عید الاضحیٰ کی قربانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں ایک سنت کو طور پر اپنے ماننے والوں میں جاری فرمایا ہے۔ طبقہ صحابہ سے آج تک یہ مسلمانوں کے ہاں اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ثابت ہے تاہم اِس عبادت سے متعلق بعض مسائل علما وفقہا کے ما بین قرنِ اول سے مختلف فیہ رہے ہیں۔اُنھی میں ایک مسئلہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لیے ذی الحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے جسم کے کسی بھی حصے کے بال کاٹنے اور ناخن تراشنے کی ممانعت سے متعلق ہے۔بعض فقہا اِن دونوں افعال کو حرام قرار دیتے ہیں۔دوسری رائے کے مطابق یہ حرام نہیں، بلکہ مکروہ ہیں۔ جب کہ تیسرے نقطہ نظر کے مطابق یہ حکم دین میں ثابت نہیں ہے۔
حکم کا ماخذ
اِس باب میں ایک بنیادی بات جس سے ہر صاحب علم واقف ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی علمی روایت میں اِس حکم کا تنہا ماخذ ومصدر ایک خبر واحد ہے جو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور حدیث کے بعض مصادر میں نقل ہوئی ہے۔ اِس کے سوا کوئی چیز اِس مسئلے میں اصل مستدل کے طور پر کبھی پیش نہیں کی گئی ہے۔
حدیث ام سلمہ کے متون پر ایک نظر
اِس باب کی روایت کے جومتون بالعموم حدیث کے مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
۱۔عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، تَرْفَعُہُ، قَالَ : -ABإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَہُ أُضْحِیَّۃٌ یُرِیدُ أَنْ یُضَحِّیَ، فَلَا یَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا یَقْلِمَنَّ ظُفُرًا-BB.
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' عشرہ ذی الحجہ جب شروع ہوجائے تو جس شخص کے پاس قربانی کا جانور موجود ہو،جس کی قربانی کرنے کا وہ ارادہ رکھتاہے تو وہ (قربانی کرنے تک) ہرگز اپنے جسم کے کوئی بال اتارے، نہ کوئی ناخن تراشے''۔
۲۔عَنْ سَعِیدِ بْنَ الْمُسَیِّبِ، یَقُولُ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ، زَوْجَ النَّبِیِّ تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ : -ABمَنْ کَانَ لَہُ ذِبْحٌ یَذْبَحُہُ فَإِذَا أُہِلَّ ہِلَالُ ذِی الْحِجَّۃِ، فَلَا یَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہِ، وَلَا مِنْ أَظْفَارِہِ شَیْئًا حَتَّی یُضَحِّیَ-BB.
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص کے پاس قربانی کے لئے کوئی ذبیحہ موجود ہوتو ذی الحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد جب تک وہ قربانی نہ کرلے، اپنے بال اور ناخن ہرگز نہ کاٹے ''۔
۳۔عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ قَالَ: -ABإِذَا رَأَیْتُمْ ہِلَالَ ذِی الْحِجَّۃِ، وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یُضَحِّیَ، فَلْیُمْسِکْ عَنْ شَعْرِہِ وَأَظْفَارِہِ-BB.
سعید بن مسیب ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم جب ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کاا رادہ رکھتا ہو تو اُسے چاہیے کہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے سے باز رہے''۔
ظاہر ِالفاظ کی دلالت
حدیث کے مندرجہ بالا متون پر تدبر کی نگاہ ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ نہی وممانعت میں تاکید کا جو اسلوب اِن میں روایت ہوا ہے، وہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے حرمت پر دلالت کرتا ہے، یعنی قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص کے لیے یہ دونوں کام عشرہ ذی الحجہ میں حرام ہیں، جب تک کہ وہ قربانی نہ کرلے۔ اِسی طرح بعض طرق میں مؤکد امر کا جو اسلوب نقل ہوا ہے، وہ اِس حکم کے وجوب کا تقاضا کرتا ہے، یعنی اِس عرصے میں اِن دونوں پابندیوں کا خیال رکھنا قربانی کرنے والے پر واجب ہے۔
امر ونہی کے اِن اسالیب کی دلالت ہم قرآن مجید کے بعض احکام سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں، جن میں کم وبیش یہی اسلوب کلام پایا جاتا ہے اور جن سے اصحاب علم حرمت یا وجوب ہی کا حکم اخذ کرتے ہیں۔ اِس حوالے سے دو مثالیں پیش خدمت ہیں:
۱۔ ‘فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْی’ ‘‘تو جو کوئی حج (کے سفر) سے یہ فائدہ اُٹھائے کہ اُس کا زمانہ آنے تک عمرہ بھی کر لے تو اُسے قربانی کرنا ہوگی’’۔امر کے اِس اسلوب سے ہدی تمتع کے وجوب کا حکم اخذ کیا جاتا ہے (البقرۃ: ۶۹۱)۔
۲۔‘فَمَنْ فَرَضَ فِیہِنَّ الْحَجَّ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلا جِدَالَ فِی الْحَجِّ’ ‘‘سو اِن (مہینوں) میں جو شخص بھی (احرام باندھ کر) حج کا رادہ کرلے، اُسے پھر حج کے اِس زمانے میں نہ کوئی شہوت کی بات کرنی ہے، نہ خدا کی نافرمانی کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات اُس سے سر زد ہونی چاہیے’’(البقرۃ: 197)۔
نہی کے اِس اسلوب سے اہل علم نے حالت ِ احرام میں اِن کاموں کی حرمت ہی کا حکم اخذ کیاہے۔چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ زبان کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو زیر بحث روایت کا اسلوب اور ظاہرِالفاظ حرمت پر یا وجوب پر دلالت کر رہا ہے۔ مراجع حدیث میں منقول اِس روایت کے تمام طرق کو اگر جمع کر کے بھی دیکھا جائے تو یہ بات پورے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ اِس کے کسی طریق میں ایسا کوئی اسلوب بیان نہیں ہوا ہے، جو زبان کے لحاظ سے کراہت یا استحباب کا متقاضی ہو، جیسا کہ مثال کے طور پر عقیقے کی قربانی سے متعلق بعض روایتوں میں یہ اسلوب کلام روایت ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: ‘-ABمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَنْسُکَ عَنْ وَلَدِہِ فَلْیَفْعَلْ...-BB’ ‘‘تم میں سے جو شخص بھی اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا پسند کرے تو کرلے۔۔۔’’]
حکم کی حکمت اور علما کی آرا کا جائزہ
حدیث ام سلمہ میں قربانی کرنے والے کے لیے قربانی سے پہلے جو پابندیاں بیان ہوئی ہیں، اِن کی حکمت کیا ہے؟ اِس سوال کا جواب خود روایت کے کسی طریق میں بیان نہیں ہوا ہے۔ تاہم جو علما اِس حکم کو دین میں ثابت مانتے ہیں، اُن میں سے بعض نے اِس کی حکمت کی تعیین میں کلام کیا ہے، جو در حقیقت اُن کے ذاتی فہم واجتہاد پر مبنی ہے۔ اِس حوالے سے بعض اہل علم کی آرا ہم قارئین کے لیے ذیل میں پیش کرتے ہیں۔
ا۔ بعض علما کی رائے میں یہ حکم مُحرم کے
ساتھ مشابہت کے لیے دیا گیا ہے ۔اِس پر قرون اولیٰ کے بعض ائمہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ احرام کی پابندیوں میں صرف یہ دو پابندیاں قربانی کرنے والے پرکیوں ہوں گی، جب کہ محرم پر تو بہت سی پابندیاں ہوتی ہیں؟ باقی پابندیاں توقربانی کا ارادہ رکھنے والے پر نہیں ہیں۔ اِس طرح تو یہ محرم کے ساتھ ادھوری مشابہت ہوئی۔مزید یہ کہ احرام کی پابندیوں میں سب سے سخت پابندی زن وشو کے تعلق کی ہے،وہ بھی قربانی کرنے والے عائد نہیں ہوتی تو یہ محرم کے ساتھ کیسی مشابہت ہوئی؟
