’’ہے، اور یہ کسی چشمے کے منہ،ماخذ اور منبع کو کہتے ہیں۔ ‘‘اُمّی نبی’’آپؐ کی ایک ارفع ترین شان ہے،آپؐ اُمّ الموجودات ہیں، آپؐ سرچشمہ ہدایت و حیات ہیں۔
لفظ ‘‘حرام’’ کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی امتحان درپیش ہے، ڈکشنری میں اس لفظ کا مطلب ‘‘ممنوع’’ بھی ہے۔ امریکہ میں شائع ہونے والے قرآن کے ایک انگریزی ترجمے میں’جس کے مترجم یہودی ہیں’ انہوں نے بڑے طمطراق سے مسجد حرام کا ترجمہ‘‘ممنوعہ مسجد’’ mosque restrictedلکھا ہے، اور اس کی توجیہہ یہی پیش کی ہے کہ ہم تو وہی ترجمہ لکھیں گے جو ہمیں ڈکشنری سے دستیاب ہو گا۔ ہمارا مسلمانوں کے عقائد اور نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں۔
ہمارے ہاں یہ فکر رواج پا گیا ہے، اوراس فکر کی بھرپور اشاعت بھی کی جاتی ہے کہ جب تک ترجمہ نہیں پڑھو گے، قرآ ن پڑھنے کا کیا فایدہ؟ یہ تو طوطے کی طرح رٹا ہوجاتا ہے، خالی تلاوت کس کام کی’ جب تک یہ معلوم نہ پڑے کہ کہا کیاجارہا ہے؟ اس فکر کی وکالت میں یہ مثالیں دی جاتی ہیں کہ خالی ‘‘ڈسپرین ڈسپرین’’ کہنے سے بخار نہیں اترتا’ اور یہ کہ ڈسپرین کا تعویز باندھ لینے سے شفا نہیں ہوتی،بلکہ ڈسپرین کھانے سے کام بنتا ہے، اور پھر یہ مثال پیش کرنے میں بھی ہمارے شعلہ بیان مقرر پیش پیش ہیں کہ ایک بڑھیا کو اس کا بیٹا شہر سے خط بھیجتا تھا اور وہ اُسے چوم چوم کر آنکھوں سے لگا کر طاق میں رکھ دیا کرتی، اور اسی طرح کسمپرسی میں بڑھیا مر گئی، بعد میں راز کھلا کہ اس خط میں اُس کا بیٹا چیک بھیجتا تھا، اگر وہ عقیدت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے پڑھ لیتی تو غربت میں مرنے سے بچ جاتی -85 یا شاید مرنے ہی سے بچ جاتی!! بہر طور اِس قبیل کی تمام مثالیں کم آگہی کی دلیل ہیں۔ لوگ قرآن کے الفاظ کی تاثیر سے غفلت میں ہیں، وہ اِسے شائد عام مخلوق کا حادث کلام سمجھتے ہیں’جس کا مقصد پیغام رسانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ بندہ خدا! خدا کا کلام حادث نہیں’ قدیم ہے۔ حادث انسان اشیا کودیکھ کر اُن کے نام رکھتا ہے، یعنی انسان سے پہلے اشیا موجود ہیں’ وہ اشیا کی غیر موجودگی میں اُن کے بارے میں جب کلام کرنا چاہتا ہے تو اس مقصد کیلئے لفظ اور آواز ایجاد کرتا ہے۔ اللہ مالک الملک ہر شئے سے پہلے ہے، کوئی چیز اس کیلئے غیر موجود نہیں، وہ کُن سے پہلے کلام کرتا ہے، وہ لفظِ کُن پہلے کہتا ہے اور اشیا بعد میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ عالم اَمر میں لفظ پہلے ہے اور اشیا بعد میں، جبکہ مخلوق کیلئے اشیا پہلے ہیں اور لفظ بعد میں۔ اللہ کے کلام میں ‘‘خالی الفاظ’’ بھی بہت بڑا خزانہ ہیں۔ ڈسپرین کا تعویز باندھنے سے سر درد ختم نہیں ہوتا، لیکن ‘‘بسم اللہ الرحمٰن الرحیم’’ کا تعویز ٹوپی میں رکھنے سے سر دردضرور ختم ہو جاتا ہے،‘‘قلنا یانار کونی برداً وسلاما’’ صرف پڑھنے سے بخار اُتر سکتا ہے، سورۃ رحمٰن کی ‘‘خالی تلاوت’’ سننے سے ڈیپریشن سے لے کر کینسر تک امراض سے شفا حاصل کی جارہی ہے، اور یہ کام پڑھے لکھے کوالیفائیڈ ڈاکٹر لوگ اپنے ہسپتالوں میں بشمول سرکاری ہسپتالوں میں کر رہے ہیں، سورۃ رحمٰن سے شفا تھراپی محض self suggestion یا placebo effect نہیں ہے، بلکہ شماریاتی اعتبار سے قابلِ اعتبار حقیقت statistically significant phenomenonہے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒفرمایا کرتے کہ بے علمی’ بدعلمی سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایک شخص ترجمے کی بابت بے علم ہے’ وہ محض شوق سے تلاوت کیے جارہا ہے، بغیر کسی سمجھ کے -85 تو عزیزانِ من! یقین جانیے اس کے دل کی آنکھ کھلنا شروع ہو جائے گی، او رعین ممکن ہے کچھ عرصہ بعد وہ بغیر کسی اضافی اور نصابی کتب کے’حق اور باطل میں فرق کرنے کا ایک فرقان حاصل کر لے۔روشنی تو اندر ہوتی ہے، بالآخر دریافت تو اسی کی درکار ہے۔
کلامِ الٰہی سے عقیدت اس کی تفہیم میں رکاوٹ نہیں’ بلکہ عقیدت اور محبت تفہیم دین میں معاون ثابت ہوتی ہے’ کیونکہ محبت کے زیرِ اثر عقل کے ساتھ ساتھ قلب کی قوتیں بھی خوب متحرک ہو جاتی ہیں۔ قرآن ایک جامع پیغام ہے، یہ صرف اجسام کی دنیاہی سدھارنے کیلئے نازل نہیں ہوا’ بلکہ دل کی دنیا آباد کرنے کیلئے بھی آیا ہے۔ جسم، روح اور نفس تینوں کیلئے مکمل سامانِ حیات وہدایت ہے -85 قرآن!!
