دين و دانش
مرد و عورت کا مصافحہ کب جائز نہیں؟
حافظ صفوان
محکمۂ تعلیم کے بعد محکمۂ مواصلات میں میری نئی نئی نوکری لگی تو رائے ونڈ میں ایک یونیورسٹی کے نہایت قابل اور نہایت دین دار استاد نے مجھے کہا کہ فوراً اپنا وزٹنگ کارڈ بنوا لیجیے۔ اپنا واقعہ بتایا کہ یونیورسٹی میں یا دنیا بھر میں کسی میٹنگ میں کسی خاتون سے ہاتھ ملانا ضروری ٹھہرے تو یہ کارڈ کام آتا ہے۔ کہنے لگے کہ چند روز پہلے صدر کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن ہماری یونیورسٹی میں آئیں تو سینئر سٹاف سے تعارف و مصافحہ اور میٹنگ تھی۔ ہم پروفیسرز قطار میں کھڑے تھے۔ کلنٹن سب سے مصافحہ کرتے کرتے مجھ تک آئیں تو میں نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنا وزٹنگ کارڈ اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ مجھے تعارف کے لیے وقت بھی زیادہ ملا اور مصافحے سے بھی بچ گیا۔
میں حالات کا شکار ہونے کی وجہ سے پاکستان ہی میں پھنس کر رہ گیا لیکن مجھے بھی کئی بار خاتون سے مصافحہ کی نوبت آئی جس کی یہاں کم ہی ضرورت پڑتی ہے۔ وزٹنگ کارڈ نے ایسے بیشتر مواقع پر دستگیری کی، بلکہ میں تو ایسے موقع پر مصافحے سے بچنے کے لیے آگے بڑھ کر خاتون کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہوں اور اگر خاتون عمر میں مجھ سے بڑی ہوں تو اُن کے سامنے سر جھکا دیتا ہوں کہ میرے سر پر ہاتھ رکھیے۔ میری فقۂ طبعی میں سر پر ہاتھ رکھنا یا رکھوانا مصافحے کی نسبت کم تر خرابی ہے۔
ہاتھ ملانے اور ہاتھ تھامنے، اور ہاتھ چھڑانے اور ہاتھ کھینچنے میں فرق ہے۔ اردو کے اِن چاروں محاورات کی ایک مستقل حیثیت لغاتِ سماعیہ (Collocations) کی بھی ہے، یعنی یہ لفظی معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ لفظی معنی میں استعمال کا مطلب ہاتھوں کا وجوداً اور جسمًا ملنا اور الگ ہونا ہے۔ یہ ہاتھ مرد و عورت دونوں کے ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے کہ شریعت کے مَس کے احکامات یک بیک سامنے آنے لگتے ہیں ورنہ استعاراتی معنی میں تو خفیہ ہاتھ اور تیسرا ہاتھ سے لے کر اللہ کا ہاتھ اور "ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ" تک اَن دیکھے ہاتھوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ اِن سب ہاتھوں کو ہاتھ ہی سجھائی نہیں دیتا، احکامِ اسلام کہاں لگیں گے۔
اسلام نے جیسے قدیم الایام سے چلتے آتے انسانی معاشرتی تعلقات مثلًا شادی بیاہ وغیرہ کے بارے میں انتہائی لچکدار احکامات دیے ہیں اور ساری دنیا میں کہیں بھی رہنے والا کسی بھی نسل اور زبان کا بولنے والا شخص اسلام قبول کرکے شریعتِ اسلامی کے مطابق شادی کر سکتا ہے اُسی طرح اسلام نے مرد و زن کے اختلاط کے بارے میں بھی نہایت لچکدار اور ہر کہیں کے لیے قابلِ عمل طور طریقے تعلیم کیے ہیں۔ نبی پاک علیہ السلام نے حیا کو ایمان کا خصوصی شعبہ ارشاد فرمایا ہے اور اختلاط اِس باب میں نہایت ناپسندیدہ ہے۔ مرد و عورت کا مصافحہ بھی اِسی ذیل میں آتا ہے۔