۲۔بعض شافعیہ کا کہنا ہے کہ قربانی کرنے والے پر یہ پابندیاں اِس لیے لگائی گئی ہیں کہ وہ جب اِن دنوں میں اپنے بال اور ناخن بڑھائے گا تو اِس کے نتیجے میں یوم النحر کو قربانی کے موقع پر اُس کا حیوانی وجوداپنی مکمل حالت میں ہوگا، چنانچہ اِس طرح قربانی کے نتیجے میں اُس کے مکمل وجود کو آگ سے نجات حاصل ہوگی، اِس لیے کہ ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قربانی کے جانور کے ہر عضو کے بدلے میں قربانی کرنے والے کے ایک عضو کو آگ سے آزاد کرتے ہیں۔اِس توجیہ پر ایک اعتراض یہ ہے کہ ابن صلاح نے صراحت کی ہے کہ یہ ایک غیر معروف روایت ہے اور اُن کو اِس کی کوئی سند نہیں مل سکی جس سے یہ درج ثبوت کو پہنچ سکے۔پھر یہ بات ایک صحیح حدیث سے بھی معارض ہے، اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اُس غلام کے جسم کے ہر عضو کی آزادی کے بدلے اِس شخص کے جسم کے ایک ایک عضو کو دوزخ سے آزاد کرے گا ۔اِس حدیث میں دیکھ لیجیے کہ بغیر کسی پابندی کے غلام آزاد کرنے والے کے ہر ہر عضو کے آگ سے نجات پانے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔
3۔شیخ محمد صالح العثیمین بیان کرتے ہیں کہ مناسک حج میں سے ایک عمل قربانی بھی ہے۔عید الاضحیٰ کی قربانی کرنے والا قربانی کے عمل سے گویا کہ حج کے بعض مناسک میں شریک ہوجاتا ہے، اِسی بنا پر حدیث ام سلمہ کے حکم کی رو سے احرامِ حج کی بعض پابندیوں میں بھی اُسے حاجیوں کے ساتھ شریک کرلیا گیا ہے۔یعنی یہ حاجی کی حالتِ احرام کے ساتھ جزوی مشابہت ہے۔ اِس رائے پر جو اشکال وارد ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں:
ایک تو یہ کہ حدیث ام سلمہ کا اپنا متن پوری صراحت کے ساتھ اِن پابندیوں کو حج کے ساتھ نہیں، بلکہ قربانی کے ساتھ متعلق کر رہا ہے۔اِس روایت کے کسی متن میں اِس حکمت کی طرف کوئی اشارہ تک موجود نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ قربانی ایک مستقل بالذات عبادت ہے جو شرائع الٰہی میں حج سے بھی بہت قدیم ہے اور بیت الحرام کے سوا بھی مستقل طور پر ادا کی جاتی رہی ہے۔ اللہ تعالی نے اِس کو خاص اپنی شکر گزاری کے لیے مشروع فرمایا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ‘وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیٰ مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلَٰہُکُمْ إِلَٰہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِینَ’ ‘‘ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی عبادت مشروع کی ہے تا کہ اللہ نے جو مواشی جانور اُن کو بخشے ہیں، اُن پر اللہ کا نام لیں، (کسی اور کا نہیں)، اِس لیے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کرو اور اُنھیں خوش خبری دو جن کے دل اُس کے آگے جھکے ہوئے ہیں’’۔]الحج:۔
سیدنا آدم کے بیٹوں کی طرف سے قربانی کا ذکر بھی خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ اِسی طرح حج وعمرہ کی تشریع سے پہلے سیدنا اسماعیل کی قربانی کے واقعے میں بھی اِسی عبادت کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ پھر یہ بھی معلوم ہے کہ شریعت موسوی میں بھی قربانی، بغیر کسی اضافی حکم کے، ایک مستقل عبادت کی حیثیت سے مشروع تھی (احبار) دین اسلام میں قربانی کی اِس تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیا کے دین میں اِس کی حیثیت زمانہ قدیم سے ایک مستقل عبادت کی رہی ہے۔ دین ابراہیمی میں حج وعمرہ کی عبادات کی تشریع اور اُن میں قربانی کو ایک جزو کے طور پر مقرر کرنا کافی بعد کے دور کی بات ہے۔ یہ عبادت ہمیشہ سے ایک مستقل عبادت کے طور پر ادا کی جاتی رہی ہے۔ رسالت مآب ﷺنے دین ابراہیمی کے سنن میں اضافہ کرتے ہوئے جب عید الاضحیٰ کا تہوار مقرر فرمایا اور اُس دن ایک اضافی نماز کو مشروع فرمایا تو قربانی کی اِسی قدیم اور مستقل بالذات عبادت کواِس موقع پرسیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار کے طور پربھی سنت کی حیثیت سے جاری فرمایا۔
لہذا ایک خبر واحد میں قربانی کے ساتھ بظاہر اِن دو پابندیوں کا ذکر دیکھ کر یہ رائے دینا کہ قربانی کا عمل مناسک حج میں شرکت کے مترادف ہے اور بال اور ناخن کاٹنے پر پابندی در حقیقت حالتِ احرام کے ساتھ جزوی مشابہت ہے؛ بالکل قابل اطمینان نہیں ہے۔
تیسرے یہ کہ حج کی عبادت میں بھی حاجی احرام کی تمام پابندیوں میں یوم الترویہ سے یوم النحر تک، یعنی کم بیش صرف دو یا ڈھائی دن رہتا ہے۔حدیث ام سلمہ کا حکم اگر حاجی کے ساتھ مشابہت یا مناسک حج میں جزوی شرکت کی غرض سے دیا گیا ہے تو اُس کے لیے یہ دوپابندیاں دس دن کے لمبے عرصے تک کیوں رکھی گئی ہیں؟ اِس صورت میں بھی قرین قیاس تو یہی تھا کہ قربانی کرنے والا بھی ۸ سے ۱۰ذی الحجہ ہی کے دنوں میں اِس کا پابند ہوتا۔لہذا اِن پہلوؤں سے بھی یہ رائے درست نہیں معلوم ہوتی۔
4۔ زیر بحث حکم کی علت کے بارے میں استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ قربانی در حقیقت جان کی نذر ہے اور اللہ کے حضور میں بندے کی طرف سے اپنی نذر پیش کرنے کی قدیم کی روایت میں چونکہ اِن پابندیوں کا حکم بھی موجود تھا، اِس لیے اُسی کی پیروی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کرنے والے کو قربانی سے پہلے اِن کا اہتمام کرنے کی ہدایت بھی فرمائی ہے۔
استاذ گرامی کی اِس رائے پر جو اشکالات پیدا ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں:
ایک یہ کہ تورات میں نذر کی جس روایت کا ذکر ہے، وہ بنی اسرائیل کے لیے ایک خاص عبادت تھی۔ اُس میں بندہ اپنے آپ کو اور اپنی خدمات کو اللہ کے حضور میں حقیقتًا نذر کر دیتا ہے۔جانور کی قربانی وہاں اصلاً زیر بحث ہی نہیں ہے۔ بلکہ اُس میں نذیر کے لیے صرف دو حکم بیان ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ جب وہ اِس نیت سے نکل کھڑا ہوا ہے تو اِس دوران میں صرف اپنے سر کے بال نہ منڈوائے، جسم کے باقی بالوں کا اُس نذر میں ذکر نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ اسرائیلی شریعت میں نذر کی عبادت میں نذیر کے لیے ناخن نہ کاٹنے کی کوئی پابندی مذکور نہیں ہے، جب کہ قربانی کرنے والے کے لیے حدیث ام سلمہ کے حکم کے مطابق یہ عمل بھی ممنوع ہے۔
تیسرے یہ کہ اسرائیلی روایت میں نذارت کی تکمیل کے موقع پر بالکل حج وعمرہ ہی کی طرح نذیر کے لیے بال منڈوانے کا باقاعدہ حکم موجودہے تا کہ نذر کی علامت نذیر کے حیوانی وجود پر بھی ممثل ہوجائے۔ جب کہ حدیث ام سلمہ میں اِس کے برخلاف جانور کی قربانی کا ذکر ہے، لیکن سر کے بال منڈانے یا ناخن کاٹنے کا کوئی دینی
حکم سرے سے بیان ہی نہیں ہوا ہے۔
چوتھے یہ کہ بالبداہت واضح ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتِ نذر سے دین ابراہیمی کی عباداتِ حج وعمرہ تاریخی اعتبار سے مقدم ہیں اور نذر کی یہ روایت دوسری بہت سے پابندیوں کے ساتھ پوری طرح حج وعمرہ کی شریعت میں بغیر قربانی کے بھی ممثل کردی گئی ہے۔اِس لیے کہ حج وعمرہ کی دونوں عبادات میں قربانی صرف بعض صورتوں میں لازم ہوتی ہے۔ حج وعمرہ میں ایک بندہ اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضور نذر کرنے کے لیے حالت احرام میں نکل کھڑا ہوتا ہے، اُس پر دوسری پابندیوں کے ساتھ یہ پابندی بھی ہوتی ہے کہ پورے جسم کے کوئی بھی بال نہ اُتارے۔پھر نذر کو پیش کردینے کی علامت دین ابراہیمی کی اِن دونوں عبادات میں بھی وہی رکھی گئی ہے جو شریعت موسوی میں ایک بندے کی نذارت میں تھی کہ نذیر اپنے بال منڈوائے یا قصر کروائے، چاہے وہ حج یا عمرہ میں قربانی نہ بھی کر رہا ہو۔ نذر بہرحال پوری ہوجاتی ہے۔جانور کی قربانی کا اِس نذر کے پیش کرنے اور اِس کی تکمیل سے بظاہر کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔
قربانی کے موضوعِ بحث حکم اور اسرائیلی شریعت میں نذرکی عبادت کے مابین یہ منافات واضح طور پر اِس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حدیث ام سلمہ میں بیان کردہ اِن پابندیوں کو بنی اسرائیل کی اُس عبادت سے متعلق کرنا جس کا نام اور عنوان ہی ‘نذر’ یا ‘نذارت’ تھا علمی طور محل نظر ہے۔
یہاں بالخصوص یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ توجیہات محض اہل علم کے اجتہادات پر مبنی ہیں۔ اصل حکم کے ثبوت یا عدم ثبوت سے اِن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ اگر ثابت ہوگا تو اپنے اصل ماخذ ہی سے ثابت ہو گا ۔ اجتہاد کی بنیاد پر بیان کی گئی حکمت وتوجیہ ظاہر ہے کہ نصوص کے دائرے سے باہر کی چیز ہوتی ہے۔نصوص جہاں خاموش ہوں تو اہل علم اپنے اپنے فہم واجتہاد پر مبنی حکم کی حکمت واضح کرتے ہیں۔تاہم حکم اگر اپنے اصل ماخذ ہی میں ثابت نہ ہو تو پھر ایسی اجتہادی حکمتوں کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی، جیسا کہ نومولود کی اذان و اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ اہل علم نے اس کی متنوع حکمتیں بیان کی ہیں، لیکن جب تحقیق سے اُس باب میں اصل حکم ہی غیر ثابت قرار پاتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ حکمتیں بھی کالعدم ہوجاتی ہیں۔
مسئلے کا تاریخی پس منظر اور فقہاے امصار کا موقف
صدر اوًل میں تابعین کے دور تک مسلمانوں کے علم وعمل کی دینی روایت میں قربانی سے متعلق اِس حکم کا کہیں کوئی شیوع نہ تھا۔ یہ معلوم ہے کہ مدینہ و کوفہ اُس دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم کے مراکز کی حیثیت رکھتے تھے۔اِن دونوں بڑے شہروں میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا اِس حکم پر کوئی عمل نہیں پایا جاتا تھا، بلکہ اِن شہروں کے تمام فقہا بھی قربانی کی شریعت کے ساتھ ایسے کسی حکم کے قائل نہیں تھے۔ فقیہ مصر لیث بن سعد کے سامنے جب سیدہ ام سلمہ کی روایت کا ذکر ہوا تو اُنھوں نے بھی کہا: ''قد رُوی ہذا، والناس علی غیر ہذا ‘‘یہ روایت تو بعض لوگوں کی طرف سے سامنے آئی ہے، لیکن مسلمانوں کا عمل اِس کے برخلاف ہے’’۔اُن کے اِس قول سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اہل مصر کے ہاں بھی اُس دور میں یہ حکم قطعًا معروف نہیں تھا۔
پھر اُسی دور میں اِس مسئلے سے متعلق بعض آثارِ صحابہ اور بالخصوص حدیث ام سلمہ منظر پر آئی۔ مدینہ کے ایک بڑے تابعی سعید بن مسیب وہ واحد فقیہ تھے جنھوں نے اُس موقع پر سیدہ ام سلمہ سے اِس باب میں روایت بیان کی تھی۔فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو سیدہ کی اِس روایت کے تمام طرق کا مدار سعید بن مسیب ہی پر ہے۔سیدہ کی روایت در اصل اُنھی کی وساطت سے منظر پر آئی اور وہ امت کے پہلے فقیہ تھے جنھوں نے اِس روایت کے ظاہرِ الفاظ کی دلالت پر فتوی دیا اور لوگوں کے سامنے اپنا یہ موقف پیش کیا کہ قربانی کرنے والے لیے عشرہ ذی الحجہ میں اپنے جسم کے بال اور ناخن کاٹنا حرام ہے۔اِس سے پہلے تک مسلمانوں کے علم وعمل میں قربانی سے متعلق یہ حکم معروف نہیں تھا۔ تاہم اِس کے باوجود مسلمانوں کے ہاں اُس دور میں اِس روایت کو اور جو حکم اِس میں بیان ہوا ہے، اُسے کوئی خاص اہمیت اور قبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔قبولیت کے برخلاف، اُسی دور کے بعض اصحاب علم نے اِس حکم پربعض ناقدانہ تبصرے کیے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے عکرمہ ہیں، جنکے سامنے سعید بن مسیب کے اِس فتوے کا ذکر کیا گیا تو انھوں اِس پر قیاسی اورعقلی تنقید کی اور کہا: ''أَلَا یَعْتَزِلُ النِّسَاءَ وَالطِّیبَ'' ‘‘کیا قربانی کرنے والے پر زن وشو کے تعلق اور خوشبو لگانے کی ممانعت نہیں ہوگی؟’’۔ یعنی بال اور ناخن نہ کاٹنے کی یہ ممانعت بظاہرتشبہ بالمحرم ہے، اور اگر ایسا ہی ہے تو اِن میں زن وشو کے تعلق اور خوشبو لگانے یہ پابندیاں شامل کیوں نہیں ہیں؟
عکرمہ کا یہ نقد جس طرح بتا رہا ہے کہ اِس حوالے سے اُن کا موقف کیا تھا، اِسی طرح یہ بات بھی اِس سے واضح ہورہی ہے کہ سعید بن مسیب کے معاصر تابعین اِس حکم کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔
ابو حنیفہ ؒنے کہا کہ جب قربانی کرنے والے پر زن وشو کا تعلق اور عام لباس پہننا حرام نہیں ہے تو بال اور ناخن کٹوانے کی ممانعت کیسے ہوگی؟ ابن عبد البر کہتے ہیں کہ جب یہ بات اہل علم کے مابین متفق علیہ ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے عشرہ ذی الحجہ میں زن وشو کا تعلق مباح ہے (جو کہ محرم کے لیے سب سے سخت پابندی سمجھی جاتی ہے) تو قرین قیاس یہی ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے یہ معمولی پابندیاں بھی نہیں ہونی چاہیئں۔اِس طرح کا قیاسی نقد ظاہر ہے کہ ائمہ انہی چیزوں پر کرسکتے تھے جو اُن کے نزدیک دین میں اصلاً غیر مستند اور غیر ثابت شدہ ہوں۔
سعید بن مسیب کی وساطت سے حدیث ام سلمہ کے منظر پر آجانے کے بعد بھی اُس دور میں اصحاب علم اور عام مسلمانوں نے بالعموم اُسے ناقابل اعتنا سمجھا، اِس کی دلیل بھی سعید بن مسیب ہی کے ایک واقعے سے معلوم ہوتی ہے، جس کو امام مسلم نے اِس طرح بیان کیا ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍ، وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عَمَّارٍ اللَّیْثِیُّ، قَالَ: کُنَّا فِی الْحَمَّامِ قُبَیْلَ الْأَضْحَی، فَاطَّلَی فِیہِ نَاسٌ، فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَمَّامِ: إِنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ یَکْرَہُ ہَذَا، أَوْ یَنْہَی عَنْہُ، فَلَقِیتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ، فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ: یَا ابْنَ أَخِی، ہَذَا حَدِیثٌ قَدْ نُسِیَ وَتُرِکَ، حَدَّثَتْنِی أُمُّ سَلَمَۃَ، زَوْجُ النَّبِیِّ r، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: بِمَعْنَی حَدِیثِ مُعَاذٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو
ابواسامہ کہتے ہیں: محمد بن عمرو اور عمرو بن مسلم لیثی نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ عیدالاضحیٰ سے کچھ پہلے ہم حمام میں تھے،بعض لوگوں نے چونا لگا کراپنے بال صاف کیے،حمام میں موجود لوگوں میں سے کسی شخص نے کہا:سعید بن مسیب اِس فعل(یعنی قربانی کرنے سے پہلے جسم کے بال اتارنے)کو مکروہ قرار دیتے ہیں یا اس سے منع کرتے ہیں۔پھرسعید بن مسیب سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اُن سے اِس بات کا ذکر کیا۔اُنھوں نے جواب میں کہا:بھتیجے، (میری روایت کردہ)یہ حدیث بھلا دی گئی اور ترک کردی گئی ہے(اِس لیے لوگ اِن پابندیوں کا خیال نہیں رکھتے)۔ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص کے پاس قربانی کے لئے کوئی ذبیحہ موجود ہوتو ذی الحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد جب تک وہ قربانی نہ کرلے، اپنے بال اور ناخن ہرگز نہ کاٹے ''۔
