دين و دانش
معراج کا مقصد
مولانا شاہ محمد جعفر پھلوارویؒ
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ
یہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت ہے پندرہواں پارہ اسی آیت سے شروع ہوتا ہے اور یہی وہ آیت ہے جس میں معراج نبوی کا شاندار ذکر ہے۔ یوں تو بعض اور آیات میں بھی معراج کا ذکر ہے لیکن سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ جس آیت میں ذکر آیا ہے وہ یہی آیت ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے(یہ سیر اس لئے کرائی تھی کہ ہم اس بندے کو اپنی نشانیاں دکھلائیں یقیناً وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے"
یہ ہے آیت کا ترجمہ۔ اسی میں معراج کا مقصد بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ بہ ظاہر تو یہ مقصد بہت مُبہم لفظوں میں بیان کیا گیا ہے یعنی لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھلائیں: یہ دو لفظ بہت ہی جامع ہیں ، مختصر اور بہ ظاہر مُبہم ہیں لیکن مقاصدِ معراج کی پوری کائینات ان دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے۔
اس کی تشریح سے پہلے قرآن پاک کے اندازِ بیان کے متعلق ایک ضروری نکتہ پیش نظر رکھ لینا چاہئیے۔قرآن کریم صرف بنیادی اور اصولی باتیں بیان کرتا ہے۔ جُزئیات اور تفصیلات کو یا تو پیغمبرؐ پر چھوڑتا ہے یا شوریٰ پر یا عالم عقل و بصیرت پر -قیامت تک پیش آنے والی تفصیلات و جُزئیات کو ایک کتاب میں سمیٹا بھی نہیں جا سکتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک مثال سے مدد لی جا سکتی ہے۔ قرآن نے چند سواری کے جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْہَا وَزِیْنَۃً:
ہم نے تمہاری سواری اور زینت کے لئے گھوڑے خچر اور گدھے بنائے اس کے بعد ہی فرمایا کہ و یخلق ما لا تعلمون۔اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا رہے گا جس کا ابھی تمہیں علم نہیں-اب ہم اپنی آنکھوں سے سائیکل ، موٹر سائیکل، کاریں اور ہوائی جہاز وغیرہ دیکھ رہے ہیں اگر ان ہونے والی چیزوں کا قرآن ذکر کر دیتا تو اول تو اُس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔دوسرے وہ تمام چیزیں پھر بھی رہ جاتیں جو آئیندہ وجود میں آنے والی ہیں۔ اس لئے قرآن مجید نے ایک نہایت جامع اور مختصر لفظوں میں ایسی اصولی باتیں بتادی ہیں جو قیامت تک آنے والی جزئیات تفصیلات کو سمیٹ لے اور سب پر حاوی ہو۔ قرآن کریم نے بالکل یہی صورت مقصدِ معراج بیان کرنے میں بھی اختیار فرمائی ہے جو آیات ربّانی صاحبِ معراج کو دِکھانی مقصود تھی ان کی تفصیل نہیں بیان فرمائی کیونکہ یہ آیات محدود نہ تھیں۔ بے شمار تھیں کچھ تو رسول اللہ نے خود بیان فرمائیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا انکشاف آئیندہ ہوتا جائے گا۔ علم، عقل، تجربہ اور سائینس جوں جوں ترقی کرتی جائے گی اسی قدر وہ آیات بھی منکشف ہوتی جائیں گی۔ نئے معارف و حقائق اور جدید نکات دریافت ہوتے چلے جائیں گے اور "آیات" کی نئی نئی تعبیریں سامنے آتی جائیں گی غرض مقاصد معراج کو لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَاکے مختصر الفاظ میں سمیٹ لینا بالکل صحیح، درست اور بجا ہے۔ اب آئیے اٰیات کی تفسیر اور تشریح تلاش کریں۔
