کیا گھبرو جوان تھا! اور کیا بھر پور’ طوفانی جوانی تھی۔ غلطیوں اور حماقتوں سے لبا لب بھری ہوئی۔ کبھی گھر والوں سے کج بحثی! کبھی دوست احباب سے جھڑپیں’ اقربا سے ناراضگیاں! غصہ ناک پر دھرا ہوا۔ زبان تیز اور نوکیلی جیسے بچھو کا ڈنک! پھر وہ مرحلہ آ گیا کہ بقول منیر نیازی ، شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا عمر ڈھلنے لگی۔ اب مزاج میں ٹھہراؤ آنے لگا۔ دھماکہ خیز طبیعت میں صبر کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ کبھی کبھی ابال آتا مگر جلد بیٹھ جاتا۔ پھر عمر کی وہ سٹیج آئی کہ معاملہ فہمی طبیعت کا خاصہ بن گئی۔ متانت غالب آتی گئی،کسی سے بگاڑ نہیں۔ معاف کرنے کی عادت سی ہو گئی۔ بات بات پر قطع رحمی کے بجائے صلہ رحمی کو شعار بنا لیا۔ ازدواجی زندگی کے سمندر کی سطح پرسکون ہو گئی۔ کوئی لہر اٹھتی بھی’ تو جلد پاؤں پکڑ لیتی۔ اب یہ احساس ہونے لگا کہ کاش عہد شباب میں بھی ایسا ہی ہوتا! بیکار دوسروں سے الجھتے رہے، بدلے لیتے رہے، جیسے کو تیسا دکھاتے رہے۔ مگر کلاک کبھی الٹا نہیں چلتا۔ میر انیس کی رباعی کیا خوب ہے
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا جوجا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی!
پھر ایک معجزہ برپا ہوا۔وہ دوبارہ تیس برس کا کڑیل جوان بن گیا۔ اسے موقع مل گیا کہ عہد شباب کی کج ادائیوں کی تلافی کرے۔ گزشتہ زندگی سے سبق سیکھے۔ غلطیوں کو نہ دہرائے۔ حماقتوں سے بچے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہوا؟ انسان بڑھاپے میں دوبارہ جوان کیسے ہوجاتا ہے؟ یوں کہ اس کا بیٹا اس کے سامنے جوان ہو جاتا ہے۔ سرسبز و شاداب فرزند میں اپنا ماضی دکھائی دیتا ہے۔ وہ پکار اٹھتا ہے جواں تو بیٹا ہوا ہے رکھے خدا سلامت مجھے لگا جیسے میں جوانی بدل رہا ہوں ۔اب وہ چاہتا ہے کہ بیٹا اس کی غلطیوں سے سبق سیکھے! اس کے زندگی بھر کے تجربوں سے فائدہ اٹھائے۔ اس سے راستے کے نشیب و فراز سمجھے! مگر افسوس ! آدم کی اولاد اس نعمت سے ،اس موقع سے کم ہی فائدہ اٹھاتی ہے! وہ لڑکا جو باپ کے سامنے جوان ہوا ہے اورعہد شباب میں سے گزر رہا ہے، اگر یہ سمجھے کہ بوڑھا ہونے کے بعد اسے جوانی دوبارہ ودیعت ہوئی ہے اور جو ٹھوکریں اس نے پہلی جوانی میں کھائی تھیں، اب نہیں کھائے گا تو اسے ایک سحر انگیز کامیابی مل جائے۔ مگر وہ ایسا نہیں سمجھتا!بوڑھے باپ کی شکل میں اسے ایک خزانہ میسر ہے’ تجربوں کا’ راستے کے علم کا’ مگر وہ اسے درخور اعتنا نہیں گردانتا۔ وہ نصیحت کو سنجیدگی سے نہیں سنتا۔ ٹوکنے’ روکنے پر جھلاتا ہے! وارننگ پر چیں برجبیں ہوتا ہے۔ بوڑھے کی بات مجذوب کی بڑ لگتی ہے۔پھر وہ ناکامی کا ایک سرکل پورا کرتا ہے۔ منہ کی کھاتا ہے جو بات باپ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ زمانے کے ہاتھوں سیکھتا ہے اور آخر میں وہی کرتا ہے، جو باپ نے تجویز کیا تھا مگر آہ! باپ مفت میں سکھانا چاہتا تھا،زمانہ مفت میں نہیں سکھاتا۔ زمانہ بھاری قیمت وصول کرتا ہے۔ یہ قیمت انسان کبھی خوش سے کبھی بددلی سے ادا کرتا ہے! تب احساس ہوتا ہے کہ یہی کچھ تو بلا قیمت’ مفت میں مل رہا تھا! ساحرؔ نے کہا تھا دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹارہا ہوں۔