یعنی اِس باب کی روایت تو سعید بن مسیب لوگوں کے سامنے پہلے ہی پیش کرچکے تھے، لیکن اُنھوں نے اُسے ناقابل اعتنا سمجھ کر ترک کردیا اور اُسے بھول گئے تھے۔
حدیثِ ام سلمہ اور محدثین کا دور
پھرمحدثین اور تدوین حدیث کا دور آیا تو علم روایت کی رو سے حدیث ام سلمہ کی حیثیت اصحاب حدیث کے ہاں زیر بحث آئی۔ اِس سوال کے جواب میں علمائے حدیث کے مابین بھی اختلاف سامنے آیا۔ بعض محدثین کے نزدیک یہ روایت مرفوعًا صحت کے ساتھ ثابت اور قابل حجت قرار پائی، جب کہ بعض کی تحقیق کے مطابق یہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر موقوف ثابت ہوئی۔چنانچہ اُنھوں نے اِسے ضعیف اور ناقابل حجت قرار دیا۔
امام مسلم نے اپنی تحقیق میں اِس روایت کو صحیح اور مرفوع قرار دیا اور اِس کے مختلف متون اپنی ‘الجامع الصحیح’ میں نقل بھی کردیے اور ساتھ ہی ایک روایت کے ضمن میں رفع ووقف کے حوالے سے پائے جانے والے اِس اضطراب کی طرف اشارہ بھی کردیا ہے۔امام مسلم کے علاوہ امام احمد، ترمذی، ابن حبان اور ابن حزم وغیرہ؛ یہ وہ حضرات نے جنھوں نے اِس روایت کو مرفوعًا صحیح قرار دیا ہے اور اِسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ جب کہ دوسری طرف دار قطنی نے ‘العلل’ میں، ابن عبد البر نے ‘التمہید’ میں اور طحاوی نے اپنے قدیم قول کے مطابق ‘شرح معانی الآثار’ میں اِس روایت کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر موقوف قرار دیا، یعنی یہ روایت فن حدیث کی رو سے ان کے نزدیک ضعیف اور ناقابل استدلال ہے ۔
فقہاے متقدمین کی آرا کا تاریخی سیاق
موضوع بحث مسئلے کا مذکورہ بالا تاریخی پس منظر اگر پیش نظر رہے تو اُس سے یہ بات بالبداہت واضح ہوتی ہے کہ زیر بحث قضیے میں جمہور امت اور فقہائے امصار کا موقف سب سے قدیم رہاہے اور وہ اباحت کا قول ہے، جس پر قرون اولیٰ میں مسلمانوں کا عمومی عمل تھا۔
تاریخی اعتبار سے دوسرے موقف کی ولادت سعید بن مسیب سے ہوئی ہے اور وہ حرمت کا قول ہے۔اُن کا قول اُس دور میں جمہور علما کی طرف سے کوئی تائید پاسکا، نہ عام مسلمانوں کے عمل ہی میں رائج ہوا۔سعید بن مسیب کے بعد بھی سوائے ربیعہ الرائے کی موافقت کے، یہ موقف عام مسلمانوں کے نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔
تیسرا موقف اِس مسئلے میں امام شافعی نے پہلی مرتبہ پیش کیا اور یہ کراہت تنزیہی کا قول تھا۔یعنی اُنھوں نے ایک طرف حدیث ام سلمہ کو دیکھا، جس کے الفاظ بظاہر حرمت پر دلالت کر رہے تھے۔ دوسری طرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت کو بھی پیش نظر رکھا، جس میں حدیث ام سلمہ سے تعارض پایا جاتا تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے دونوں میں سے کسی بھی روایت کو رد کرنے کے بجائے جمع وتطبیق کی راہ اختیار کی اور ظاہرِ الفاظ کی دلالت کو حرمت سے پھیر کر کراہت تنزیہی کے معنی میں لے لیا اور اِس طرح اِس مسئلے میں ایک نئی اور درمیانی رائے اختیار کی۔
امام شافعی کے بعد امام احمد نے حدیث کے ظاہر ِ الفاظ کی دلالت پر اپنی رائے کی بنیاد رکھ کر حرمت کے قول پر فتویٰ دیتے ہوئے سعید بن مسیب کی رائے کو علم کی دنیا میں ایک مرتبہ پھر زندہ کیا اور اُس موقع پر اسحاق بن راہویہ نے اِس باب میں اُن کی موافقت کی۔ امام احمد کے اِس فتوے کو اُن کے مفردات میں شمار کیا جاتا ہے۔قرن اوّل کی طرح یہ رائے متاخرین میں بھی زیادہ مقبولیت نہیں پاسکی۔دراں حالیکہ کہ روایت کو اگر قابل حجت مان لیا جائے تو ظاہرِ نص کی دلالت کے لحاظ سے یہ موقف بظاہر درست معلوم ہوتا ہے۔سیدہ عائشہ کی روایت کے تعارض کا اشکال امام احمد کے سامنے بھی تھا، تاہم وہ اِس کو حل نہیں کر پائے۔اِس حوالے سے اُنھوں نے بعض اہل علم سے رجوع بھی کیا، لیکن اِس حوالے سے کوئی اطمینان بخش جواب اُن کو نہیں مل سکا۔
حدیثِ عائشہ کے متون پر ایک نظر
جس حدیث عائشہ کے زیر بحث روایت سے تعارض کا اوپر ذکر ہوا ہے، محدثین نے اُس کو بکثرتِ طرق اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اُس کے بعض نمائندہ متون درج ذیل ہیں:
۱۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: ''فَتَلْتُ قَلاَئِدَ بُدْنِ النَّبِیِّ بِیَدَیَّ، ثُمَّ قَلَّدَہَا وَأَشْعَرَہَا وَأَہْدَاہَا، فَمَا حَرُمَ عَلَیْہِ شَیْءٌ کَانَ أُحِلَّ لَہُ''.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے ہار اپنے ہاتھوں سے تیار کیے۔ پھر وہ ہار آپ نے خود اُن جانوروں کے گلوں میں ڈال کر اُنھیں نشان زد کیا اور پھر(مکہ مکرمہ) روانہ کیا۔ ایسا کرنے سے آپ پر کوئی ایسی چیز حرام نہ ہوئی جو آپ کے لیے پہلے حلال تھی۔
۲۔تَقُولُ عَائِشَۃَ: ''کُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ ہَدْیِ رَسُولِ اللہِ r بِیَدَیَّ ہَاتَیْنِ، ثُمَّ لَا یَعْتَزِلُ شَیْئًا وَلَا یَتْرُکُہُ''.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں اپنے اِن دونوں ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے (مکہ مکرمہ) بھیجے جا نے والے قربانی کے جانوروں کے ہا ر بٹتی تھی۔ پھر آپ کسی (مباح) چیز سے اجتناب کرتے، نہ کسی چیز کو ترک کرتے تھے۔
۳۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: '' کُنْتُ أَفْتِلُ الْقَلَائِدَ لِہَدْیِ رَسُولِ اللہِ ، فَیَبْعَثُ بِہَا ثُمَّ یُقِیمُ عِنْدَنَا، وَلَا یَجْتَنِبُ شَیْئًا مِمَّا یَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ''
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانوروں کے قلادے (اپنے ہاتھوں سے) بٹا کرتی تھی۔پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُسے (مکہ مکرمہ) روانہ کر کے ہمارے ساتھ (مدینہ ہی میں) مقیم رہتے اور جن کاموں سے آدمی حالتِ احرام میں اجتناب کرتا ہے، آپ اُن میں سے کسی کام سے اجتناب نہیں کیا کرتے تھے۔
۴۔عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: ''لَقَدْ کُنْتُ أَفْتِلُ الْقَلَائِدَ لِہَدْیِ رَسُولِ اللَّہِ بِیَدِی، ثُمَّ یُقَلِّدُ الْہَدْیَ یَبْعَثُ ثُمَّ یَبْقَی حَلَالًا لَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ شَیْءٌ''
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں اپنے ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (مکہ مکرمہ) بھیجے جا نے والے قربانی کے جانوروں کے ہا ر تیار کرتی تھی۔پھر آپ وہ ہار اُن کے گلوں میں ڈال کر اُن کو (مکہ مکرمہ) روانہ کردیتے۔اِس کے بعد آپ بغیر کسی پابندی کے اِس طرح رہتے کہ کوئی چیز آپ پر حرام نہیں ہوا کرتی تھی۔
5۔ أَخْبَرَتْ عَمْرَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ زِیَادَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ کَتَبَ إِلَی عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: ''مَنْ أَہْدَی ہَدْیًا حَرُمَ عَلَیْہِ مَا یَحْرُمُ عَلَی الْحَاجِّ، حَتَّی یُنْحَرَ الْہَدْیُ''، وَقَدْ بَعَثْتُ بِہَدْیٍ. فَاکْتُبِی إِلَیَّ بِأَمْرِکِ أَوْ مُرِی صَاحِبَ الْہَدْیِ. قَالَتْ: عَمْرَۃُ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: ''لَیْسَ کَمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَا فَتَلْتُ قَلَائِدَ ہَدْیِ رَسُولِ اللَّہِ بِیَدَیَّ. ثُمَّ قَلَّدَہَا رَسُولُ اللَّہِ بِیَدِہِ، ثُمَّ بَعَثَ بِہَا رَسُولُ اللَّہِ مَعَ أَبِی فَلَمْ یَحْرُمْ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ r شَیْءٌ أَحَلَّہُ اللَّہُ لَہُ حَتَّی نُحِرَ الْہَدْیُ''
