دين و دانش
گولڈن چين ، علم حديث اور تصوف
ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
بهوپال كى ايكـ معلمه وداعيه محترمه فضه بنت اشفاق صاحبه نے سوال كيا ہے:
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ -شیخ! گولڈن چین کیا ہے؟ اور یہ سلسلہ نقشندیہ کیا ہے؟
جواب:وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اس مسئلے کو درست طور پر سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ایک اصولی حقیقت ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ دینِ اسلام کی علمی روایت ایک ہمہ جہت اور منظم روایت ہے، جس میں مختلف علوم و فنون نے اپنے اپنے دائرے میں نشوونما پائی ہے۔ ہر علم کے اپنے مخصوص قواعد، اصطلاحات اور مناہج ہوتے ہیں، اور کسی ایک شعبے کے اصول کو بلا تحقیق دوسرے شعبے پر منطبق کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ چنانچہ فقہ کے میدان میں امتِ مسلمہ نے مختلف مسالک کو قبول کیا، جیسے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی، اور یہ اختلافات بھی کتاب و سنت کے دائرے میں، اصول و فروع کی حد تک رہے ہیں، نہ کہ اصلِ دین میں۔
بالکل اسی طرح تصوف کے دائرے میں بھی مختلف ذوق، مشرب اور تربیتی اسالیب وجود میں آئے، جنہیں اصطلاحاً طرقِ تصوف کہا جاتا ہے۔ یہ طریقے زیادہ تر اخلاقی تربیت، تزکیۂ نفس اور سلوک کے عملی مناہج پر مشتمل ہوتے ہیں۔ برِّصغیر ہند میں ان طرق میں چشتیہ، قادریہ، سہروردیہ، فردوسیہ، نقشبندیہ، کبرویہ اور شطاریہ جیسے سلسلے زیادہ معروف اور متداول رہے ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں مذہبی و سماجی زندگی پر اثر ڈالا ہے۔
اب "گولڈن چین" یا "زرّیں سلسلہ" کی اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ دراصل تصوف کی اصطلاح نہیں بلکہ علمِ حدیث سے ماخوذ ایک تعبیر ہے۔ محدثین کرام جب نبی اکرم ﷺ کی احادیث بیان کرتے ہیں تو وہ انہیں سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ سند میں ہر راوی اپنے شیخ سے روایت کرتا ہے، اور یوں پوری سند ایک زنجیر کی طرح بن جاتی ہے جس کا ہر حلقہ دوسرے حلقے سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے "سلسلۂ سند" کی اصطلاح رائج ہوئی۔ محدثین نے سند کی قوت اور ضعف کو پرکھنے کے لیے نہایت دقیق اصول وضع کیے اور مضبوط ترین سندوں کو خصوصی نام دیے، جیسے "اصحُّ الاسانید"۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا یہ قول مشہور ہے کہ انہوں نے ایک سند کے بارے میں فرمایا: عبید اللہ بن عمر، عن القاسم، عن عائشۃ — یہ ایسی سند ہے جو گویا سونے سے گندھی ہوئی زنجیر ہو، یعنی ترجمۃ مشبکۃ بالذہب۔ اسی تعبیر کا ترجمہ بعد کے ادوار میں "گولڈن چین" یا "زرّیں سلسلہ" کے عنوان سے کیا جانے لگا۔ واضح رہے کہ یہ تعبیر محض حدیثی نقد و تحقیق کے لیے تھی، نہ کہ کسی روحانی نسبت یا طریقت کے اثبات کے لیے۔
محدثین کی دیکھا دیکھی دیگر علوم و فنون کے لوگوں نے بھی اپنے اپنے دائرے میں سندیں مرتب کرنی شروع کیں۔ اسی ذیل میں تصوف کے طرق نے بھی اپنے لیے سلسلے قائم کیے، اور انہی نسبتوں کو "سلاسل" کہا جانے لگا۔ بعد میں بعض صوفیانہ حلقوں نے، خصوصاً نقشبندی سلسلے کے بعض افراد نے، یہ دعویٰ کیا کہ ان کا سلسلہ ایک "زرّیں سلسلہ" ہے جو براہِ راست نبی اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ لیکن جب اس دعوے کو علمِ حدیث اور تاریخ کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سلسلہ نہ تو متصل ہے اور نہ ہی اسے زرّیں سلسلہ کہنا کسی علمی معیار پر پورا اترتا ہے۔اگر نبی اکرم ﷺ اور خواجہ بہاء الدین نقشبند کے درمیان بیان کیے گئے واسطوں پر غور کیا جائے تو ان میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ، سلمان فارسیؓ، قاسم بن محمد بن ابی بکر، امام جعفر صادق، ابو یزید بسطامی اور ان کے بعد کے متعدد مشائخ کے نام آتے ہیں۔ جب ان شخصیات کے سنینِ ولادت و وفات کو سامنے رکھا جائے تو سند کا اتصال برقرار نہیں رہتا۔ سلمان فارسیؓ کی وفات 33 ہجری میں ہوئی، جبکہ قاسم بن محمد بن ابی بکر کی پیدائش 35 ہجری میں ہوئی، یعنی قاسم کی پیدائش سلمان فارسیؓ کی وفات کے تقریباً دو سال بعد ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس شكل ميں شاگردی اور روایت کا دعویٰ محض فرضی رہ جاتا ہے۔ اسی طرح امام جعفر صادق کی وفات 148 ہجری میں ہوئی، جبکہ ابو یزید بسطامی کی پیدائش 188 ہجری میں ہوئی، یعنی ابو یزید بسطامی امام جعفر صادق کے انتقال کے چالیس برس بعد پیدا ہوئے۔ یہ دونوں مقامات ایسے ہیں جہاں سند کا انقطاع نہایت واضح اور ناقابلِ انکار ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ طرق تصوف کی نسبتیں اگر اپنے بانیوں اور بعد کے مشائخ تک محدود رہیں تو کسی حد تک انہیں تاریخی یا تربیتی نسبت کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے، لیکن انہیں نبی اکرم ﷺ تک سنداً جوڑنا علمی اعتبار سے درست نہیں۔ جن لوگوں نے یہ سلاسل مرتب کیے، وہ زیادہ تر روحانی ذوق اور عقیدت کے حامل تھے، مگر انہیں حدیث کی اسنادی باریکیوں اور تاریخِ رجال کے دقیق اصولوں سے گہری واقفیت حاصل نہ تھی، اسی وجہ سے ان نسبتوں میں عجیب و غریب غلطیاں، زمانی تضادات اور صریح انقطاعات واقع ہو گئے۔مزید یہ بات نہایت اہم ہے کہ علمِ حدیث میں سند کا تصور کبھی متن سے جدا نہیں ہوتا۔ محدثین جب کسی سند کو بیان کرتے ہیں تو اس کا مقصد محض راویوں کے نام گنوانا نہیں ہوتا، بلکہ اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ اس سند کے ذریعے نبی اکرم ﷺ کا کوئی قول، کوئی فعل، یا کسی معاملے پر آپ ﷺ کی تقریر و تائید محفوظ کی جائے۔ چنانچہ ہر سند کے ساتھ ایک واضح اور متعین متن ہوتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا، کس موقع پر فرمایا، یا کس عمل کی اجازت یا تصحیح فرمائی۔ ایک ہی سند سے مختلف مواقع پر مختلف متون مروی ہو سکتے ہیں، اور اسی طرح ایک ہی مضمون مختلف سندوں کے ذریعے بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ یہی وہ اصولی ڈھانچہ ہے جس پر پورا علمِ حدیث قائم ہے اور جس کی بنیاد پر روایت کی صحت یا ضعف کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اس کے بالکل برعکس جب ہم تصوف کے رائج سلاسل پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں سند تو بڑے اہتمام اور فخر کے ساتھ بیان کی جاتی ہے، مگر اس سند کے ساتھ کوئی متعین متن سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔ چاہے سلسلہ چشتیہ ہو یا نقشبندیہ، قادریہ ہو یا سہروردیہ، ان تمام طرق کے مشائخ اپنی کتابوں، ملفوظات اور مجالس میں اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ ان کی روحانی نسبت نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہے۔ لیکن جب علمی انداز میں یہ سوال اٹھایا جائے کہ اس نسبت کا حاصل کیا ہے؟ یعنی نبی اکرم ﷺ نے کون سی خاص بات، کون سا مخصوص ذکر، کون سا جداگانہ طریقِ سلوک یا کون سا امتیازی نظامِ تربیت ان سلاسل کی بنیاد کے طور پر سکھایا تھا؟ تو اس سوال کا کوئی واضح، مرتب، متفق علیہ اور مستند جواب سامنے نہیں آتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر واقعی یہ سلاسل سنداً نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہوتے، تو ان کے ساتھ لازماً کوئی نہ کوئی متن محفوظ ہوتا، جیسا کہ احادیث میں محفوظ ہے۔ یا تو کوئی قولِ نبوی ہوتا جس میں کسی خاص طریقے کی تعلیم دی گئی ہوتی، یا کوئی فعلِ نبوی ہوتا جس کی پیروی ان سلاسل کا امتیاز بنتی، یا کم از کم کوئی تقریر و تائید ہوتی جس پر ان کی بنیاد قائم ہوتی۔ لیکن تصوفی سلاسل میں ہمیں ایسا کچھ نہیں ملتا۔ وہاں صرف نسبت کا دعویٰ ہے، متن کی تعیین نہیں؛ ناموں کی فہرست ہے، مگر نبی اکرم ﷺ کی کسی واضح تعلیم کی نشان دہی نہیں۔اسی لیے علمی دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث کی اسنادی روایت اور تصوف کی روحانی نسبت کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔ حدیث کی سند ایک باقاعدہ علمی شہادت ہے جو متن کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، جبکہ تصوف کے سلاسل زیادہ تر تربیتی و روحانی نسبتیں ہیں، جنہیں حدیثی سند کے معیار پر پرکھنا درست نہیں، اور نہ ہی انہیں اسی درجۂ ثبوت کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ "گولڈن چین" ایک خالص حدیثی اصطلاح ہے، جس کا تعلق مضبوط اسناد سے ہے، نہ کہ تصوفی طرق سے۔ اور سلسلۂ نقشبندیہ سمیت دیگر صوفیانہ سلاسل کو نبی اکرم ﷺ سے سنداً جوڑنے کا دعویٰ نہ تاریخی تحقیق کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے اور نہ علمِ حدیث کے اصولوں کے مطابق درست ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے علمی دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ ہر چیز کو اس کے اپنے دائرے میں رکھا جائے، اور متصوفانہ نسبتوں کو حدیثی اسناد کے ہم پلہ قرار دینے سے احتراز کیا جائے۔