نبی كريم ﷺ كا خواب ميں آنا

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : ستمبر 2025

دين و دانش

نبی كريم ﷺ كا خواب ميں آنا

فہد حارث

پھر یہ بھی عجب طرفہ تماشہ ہے کہ جو حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ان کے خواب میں آئے، ان کے یہ دعاوی اتنے معمولی معمولی باتوں کے ردِ عمل میں ہوتے ہیں کہ عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔ کبھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بلی کے بچے کو گھر سے باہر نکالنے پر خواب میں آکر نبی ﷺ نے سرزنش کی تو کبھی دعویٰ کیا جاتا ہےکہ فلاں سائل کی حاجت برآری نہ کرنے پر آپﷺ نے خواب میں تشریف لاکر تنبیہ فرمائی۔ گویا معمولی معمولی روز مرہ کے واقعات پر آپﷺ کو خوابوں میں بلا لیا جاتا ہے جبکہ اس امت میں اس سے زیادہ کڑے وقت اس امت کے بہترین انسانوں پر آئے لیکن کبھی نبی ﷺ نے ان کے خوابوں میں آکر ان کو مفاسد و فتنہ کے سدِباب کے لئے کوئی ہدایت نہ کی۔ جنگِ جمل و صفین میں ہزاروں مسلمانوں نے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ ڈالیں لیکن نہ تو نبی ﷺ سیدہ عائشہؓ کے خواب میں آئے کہ انکو ارشاد فرمادیتے کہ علیؓ کے خلاف نہ نکلو اور نہ سیدنا علیؓ کے خواب میں آئے کہ انکو ہدایت کردیتے کہ عائشہؓ کا مقصد تمہاری خلافت سے تعارض نہیں بلکہ قاتلینِ عثمانؓ کا زور توڑنا ہے۔ نہ ہی آپﷺ سیدنا معاویہؓ کے خواب میں آئے کہ ان کو تنبیہ کردیتے کہ علیؓ کی بیعت کرلو پھر قاتلینِ عثمانؓ کا معاملہ نپٹالینا اور نہ سیدنا علیؓ سے فرمایا کہ جب معاویہؓ دفاعی پوزیشن میں ہے تو کیوں اس کے خلاف قتال کو نکلتے ہو۔ یہی نہیں بلکہ جب سیدنا حسینؓ کوفہ کے لئے عازمِ سفر ہوتے ہیں اور آپ کے اہل اور اصحابِ رسولﷺ آپ کو روکتے ہیں تو اس وقت بھی نبی ﷺ اپنے اس محبوب نواسے کے خواب میں نہیں آتے کہ سیدنا حسینؓ کو منع کردیں کہ کوفہ کی جانب قاصدِ سفر نہ ہوں ورنہ شہید کردئیے جاؤگے۔سیدنا ابو بکرؓ کے دور میں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوا، لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا، سیدنا عمر ؓ سمیت بیشتر صحابہ نے ان لوگوں کے خلاف سیدنا ابو بکرؓ کو نکلنے سے منع فرمایا لیکن اس کے باوجود سیدنا ابو بکرؓ صرف ایک اپنے شرح صدر پر ان لوگوں کے خلاف نکلنے کا فیصلہ فرماتے ہیں، اس وقت بھی نبی ﷺ نے آپؓ کے خواب میں آکر آپؓ کو اس متعلق کوئی ہدایات نہیں کیں اور نہ ہی سیدنا ابو بکر ؓ نے ایسی کسی ہدایت کا ذکر فرمایا بلکہ اس فیصلے کو کُلّی اپنی صوابدید پر سرانجام دیا۔ امام مالک، امام بخاری وامام مسلم کو کتنی کڑی محنتیں کرنی پڑیں جمع احادیث میں، راویوں کے حالات جانچنے کے لئے شیخین کو اسفار کرنے پڑے تاکہ احادیث کی صحت کی بابت حکم قائم کرسکیں لیکن اس وقت بھی آپﷺ نہ کبھی امام بخاری کے خواب میں آئے اور نہ امام مسلم کے خواب میں کہ ان کو اس مشقت سے بچا لیتے اور بتادیتے کہ یہ حدیث مجھ سے صحیح منسوب ہے اور یہ حدیث فلاں راوی کا دجل ہے۔

یہی نہیں بلکہ آج تو باقاعدہ چِلّے موجود ہیں جن کے ذریعہ نبی ﷺ کو خواب میں "درآمد" کیا جاتا ہے، استغفراللہ۔ لیکن افسوس امام بخاری و مسلم کو یہ چِلّے معلوم نہ تھے کہ ان پر عمل پیرا ہوکر مشقت سے بچ جاتے اور نبی ﷺ سے خوابوں میں اپنی جمع کردہ احادیث کی صحت سے متعلق معلومات لے لیتے۔ المختصر ایک لمبا قضیہ ہے کہاں تک نپٹایا جائے۔ ہم یہ قطعی نہیں کہتے کہ جن لوگوں نے اپنے خوابوں میں نبی ﷺ کے آنے کی بات کی وہ سارے کے سارے جھوٹے یا دجا ل ہیں۔ حقیقت میں ان میں سے بیشتر لوگ سچے ہیں لیکن ان کا سچ یہ ہے کہ انہوں نے جو خواب میں دیکھا اسکو بیان کردیا، البتہ انہوں نے خواب میں جو کچھ دیکھا کیا وہ واقعی سچ ہے، اسکا فیصلہ سوائے اللہ کے کوئی نہیں کرسکتا۔ محترم اہلحدیث عالم جناب عبدالرزق گھمن حفظہ اللہ نے اس سلسلے میں کیا ہی عمدہ مثال دی تھی کہ ہر وہ شخص جس نے میرے والد کو نہیں دیکھا ہوا، اگر کل کو اس کے خواب میں میرے والد آتے ہیں تو ضروری نہیں کہ اس نے میرے والد کو اصل شکل میں ہی دیکھا ہو، بلکہ اغلب گمان یہی ہے کہ اس نے کسی اور صورت کودیکھا ہوگا جس کو اس کے دماغ نے میرا والد بنا کر پیش کیا۔ بعینہٖ یہی بات نبی ﷺ کے خوابوں میں آنے سے متعلق بھی ہے جبکہ صحابہ کرامؓ کے علاوہ اور کسی نے نبی ﷺ کو نہیں دیکھا ہوا۔ پھر وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ اس نے نبی ﷺ کو ہی خواب میں دیکھا ہے۔ ہم اپنی اس لمبی بحث کو ایک حدیث رسولﷺ پر ختم کرتے ہیں جو اس مسئلہ کی عمدہ توضیح کردیتی ہے۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل میں سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے، تم لوگوں پر ضرور ایسا زمانہ آئیگا جب تم مجھے نہ دیکھ سکو گے (ولا یرانی) اور مجھے دیکھنا تمہیں اپنے مال و عیال سے زیادہ محبوب ہوگا۔ اس روایت میں نبی ﷺ نے اپنی وفات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ میری صحبت کو غنیمت جان کر دین کی باتیں جلدی جلدی سیکھ لو ورنہ میری وفات کے بعد تم مجھ کو کبھی نہ دیکھ پاؤ گے۔ پھر خوابوں میں آپﷺ کی زیارت چہ معنی دارد۔