عمرہ بنت عبدالرحمن بتاتی ہیں کہ زیاد بن ابی سفیان نے سیدہ عائشہ کو خط لکھا،جس میں اُنھیں بتایا کہ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: جو شخص ہدی کی قربانی حرم روانہ کرے تو اُس پر وہ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو حج کرنے والے (محرم) پر حرام ہوتی ہیں، یہاں تک کہ (عید کے دن) اُس کا جانور ذبح کردیا جائے۔میں اپنی ہدی روانہ کرچکا ہوں۔ لہذا (اِس حوالے سے)آپ مجھے اپنی رائے لکھ کر بھیج دیجیے یا ہدی کے جانور جس شخص کے پاس ہیں، اُسے بتادیجیے۔عمرہ کہتی ہیں کہ اِس کے جواب میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابن عباس جو کہہ رہے ہیں، ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانوروں کے ہار میں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیے ہیں۔ وہ ہار آپ نے خوداُن جانوروں کے گلوں میں ڈال کر اُن کو میرے والد کے ہاتھوں (مکہ مکرمہ) بھیجے تھے۔لیکن ہدی کے ذبح ہوجانے تک آپ پر کوئی ایسی چیز حرام نہیں ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی تھی۔
اِن روایتوں میں بھی صراحتاً قربانی ہی زیر بحث ہے۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ یہ قربانی اپنے شہر، یعنی مدینہ میں کرنے کے بجائے حرم میں بھیج کر کی گئی ہے۔اور سیدہ عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی عمل سے اِن ایام میں نہ صرف یہ کہ ایک دو، بلکہ ہر طرح کی پابندی کی نفی کی ہے۔ اِس روایت کے تمام طرق بغیر کسی اختلاف کے نہایت محکم اور مستند ہیں۔سند ومتن کاکوئی اعتراض بھی اِس روایت پر وارد نہیں ہوتا۔ کسی صحابی سے اِس پر کوئی نکیر یا تردید بھی روایت نہیں ہوئی ہے۔ خود سیدہ عائشہ کے فہم وفراست کا مقام امت میں متفق علیہ ہے۔ اُن کی اِس روایت کو امام مالک نے اپنی موطا میں اور امام بخاری نے اپنی الجامع الصحیح میں بھی نقل کیا ہے۔ یعنی یہ اِن دونوں بڑے ائمہ کے نزدیک بھی یہ روایتًا مستند اور قابل حجت ہے۔
اوپر بیان کردہ آخری متن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیدہ عائشہ ﷺ کے عمومی عمل سے در اصل ابن عباس کے ایک فتوے کی تردید کر رہی ہیں۔ تاہم جو بات اُنھوں نے اپنی اِس روایت میں بیان کر دی ہے، اُس میں پورے زور کیساتھ حدیث ام سلمہ میں مذکور حکم کی تردید بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوًل ہی میں ائمہ وفقہا نے اِس تعارض وتردید کی باقاعدہ صراحت کردی تھی۔ ابن عبد البر کہتے ہیں کہ حدیث عائشہ جو بات بیان کر رہی ہے، وہ ام سلمہ کی روایت کے حکم کی تردید کرتی ہے ۔امام شافعی کہتے ہیں کہ ہدی کا جانور قربانی کے لیے حرم بھیج دینا محض قربانی کا ارادہ کرلینے سے کہیں زیادہ بڑی بات ہے۔ اگر اِس صورت میں آدمی پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث عائشہ سے ثابت ہوتا ہے، تو یہ اِس بات پر واضح دلیل ہے کہ اپنے شہر میں مقیم رہتے ہوئے محض قربانی کا ارادہ کرنے والے پر بھی کوئی چیز حرام نہیں ہوسکتی۔ماوردی بیان کرتے ہیں کہ جب ۹ ہجری کو رسول اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہدی کا جانورقربانی کے لیے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حرم روانہ کیا اور اپنے اوپر کوئی چیز حرام نہیں کی تو اِس سے غیر حرم میں قربانی کرنے والے باقی مسلمانوں کے لیے بطریق اولیٰ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُن پر اِس عرصے میں کوئی چیز حرام نہیں ہے۔
مواقفِ فقہا اور اُن کے دلائل
موضوع بحث مسئلے میں ائمہ وفقہا کے مواقف بالاجمال اوپر ہم نے تاریخی سیاق کے عنوان کے تحت بیان کردیے ہیں۔ ذیل میں اب ہم ذرا اُن کی تفصیل کریں گے۔
پہلا موقف: قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لیے ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد سے قربانی کر لینے تک اپنے جسم کے کسی بھی حصے کے بال اتارنا اور ناخن تراشنا حرام ہے اور اِن دونوں پابندیوں کا خیال رکھنا اُس پر واجب ہے۔یہ قول سعید بن مسیب، ربیعہ الرائے، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، آخری قول کے مطابق طحاوی، ابن حزم اور حنابلہ و شافعیہ کے بعض علما سے مروی ہے۔ اِس موقف کے قائلین کا اصل مستدل اِس حوالے سے حدیث ام سلمہ ہی ہے جس کاذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔اِن فقہا کے نزدیک یہ حدیث صحیح اور قابل حجت ہے اور اِس میں یہ ممانعت جس اسلوب میں بیان ہوئی ہے، وہ حرمت ہی کے حکم کا تقاضا کرتا ہے۔ایک ضمنی دلیل اِس قول کے حق میں یہ پیش کی گئی ہے کہ بعض صحابہ نے بھی اِس پر فتویٰ دیا ہے۔مثال کے طور پرسیدہ ام سلمہ کی روایت کے وہ طریق جو موقوفًا نقل ہوئے ہیں، وہ بھی در اصل اِس باب میں اُن کا اپنا موقف ہے۔ اِسی طرح علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی قول نقل ہوا ہے
تیسرے موقف کے حامل علما نے اِس پر بنیادی طور پر دو اعتراضات کیے ہیں۔ ایک یہ کہ حدیث ام سلمہ مرفوعًا صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔اُن کے نزدیک یہ روایت سیدہ ام سلمہ پر موقوف ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے طور پر ثابت نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سیدہ عائشہ کی ایک حدیث سے معارض ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے نہ صرف یہ کہ حدیث ام سلمہ کی حکم کی نفی ہوتی ہے، بلکہ اگر کسی دوسرے صحابی کا فتوی بھی اِس پر نقل ہوا ہے تو اُس کو بھی ردکردیتی ہے۔اورسیدہ عائشہ کی روایت علما ومحدثین کے نزدیک کے اپنے اسانید کے لحاظ سے نہ صرف یہ کہ زیادہ محکم اور مستند ہے، بلکہ اہل علم کے ہاں حدیث ام سلمہ کے برعکس اُس پر فن حدیث کے اعتبار سے کوئی اعتراضات بھی نہیں ہیں۔
دوسرا موقف: قربانی کرنے والے کے لیے عشرہ ذی الحجہ میں اِن دونوں پابندیوں کی خلاف ورزی مکروہ تنزیہی ہے اور اِن کا خیال رکھنا مستحب ہے۔یہ امام شافعی اور اُن کے مؤیدین کا موقف ہے۔اُن کے تلامذہ نے بھی اِس میں اُن کی پیروی کی ہے۔متاخرین شافعیہ اور یہاں تک کہ بعض متاخرین مالکیہ نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔ بعض علمائے حنابلہ سے بھی یہ قول نقل ہوا ہے۔ متاخرین حنفیہ میں سے ملا علی قاری اور ابن عابدین نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔اِس موقف کا استدلال یہ ہے کہ حدیث ام سلمہ میں ممانعت تو صراحتاً ثابت ہوتی ہے اور وہ حرمت ہی کی متقاضی ہے، لیکن یہ روایت چونکہ سیدہ عائشہ کی ایک حدیث سے، جس کا ذکر ہم ابھی اوپر کرچکے ہیں، معارض ہے؛ اِس لیے درست بات یہ ہوگی کہ حرمت کے بجائے کراہت کا قول اختیار کیا جائے تا کہ دونوں روایتوں پر عمل ہو اور کوئی حدیث بھی رد نہ ہو۔اِس قول کے جواب میں پہلے موقف کے قائلین کا کہنا یہ ہے کہ حکم کو حرمت سے پھیر کر کراہت کی طرف لے جانا درست نہیں ہے، اِس لیے کہ اِس میں ظاہرِ نص کی صریح خلاف ورزی ہے۔جہاں تک حدیث عائشہ کا معاملہ ہے تو اُس کا حکم صرف ہدی کا جانور حرم میں بھیج کر کی جانے والی قربانی ہی پر لاگو ہوگا، یعنی اِس صورت میں قربانی کرنے والے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔اپنے شہر میں مقیم رہتے ہوئے عید الاضحیٰ کی قربانی کی صورت میں البتہ، حدیث ام سلمہ کے حکم پر عمل کرنا لازم ہوگا۔