یہاں ان تشریحات کے ضمن میں خواہ مخواہ بلا ارادہ بھی جسمانی اور روحانی معراج کا موضوع سامنے آ جاتا ہے علما و حکما دونوں ہی اس طرف گئے ہیں اس لئے کسی ایک پہلو کو ترجیح دینا مشکل ہے البتہ ہم یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ جسم اور روح دونوں کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں ہے معراج کی کیفیت ان دونوں سے بلند و بالا اگر ہم یہ سمجھیں کہ جس طرح ہم کسی خچر پر ٹخ ٹخ کرتے ہوئے کہیں تیزی سے جاتے ہیں اسی طرح حضورؐ بھی کسی مادی سواری پر بیٹھ کر مہمیز لگاتے ہوئے گئے ہوں گے تو یہ غلط ہے اور اگر ہم یہ تصور کریں کہ جس طرح ہمارا خیال آن کی آن میں ہزاروں میل کا سفر طےکر لیتا ہے اسی طرح حضور کی معراج بھی کچھ خیالی قسم کی ہو گی، تو یہ بھی ہرگز صحیح نہیں۔یہ معراج دونوں سے الگ دونوں سے جداگانہ اور دونوں سے بلند و بالا قسم کی تھی ہم اپنی کثیف بشریت میں رہ کر اس کی حقیقت کو پا ہی نہیں سکتے جس طرح خدا کا تصور ہر شخص اپنی پہنچ کے مطابق رکھتا ہے اسی طرح یہ کیفیات و حقائق بھی ہر انسان اپنی علمی و عرفانی رسائی کے مطابق ہی سمجھ سکتا ہے-ظاہر ہے کہ مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی امامت فرمانا ایک روحانی ہی معاملہ تھا متعدد انبیاء سے مختلف افلاک پر ملنا بھی مادی نہ تھا، روحانی ہی تھا۔ بایں ہمہ روحانی ہونے کا مطلب محض خیالی نہیں۔یہ روحانی سیر لطافت میں خیال سے زیادہ لطیف تھی۔ لیکن حقیقت کے لحاظ سے جسمانی و مادّی سیر سے کہیں زیادہ یقینی تھی۔اس لئے یہ کہنا غلط نہیں کہ معراج محمّدی روحانی و جسمانی دونوں حقیقتوں سے ارفع و اعلیٰ اور بلند و بالا تھی۔
یہ تمہید اس لئے بیان کی گئی کہ مقصد ِمعراج کو سمجھنے میں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئیے کہ ہم نہ خالص مادّی باتیں کر رہے ہیں نہ اپنے نارسا فہم کے مطابق روحانی گفتگو کر رہے ہیں حقیقت حال کا علم خدا کو ہے۔ بہر حال جو کچھ ہوا ہمارا ناقص فہم درک کر سکا ہے وہ یہ ہے کہ پورے قصہ ٔمعراج میں ایک بہت بڑی حقیقت کو واشگاف کیا گیا ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام بشریت کے اکمل و اعلیٰ نمائیندے ہیں اور معراج کی زبان میں ان مدارج کو بیان فرمایا گیا ہے جو بشر کا نصب العین ہے۔ ایسا نصب العین جہاں ہر انسان کی نگاہیں گڑی رہنی چاہئیں اور اسی رفعت و بلندی کی طرف پرواز کرتے رہنا چاہئیے۔معراج کا وہی مقصد ہے جو خود انسانیت اور بشریت کا مقصدِ آخری ہے اقبال نے سچ کہا ہے کہ؎سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے۔کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
اقبال کا کہنا ہے کہ محمد مصطفیٰ بشریتِ کاملہ کے نمائیندے ہیں اور آپ کی معراج کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بشریت اتنی اعلیٰ و ارفع چیز ہے کہ افلاک کی بلندیاں اس کے قدموں کے نیچے ہیں سرمدؔ نے ایک دوسرے انداز سے تقریباً اسی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے کہ
