بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دو عالم
اِس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دو عالم
جس پر ترے پیغام کی گرہیں نہیں کھلتیں
اُس پر کہاں کُھل پاتے ہیں اسرارِ دو عالم
آکر یہاں ملتے ہیں چراغ اور ستارہ
لگتا ہے اسی غار میں دربارِ دو عالم
وہ آنکھ بنی زاویہ محورِ تخلیق
وہ زلف ہوئی حلقہ پرکارِ دو عالم
سرکار کی آمد پہ کھلا منظرِ ہستی
آئینہ ہوئے یوں در و دیوارِ دو عالم
یہ خاک اُسی نور سے مل کر ہوئی روشن
یوں شکل بنی شکلِ طرح دارِ دو عالم
آہستہ روی پر تری قربان سبک پا
اے راہبرِ گردشِ سیّارِ دو عالم
توقیر بڑھائی گئی افلاک و زمیں کی
پہنائی گئی آپ کو دستارِ دو عالم
ہر نقش ہے اِس پیکرِ ذی شاں کا مکمل
آزر یہی شہکار ہے شہکارِ دو عالم