متفرقات
بلبل كا بچہ
نواز كمال
پچھلے برساتی موسم میں میں نے صحن میں بکائن کا پودا لگایا تھا. جو اب خوب صورت درخت کا روپ دھار چکا ہے. بانکا، سجیلا اور سرسبز درخت.بقر عید سے قبل صحن میں بیٹھا تھا کہ بلبلوں کا جوڑا درخت کے ارد گرد منڈلاتا دکھائی دیا. کھوج لگائی تو علم ہوا کہ ننھے درخت کی گود میں ننھا سا گھونسلا تشکیل پاچکا ہے. چند دن بعد پتہ چلا کہ تین عدد انڈے بھی موجود ہیں-پہلے پہل بلبلیں لاپروا سی رہتیں. درخت کے نیچے روز دانے ڈالے جاتے. پانی کا کٹورا دھرا جاتا. چڑیا، فاختائیں اور کوے اس طعام گاہ پہ اترتے اور اپنے نام کا لکھا رزق کھا پی کر پرواز پکڑتے. اس آوت جاوت پہ بلبلیں کچھ خاص ردعمل نہ دیتیں. کوئی بندہ درخت کے پاس جاتا تو درخت چھوڑ کر اڑان بھرتیں.جیسے جیسے بچے نکلنے کے دن قریب آتے گئے، بلبلیں چوکنا ہوتی گئیں. ان کی گھونسلے سے دوری کا دورانیہ کم سے کم ہوتا گیا. اڑتیں. دانہ چگتیں. واپس پلٹ آتیں.
چند روز بعد دیکھا کہ ننھے درخت کے محیط میں بڑی رونق لگی ہے. پرمسرت چہکار سے گرد و پیش میں خوشیاں رقص کر رہی ہیں. پتہ چلا کہ گھونسلے میں دو عدد نئے مہمانوں کی آمد ہوئی ہے. جی چاہا کہ پرتپاک مبارکباد سے خیر مقدم کیا جائے مگر زبان کی نامانوسیت آڑے آگئی-اب تو خوشی کے مارے بلبلوں کی ٹورٹار ہی بدل چکی تھی. صبح سے شام تک پیہم خوشی سے لبریز چہکار صحن میں گونجتی رہتی. البتہ خوشی کی رتوں میں بھی بلبلیں لاپرواہی کا شکار نہیں ہوئی تھیں. بلکہ ان کی احتیاط پہ مبنی پالیسی مزید سخت ہوچکی تھی. اب کوئی چڑیا فاختہ بھی ننھے درخت کے نیچے بکھرے دانہ پانی کے لئے اترنے کی جرات نہیں کرسکتی تھی. کوئی کوا بھی صحن کی حدودمیں داخل نہیں ہوسکتا تھا. ہمارا صحن دیگر جملہ اقسام کے پرندوں کے لئے نو فلائی زون بن چکا تھا.بلبلیں ہر وقت درخت کے آس پاس ہی رہنے لگیں. اپنے یا بچوں کے لئے خوراک کی ضرورت پڑتی تو ایک چلی جاتی اور دوسری مسلسل پہرے پہ اٹینشن موجود رہتی. جانے والی بلبل لمحہ بھی ضائع کیے بغیر کیڑا مکوڑا چونچ میں دبائے پلٹ آتی. سارا کنبہ گھونسلے میں اکٹھا ہوتا اور ظہرانے یا عشائیے سے لطف اندوز ہوتا-بلبلوں کا جوڑا اس عمدگی سے پہرہ دیتا کہ میں اش اش کر اٹھتا. ایک اگر درخت کی مغربی طرف میں موجود بجلی کی تاروں پہ بیٹھی پہرہ دے رہی ہوتی تو دوسری مشرقی دیوار پہ مورچہ زن ہوتی. کبھی کبھار دونوں میں سے ایک پڑوس کے گھر میں موجود شہتوت کے بلند و بالا درخت کی سب سے اونچی شاخ پہ بیٹھ کر گرد و پیش کا جائزہ لے رہی ہوتی.ایک بار میں خود بنفسِ نفیس درخت کے قریب چلا گیا. دراصل درخت کا تفصیلی معائنہ کرنا چاہ رہا تھا. اچانک کانوں میں بلبل کی بےچین چوں چوں پڑی. پلٹ کر دیکھا تو قریبی دیوار پہ بیٹھی بڑی بےچینی سے پھدک رہی تھی . میں اس کی بےچینی خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھا. یکایک میرے سر کے قریب سے ایک گولا سا گزرا. چونک کر دیکھا تو وہی بلبل تھی، جو پنجے جھاڑ کر مجھ پہ حملہ آور تھی. اس کے ننھے سے دل کو مزید متوحش کرنا مناسب نہ سمجھا اور ارادہ ملتوی کرکے واپس پلٹ آیا.قریب قریب دو ہفتے ہمارا صحن پرلطف تفریح گاہ بنا رہا. بلبلوں کی آنیاں جانیاں لگی رہیں. ہم بیٹھے ان کی ذہانت کا لطف لیتے رہتے. دیگر پرندے صحن میں اگے درختوں کی جانب ترسی نگاہوں سے دیکھتے رہتے، مگر نو فلائی زون میں پر مارنے کی جرات نہ کرسکتے.تقریباً پندرہ دن بعد ایک سہ پہر کو دونوں بچے ڈرتے، ڈولتے اور سنبھلتے گھونسلے سے صحن میں کود گئے. ماں باپ ہمراہ تھے. بہ دقت تمام قریبی درخت پہ چڑھے. اس کے بعد دو سے چار ہونے والا یہ کنبہ کہاں گیا، کچھ پتہ نہ چل سکا. گھونسلا ان کی راہ تکتا رہا مگر بلبلوں نے پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا. شاید پرندوں کی دنیا کی یہی ریت ہوگی. گھونسلا بنایا. انڈے دیے. بچے نکلے. انہیں پالا پوسا. بڑا کیا اور جنگل کی طرف نکل گئے.شاید ساری بلبلیں قیوم نظر مرحوم کی بلبل جیسی ہوتی ہیں. انہوں نے کہا تھا :
میں نے اڑایا--واپس نہ آیا--بلبل کا بچہ
ہماری بلبلیں بھی اڑ گئیں. واپس نہ آنے کے لئے.