قرآن پڑھنے سے زیادہ سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ حکم باری ہے کہ قرآن کی تلاوت ہو
رہی ہو’ تو خاموشی سے اس کی سماعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے کہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے’ جس طرح لوہے کو زنگ لگتا ہے’ اور اس زنگ کو دور کرنے کا طریقہ قرآن کی تلاوت ہے۔ گویا قرآن کی تلاوت اور سماعت قلوب کو صیقل کرتی ہے۔قلب صیقل ہو جائے تو آئینہ ہے۔ اور آئینے میں ہر چیز عیاں ہو جاتی ہے، کچھ کہنے سننے کی ضرورت کہاں باقی رہ جاتی ہے-85 کسی تشریح اور تفسیر کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ شنیدہ کہ بود مانند ِ دیدہ -85کہا جاتا ہے کہ سنا ہوا دیکھے ہوئے کے برابر نہیں ہو سکتا۔دیکھنے کا تعلق آنکھ سے ہے -85اور آنکھ میں بینائی کا تعلق نور سے!! صرف چشم دید گواہی ہی قابلِ اعتبار ہوتی ہے۔
عزیزانِ من! تحریر شدہ قرآن کریم جسے مصحف کہا جاتا ہے’ تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی تلاوت سے ہم غفلت کا شکار ہیں، حالانکہ روزانہ کی بنیاد پر تلاوت ہماری صبح کا معمول ہونا چاہیے، اس کی تلاوت ہمارے دل کے قفل بھی کھولے گی اور خفتہ روحانیت کو بیدار بھی کرے گی۔ یہ کلام’ کلامِ الٰہی ہے-85 او ر ہم بخوبی جانتے ہیں کہ خالقِ کائنات کا ایک حرفِ کُن پوری کائنات تخلیق کرسکتا ہے۔ کلام ِ الٰہی کا کوئی بھی لفظ ہماری باطنی کائنات کو غیب سے شہود میں لانے کا باعث بن سکتا ہے۔قرآن اَزل سے اَبد تک محیط حقیقت ہے۔ پس’ اپنی تقدیر کے حرفِ کُن تک پہنچنے کیلئے ہمیں باربار قرآن کی تلاوت کرنا ہو گی۔ ہر نماز کے بعد اگرصرف ایک رکوع کی تلاوت کر لی جائے تو ایک دن میں ایک سیپارے کا ربع یا ثلث مکمل ہو جاتا ہے اور یوں تین سے چار دن میں ایک سیپارہ اور تین سے چارماہ میں قرآن کریم کی تلاوت مکمل ہوسکتی ہے۔ قرآن کے سبب نماز کی باقاعدگی بھی میسر آئے گی۔مصحف کے ایک صفحے یا رکوع کی تلاوت میں بس پانچ سے دس منٹ لگتے ہیں۔ تلاوت اس طرح کرنی چاہیے کہ ہماری آواز ہمارے اپنے کان ضرور سن پائیں۔ تلاوت کا صوتی حسن ہمارے باطن کو حسیں تر کر تا ہے۔ قرآنی الفاظ کا صوتی آہنگ sonic rythm ہمارے بکھری ہوئی سوچوں اور وجود کی بے ربط لرزشوں کو یکسوکر تا ہے۔ بیمار روح کوشفایاب کرتا ہے قرآن ظاہر وباطن میں شفا ہے۔ شہد کی طرح قرآن بھی ‘‘شفا ء اللناس’’ ہے۔
سامعین کرام! لفظ شعور کی سواری ہے-85 شعور لفظوں کے پَر لگا کر پرواز کرتا ہے۔ ذرا ایک لمحے کیلئے اس براق صفت لفظ کا تصور کریں جو ہمارے لیے خالقِ کائنات تلاوت کیلئے مقرر فرمادے۔ قرآن کے الفاظ ہمارے شعور کو برق رفتار کرتے ہیں خود کو روشن کرنے کا یہ ایک ایسا خزینہ ہے جس سے ہم غفلت کے اندھیرے میں ہیں
