درندے جیسے شیر، بھیڑیا وغیرہ انسان کو چیرپھاڑ سکتے ہیں۔ان کی بڑی جسامت دیکھیے، عام طور پر جنگل میں پائے جاتے ہیں۔اگر کبھی چڑیا گھربھی جانا ہو تو اِن کے پنجرے کافی زیادہ حفاظتی تدابیر کے ساتھ بنائے جاتے ہیں تاکہ دیکھنے والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ہر انسان اِن سے خطرہ سمجھتا ہے، بچوں کو دُور رکھتا ہے ۔ان کے برعکس جراثیم جیسے وائرس، بیکٹیریا وغیرہ ہمیں نظر نہیں آتے، کچھ تو عام خورد بین سے نظر آجاتے ہیں اور کچھ کے لیے طاقتور خوردبین چاہیے۔یہ انسانوں کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں اور بیماریاں بھی بسا اوقات بہت خطرناک۔کالا یرقان Hepatitis C، ٹی بی، ہیضہ Cholera، طاعون Plague وغیرہ۔ہیضہ، طاعون کی وبا پہلے زمانے میں پھیلا کرتی تھی تو بستیاں اجاڑ دیا کرتی تھی۔
اب بظاہر دیکھیے کہ شیر، بھیڑیا، ریچھ کتنے بڑے وجود رکھتے ہیں، کتنے خطرناک ہیں لیکن ایک وقت میں ایک انسان ہی مار سکتے ہیں، بہت ہوا تو دو مار لیے۔یہ اتفاق بھی کم کم ہوا کرتا ہے، کبھی جنگل میں کوئی بھولا بھٹکا انسان چلا گیا یا کبھی کسی جانور نے کسی بستی کا رُخ کرلیا لیکن امکان بہت کم۔ سانپ بھی ایک وقت میں ایک انسان ہی مارسکتا ہے۔عام طور پر ان جانوروں کے ہاتھوں موت بھی فوری واقع ہوجاتی ہے یا ایک دو دن کے اندر اندر۔دوسری طرف جراثیم ایسا وجود لیے ہیں کہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد نے اُنہیں دیکھا تک نہیں
لیکن بیماریاں کیسی جان لیوا ہیں۔اور جان لیوا بھی ایسی کہ انسان تڑپ تڑپ کر مرتا ہے ، آہستہ آہستہ مرتا ہے، ایک دم نہیں مرا کرتا۔
یہ جراثیم کہاں پائے جاتے ہیں؟پانی میں، خوراک میں، گندگی میں۔یعنی ان سے بچنے کی تدابیر آسان ہیں؛ صاف پانی پینا، خوراک میں احتیاط، گندگی سے بچنا۔اور بعض اوقات ایسے مریضوں سے بھی کسی درجہ احتیاط کرنا جو ان امراض میں کافی آگے جاچکے۔
اسی طرح گناہ دو قسم کے ہیں: کبیرہ اور صغیرہ۔کبیرہ گناہ ایسے ہیں جن کا کُھلا ہونا سب پر واضح ہے جیسے شرک، زنا، شراب نوشی، ماں باپ کی نافرمانی، غیبت وغیرہ وغیرہ۔ان سے بچنا آسان ہے کہ وجود اتنا بڑا ہے۔زیادہ تر ایسے گناہوں کے لیے عموما خاص ماحول میں جانا پڑتا ہے۔ان کی مثال درندوں کی سی ہے کہ وجود واضح ہے، اِن سے ہلاکت کُھلی ہوئی ہے اور اِن کا شکار ہونے کے لیے جو ماحول ہے وہ بھی درندوں کی آماجگاہ یعنی جنگل کی طرح واضح ہے۔
دوسرے صغیرہ؛ بہت چھوٹا وجود، بعض اوقات تو ہمیں معلوم بھی نہیں ہوپاتا، بعض اوقات ہم بہت چھوٹا سمجھتے ہوئے کر گزرتے ہیں۔اگر ہم سوچیں کہ زیادہ تر کبیرہ گناہوں کا شکار ہوتے ہیں یا صغیرہ گناہوں کا تو جواب بالکل واضح ہے کہ صغیرہ گناہوں کا۔صغیرہ گناہوں کی مثال بظاہر جراثیموں سے دی جاسکتی ہے جو بہت چھوٹا وجود رکھتے ہیں۔لیکن ان میں ملوث ہونا آسان ہے کیونکہ ان کا تعلق ہمارے روزمرہ کے معمولات سے ہے، ہمارے اُس ماحول سے ہے جو ہم اپنی روز کی جگہوں میں خود بناتے ہیں چاہے گھر ہو یا کوئی اور جگہ۔ایک بات اور کہ ہم اِنہیں اِتنا مہلک نہیں سمجھتے۔صغیرہ گناہوں کا ارتکاب کیے جانے کی مثال جراثیموں سے لگنے والی بیماریوں کی ہے جو اندر اندر بڑھتی رہتی ہیں اور آخر کار جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں۔