تیسرے موقف کے مؤیدین اِس دوسری رائے کے جواب میں کہتے ہیں کہ حدیث ام سلمہ چونکہ مرفوعًا غیر صحیح ہے، اِس لیے ناقابل حجت ہے۔حدیث عائشہ صحیح اور قابل حجت ہے، لہذا حکم کے اعتبارسے اِسی کو ترجیح حاصل ہوگی۔مزید برآں حدیث ام سلمہ اہل مدینہ، اہل کوفہ اور اہل مصر کے عام عمل کے بھی خلاف ہے اور صدر اوّل کے فقہائے امصار نے اِس روایت کو اِسی بنا پر قبول نہیں کیا تھا۔
تیسرا موقف:قربانی کرنے والے کے لیے اپنے جسم کے بال اور ناخنوں کو کاٹنا عشرہ ذی الحجہ میں بھی مباح ہے؛ اِن میں شرعًا کسی قسم کی کراہت بھی نہیں ہے۔قربانی کرنے والے کے لیے دین میں ایسی کوئی پابندی ثابت نہیں ہے۔یہ متقدمین کے جمہور علما کا موقف ہے۔اِس کے مؤیدین میں جن ائمہ وفقہا کے نام نمایاں ہیں، وہ یہ ہیں: عطا بن یسار،ابراہیم نخعی، عکرمہ، لیث ابن سعد، فقہاے سبعہ میں سے ابو بکر بن عبد الرحمن، مالک اور ابو حنیفہ، اُن کے صاحبین، قدیم قول کے مطابق طحاوی اورابن عبد البر۔اِس موقف کی دلائل یہ ہیں: ایک یہ کہ قربانی کرنے والے کے لیے دین میں ایسی کوئی پابندی علم روایت کے اعتبار سے ثابت نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ حدیث ام سلمہ میں بیان کردہ حکم قرون اولیٰ میں نہ صرف یہ کہ امت کے عمومی عمل کے خلاف رہاہے، بلکہ تمام فقہائے امصار کے موقف کے بھی خلاف ہے۔تیسرے یہ کہ حدیث ام سلمہ، سیدہ عائشہ کی ایسی روایت سے معارض ہے جو ہر لحاظ سے محکم، مستند اور قابل ترجیح ہے اور وہ حدیث ام سلمہ کے حکم کی صراحتاً نفی کرتی ہے، جب کہ ام سلمہ کی روایت میں اہل علم نے بہت کچھ کلام کیا ہے۔چوتھے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے یہ بات معلوم ہے کہ آپ جس طرح لوگوں کو عید الاضحیٰ کی قربانی کی تلقین وہدایت فرماتے تھے، خود بھی ہر سال پورے اہتمام سے قربانی کیا کرتے تھے۔ آپ ہدی کے جانور مکہ بھیجتے تھے؛ یہ اپنی جگہ پر ایک تطوع عبادت ہے۔ اِس کے علاوہ آپ مدینہ میں بھی عید کی قربانی کیا کرتے تھے۔چنانچہ اِس تناظر میں بھی حدیث عائشہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قربانی سے متعلق ایسا کوئی حکم دین میں مشروع نہیں ہے، ورنہ سب سے بڑھ کر آپ خود اِس پر عامل ہوتے۔
زیر بحث قضیے میں ایک نکتہ یہ قابل توجہ ہے کہ اِس مسئلے میں مندرجہ بالا اختلاف آرا کے باوجود تمام علما وفقہا قربانی کرنے والے کے لیے اِس حکم کی خلاف ورزی پر کسی بھی کفارے کے بالاتفاق قائل نہیں ہیں، چاہے یہ خلاف ورزی قربانی کرنے والا سے عمدًا کرے یا سہوًا۔
اُستاذِ گرامی غامدی صاحب کا موقف اور اُس پر ایک اُصولی سوال
زیرِ بحث مسئلے میں استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آخری رائے میں حدیث ام سلمہ کو قبول کیا گیا ہے۔اوپر بیان کیے گئے دوسرے موقف کی طرح اُستاذِ گرامی بھی اِس روایت کے حکم پر عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ تاہم اِس قضیے میں ان کا یہ موجودہ موقف راقم الحروف کو فکر فراہی کے اُصول سے پوری طرح ہم آہنگ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ اپنی کتاب ‘میزان’ میں قربانی کی شریعت کو،جو مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچی ہے؛ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:‘‘قربانی کا قانون یہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے البتہ، اِس کے بارے میں چند باتوں کی وضاحت فرمائی ہے: اول یہ کہ قربانی کے مہینے میں قربانی کرنے والے نذر کی قدیم روایت کے مطابق قربانی سے پہلے نہ اپنے ناخن کاٹیں گیاور نہ بال کتروائیں گے’’۔
یہ معلوم ہے کہ اخبار آحاد کا جو دائرہ کار استاذِ گرامی نے متعین کیا ہے کہ وہ قرآن وسنت میں موجود دین کی تفہیم وتبیین یا آپ کے اسوہ حسنہ کے بیان ہی تک محدود ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیدہ ام سلمہ کی زیر بحث روایت چونکہ سر تا سر قولی ہے، اِس لیے اُسوہ کا سوال توظاہر ہے کہ اِس کے بارے میں پیدا نہیں ہوتا۔جہاں تک تفہیم وتبیین کا تعلق ہے تواستاذ ِمحترم کے موجودہ موقف کے تناظر میں اِس حوالے سے جو پہلو محل نظر ہے، وہ یہ ہے کہ آپ نے قربانی کی شریعت کے بیان کے بعد اِس روایت کو اگرچہ بظاہر تفہیم وتبیین کے ضمن میں رکھ کر قبول کیا ہے، لیکن دقت نظر کے ساتھ اگر اِس کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اصلاً یہ قربانی کی شریعت پر یہ ایک اضافی حکم ہے، نہ کہ اُس کے کسی حکم کی تفہیم وتبیین۔اِس لیے کہ قربانی کے بیان کردہ قانون میں حدیث ام سلمہ کسی بھی نوعیت کی کوئی شرح ووضاحت نہیں کر رہی ہے، بلکہ ایک نیا حکم بیان کر رہی ہے۔
مواقفِ علما: دلائل کا تجزیہ
ایک بات سب سے پہلے یہاں یہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مندرجہ بالا پہلے اور دوسرے موقف کی بنیاد حدیث ام سلمہ پرہے، جس کی بنا پر اِن دونوں آرا کے قائل علما قربانی سے متعلق زیر بحث حکم کوثابت کرتے ہیں۔ جہاں تک تیسرے نقطہ نظر کا تعلق ہے تو وہ اصلاً پہلے دونوں مواقف کے حکم کی نفی پر کھڑا ہے۔اُس میں خود کسی دینی حکم کو ثابت کرنے کا مقدمہ سرے سے پایا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ قربانی سے متعلق اِس حکم کے اثبات میں پہلی دونوں آرا کے حق میں جو دلائل پیش کیے گئے ہیں، اُن سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا۔چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پہلے دونوں مواقف میں ایک دینی حکم کے اثبات کے لیے کچھ دلائل پیش کیے گئے ہیں، جب کہ تیسرے موقف میں بعض دلائل کی بنیاد پر اُن کی نفی کی گئی ہے۔
۱۔حدیث ام سلمہ: علم روایت کی روشنی میں
فقہا کے پہلے اور دوسرے نقطہ نظر کا مدار اصلاً حدیث ام سلمہ ہی پر ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے فن حدیث کی رو سے اِس کا تحقیقی جائزہ لیا جائے۔ اِس تناظر میں روایت کے درج ذیل پہلو ہمارے نزدیک قابل غور ہیں:
۱۔ زیر بحث روایت کے بارے میں اصحاب حدیث اور محققین کے رد وقبول اور وقف ورفع کے اختلاف سے قطع نظر ایک بات بالکل قطعی ہے اور وہ یہ ہے کہ سند کے اعتبار سے بہرحال یہ ایک ‘غریب مطلق’ روایت ہے۔اِس لیے کہ اصلِ سند یعنی طبقہ صحابہ میں یہ سوائے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے کسی دوسرے صحابی کی وساطت سے قول رسول کے طور پر قطعًا کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔ مزید برآں اِس کی سند کے دوسرے طبقے میں بھی غرابت ہے، یعنی تابعین میں بھی سوائے سعید بن مسیب کے اِس حدیثِ رسول کا کوئی متابع نہیں ہے۔علم روایت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو محض سند کی غرابت کسی روایت کو ضعیف قرار دینے کے لیے اگرچہ کافی نہیں ہے، تاہم غرابت چونکہ شہرت کی ضد ہے، اِس لیے یہ ایک نوعیت کے ضعف پر بہرحال دلالت کرتی ہے۔
