عید قرباں 

مصنف : مولانا عبدالماجد دریا آبادی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : اگست 2025

دين و دانش

عید قرباں 

مولانا عبد الماجد دریابادی

(یہ تقریر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے فروری 1940ء میں عید الاضحی کی شام کو نشر ہوئی تھی۔ 15 منٹ کے مختصر دورانیے میں مولانا مرحوم نے کمالِ بلاغت سے بقر عید کی خصوصیات، اس کے پیام اور دیگر جزئیات کی تصویر بڑے دل چسپ انداز میں کھینچی ہے۔ آج بھی اپنی لطافت اور معنویت کے لحاظ سے یہ نشریہ تازہ اور تابندہ ہے۔)

اللہ اللہ دو مہینے دس دن کی مدّت بھی کوئی مدّت ہے۔ بات کہتے کٹ گئی اور شوّال کی پہلی کی یاد ابھی مٹنے نہ پائی تھی کہ ذی الحجّہ کی دسویں آگئی۔ وہ مسلمان کی پہلی سالانہ عید تھی یہ دوسری اور آخری۔ وہ عید الفطر تھی یہ عید قرباں یا عید الاضحی وہ عید میٹھی تھی آج کی عید نمکین۔ اس روز سوئیاں پی پلائی گئی تھیں آج قربانیاں ہوں گی۔ وہ جشن تھا اس کا کہ اطاعت اور ضبط نفس کے پورے تیس دن ختم ہوئے اور نزول قرآن کی یادگار پورے مہینہ بھر سنائی جاتی رہی تھی۔ آج خوشی اس کی ہے کہ نصیبے والے عین مرکز اسلام میں کعبۃ اللہ کے گرد چکّر پر چکّر کاٹ رہے ہیں، طواف وزیارت کی دولتوں سے مالا مال ہو رہے ہیں، پروانے شمع پر نثار ہو رہے ہیں۔ مکّہ کی گلیوں میں مکانوں میں دوکانوں میں مسجدِ حرم کے صحن میں دالانوں میں حاجیوں کا زائروں کا ہجوم، منیٰ کے میدانوں میں خیموں میں مکانوں میں قربانیوں کی دھوم!پورے عشرہ کا عشرہ چاند کی پہلی سے دسویں تک وقف، خیر وبرکت کے لیے، نزول رحمت کے لیے۔ جس نیکی کی بھی توفیق پا جائیے، ہمیشہ سے زیادہ معمول سے بڑھ کر ثواب لائیے۔ خود حاجی ہونا الگ رہا، حاجیوں کی نقل تک باعث اجر۔ ان کی طرح نہ بال بڑھائیے نہ ناخن  تَرشوائیے اس کابھی اجر پائیے!

لَبَّیکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیک لَبَّیک لَاشَرِیکَ لَکَ لبَّیکَ.. تاریخ کی زبان سے روایت یہ سننے میں آئی ہے کہ آج سے کچھ اوپر پانچ ہزار سال قبل کلدانیہ کے ملک میں، بت پرستوں کی قوم میں بت تراشوں کے گھرانے میں ایک مقبول اور بہت مقبول برگزیدہ اور نہایت برگزیدہ بندہ ابراہیمؑ نامی آباد تھے، یہ کلدانیہ وہی جسے انگریزی میں کالڈیا کہتے ہیں، یا آج کے جغرافیائی اصطلاح میں عراق۔ بندہ کے امتحانات طرح طرح کے مالک کی طرف سے ہوئے، اور ابراہیم ؑ ہر آزمائش میں پورے اترے۔ آخر اللہ کے پیغمبر ہی تو تھے، کچھ روز بعد حکم ہجرت کا ملا۔ سر زمین شام پر پہنچے اور پھر مصر ہوتے ہوئے حجاز کی خشک اور پتھریلی وادی میں آئے۔ علاقہ ویران، پانی کا نام نہ نشان، سبزہ کی جگہ ہر طرف ریگستان، نیچے تپتی ہوئی زمین اوپر دہکتا ہوا آسمان. حکم ملا کہ یہیں ایک گھر بناؤ، اسی مٹی اور پتّھر کا، لیکن اپنے لیے نہیں ہماری عبادت کے لیے، اور ہاں ذرا یہ کرنا کہ اسے منسوب ہماری جانب کر دینا۔ ہم گھر اور در کی قیدسے ماورا، مکان اور چھت کی نسبت سے بھی برتر وبالا، لیکن ذرا اسی گھر کے ساتھ ہمارا نام ڈال تو دو، اور ہماری ہی بسائی ہوئی دنیا کو آواز دے دو کہ اس گھر کی طرف آجایا کرو: وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ۔ فرماں بردار بندے نے پکار کردی، اوراس وقت پکار کی جب نہ تار تھا نہ ٹیلی فون، نہ وائرلیس نہ لاؤڈ اسپیکر، نہ لوگ نشریات (براڈ کاسٹنگ) کے قانون سے واقف تھے، نہ گھر گھر ریڈیو لگے ہوئے تھے۔ ابراہیمؑ کی پکار خدا معلوم کس لاہوتی میٹر پر اور کس ملکوتی لہر (wave length) سے نشر ہوئی کہ آج تک اس کی تھرتھراہٹ فضائے کائنات میں آپ خود سن رہے ہیں۔

حج کی تاریخ میں ابھی ہفتوں کا نہیں مہینوں کا زمانہ باقی ہے کہ دربار کی حاضری کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ اور اپنے اپنے گھر سے چل کھڑے ہوئے اپنے مالک ومولیٰ کے متوالے دنیا کے گوشہ گوشہ سے روئے زمین کے چپّے چپّے سے، کوئی کابل سے کوئی قندھار سے، کوئی مصر سے کوئی ایران سے، کوئی عراق سے کوئی بخارا سے، کوئی سیلون سے کوئی جاوا سے، کوئی افریقہ کے ویرانہ سے، کوئی یورپ کے نشاط خانہ سے، غرض خلقت ہے کہ ہر چہار طرف سے امنڈتی چلی آرہی ہے: یَاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقْ۔ کوئی ریل سے کوئی جہاز سے، کوئی موٹر پر کوئی لاری پر، کوئی پیدل کوئی سواری پر، کوئی غریب اپنی کمر کو کسے ہوئے اور کوئی صاحب اونٹ کی پیٹھ پر جمے ہوئے۔

کعبہ اسلام کا جغرافیائی مرکز ہے۔ مرکز کا ربط محیط کے گوشہ گوشہ سے دائرہ کے نقطہ نقطہ سے۔ دانا وبینا جوڑنے والے نے یوں جوڑا کہ ہر صاحب حیثیت پر عمر میں کم ازکم ایک مرتبہ حج فرض کردیا۔ حج کا رکن اعظم ہے نو ذی الحجّہ کو میدان عرفات میں حاضری، سو وہ کل ہوگئی، اب آج کا دن اس سعادت کی خوشی منانے کا دن ہے۔ کلمہ گو جہاں کہیں بھی آباد ہیں آج جشن منائیں گے، لیکن اس مسرّت کی غفلت میں دن چڑھے تک خرّاٹے لینے کے بجائے آج معمول سے اور سویرے اٹھیں گے غسل کریں گے۔ اجلے کپڑوں کے ساتھ بشاش چہروں کے ساتھ عید گاہ روانہ ہوں گے اور واپس آئیں گے۔ توان میں جوصاحب حیثیت ہیں وہ اچھے اور پاک صحیح اور تن درست جانوروں کی قربانی کا تحفہ اپنے پروردگار کے حضور میں پیش کریں گے، خود اپنی طرف سے اپنے عزیزوں کی طرف سے، بزرگوں کی طرف سے، اور جب کھانے کا وقت آئے گا تو تنہا نہیں کھا لیں گے بلکہ پہلے ایک تہائی محتاجوں مسکینوں اور مفلسوں کو نذر کر دیں گے، ایک تہائی دوست احباب کی خدمت میں پیش کریں گے، جب کہیں ایک تہائی اپنے لیے رکھیں گے۔ عید الفطر کے دن تاکید تھی کہ کوئی بد نصیب فاقہ سے نہ رہ جائے۔ عید قرباں کے دن ترغیب ہے کہ غریب سے غریب بھائی کی زبان کو کھانے پینے کی لذّتوں کا کچھ تو مزہ آجائے۔