؎ مُلّا گوید کہ برشد احمد بفلک سرمد گوید فلک بہ احمد درشد
یعنی عالم لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ حضور فلک الافلاک پر تشریف لے گئے مگر سرمد یہ کہتا ہے کہ ہفت افلاک کی وسعتیں وجودِ مصطفیٰ میں سما کر گم ہو گئیں۔
غرض معراج کا سب سے بڑا مقصد اس نمائیندہ انسان کو یہ بتانا ہے کہ تیرا اصل مقام کیا ہے۔ تیری پرواز کیسی ہونی چاہئیےتیرا بلند آشیانہ کہاں ہے؟ دیکھ جبرئیل و میکائیل تیرے جلو میں ہیں۔ سارے فرشتے تیرے خادم ہیں سب نے تیرے باپ آدم کو سجدہ کیا ہے براق اور کائینات کی ساری قوتیں تیرے زیر قدم ہیں۔ تیرے لئے مسخر ہیں تیری سواریاں ہیں، تو جدھر چاہے ان کی باگ موڑ دے۔ تیرا مقصود اصلی انبیاء بھی نہیں، یہ راہ میں ملنے والے مسافر ہیں ان سب سے گزر جا تیرا اصلی مقام اس کنگرۂ کبریا کے پاس ہے کہ بقول رومی
؎ بہ زیر کنگرۂ کبریا باش مرانند۔۔۔فرشتہ صید، پیمبر شکار، یزداں گیر
پھر لا محدود پہنائیوں کا فاصلہ طے کرنا اور صدیوں کی راہ وقت گزرے بغیر ہی عبور کرنا بھی در اصل انسان کے مقام ہی کو ظاہر کرنا ہے۔ بشریت کا سب سے بڑا ارتقا یہ ہے کہ وہ زمان و مکان دونوں کی سرحدوں کوپار کر جائے۔موجودہ سائینس نے زمان و مکان دونوں کو اضافی مان لیا اور اس کی ایک عمیق تھیوری یہ بھی ہے کہ زمان اور مکان کو سکیڑ کر نُقطۂ لا شئی بنانا عین ممکن ہے۔یہ ابھی تک تھیوری ہے اور عقلاء و حکماء نے اسے برسوں کے جھگڑے کے بعد صحیح تسلیم کر لیا ہے۔شرط ہے ایسی رفتار کی جو روشنی کی رفتار کے برابر ہو۔بہر کیف زمان و مکان کی حدود کو پھاند جانے کا سائینٹفک امکان ایک نظرئیے کے طور پر مسلّم ہو گیا ہے اور انسانی ترقی کی رفتار سے یہ بعید نہیں کہ کبھی یہ عملاً بھی اسے ثابت کر دے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب انسان اپنے مرتبے کو نہیں پہچانتا تو اپنے سے نیچے مرتبے والی چیزوں کے آگے جھکنے لگتا ہے فرشتے جن، چاند سورج، برق و باد، دریا و بحر، چوپائے، درخت غرض ہر شئے کو اپنے آپ سے افضل و برتر اور نفع بخش و نقصان رساں سمجھ کر اس کے آگے جھکنے لگتا ہے اور اگر ان سب کو ترک بھی کر دے تو وقت، زمان یا دہر کو موثر ماننے لگتا ہے لیکن معراج نبوی نے انسان کا مرتبہ اتنا بلند کر دیا ہے کہ رفتارِ وقت کی باگ بھی اس کے ہاتھ میں دے دی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ مکان کو بھی اس کے قدموں کے نیچے ڈال دیا ہے ۔ ایسا بلند انسان جو اپنے سوا ہر شئے کو اپنے حیطہ اقتدار میں سمجھے اور پھر بجز خدا کے کسی کے آگے نہ جھُکے وہی عبد مومن ہوتا ہے اور اسریٰ بعبدہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ غرض معراج کا اصلی مقصد انسان کو یہ بتانا ہے کہ تو اگر بندۂ خدا ہو تو ساری کائینات تیرے قدموں کے نیچے ہے
؎ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔۔۔۔یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہی سب سے بڑی حقیقت ہے جو لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَامیں بیان کی گئی ہے۔)ماہ نامہ ثقافت فروری 1958)