۲۔حدیث ام سلمہ ائمہ حدیث میں سے دو جلیل القدر محدثین، یعنی امام مالک اور امام بخاری، دونوں کی شرائط ِصحت پر پورا نہیں اترتی۔ یہی وجہ ہے کہ اِسے امام مالک نے اپنی ‘موطا’ میں نقل کیا ہے، نہ امام بخاری نے اپنی ‘الجامع الصحیح’ میں جگہ دی ہے۔اِن دونوں ائمہ کے نزدیک اِس روایت کاکوئی طریق اگر صحت کے ساتھ ثابت ہوتا تو وہ اُس کو ضرور نقل کرتے۔
۲۔حدیث ام سلمہ کی استنادی حیثیت کے بارے میں ماضی میں بھی محدثین کے مابین اختلاف رہا ہے اور عصر حاضر میں بھی اصحاب علم کی آرا مختلف ہیں۔بعض نے اِسے مرفوعًا، جب کہ بعض نے موقوفًا صحیح مانا ہے۔سوال یہ ہے کہ علمی لحاظ سے راجح قول کیا ہے؟
اِس حوالے سے ہم چاہیں گے کہ یہاں کچھ معروضات اور عصر حاضر کے بعض اہل علم کی تحقیقات کا خلاصہ قارئین کے سامنے پیش کریں۔
علم روایت کے لحاظ سے بعض معاصر محققین نے زیر بحث روایت پربہت عمدہ اور وقیع تحقیقی مقالے تصنیف کیے ہیں۔ جن میں ایک علمی کاوش ڈاکٹر خالد الحایک کی ہے، اُنہوں اپنی بحث ‘‘الإِسفارعن حلِّ إشکال حدیث منع المُضحی الأخذ من الشَّعر وقلْم الأظفار’’ کے عنوان سے تحریر کی ہے، جب کہ دوسرا مقالہ ڈاکٹر محمد بن عبداللہ السریِّع نے ‘‘حدیث النہی عن الأخذ من الشعر والأظفار للمضحی، روایۃ ودرایۃ’’ کے عنوان سے تالیف کیا ہے۔
ذیل میں ہم قارئین کے سامنے درایت کے بعض وہ پہلو پیش کریں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث ام سلمہ متن کے اعتبار سے بھی ایک ناقابل حجت اور غیر مقبول روایت ہے۔
۱۔ زیر بحث حدیث سند کے علاوہ متن کے اعتبار سے بھی ایک غریب روایت ہے۔ اِس لیے کہ سیدہ ام سلمہ کی وساطت سے اِس کے متن میں جو حکم اور مضمون بیان ہوا ہے، اُس کو طبقہ صحابہ میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی دوسرے صحابی نے قطعًا کبھی بیان نہیں کیا۔ متن کا یہ پہلو بھی اِس روایت کے ضعف پر دلالت کرتا ہے۔
۲۔ عید الاضحیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں سنت کے طور پر جاری فرمایا ہے۔ اِس موقع پر قربانی اور نماز عید کی شریعت مقرر فرمائی ہے۔آپ نے خود بھی ان سنن پر برسوں عمل کیا ہے۔ قربانی کا آپ کو اتنا اہتمام تھا کہ بعض روایتوں میں نقل ہوا ہے کہ ایک مرتبہ سفر میں بھی آپ نے قربانی کی تھی۔آپ نے اپنی مجلس میں اِس عبادت کے بارے میں لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیے ہیں۔صحابہ بھی قربانی کا اہتمام کیا کرتے تھے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ام سلمہ کی روایت اگر واقعتاً فرمانِ رسول تھا تو اِس کا سب سے اوًلین عقلی تقاضا یہ ہے کہ عید کے باقی سنن واحکام کی طرح اِس حکم پر بھی، چاہے یہ حکم واجب تھا یا مستحب، سب سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس عمل پیرا ہوئے ہوں گے۔اور اِس صورت میں یہ ممکن نہیں ہے کہ اِس نوعیت کے ایک دینی حکم پر آپ برسوں عمل پیرا ہوں اور آپ کے صحابہ اُس سے واقف نہ ہوں، نہ اُسے بیان کریں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادات اور آداب کی نوعیت تک کی چیزیں روایت کرتے ہوں، یہ کیسے ممکن ہے کہ قربانی سے متعلق اتنا اہم حکم جس پر آپ نے ہمیشہ عمل کیا ہو، صحابہ اُسے دیکھیں، نہ اُسے کبھی کہیں بیان کریں؟ دراں حالیکہ کہ یہ حکم اور اِس پر عمل عموم بلویٰ کی نوعیت کا ہے۔یعنی یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو جاننے اورجس پر عمل کرنے کی ضرورت ہر خاص وعام مسلمان کو بار بار لاحق ہوتی ہے اور اِس پر عمل کا مشاہدہ بھی ہر شخص ایک دوسرے کو دیکھ کر بآسانی کرسکتا ہے۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس حکم پر عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، نہ یہ طبقہ صحابہ میں رائج تھا۔ قرون اولیٰ میں اہل مدینہ، اہل کوفہ اور اہل مصر کا عمل بھی اِس حکم پر نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ اُس دور کے تمام فقہائے امصار نے سعید بن مسیب کی اِس روایت کو ناقابل اعتنا سمجھا۔اگر ایسا کوئی حکم آپ نے قربانی کے موقع پر مسلمانوں کو دیا تھا تو سوال یہ ہے کہ قربانی سے متعلق صرف یہی حکم صدر اوّل میں مسلمانوں کے لیے اتنا اجنبی کیوں ہوگیا تھا کہ سند ومتن، دونوں اعتبارات سے ایک موقوف اورغریب روایت کی بنیاد پر سعید بن مسیب کو مسلمانوں کی توجہ اِس کی طرف مبذول کرانی پڑی، جس کے بعد بھی مسلمانوں نے بالعموم اِس حکم کو ناقابل اعتبار ہی سمجھا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث ام سلمہ کا حکم اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسا ہے کہ یہ اگر دین میں مستند اور ثابت شدہ ہوتا تو نہ صرف یہ کہ صحابہ کی معتد بہ تعداد اِس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل کو روایت کرتی، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ کے صحابہ کا عمومی عمل بھی اِس پر شایع وذایع ہوتا اوراہل مدینہ وکوفہ کا عمل بھی اِسی پر ہوتا۔اِس کے لیے مسلمانوں کے سامنے کسی خبر واحد کو پیش کرنے کی قطعًا کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ قرن اوّل کے ائمہ وفقہا کے اِس روایت کو قبول نہ کرنے کی وجہ بھی بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے۔وہ جب کہتے ہیں کہ یہ روایت عملِ عام یا عمل اہل مدینہ وکوفہ ومصر میں نہیں پائی جاتی تو اِس کا بالبداہت مطلب یہ ہے کہ اِس نوعیت کا حکم تو مسلمانوں میں روایت وعمل کے لحاظ سے شائع وذائع ہونا چاہیے۔ اِس طرح کی خبر واحد اِس کے اثبات کے لیے کافی نہیں ہے۔عموم بلوی کی نوعیت کے امور کا یہی عقلی تقاضا ہے جس کی بنا پر کبارِ علماے حنفیہ کے نزدیک اِن میں خبر واحد علی الاطلاق رد کردی جاتی ہے۔اِس نوعیت کے احکام میں اگر خبر واحد اور بالخصوص سندًا ومتنًا غریب روایت قبول کرلی جائے تو یہ اقتضاے عقل کے خلاف ہے۔خطیب بغدادی کہتے ہیں: ‘لا یقبل خبر الواحد فی منافاۃ حکم العقل’ ‘‘خبر واحد اُس صورت میں قبول نہیں کی جاسکتی جب وہ عقل کے حکم کی نفی کر رہی ہو’’۔
۲۔صرف یہی نہیں ہے کہ اِس روایت کے حکم پر نبیﷺ، آپ کے صحابہ اور صدر اوّل کے مسلمانوں کے عمل کا کوئی تاریخی ریکارڈ ہمیں نہیں ملتا، بلکہ قربانی سے متلعق اِس حکم کے خلاف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل سیدہ عائشہ کی صحیح اور مستند ترین روایت سے ثابت ہے، جس کی تفصیل ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔لہذا خود رسول اللہ کے عمل سے تعارض کی بنا بھی پر حدیث ام سلمہ کا متن اور اِس میں بیان کردہ حکم رد ہوجاتا ہے۔
۳۔ سند کے لحاظ سے حدیث ام سلمہ کا مدار، جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں، سعید بن مسیب پر ہے۔ جب کہ امام مالک نے اِس باب میں اُن کا اپنا فتوی روایت کیا ہے جس میں سعید بن مسیب نے عشرہ ذی الحجہ میں جسم کے بال اتارنے کو مباح قرار دیا ہے ابن عبد البر اُن کی یہ رائے نقل کر کے کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اپنی ہی بیان کردہ روایت کے حکم کے خلاف فتوی دینا اور اُس پر عمل کو ترک کردینا اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ روایت در اصل خود اُن کے نزدیک بھی غیر ثابت اور ناقابل حجت ہے۔