ان گناہوں میں ملوث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے روزمرہ کے معمولات اور اپنے اردگرد بنایا ہوا ماحول بدلنے کی ضرورت ہے۔چھوٹی چھوٹی عادتیں بدلنے کی ضرورت ہے، تنہائی کے چھوٹے چھوٹے ایسے سوراخوں کو بند کرنے کی ضرورت ہے جو ان گناہوں کا باعث بن رہے ہیں۔مخلوق کے خوف کے بجائے خالق کے خوف کو غالب کرنے کی ضرورت ہے۔یہ نہیں کہ ماں باپ یا کوئی اور جاننے والا دیکھ رہا ہے تو بچ گئے، کوئی نہیں دیکھ رہا یا اردگرد اجنبی ہیں تو گناہ کرلیا۔خدا کا خوف راسخ ہوگا تو اجنبی کا ہونا بھی گناہ کے لیے محفوظ ماحول کا باعث نہیں بن سکے گا۔
صغیرہ گناہوں کو ایسا بے اثر نہ سمجھیے، جسم میں زیادہ عرصہ رہیں یعنی توبہ نہ کی ہو یا بار بار
کررہے ہیں تو یہ کسی وقت ایمانی صحت کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
عادات بدلیے، اپنے بنائے ہوئے ماحول میں تبدیلی لائیے اور جہاں تنہائی خطرے کا باعث ہو وہاں تنہائی چھوڑ دیجیے۔
سے پردہ کر جاتا ہے تو پس ماندگان حیران ہوتے ہیں کہ خلق خدا قریبی اعزہ سے زیادہ رو رہی ہے! لوگ آ کر ان کی محاسن بتاتے ہیں۔تب اہل و عیال کو احساس ہوتا ہے کہ جانے والا تو خزانہ تھا جس سے دوسرے لوگوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا مگر چراغ تلے اندھیرا رہا۔ اس کے اپنے بیٹے پوتے بھتیجے بھانجے’ قریبی رشتہ دار سب محروم رہے۔
ایک عالم کے بارے میں سنا کہ اپنے گاؤں میں بیٹھ کر ساٹھ سال علوم پڑھائے۔ آسام سے کابل تک کے لوگ آ کر مستفید ہوئے مگر ساٹھ سال میں ان کے اپنے گاؤں کے کسی ایک شخص نے بھی زانوئے تلمذ تہہ نہ کیا! انسان کی کایا کلپ’ اس کے باپ کے مرنے کے بعد ہوتی ہے۔ اکثر کی شکل اور آواز’ باپ کی شکل اور آواز کی طرح ہو جاتی ہیں۔ باپ کی خوشبو ان خوشبوؤں میں سے ایک ہے جو کبھی بھی تحلیل نہیں ہوتیں۔ ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔ مثلاً گارے کی خوشبو’ جس میں بھوسہ ملایا گیا ہو پسینے کی خوشبو جو میلی قمیض کو پیٹھ کے ساتھ چپکا دے۔ بکری کے میمنے کی خوشبو’ اسے بوسہ دیتے وقت’ کُوزے کی’ یا مٹی کے پیالے کی’ جب وہ کورا ہو! اور باپ کی خوشبو۔ جدا ہونے کے بعد! ایک نئے جہان کا دروازہ وا ہوتا ہے باپ کے مر جانے کے بعد!! اس نئے جہان میں کڑکتی دھوپ ہوتی ہے۔ہر شخص کوئی نہ کوئی اپنا پیچ درمیان میں ڈالتا ہے۔
باپ واحد شخص ہوتا ہے جو دنیا کے خم و پیچ۔ زندگی کرنے کے طریقے’ کاروبار کے رموز
’ ملازمت عزت و کامرانی سے کرنے کے گُر۔ ازدواجی الجھنوں کے حل بغیر کسی ذاتی غرض کے۔ بغیر کسی ملاوٹ کے۔ بتاتا ہے! باپ اس کرہ ارض پر وہ واحد شخص ہے جو چاہتا ہے کہ اس کا فرزند’ اس سے بھی آگے نکلے۔ باقی سب کے دل میں کامیابی دیکھ کر گرہ ضرور پڑتی ہے! باپ کے مرنے کے بعد اس کی ہدایات یاد آتی ہیں اس کی نصیحتیں پسند آنے لگتی ہیں۔ پھر بیٹا اس کے تجربات ڈھونڈتا ہے۔کبھی اس کی تحریریں دیکھتا ہے’ کبھی دوسروں سے پوچھتا ہے مگر وہ چشمہ تو خشک ہو چکا ہے جو گھر میں بہہ رہا تھا۔ وہ چراغ گل ہو چکا جو روشنی’ کسی معاوضے کے بغیر’ بانٹ رہا تھا! پھر تاسّف غالب آتا ہے اور بیٹا پکار اٹھتا ہے عصا دردست ہوں’ اُس دن سے بینائی نہیں ہے ستارہ آنکھ میں آیا تھا’ میں نے کھو دیا تھا۔