دين و دانش
اللہ الصمد
قاری حنيف ڈار
اللہ بے نیاز ہے ۔ڈر لگدا اے بے پرواہی دا -
اللہ بے نیاز ھے - اسے اگر اپنی حیات کے لئے کسی سبب کی ضرورت نہیں ، دیکھنے اور سننے کے لئے اعضاء کی مجبوری نہیں ، بولنے کے لئے زبان کا محتاج نہیں ، اپنی تعریف کے لئے بھی کسی کا محتاج نہیں وہ اپنی ذاتِ اقدس میں خود ستودہ صفات ھے ، جس کو اپنی تسبیح کی سعادت بخشی ھے اس کو اعزاز سے نوازا ھے ،جس کو سجدے کی توفیق دی ھے محبت کی وجہ سے دی ھے ، نواھی اور اوامر ھماری انفرادی اور اجتماعی سماجی بہتری کے لئے دیئے ھیں ، ان کے اتباع سے ھمارا ھی بھلا ھے اللہ پاک کا کوئی نفع نہیں ، انسان اللہ کو نفع پہنچانے کی حیثیت کو کبھی نہیں پہنچ سکتا ، کوئی اس کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا ، اور اس کی نعمتوں کا شمار نہیں کر سکتا، جس ہستی کا نام ہی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا"محمد" صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ اعتراف کرتے ہیں کہ"ولا یبلغ مدحک قول قائل" جب سے انسان نے بولنا سیکھا ھے تب سے کوئی تیری کامل تعریف نہیں کر سکا وہ خود کو خود ھی بہتر جانتا ھے اور اپنی تعریف بھی خود ھی کر سکتا ھے ، آج تک محبت کے لئے جتنے الفاظ و کلمات ایجاد کیئے گئے ھیں وہ سب استعمال کر لئے جائیں تب بھی اس کی محبت کا حق ادا نہیں ھو سکتا-اس کے احسانات اور صفات پر جتنا غور کیا جائے پیار کا سیلاب اندر کے بتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ھے ، کوئی اس کو زیرِ احسان نہیں لا سکتا اور نہ کوئی اس سے زبردستی کوئی کام کروا سکتا ھے ، دعا کا در کھُلا ھے اور ام الکتاب اس کے پاس ھے جو چاہتا ھے وہ مٹا دیتا ھے اور جسے چاھتا ھے لکھے رھنے دیتا ھے ، جب تیری زبان چلے تو سمجھ لو کہ وہ تجھے دینا چاھتا ھے - آخرت انسان سے اس کی محبت کا مظھر ھے وہ انسان کو سدا اپنے جوار میں رکھنا چاھتا ھے ، مگر اس کے لئے انسان ثابت ھونا بہت ضروری ھے ، مجرد دو ٹانگوں پر چلنے سے ، انسان ثابت نہیں ھوتا ، وہ جس سے جتنا پیار کرتا ھے اس کے ساتھ سب سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتا ھے، وہ اسے اپنی طرف مائل رکھنے کے لئے تہہ در تہہ امتحانوں سے گزارتا ھے ،،اس کی بےنیازی کا یہ عالم ھے کہ رسولوں کے قریبی رشتے دار حالتِ کفر میں مر گئے اور اس نے ذرا بھی مداخلت نہیں کی - اس نے پہلے دن جو شرطِ محبت طے کی تھی کہ ھدایت صرف مانگنے پر دونگا ،، دنیا بغیر مانگے بھی دے دوں گا ، اس اصول پر ھمیشہ سے قائم رھا ، اگر اولوالعزم رسولوں کے لئے اس اصول کو نہیں توڑا تو قیامت تک کسی اور کے لئے نہیں توڑے گا - ایک صوفی شاعر لکھتے ھیں کہ ؎
نئیں بھروسہ اس اشنائی دا -ڈر لگدا اے بے پرواھی دا-
اے اللہ تیرے ساتھ سالوں تک محبت کا تعلق رکھا جائے مگر تو بالکل ھی بے نیاز بن جاتا ھے گویا کچھ ہوا ہی نہیں ، پھر مختلف رسولوں پر آنے والے مصائب ایک ایک کر کے گنوائے کہ کس طرح وہ ترے رسول کا سر اتار رھے تھے ، اور آرے سے چیر رھے تھے مگر تُو کمال بے نیازی سے دیکھتا رھا ،،اللہ پاک سے ھدایت اپنی ضرورت سمجھ کر مانگنی چاھئے نہ کہ اللہ پر احسان چڑھا کر ، اللہ پاک سے یہ کہنا کہ اگر تُو واقعی موجود ھے تو پھر مجھے گمراھی سے بچا لے ، اللہ کی توھین ھے ، اللہ اپنے وجود کے ثبوت کے لئے ھمارے اقرار کا محتاج نہیں ، اور نہ اس کا وجود ھمارے ایمان کی شرط کے ساتھ مشروط ھے ، اللہ کو یہ سمجھانے کی بجائے کہ اس وقت تیرا وجود میرے انکار کی وجہ سے خطرے میں پڑ گیا ھے ، اس سے یہ مانگنے کی کوشش کریں کہ اے اللہ تیرے انکار سے خود میرے وجود پر سوالیہ نشان لگ گیا ھے ، مجھے بچا لے میں مٹ رھا ھوں ، لُٹ گیا ھوں ، تیری تسبیح و تحمید جن و بشر ، شجر و حجر،جمادات و نباتات سب ھی کر رھے ھیں ،جبکہ میرا تیرے سوا کوئی نہیں ، اے اللہ تجھے تیری محبت اور رحمت کی قسم ذرا میری طرف توجہ فرما ،جس دربار میں محمد مصطفیﷺ جیسی ھستی رو رو کر عرض کرتی ھے ،،