عید الفطر سال گرہ تھی نزول قرآن کی، عید قرباں سال گرہ ہے بنیاد کعبہ کی۔ ابراہیمؑ موحّد تھے موحّدوں کے سردار۔ توحید ہی کے جرم میں آگ میں جھونکے گئے تھے، ملک سے نکالے گئے تھے، حق تھا کہ ان کی قائم کی ہوئی یادگار کے سلسلہ میں توحید ہی کا رنگ ہر رنگ پر غالب ہو اور سب سے نمایاں۔ آج آفتاب بلند ہوا کہ لگے لوگ عید گاہ اور مسجدوں کی طرف چلنے، اور لگے ہر طرف سے رب کی بڑائی کے نعرے بلند ہونے! سینوں کے اندر توحید کے ولولے، زبانوں پر تکبیر کے زمزے۔ کیا خوب ظاہر ہے اور کیا خوب باطن، اور کیا خوب قال اور کیا خوب حال! عید کے دن یاد ہوگا کہ تکبیریں صرف نماز عید کے ساتھ تھیں اور آمد و رفت کے راستے میں. بقر عید کے موقع پر ایک نماز، ایک وقت بلکہ ایک دن بھی اس جوش کے اظہار کے لیے کافی نہیں۔ اب کی تکبیر شروع ہوگئی ۹ تاریخ کی فجر ہی سے اور جاری رہے گی ہر نماز کے ساتھ! ابھی تین دن اور یعنی ۱۳ کی عصر تک۔ مرکز میں آج مسلمان اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے پکارے گا: لبیک اللھم ّ لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک ’’حاضر ہے اے مالک ومولیٰ یہ غلام حاضر ہے، یہ شہادت دیتا ہوا حاضر ہے‘‘. یہ آداب حاضری دینے والوں کے ہوئے، مرکز سے دور باہر والے ۹ سے ۱۳ کی سہ پہر تک ساڑھے چار دن ہر نماز کے بعد پکاریں گے: ’اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الّا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر ولِلّٰہ الحمد‘ بڑائی تو آپ میں ہے صرف آپ میں ہے صرف آپ میں ہے آپ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بڑائی آپ میں ہے صرف آپ میں ہے۔ ہمارے شکر کی مخاطب آپ ہی کی ذات، ہماری ہر مدح وثنا کے سزاوار آپ ہی کے کمالات۔

مسلمان قربانی کے لیے تیاری دنوں، ہفتوں، مہینوں پیش تر سے کرے گا، پاک صاف جانور اچھّا تن درست بے عیب دیکھ کر خریدے گا۔ کھلائے گا پلائے گا اپنے سے خوب ہلائے گا اور جب اس سے تعلق انس ومحبت کا رحمت وشفقت کا قائم ہوجائے گا تو اپنے اور اس کے دونوں کے مالک کے حکم سے اس تعلق پر اپنے ہاتھ سے چھری چلا دے گا۔ پالے ہوئے جانور کو پیار کی نظروں سے دیکھے گا آخر وقت تک کھلائے پلائے جائے گا لیکن جب حکم کی تعمیل میں زمین پر لٹائے گا تو قبلہ رخ منہ اس طرف کر کے جدھر وہ خود دن رات میں خدا معلوم کتنی بار جھکتا ہے اور گرتا ہے۔ اور زبان سے کہتا جائے گا: اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِي لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِین۔ نہیں، یہ کسی دیوی دیوتا کی بھینٹ نہیں چڑھا رہا ہوں، میرا رشتہ تو صرف اسی سے جڑا ہوا ہے، میں تو پجاری صرف اس کا ہوں جس نے پیدا کر رکھا ہے آسمان وزمین کو۔ میرا دستور زندگی تو تمام تر اس کے قانون کی پیروی ہے: اِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین؛ میری دعائیں اور میری عبادتیں میری زندگی اور میری موت نہ اپنے نفس کے لیے ہے اور نہ قوم اور نہ اس ملک کے چھوٹے موٹے دیوی دیوتا کے لیے ہے، اسی کے حکم اور قانون کے تابع ہے جو پروردگار ہے ہر ملک کا، ہر قوم کا، ساری مخلوقات کا، جمیع موجودات کا، کل کائنات کا۔