عربی پڑھانے والے کہتے ہیں’ قرآن ِ کریم میں کل الفاظ کی تعداد 77701 ہے، اور یہ الفاظ 1800 مادّوں پر مشتمل ہیں،، یعنی یہی 1800 حروفِ اصلی root words یا مادّے ہیں،جو قرآن میں مختلف اصوات و الفاظ میں دہرائے جا رہے ہیں -85 مثلاً عابد، معبود اور عبادت کا ماخذ ‘‘عبد’’ ہے۔ اگر اصلی ماخذ تک پہنچ جائیں تواس سے نکلنے والے تمام الفاظ کی تفہیم ہو جاتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے قرآن سکھانے والے ایک معلم مشتاق مزاری بتا رہے تھے کہ ان 1800 الفاظ میں سے تقریباً 1200 الفاظ ایسے ہیں جو ہم روز مرہ اُردو زبان میں بھی استعمال کرتے ہیں، باقی چھ سو الفا ظ (یا ماخذات) یاد کرنا قطعاً مشکل کام نہیں، روزانہ صرف دو لفظ بھی یاد کریں تو ایک سال سے کم عرصے میں ہم تمام قرآنی الفاظ و ماخذات سیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں عربی زبان کم از کم اس قدر تو ضرورآنی چاہیے جس قدرہمیں انگریزی آتی ہے۔ انگریزی ہم اس لیے سیکھتے ہیں کہ باہر کی دنیا سے ہمارا رابطہ موثر ہو سکے عربی ہم اس لیے سیکھ لیں کہ اندر کی دنیا سے رابطہ استوار ہو جائے۔ مگرکیا کریں پڑتی ہے اس میں محنت زیادہ ۔کہ اس میں زبان دانی سے پہلے اخلاص اور توجہ درکار ہے اور بھر پور درکار ہے۔ عربی کی بنیادی گرامر سیکھنے کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ چھ ہفتے ہے، اگر کسی کی اُردو اچھی ہو تو یہ دورانیہ چار ہفتوں تک بھی مختصر ہو سکتا ہے۔ ہمیں عربی زبان میں اتنی شدبد ضرور حاصل کر لینی چاہیے کہ تلاوت سنتے ہوئے کم ازکم مفہوم ِ آیت سمجھ میں آجائے۔ آخر ہم اپنے شوق سے فرانسسیسی، جرمن، چینی اور فارسی زبانیں بھی تو سیکھ رہے ہوتے ہیں، ہم اس سے زیادہ ذوق اور شوق سے اپنے پیارے رسولِ عربیﷺ کی زبان کیوں نہ سیکھیں!!
عربی دانی کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کروڑں عربوں سے رابطے میں آجاتے ہیں۔ قرآن فہمی کیلئے عربی سیکھنے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ انسان مسلکی اور گروہی پھندوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ تراجم اور تفاسیر میں جابجا تصرفات ایک سیدھے سادے مسلمان آدمی کے تفہیم دین کے راستے میں رکاوٹ ہیں-85 یہ تصرفات دراصل تجاوازت ہیں۔ شاہراہِ فکرو عمل کو صاف اور کھلا رکھنے کیلئے لازم ہے کہ ہر پڑھا لکھا مسلمان قرآن فہمی کیلئے عربی زبان سیکھنے کی طرف متوجہ ہو۔توجہ حاصل ہوجائے تو باقی کام اَز خود ہوجاتاہے۔بس’ رخ سیدھا ہونے کی دیر ہے۔قرآن فہمی کیلئے زبان دانی سے پہلے وضو کی ضرورت ہے-85 نیت کا وضو-85 جسے تقویٰ بھی کہا جاتا ہے!! ذالک الکتاب لا ریب فیہ ھدی اللمتقین اور لایمسہ’ الاالمطہرون’’ کا تقاضا یہی نیت کا وضوہے۔
با ت ترجمے کی نہیں’ بات معانی کی ہے -85 اور معانی کی تنزیل قلب پر ہوتی ہے۔ قلب جائے محبت ہے، اور ادب محبت کا پہلا قرینہ ہے۔ جب تک دل میں ادب جاگزیں نہ ہو’ ترجمہ قرآن سے تفہیم ِ قرآن ممکن نہیں۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے تھے کہ جب قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن بھی موجود ہے، جس ذات نے قرآن نازل کیا’ وہ ذات بھی موجود -85 اور جس ذاتِ اقدس ؐپر قرآن نازل ہوا’ وہ بھی موجود-85 اب وہ ذات اپنے اُمتی پرجس آیت کی تفہیم جب چاہے آشکار کر دے!!