۳۔امام شافعی اور اُن کے مؤیدین کی رائے کا جائزہ
اوپر فقہا کے جوتین مواقف ہم نے بیان کیے ہیں، اُن میں دوسرا موقف امام شافعی اور اُن کے متبعین کا ہے، جس میں یہ تفصیل بیان کی گئی ہے کہ ام سلمہ کی روایت اپنے اندر حدیث عائشہ سے واضح تعارض رکھتی ہے۔اِس لیے یہ تعارض اِس بات کے لیے قرینہ ہے کہ ام سلمہ کی روایت بظاہر جن دو کاموں کو حرام قرار دے رہی ہے، وہ درحقیقت حرمت کے معنی میں نہیں، بلکہ کراہت کے معنی میں ہے۔
اِس موقف کو متاخرین کے ہاں اگرچہ کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، لیکن راقم الحروف کے نزدیک یہ بھی ایک نہایت کمزور موقف ہے۔اِس لیے کہ اِس رائے میں حکم کو ظاہرِ الفاظ کی صریح دلالت سے جس قرینے کی بنا پر حرمت سے کراہت کی طرف پھیردیا گیا ہے، وہ علمی طور پر قطعاً درست نہیں ہے۔ بلکہ یہ طرز استدلال بجائے خود محل نظر ہے۔اِس کو اِس طرح سمجھیے کہ حدیث ام سلمہ کے حدیث عائشہ سے تعارض کو صارف عن الحرمۃ الی الکراہۃ قرار دینا اِس لیے درست نہیں ہے کہ حدیث عائشہ تو اُم سلمہ کی روایت کے حکم کی سرے سے نفی کر رہی ہے۔اُس میں حکم کا درجہ بدل دینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ بلکہ اُن کی روایت تو اِس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا برعکس عمل بتا کر حدیث ام سلمہ کے حکم ہی کو رد کر رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ سیدہ کی روایت دین کا کوئی نیا حکم بیان ہی نہیں کر رہی ہے۔ بلکہ ایک عمل، جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اُنھوں نے ہمیشہ مباح دیکھا، اُس کو بیان کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں ام سلمہ کی روایت کا حکم آپ سے آپ باطل ہوجاتا ہے۔کیونکہ جس حکم کے خلاف رسول اللہ کا ہمیشہ کا عمل سیدہ بتا رہی ہیں، وہ دین میں کسی بھی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے حکم نہیں ہوسکتا۔ سیدہ عائشہ یہ نہیں فرمارہی رہی ہیں کہ قربانی سے متعلق آپ کا یہ حکم اپنی جگہ پر دین میں ثابت ہے۔بس اتنی بات ہے کہ آپ خود اِس پرعمل نہیں فرماتے تھے اور آپ کے طرز عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل حکم میں وجوب نہیں، بلکہ استحباب مقصود تھا۔
نتائج بحث:
بحث کے اہم نتائج درج ذیل ہیں:
۱۔ علمِ دین کی روایت میں موضوع ِبحث حکم کا اصل ماخذ ومصدرحدیث ام سلمہ ہے جس کی حیثیت ایک خبر واحد کی ہے۔
۲۔ قربانی سے متعلق یہ حکم اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہ صرف یہ قربانی کی عبادت پر ایک اضافی حکم ہے، بلکہ یہ قربانی ہی کی طرح اپنے اندرعمومِ بلوی کی نوعیت بھی بالبداہت رکھتا ہے۔لہذا یہ اُن نوعیتوں کے احکام میں سے نہیں ہے جو بالعموم خبر واحد کی بنیاد پر نقل ہوتے اور قبول کرلیے جاتے ہیں۔
3۔ حدیثِ ام سلمہ سند اور متن، دونوں اعتبارات سے ایک غریب روایت ہے۔
۴۔یہ روایت امام مالک اور امام بخاری کی شرائطِ صحت پر پورا نہیں اترتی۔ اِسی بنا پر اِن دونوں جلیل القدر ائمہ نے اِسے اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔
۵۔متقدمین میں بعض علما ومحدثین نے اِس روایت کو صحیح، جب کہ بعض نے ضعیف قرار دیا ہے۔یہی صورت اِس حوالے سے معاصراصحابِ حدیث کے مواقف کی ہے۔
۶۔بعض معاصر محققین کی رائے کے مطابق فن حدیث کی رو سے محقق اور راجح قول اِس روایت کے بارے میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر موقوف ہونے کا ہے۔لہذا اِس اہم دینی حکم کے اثبات کے لیے یہ روایت ناقابل حجت ہے۔
7۔تحقیق سند کے علاوہ درایت متن کے اعتبار سے بھی یہ روایت کئی پہلوؤں سے ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔
8۔اِس روایت پر نہ صرف یہ کہ نبی صلی اللہ وسلم، آپ کے صحابہ اور صدر اوّل کے مسلمانوں کا عمل ثابت نہیں ہے، بلکہ سب کا عمل اِس حکم کے برخلاف ثابت ہے۔
9۔ سیدہ عائشہ کی مستند ترین روایت، جس پر علما کے ہاں کوئی کلام نہیں ہے؛ اِس مقدمے کو پوری صراحت سے ثابت کرتی ہے کہ قربانی کا ارادہ کرلینا حج وعمرہ کے احرام کی کسی بھی پابندی کو قطعًامستلزم نہیں ہوتا۔دین میں اگر کسی بھی درجے میں یہ حکم موجود ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس پر ضرور عمل پیرا ہوتے۔اِس لیے کہ قربانی کا آپ کو بہت اہتمام تھا، لیکن اُن کا عمل اِس حکم کے برعکس ہی تھا۔یعنی آپ مدینہ میں بھی قربانی کیا کرتے اورہدی کے جانور بھیج کر حرم میں بھی اپنی قربانی کراتے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک موقع پر صراحت کے ساتھ احرام کی دو پابندیاں قربانی کرنے والے پر لازم قرار دیں اور خود اُس کا کبھی اہتمام نہ کریں؟
10۔اہل مدینہ کے عمل کے خلاف ہونے کی بنا پر امام مالک کے اصول کے مطابق بھی ام سلمہ سے مروی یہ خبر واحد رد ہوتی ہے۔
11۔زیر بحث حکم عموم بلوی کی نوعیت کا ہے اور اِس بنا پر یہ خبر واحد فقہائے حنفیہ کے اصول پر بھی ناقابل حجت قرار پاتی ہے۔
12۔قربانی کے باب میں قرآن وسنت میں موجود اسلامی شریعت کے قطعی احکام میں اِس حکم کی کوئی ایسی اساس معلوم نہیں ہوتی، جس سے شرح وبیان کی حیثیت سے اِس کو متعلق کیا جاسکے۔چنانچہ اِس تناظر میں یہ روایت فکر ِفراہی کے اُصول پر بھی غیر مقبول ہوجاتی ہے۔۱۳۔زیرِ بحث روایت کے حوالے سے عقل ونقل کے منافات کے جو پہلو ہم نے اوپربیان کیے ہیں، اُن کی رو سے نہ صرف یہ کہ خطیب بغدادی کے بیان کردہ اصول پر یہ رد ہوتی، بلکہ استاذ ِمکرم غامدی صاحب کے واضح کردہ تدبرِ حدیث کے بعض مبادی کے خلاف ہونے کی بنا پر بھی درایۃً ناقابل حجت قرار پاتی ہے۔
14۔ فہم واجتہاد کی بنیاد پر علما کا کسی دینی حکم کی حکمت یا علت بیان کرنا بجائے خود دین میں اُس حکم کے اثبات میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔
15۔بعض علما نے اپنے علم واجتہاد کی بنیاد پرموضوعِ بحث حکم کی بعض حکمتیں بیان کی ہیں جن پر بعض علمی اشکالات وارد ہوتے ہیں، چنانچہ وہ تمام حکمتیں محل نظر ہیں۔
16۔ فقہا کے تمام مواقف اور اُن کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد راقم الحروف جس نتیجے پرپہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے عشرہ ذی الحجہ میں جسم کے کسی بھی حصے کے بال کاٹنا یا ناخن تراشنا حرام ہے، نہ مکروہ ہے۔علمی طور پر یہ دونوں ہی نقطہ ہائے نظر درست نہیں ہیں۔ درست موقف یہ ہے کہ یہ دونوں اعمال اِن ایام میں بھی قربانی کرنے والے کے لیے اپنے اصل حکم ہی پر رہیں گے۔یعنی جسم کے جن بالوں کو کاٹناباقی دنوں میں مباح ہے، وہ اِن اِیام میں بھی مباح ہوگا۔مزید یہ کہ اسلامی شریعت میں تطہیر بدن کی غرض سے مسلمان مرد عورت کے لیے بڑھے ہوئے ناخنوں کو کاٹنے، زیرناف کے بال مونڈنے ، بغل کے بال صاف کرنے اور بالخصوص مردوں کے لیے مونچھوں کو پست رکھنے کو جو ضروری قرار دیا گیا ہے،یہ حکم جس طرح باقی دنوں میں مشروع ہے، ضرورت پڑنے پر عشرہ ذی الحجہ میں بھی قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لیے ویسے ہی لاگو ہوگا۔اِسی طرح قربانی کرنے والے اگر اِن اِیام میں عمرہ ادا کرتے ہیں تو اِس کے مناسک کی تکمیل پر جس طرح باقی دنوں میں سر کا حلق یا تقصیر لازم ہے، اِن ایام میں بھی لازم ہوگا۔٭٭٭