اسلام نے کہیں اِس کا حکم نہیں دیا کہ مرد و عورت ملیں تو مصافحہ کریں۔ مصافحہ ہمارا معاشرتی طریقہ یا رسم ہے بالکل ویسے جیسے بلادِ عرب میں ماتھے کا بوسہ لینا۔ چنانچہ اگر اسلام مصافحے یا ماتھے پر بوسہ لینے کے بارے میں کوئی واضح حکم دیتا تب بھی اِس پر مختلف معاشروں میں رہنے والے مسلمانوں کا یکساں عمل کرنا قریب قریب ناممکن ہوتا، اِس لیے خدا نے کئی دیگر معاشرتی و سماجی مظاہر کی طرح اِس کو بھی لوگوں کی سہولت اور سماج کے عرف پر چھوڑ دیا ہے۔ جہاں برائی کا خدشہ ہو وہاں صرف مصافحہ نہیں کئی اور چیزوں سے بھی روکا جائے گا۔ اور یہ روکنا عین شرعی ضرورت ہوگا کیونکہ یہ معاشرے کی ضرورت ہے۔ ایسے موقع پر ہرگز نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ خدا نے اِس کام سے کہاں روکا ہے۔ مثلًا اگر حکومت فیسبک کے استعمال پر پابندی لگا دے تو اِس کا شرعی جواز موجود ہے۔ ہماری حکومت نے شرعی جواز ہی کے تحت ایک وقت تک یوٹیوب پر پابندی لگائے رکھی ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے سماجی، سیاسی، معاشی، جغرافیائی، وغیرہ، حالات اور آمدہ ضروریات کے تحت ایسی کوئی بھی پابندی لگانے اور اٹھانے کا جواز رکھتی ہے۔
اب آئیے مصافحے کی طرف۔ لندن میں مقیم ایک عزیزہ نے مجھ سے مرد و عورت کے مصافحے کی بابت پوچھا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر میں آپ سے ووکنگ میں آکر ملا تو آپ کے سر پر ہاتھ رکھوں گا کیونکہ آپ مجھ سے چھوٹی ہیں، اور آپ سے ہاتھ بھی ملاؤں گا۔ اور جو چھوٹے چھوٹیاں زیادہ بے تکلف ہوتے ہیں اُن کے کان کھینچنا اور کسی کسی کی ناک دبانا بھی میرا پرانا معمول ہے جو میں نے اپنے تایا جان ساجد صدیق صاحب سے سیکھا ہے جو ہمارے خاندان کی ایک محبوب شخصیت اور تبلیغی جماعت وہاڑی کے امیر تھے اور اپنے سب بھتیجوں بھتیجیوں کے ساتھ ایسے ہی پیار کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے سامنے آنے پر جیسا گرمجوش تعلق محسوس ہوا اُس کے مطابق ناک یا کان دبانے میں سے کوئی نہ کوئی حرکت کروں گا۔ اِس سے نہ آپ روکیں گی اور نہ میں رکوں گا. لیکن اگر یہی ملنا لاہور میں ہوا تو شاید آپ کے سامنے سر جھکا کر سر پہ ہاتھ پھروا لوں گا اور بس۔ اور ایسا اِس لیے کروں گا کہ اسلام کے ایسے معاشرتی مظاہر جگہ جگہ کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔
جواب میں اُنھوں نے کہا کہ مجھ سے زیادہ یہ بات کون سمجھ سکتا ہے۔ میں لاہور، کراچی اور یوکے میں رہ چکی ہوں۔ میں بھی اکثر ہاتھ ملا لیتی ہوں۔ چند روز پہلے مجھے گاڑی کا ٹائر بدلنا پڑا۔ پٹرول پمپ والے لڑکے نے میرے ہاتھ صاف کیے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ پٹرول پمپ والا مزدور لاہور میں میرے ہاتھ صاف نہیں کر سکتا اور نہ میں کرواؤں گی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اِس طرح اِس ہاتھ صاف کرانے کو جائز کہہ دینا، یا موسیقی جو ہم سنتے ہیں اُس کو جائز کہہ دینا غلط ہے۔ شریعت کے احکام ہر جگہ سانجھے ہیں تاہم کلچر الگ چیز ہے۔ غامدی صاحب کا مصافحے والا کلپ میں نے بھی سنا ہے مگر مجھے اُن کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں لگتی۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے حسابوں وہ لوگوں کو دین کے قریب کرنا چاہتے ہیں۔ میں اُن خواتین پر حیران ہوں جو فیسبک پر مرد حضرات خصوصًا مولویوں سے صرف رسمی سلام دعا ہی نہیں رکھتیں بلکہ ہنستی کھیلتی اور اُن کے سامنے بچھ بچھ جاتی ہیں لیکن عورت مرد کے مصافحے کے موضوع پر یوں اچھل کود رہی ہیں جیسے گرم توے پر مکئی کے دانے اچھلتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ مجھے تو مصافحہ کرنے سے زیادہ یہ کھلم کھلا اور اِتنے مردوں سے اور خصوصًا دین کے نام پر پیر فقیر اور مصلحین ٹائپ لوگوں سے اختلاط زیادہ خطرناک لگتا ہے۔ ہاتھ ملانا تو ایک لمحاتی عمل ہے، باتیں کرنا اور مہینوں ذومعنی باتیں چلنا تو مصافحہ کرنے سے کہیں زیادہ خطرناک چیز ہے جس میں شریف گھریلو عورتیں زیادہ مبتلا ہوجاتی ہیں، جس کا نتیجہ فیملی لائف اور بچوں کے حق میں نہایت بھیانک ہوتا ہے۔ میں ایسی خواتین کو جانتا ہوں جو غیر مرد سے مصافحہ کرنے کو حرام کہتی ہیں مگر اُن پیر فقیروں نعت خوانوں اور اہلِ دین جو اُن کے بچوں کی عمر کے ہوتے یا اُن سے تھوڑا بڑے، اُن کے ہاتھ کابوسہ ایسے لیتی ہیں جیسے اِس عمل کے بغیر اُن کی دعا قبول نہیں ہونی۔ یہ محض جہالت ہے۔ ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے شریف گھریلو خواتین ہی سب سے زیادہ اِن لوگوں کی لچھے دار باتوں میں آتی ہیں اور اپنے گھر خراب کر بیٹھتی ہیں۔ کیسا اچھا ہو کہ لوگ، خصوصًا خواتین، ایسے اختلاط کی خرابی کو سمجھیں جو مصافحے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ شیطان ہم سب کے ساتھ ہر وقت رہتا ہے۔ خدا ہمیں ہدایت دے اور ہماری حفاظت کرے۔
اِس بات کو وضاحت سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مہمانوں، والدین، بزرگوں، اور سماجی اعتبار سے معزز شخصیات سے سلام دعا اور عزت افزائی نیز آداب بجا لانے کی روایت الہامی مذاہب سے پہلے سے موجود ہے۔ غیر الہامی مذاہب کی تعلیمات کی تو بنیادیں ہی انسانی حقوق، ماحولیات کے تحفظ، نظم و ضبط اور اخلاقیات پر استوار ہیں۔ بالفاظِ دیگر یہ علاقائی ثقافتیں قدیم بھی ہیں اور مذہبی تعلیمات اور عقائد سے زیادہ مضبوط بھی۔ پاکستان ہی کے اندر بعض سماجوں میں ایک علاقائی رسم مصافحے کی ہے۔ یہ لوگ جب ملتے ہیں، بلاتفریقِ مرد و زن اِس طرح مصافحہ کرتے ہیں کہ ہاتھ سے لے کر کہنیوں اور بازو ایک دوسرے کو چھوتے ہیں۔ واضح رہے کہ اِس میں اُن لوگوں کی کوئی بدنیتی نہیں ہوتی بلکہ یہ مہمان و ملاقاتی کے لیے خیر سگالی اور گرمجوشی سے استقبال کا روایتی اور ثقافتی اظہار ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ ہمارے ہاں گلے ملنا، سر پر پیار دینا، سر یا ماتھا چومنا، وغیرہ، معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ انسان اِتنا بھی کمزور نہیں کہ چند لمحات کی سلام دعا، توقیر و عزت افزائی میں ہی منفی خیالات اپنے دل میں پیدا کرلے۔ رشتوں میں پاکیزگی پر ہر انسان کا ایمان ہے۔ باقی جہاں تک مذہب کی بات ہے، تو ہم نے ایک نہایت اعلیٰ مذہب کو کلچر میں گھسا کر پہلے سے موجود اعلیٰ روایات میں بگاڑ ہی پیدا کیا ہے۔ مذہب کی سب سے بڑی ذمہ داری معاشرتی برائیوں کا خاتمہ تھا، جسے ہم نے اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے بری طرح ناکام کر دیا ہوا ہے۔ یہ قصور ہم لوگوں کا ہے نہ کہ مذہب کی کمی ہے۔
ابھی تو انسانوں نے بہت تبدیلیاں دیکھنا ہیں۔ آج تو عورت اور مرد کی شادی میں لاینحل مسائل ہیں، دو تین عشروں کے اندر انسان کے قالب میں حقیقی جانور اور جانوروں کے قالب میں حقیقی انسان پیدا ہوں گے اور ایسے ہائبرڈ (دوغلے) انسان جن میں کچھ اعضا مختلف جانوروں درندوں کے لگے ہوں گے اور انسان یہ اعضا ساتھ لے کر پیدا ہوگا، اُس وقت اسلام کو انسان اور جانور کی شادی کے بارے میں احکام پیش کرنا ہوں گے۔ ہم میں سے جو زندہ ہوا وہ دیکھے گا کہ اِن مسائل سے عہدہ برا ہونے کے لیے فقہ میں کسی نہ کسی جزئی میں سے کوئی نایاب گوہر نکل آئے گا جو سارے نظام کو اسلامور (Islamize) کر دے گا۔ مصافحہ تو بہت چھوٹی چیز ہے۔