بيٹی اور امی

مصنف : نير تاباں

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اكتوبر 2025

متفرقات

بيٹی اور امی

نير تاباں

دھیرے دھیرے ہم بیٹیاں امی جیسی ہونے لگتی ہیں۔ انہی کی طرح چلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات کرنا۔ بچوں سے پیار کے وہی طریقے، ڈانٹ کا وہی انداز۔ ویسی ہی کوکنگ۔ وہی گھر کے کاموں میں رفتار بتدریج کم ہو جانا۔ وہ جو امی کا جوتا بہت بارپہن کر دیکھا تھا، بالآخر پورا آ جاتا ہے۔ ان کے کپڑے ہمیشہ کھلے، بڑے ہوا کرتے تھے، کسی دن اچانک پورے آنے لگتے ہیں۔ اب کی بار تو سہیلیوں سے ملنے جاتے، میں امی ہی کا جوڑا پہن گئی۔ گود میں رکھے بھرے بھرے اپنے ہاتھوں پر نظر پڑے تو یوں گمان ہوتا ہے امی کے ہاتھ ہیں۔ پاؤں بھی امی کے پاؤں جیسے ہونے لگے ہیں۔ تھوڑا وزن بڑھتا جاتا ہے، تھوڑی سی اور میں امی جیسی نرم نرم سی ہوتی جاتی ہوں۔ جب گلاسز لگا کر پہلی بار آئینہ دیکھا، مجھے لمحہ بھر کو امی دکھائی دی تھیں۔ہم اوپر سے لے کر اندر تک امی جیسی بن جاتی ہیں۔

ہم امی بن جاتی ہیں۔۔جب ہم چھوٹے تھے، امی تب بھی امی تھیں نا۔ کتنی بار ہم چپکے سے ان کی کسی بات پر دل مسوس کر رہ جاتے۔ کہیں جانے کی اجازت نہ ملی، نمبر کم آنے پر ڈانٹ پڑ گئی۔ گھڑی کی سوئی گھومی اور ہم خود امی بنے تو خود کو انہی چیزوں پر بچے کو گھورتا پایا جن پر کبھی امی ہمیں گھورا کرتی تھیں۔ اب کچھ سمجھ آنے لگی ہے کہ امی کی سٹرگلز کیا تھیں۔ بہت کچھ ریلیٹ ایبل ہو گیاہے۔ ان کی پریشانیاں، ان کے خدشات، ان کی الجھنیں۔ خود امی بننے کے بعد سمجھ آتی ہیں انکی قربانیاں، ان کی کوششیں، ان کی محنت۔۔ شکر کہ تمام سال امی موجود رہیں۔ ہم پر نظر رکھتی، ہمارا احساس کرتی، ہماری غلطی پر ہمیں سرزنش کرتی۔ ہمیں کھرا کھوٹا سمجھاتی امی۔۔اور یونہی ایک دن آئینے کے سامنے سے گزرتے خود پر نگاہ پڑتی ہے تو ارے۔۔ امی؟ آئینے میں امی کے عکس کی جھلک ہے۔ ہماری پوری شخصیت میں امی جھلکتی ہیں۔ ہم بس کچھ مہینے امی کے اندر رہے تھے، لیکن امی تمام عمر ہمارے اندر رہتی ہیں۔ اور یونہی اچانک کہیں سے جھانکا کرتی ہیں، ہماری آنکھوں میں، باتوں میں، کاموں میں -