دين و دانش
متقی کبائر و فواحش میں پڑ سکتا ہے
سيد متين احمد
ارشاد باری ہے :
لله ما في السماوات و ما في الأرض ليجزي الذين أسآءوا بما عملوا و يجزي الذين أحسنوا بالحسنى. الذين يجتنبون كبائر الإثم و الفواحش إلا اللم. إن ربك واسع المغفرة. هو أعلم بكم إذ أنشأكم من الأرض و إذ أنتم أجنة في بطون أمهاتكم. فلا تزكوا أنفسكم هو أعلم بمن اتقى. (النجم :31. 32 ) (اور اللہ ہی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے. انجام کار یہ ہے کہ وہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کی پاداش میں بدلہ دے گا اور نیک کام کرنے والوں کو نیک بدلہ دے گا. وہ لوگ ایسے ہیں جو کبیرہ گناہوں اور بے حیائیوں سے بچے رہتے ہیں سوائے چھوٹے گناہوں کے. / کبھی کبھی آلودہ ہو جانے کے. بے شک آپ کا پروردگار بڑی وسیع مغفرت والا ہے. وہ تم کو خوب جانتا ہے جب کہ تم کو زمین سے پیدا کیا تھا اور جب تم ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے. لہذا تم اپنے آپ کو پاکیزہ نہ ٹھہراؤ. وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے-)
"جو کبیرہ گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں سوائے "لمم " کے.
آیت میں موجود لفظ "لمم" کے ترجمہ میں دو رجحان ملتے ہیں. ایک یہ کہ استثنا متصل شمار کر کے ترجمہ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ استثنا منقطع ہو.
استثنا متصل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کیexceptionکی جا رہی ہے وہ پہلے ذکر کردہcategory کا حصہ ہو اور استثنا منقطع کا مطلب یہ ہے کہ ایکسپشن پہلے مذکور کیٹیگری کا حصہ نہ ہو. پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ وہ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں لیکن یہی کبیرہ گناہ اور بے حیائی کے کام ان سے کبھی کبھی ہو جاتے ہیں. دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں سوائے چھوٹے چھوٹے گناہوں کے.یعنی اس صورت میں چھوٹے گناہ، کبائر اور فواحش سے الگ چیز ہیں۔ تراجم قرآن سے بظاہر لگتا ہے کہ ترجمہ استثنا کی ان دونوں اقسام کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے، چنانچہ :
* الا یہ کہ چھوٹے گناہ ان سے سرزد ہو جائیں -مولانا عبد الرحمان کیلانی رح
* مگر ہاں یہ کہ ہلکے ہلکے گناہ ہو جائیں. (مولانا دریابادی رح )
* مگر ہلکے ہلکے گناہ. (مولانا تھانوی رح )
* مگر کچھ آلودگی (شیخ الہند رح )
* مگر شاذ و نادر. (پیر کرم شاہ رح )
* البتہ کبھی کبھی پھسل جانے کی اور بات ہے. (مولانا تقی عثمانی)
* مگر یہ کہ کبھی کسی برائی پر پاؤں پڑ گئے. (مولانا اصلاحی رح )
ان تمام تراجم میں جو بات ملحوظ ہے اہل تفسیر کے مطابق اس کے مختلف اطلاق ہیں :
* چھوٹے گناہ
* کسی بڑے گناہ کے قریب پہنچ جانا لیکن ارتکاب نہ کرنا
* کچھ دیر کے لیے گناہ میں پڑ جانا لیکن اصرار نہ کرنا بلکہ واپس لوٹ آنا.
* گناہ کی خواہش دل میں ہونا لیکن عملی طور پر ارتکاب نہ کرنا.
استثنا متصل ہونے کی صورت میں یہ گنجائش بہرحال موجود ہے کہ انسان خواہ کتنا متقی ہو جائے یہ بات ہر وقت ممکن ہے کہ وہ کبیرہ گناہ یا کسی بڑی بے حیائی تک پہنچ جائے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا ارتکاب بھی کر بیٹھے لیکن اس پر باقی اور قائم نہ رہے بلکہ واپس لوٹ آئے. امام ماتریدی رح فرماتے ہیں کہ "لمم " کو فواحش اور کبائر ہی سے استثنا سمجھنا آیت کی تاویل کے زیادہ قریب ہے. بعد میں اللہ کی جو صفت وسیع مغفرت والا بتائی گئی ہے وہ بھی اس بات کی تائید کرتی ہے. وسیع مغفرت کا صحیح ظہور اسی معنی میں انسب ہے کہ بندہ غفلت، شہوت و نفس کے غلبہ ، گناہ کے خوشنما دکھائی دیے جانے کی وجہ سے کسی بڑی کوتاہی کا شکار ہو جائے لیکن لوٹ آنے، اللہ کے سامنے ڈھ پڑنے، عاجزانہ، نادمانہ، تائبانہ، مستغفرانہ رجوع کرتے ہوئے سنگ در پر جبیں سائی کرنے میں کسی تاویل و حجت سے کام نہ لے. یہ عمل اس کی روحانی تربیت اور تزکیہ کرتا رہتا ہے جو دین کا اصل اصول اور مقصود ہے.