تجربات و حوادث کی شکل میں جو کچھ باپ لوٹانا چاہتاہے’ بیٹا قبول نہیں کرتا! شاید اس لئے کہ یہ سیکنڈ ہینڈ مال ہے۔ بیٹا یہی کچھ’ فرسٹ ہینڈ’ نیا نکور’ لینا چاہتا ہے! وہ سبق حاصل کرتا ہے مگر اپنے تجربوں سے۔ کسی دوسرے کے تجربے سے نہیں! آخر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ بیٹا باپ سے پوچھے۔ ‘‘میں ان دنوں جس صورت حال سے دوچارہوں’ کیا آپ کبھی دوچار ہوئے تھے؟ اگر ہوئے تھے تو آپ کا طرز عمل کیا تھا؟ آپ نے اس مسئلے کو کیسے حل کیا تھا؟’’ مگر ایسا نہیں ہوتا! وہ باپ سے ڈسکس نہیں کرتا۔ شیئر نہیں کرتا۔ اپنا دکھ نہیں بانٹتا۔ باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ فرزند کن مراحل سے گزر رہا ہے۔وہ اسے مسئلے کا حل بتانا چاہتا ہے مگر جوان سنتا نہیں! سن لے تو سنجیدگی سے اس پر توجہ نہیں دیتا! زمانوں سے یہی ہورہا ہے! ہر نئی نسل پرانی نسل کے تجربوں سے بے نیاز ہے! ہر پرانی نسل شکوہ کناں ہے کہ ہماری بات کوئی نہیں سنتا۔ ہم خزانہ ہیں! ہم نے دنیا کا اتار چڑھاؤ دیکھا ہے! بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔ ہم سے کوئی استفادہ تو کرے۔ مگر ہر پرانی نسل’ نئی نسل کو متوجہ کرنے میں ناکام رہتی ہے! کیا اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی سرشت اس شے کی قدر نہیں کرتی جو مفت میں مل رہی ہو؟ باپ کی مدد مفت میں مل رہی ہوتی ہے اس لئے اس کی قدر نہیں ہوتی! انسان کو پکا پکایا’ تیار من و سلویٰ بھی مفت میں مل رہا ہو تو قبول نہیں کرتا۔اپنی ریاضت سے مسور اور پیاز اگا کر کھانا چاہتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے کسی بزرگ سے خلق خدا استفادہ کر رہی ہوتی ہے۔ اطراف و اکناف سے لوگ آتے ہیں، علم کی پیاس بجھانے’ یا علاج کرانے یا دعا کرانے۔ مگر بزرگ کے اپنے قریبی اہل و عیال کو قدر نہیں ہوتی۔ وہ بے نیاز رہتے ہیں! پھر جب وہ بزرگ دنیا (بقیہ ص ۲۵ پر )
سے پردہ کر جاتا ہے تو پس ماندگان حیران ہوتے ہیں کہ خلق خدا قریبی اعزہ سے زیادہ رو رہی ہے! لوگ آ کر ان کی محاسن بتاتے ہیں۔تب اہل و عیال کو احساس ہوتا ہے کہ جانے والا تو خزانہ تھا جس سے دوسرے لوگوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا مگر چراغ تلے اندھیرا رہا۔ اس کے اپنے بیٹے پوتے بھتیجے بھانجے’ قریبی رشتہ دار سب محروم رہے۔
ایک عالم کے بارے میں سنا کہ اپنے گاؤں میں بیٹھ کر ساٹھ سال علوم پڑھائے۔ آسام سے کابل تک کے لوگ آ کر مستفید ہوئے مگر ساٹھ سال میں ان کے اپنے گاؤں کے کسی ایک شخص نے بھی زانوئے تلمذ تہہ نہ کیا! انسان کی کایا کلپ’ اس کے باپ کے مرنے کے بعد ہوتی ہے۔ اکثر کی شکل اور آواز’ باپ کی شکل اور آواز کی طرح ہو جاتی ہیں۔ باپ کی خوشبو ان خوشبوؤں میں سے ایک ہے جو کبھی بھی تحلیل نہیں ہوتیں۔ ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔ مثلاً گارے کی خوشبو’ جس میں بھوسہ ملایا گیا ہو پسینے کی خوشبو جو میلی قمیض کو پیٹھ کے ساتھ چپکا دے۔ بکری کے میمنے کی خوشبو’ اسے بوسہ دیتے وقت’ کُوزے کی’ یا مٹی کے پیالے کی’ جب وہ کورا ہو! اور باپ کی خوشبو۔ جدا ہونے کے بعد! ایک نئے جہان کا دروازہ وا ہوتا ہے باپ کے مر جانے کے بعد!! اس نئے جہان میں کڑکتی دھوپ ہوتی ہے۔ہر شخص کوئی نہ کوئی اپنا پیچ درمیان میں ڈالتا ہے۔
باپ واحد شخص ہوتا ہے جو دنیا کے خم و پیچ۔ زندگی کرنے کے طریقے’ کاروبار کے رموز
’ ملازمت عزت و کامرانی سے کرنے کے گُر۔ ازدواجی الجھنوں کے حل بغیر کسی ذاتی غرض کے۔ بغیر کسی ملاوٹ کے۔ بتاتا ہے! باپ اس کرہ ارض پر وہ واحد شخص ہے جو چاہتا ہے کہ اس کا فرزند’ اس سے بھی آگے نکلے۔ باقی سب کے دل میں کامیابی دیکھ کر گرہ ضرور پڑتی ہے! باپ کے مرنے کے بعد اس کی ہدایات یاد آتی ہیں اس کی نصیحتیں پسند آنے لگتی ہیں۔ پھر بیٹا اس کے تجربات ڈھونڈتا ہے۔کبھی اس کی تحریریں دیکھتا ہے’ کبھی دوسروں سے پوچھتا ہے مگر وہ چشمہ تو خشک ہو چکا ہے جو گھر میں بہہ رہا تھا۔ وہ چراغ گل ہو چکا جو روشنی’ کسی معاوضے کے بغیر’ بانٹ رہا تھا! پھر تاسّف غالب آتا ہے اور بیٹا پکار اٹھتا ہے عصا دردست ہوں’ اُس دن سے بینائی نہیں ہے ستارہ آنکھ میں آیا تھا’ میں نے کھو دیا تھا۔