[ اللهم إنك ترى مكاني وتسمع كلامي تعلم سري وعلانيتي ولا يخفى عليك شيء من أمري أنا البائس الفقير المستغيث المستجير الوجل المشفق المقر المعترف بذنبه أسألك مسألة المسكين وأبتهل إليک ابتهال المذنب الذليل وأدعوك دعاء الخائف الضرير من خشعت لك رقبته وذل لك جسده وفاضت لك عيناہ ورغم لك أنفه ]
اے اللہ تو میری جگہ سے واقف ھے اور میری بات بھی سن رھا ھے تو میرے چھپے اور ظاھر سب سے واقف ھے اور میرے معاملات میں سے کچھ بھی تجھ سے مخفی نہیں ھے ، میں مصیبت زدہ فقیر ھوں ، ایک فریادی ھوں جو پناہ چاھتا ھوں ، ایک خوفزدہ سہما ھوا بندہ ھوں ، اپنی کوتاھیوں کا معترف ھوں ، تجھ سے ایک مسکین کی طرح سوال کر رھا ھوں ، میں تجھ سے ویسے ھی گڑگڑا کر اور بلبلا کر معافی مانگ رھا ھوں جیسے کوئی خطاکار مانگتا ھے جو مر مٹ گیا ھے ، میں تجھ سے ایک ڈرے اور سہمے ھوئے بندے کی حیثیت سے دعا کر رھا ھوں جس کا سب کچھ لُٹ گیا ھو ،، جس کی گردن تیرے ڈر سے جھکی ھوئی ھے اور جس کا نفس تیرے سامنے مر مٹ گیا ھے اور جس کی آنکھیں تیرے سامنے بہہ نکلی ھیں اور جس کی ناک تیرے آگے رگڑی ھوئی ھے -
اس اللہ سے بات کرتے ھوئے بہت احتیاط کی ضرورت ھے ، کہیں کسی جگہ بھی اپنا اپنی نیکی ، کا گھمنڈ چھپا ھوا نہیں ھونا چاھیئے ، اللہ پاک سے اس کا فضل سمجھ کر مانگنا چاھئے ، حق سمجھ کر نہیں مانگنا چاھئے ،، حق نہ ملنے پر گلے شکوے پیدا ھوتے ھیں جبکہ فضل سے محبت کے چشمے پھوٹتے ھیں ، وہ جس جگہ لٹائے لیٹ جایئے ،جس جگہ کھلائے بیٹھ کر کھا لیجئے ،جہاں سجدہ کرائے وھیں کر لیجئے ، سوار کرا دے تو شکر کیجئے ، پیدل چلا دے تو دونوں پاؤں کی طرف دیکھ دیکھ کر اس کی تعریف و تحمید کیجئے - اللہ سے گلہ شکوہ بارودی جیکٹ سے زیادہ خطرناک ھے کیوں کہ اس کی اگلی منزل کفر و الحاد ھی ھے -
آپ کا دماغ کرائے کا وکیل ھے ، آپ اپنی کسی قریب ترین ھستی کے بارے میں گلہ شکوہ کیجئے یہ دوڑ دوڑ کر فائلیں لا کر آپ کے سامنے رکھے گا کہ اس نے یہ بھی کیا تھا اور وہ بھی کیا تھا ، دوسری جانب برے سے برے شخص کے بارے میں اچھی سوچ سوچئے تو یہی دماغ آپ کو اس کی کچھ اچھائیاں بھی گنوا دے گا ،، ھم نے ھمیشہ یہ گلہ کیا کہ اللہ نے فلاں کو یہ دیا اور مجھے نہیں دیا ،، کبھی یہ نہ سوچا کہ فلاں نے تو اللہ کی خاطر سارا خاندان ذبح کرا دیا ، میں نے سوائے گلے شکوے کے سوا اللہ کو کیا دیا ؟ ھمارا ایمان بھی اللہ پر احسان ، ھماری نماز بھی اللہ پر احسان ،،یاد رکھیں اللہ پاک سب سے زیادہ غیور ھے اور کوئی غیور کسی کا احسان باقی نہیں رکھتا ، وہ بھی تیرا احسان تیرے منہ پر مار کر اپنے در سے دھتکار دیتا ھے ،، نہیں چاھئے مجھے تیرا احسان ،، احسان تو حق ادا ھونے کے بعد شروع ھوتا ھے اور اللہ کی بندگی کا تو حق ھی کوئی نہیں ادا کر سکتا ،پھر اس پر احسان کیسے چڑھا سکتا ھے ؟ مزدور کی دیہاڑی اگر 500 طے کی گئ ھے تو 500 اس کو ادا کرنے کے بعد اب جو اس کو 100 یا 50 اوپر دیں گے وہ آپ کا احسان ھو گا ، اللہ کی بندگی کا حق تم ادا کر چکے ھو جو اپنے ان ٹوٹے پھوٹے سجدوں کا احسان چڑھا کر مطالبوں کی فہرست رکھ کر اسے بلیک میل کرتے ھو کہ اگر پورے نہ ھوئے تو کل تُو مجھے مسجد میں نہیں دیکھے گا اور نہ اپنے بندوں میں پائے گا !
اے نبی ﷺ یہ تجھ پر اپنے اسلام کا احسان جتاتے ھیں ، آپ کہہ دیجئے کہ مجھ پر اپنے اسلام کا احسان مت جتاؤ ، بلکہ یہ اللہ کا احسان ھے تم پر کہ اس نے تم کو ایمان کی طرف ھدایت دی ، اگر تم اپنے دعوئ ایمان میں سچے ھو -
يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلإِيمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (الحجرات- 17)