ڈاکٹر جب مریض کو آپریشن کی میز پر لٹاتا ہے تو پہلے آپریشن والے عضو کو دوا لگا کر سُن کر دیتا ہے، یا مریض کو کلوروفام سنگھا کر بے ہوش. مسلمان بھی جب جانور کو ذبح کے لیے قبلہ رخ لِٹا  كرگلے پر چھری چلاتا ہے تو روح کو ایک مختصر دو لفظی نغمہ سا مست ومدہوش کردیتا ہے: بسم اللہ اللہ اکبر ! اے خاک کی مورت میں تجھے مردہ اپنی طرف سے نہیں کر رہا ہوں، میں تو خود تیری ہی طرح مخلوق تیری ہی طرح بے بس تیری ہی طرح خاکی تیری ہی طرح فانی، میں چھری چلا رہا ہوں اپنے اور تیرے پیدا کرنے والے کا نام لے کر اپنے اور تیرے مالک کے قانون کے ماتحت۔ زندگی کا عطیہ بخشنے والا بھی وہی، اسے واپس لینے والا بھی وہی۔ جان ایک روز ڈالی بھی اسی نے اور آج نکالی بھی اسی نے۔ بڑائی کا حق دار حکم چلانے والا صرف وہی! سنتے ہیں کہ فوج کے سپاہی جنگ کے میدان میں فوجی بینڈ اور وطنی ترانہ کی آواز سن کر ایسے مست ہوجاتے ہیں کہ جان کی پروا نہیں رہ جاتی، اور بندوق کی گولیوں، توپ کے گولوں، سنگینوں کے وار کے لیے بے تکلف اپنے سر وسینہ کو پیش کردیتے ہیں۔ اللہ کے نام کی کشش کیا روح کے لیے اتنی بھی نہیں، جاننے والے تو یہاں تک کہہ گئے کہ روح اس اسم پاک سے ایسی مست وبے خود ہوجاتی ہے کہ خود حالت طرب میں ہنسی خوشی باہر آجاتی ہے، گو جسم دیکھنے والوں کی نظر میں تڑپتا لوٹتا رہے۔ آخر کلوروفام کا کام آپریشن میں بھی تو یہی ہوتا ہے کہ رگوں پر رگیں جسم کی کٹتی رہیں خون پر خون بہتا رہے لیکن مریض کا احساس اذیت وکرب مردہ ہوجاتا ہے۔ اللہ ٹھنڈا رکھے حضرت اکؔبر کی تربت کو کیا خوب فرما گئے:

احساس ہی ایذا کا نہ ہوا میں فریاد وفغاں کیا کرتا

آنکھ اپنی لڑی تھی قاتل سے جس وقت تہِ خنجر تھا گلا

کہتے ہیں کہ ایک بار ان ہی کعبہ کی تعمیر کرنے والے، آگ میں کود پڑنے والے، حج کی پکارنے والے ابراہیم ؑ نے بھی قربانی پیش کی تھی، یہ قربانی بکرے کی نہ تھی، مینڈھے کی نہ تھی، اونٹ کی بھی نہ تھی، چہیتے اور لاڈلے نورِ نظر اسماعیل ؑ کی تھی۔ خواب میں حکم محبوب ترین ہستی کی قربانی کا ملا۔ پیغمبر کے خواب بھی الہامی ہوتے ہیں۔ صبح اٹھ کر مشورہ اسماعیلؑ سے کیا، اس سے کیا جو آنکھوں کا تارا بڑھاپے کا سہارا تھا۔ مشورہ خود اسی کے ذبح کے باب میں اسی سے کیا۔ دنیا کی تاریخ میں کب کسی عزیز نے عزیز سے اس کے قتل وذبح کے باب میں مشورہ کیا ہے؟ کب کسی شفیق اور عاشق زار باپ نے اپنے لخت جگر کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے؟ ہر صاحب اولاد دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے۔ بیٹا بھی کس باپ کا تھا، فوراً آمادہ ہوگیا اور عرض کی: ’ابّا جان آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے گا ایسا نہ ہو کہ عین وقت پر میرا چہرہ دیکھ کر آپ کی ہمّت جواب دے جائے’. باپ نے آنکھوں پر پٹی باندھ خدا معلوم دل پر کون سے پتھر کی سِل رکھ حلق پر چھری چلائی، معاً قدرت حق سے نور نظر کی جگہ ایک جنّت کے مینڈھے نے لے لی۔ اور چھری کو پھیرنے والے نے پھیری اسماعیلؑ کے گلے پر لیکن چلی وہ اس غیبی مینڈھے کے حلق پر، اور اسماعیل علیہ السلام ’وفدیناہ بذبح عظیم‘ کا پروانۂ بشارت پا کر زندہ جاوید ہوگئے۔

آج کی قربانیاں یادگار ہیں اسی ’ذبح عظیم‘ کی. زمانہ قبل اسلام کو چھوڑیے خود ادھر ساڑھے تیرہ سو برس کے اندر جتنی قربانیاں ہندوستان اور افغانستان ترکی وایران مصر وعرب اور ساری دنیائے اسلام کے اندر ہوچکی ہیں ان کاحساب وشمار ہے کسی حساب لگانے والے اور شمار کرنے والے کے بس کی بات؟ اللہ خود جسے بڑی قربانی کہہ کر پکارے کون اس کی بڑائی کی اتھاہ پاسکے؟ کون اس کی وسعت وعظمت کی پیمائش کر پائے۔

آج کہنے کو عید نہیں بقر عید ہے، لیکن سماں بڑی حد تک اسی عید کا قائم ہے. وہی گھروں میں دھوم دھام وہی عید گاہ میں اژدحام۔ عید سے بڑھ کر دعوتوں کے چرچے۔ عید سے کہیں بڑھ کر چٹ پٹے گرما گرم کبابوں کے مزے۔ ادھر ران بھن رہی ہے ادھر کلیجی تلی جارہی ہے ۔ کہیں کہیں سرخ پھندے سیخ پر لگ رہے ہیں۔ کہیں قورمہ اور قلیہ کے دیگچے اتر رہے ہیں۔ کھانوں کی وہ خوش بو کہ بے بھوک کے بھوک لگ آئے۔ کھانے والوں کی یہ آرزو کہ کوئی مفلس سا مفلس بھی دروازہ پر آکر محروم واپس نہ جائے۔ گانا بجانا شریعت کے قانون میں ماورا، لیکن عید بقر عید کے موقع پر مناسب حدود کے اندر اس کلیہ میں استثناء۔ گھر گھر آج پیش ہو رہی ہیں عیدیاں اور مبارک بادیں، اور فضا میں گونج رہی ہیں اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں۔ ریڈیو کا یہ کرم ہے اس کے توسط سے ایک روز پہنچ گیا تھا ہزارہا ہزار سننے والوں تک عید کا سلام، اور آج نذر میں پیش ہو رہا ہے یہ ہے بقر عید کا پیغام! ٭٭٭