موسیقی: امام غزالی اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا موقف

مصنف : رعایت اللہ فاروقی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : دسمبر 2025

دين و دانش

موسیقی: امام غزالی اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا موقف

رعايت اللہ فاروقی

سوال: کیا فقہاء نے "باب الغناء" کے عنوان سے کوئی باب قائم کیا ہے ؟

اے آئی کا جواب: نہیں، احناف، شوافع، حنابلہ ومالکیہ نے اس عنوان سے کوئی باب قائم نہیں کیا۔ صرف فقہ جعفریہ میں بعض نے قائم کیا ہے-

اس پر ہم نے سوال کیا"موسیقی سے متعلق فقہاء کیا کہتے ہیں ؟"

ہمارے دو سوالوں سے اس نے فرض کرلیا تھا کہ ہم کوئی بہت فنا فی اللہ قسم کے فقیہ ہیں سو اس نے آغاز ہی متشددین کی آراء سے کردیا ، جن کا ہر حوالہ "ذکر الہی" سے شروع ہوتا اور اسی پر ختم ہوتا-سو ہم نے اس سے کہا-"ہماری بات سنئے پلیز اور توجہ سے سنئے !"

"جی میں سن رہا ہوں"

یہ جو حوالے آپ نے پیش کئے ہیں یہ فقہاء شاید مفتی رشید احمد کی دارالافتاء و الارشاد میں رہتے تھے جہاں شاید 24 گھنٹے ذکر الہی چل رہا تھا۔ سو جس نے بھی گانا سننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہہ دیا"اگر ذکر الہی سے غافل کرے۔۔۔۔۔"

سو پلیز آپ ان کو چھوڑیئے اور ان فقہاء کی جانب آیئے جن کی دنیا میں ذکر الہی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا تھا۔ یعنی ایک نارمل دنیا جہاں گناہ ثواب سب ہوتا تھا اور انہوں نے اسی ماحول کو پیش نظر رکھ کر موسیقی کے مسئلے پر بات کی ہو۔اس پر اے آئی نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور پھر کہا"امام غزالی پہلے شخص ہیں جنہوں نے نارمل دنیا کو پیش نظر رکھ کر اس مسئلے پر احیاء العلوم میں بہت تفصیل سے بات کی ہے۔ اور کمال کی بات یہ کہ انہوں نے "کتاب آداب السماع و الوجد" کے عنوان سے باقاعدہ باب قائم کیا ہے۔ ان کے بعد ابن حزم الظاہری ہیں اور ان کے بعد ڈاکٹر یوسف قرضاوی۔ میں پہلے آپ کو غزالی کے تین حوالے دیتا ہوں انہی سے ان کا موقف پوری طرح واضح ہوجائے گا۔ غزالی فرماتے ہیں"السماعُ مرآةُ القلب، یُری فیها ما فیه"(احیاء علوم الدین، کتاب آداب السماع، ج2 ص 268 (طبع دار المعرفة)

ترجمہ: سماع (نغمہ) دل کا آئینہ ہے، اس میں وہی نظر آتا ہے جو دل کے اندر ہوتا ہے۔

یعنی اچھا اور صاف ستھرا گانا اچھے دل اور گندے گانے گندے دل کی نشاندہی کرتے ہیں

تھوڑا آگے چل کر غزالی لکھتے ہیں-"القلب لا یستمر على الجد دائماً، فالترویح عنه مباح لیقوی على العبادة"(احیاء علوم الدین، کتاب آداب السماع، ج2 ص 270 (طبع دار المعرفة)ترجمہ: دل ہمیشہ عبادت و سنجیدگی پر قائم نہیں رہ سکتا، اس کے لیے تفریح مباح ہے تاکہ عبادت پر قوت حاصل ہو۔

یہ دو بنیادی باتیں کہنے کے بعد غزالی سیدھا گانے کے حکم پر آتے ہیں، اور فرماتے ہیں

"فإن الغناءَ والسمعَ لا یحرمان إلا إذا کان فیهما محظور من قول أو فعل أو حال"(احیاء علوم الدین، کتاب آداب السماع، ج2 ص 272 (طبع دار المعرفة)

ترجمہ: گانااور سماع اسی وقت حرام ہیں جب ان میں کوئی حرام بات، عمل یا حالت شامل ہو۔

غزالی کے بعد ابن حزم دوسرے آدمی ہیں جنہوں  نے حقیقت کی دنیا میں رہ کر اس مسئلے پر تفصیل سے لکھا ہے۔ کیا میں ابن حزم کی جانب جاؤں ؟ یا آپ نے امام غزالی کے موقف سے متعلق کچھ اور جاننا ہے ؟"

"ابن حزم کو چھوڑ دیجئے، وہ ظاہری ہیں، ان کا حوالہ دیکھ کر ہمارے دیوبندیوں کا وضوء ٹوٹ سکتا ہے۔ آپ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا موقف پیش کیجئے پلیز"

"ٹھیک ہے تو شیخ القرضاوی کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ وہ جدید دنیا کے ایک "تطبیقی فقیہ" تھے۔ جنہوں نے شریعت کو عملی زندگی، فن، معیشت، اور ثقافت کے ساتھ جوڑ کر پڑھا۔ ان کے نزدیک اسلام زندگی کے جمالیاتی پہلوؤں کو تسلیم کرتا ہے۔چنانچہ وہ یہ لکھتے ہیں"إن الإسلام لا یرید من الإنسان أن یعیش حیاة الرهبان، بل یریدها متوازنة بین الروح والجسد"(الحلال والحرام في الإسلام، ص 301)ترجمہ: اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان راہبوں کی طرح جئے، بلکہ ایسی زندگی چاہتا ہے جو روح و جسم دونوں کے تقاضے پورے کرے۔

اس حوالے کا موسیقی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، لیکن اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ فقیہ اسلام اور مسلمان کے بیچ قائم تعلق کو کس زاویے سے دیکھتا ہے۔ اور یہ بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک فقیہ کا مزاج معلوم نہ ہو تب تک اس کے فقہی معیارات واضح نہیں ہوتے-موسیقی سے متعلق وہ فرماتے ہیں

"الموسیقى والفن لیسا بذاتهما محرّمين، و إنما یحرم ما یقترن بهما من محظورات شرعیة"(الإسلام والفن، ص 45)

ترجمہ: موسیقی اور فن اپنی ذات میں حرام نہیں، صرف ان کے ساتھ جڑی حرام چیزیں ناجائز ہیں۔

اس کے بعد وہ "سد ذرائع" کی منفی توسیع پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں

"الأصل فی الأشياء الإباحة ما لم یثبت التحریم بنصّ صحیح"(الإسلام والفن، ص 49)

ترجمہ: چیزوں میں اصل حکم اباحت کا ہے جب تک صحیح نص سے حرمت ثابت نہ ہو

اس کتاب میں وہ واضح طور پر چار شرائط ذکر کرتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی غائب ہوئی تو ایسی موسیقی جائز نہ ہوگی-

1ـ گانے کے الفاظ فحش نہ ہوں

2ـ شہوت، منکرات یا اختلاط شامل نہ ہو

3ـ عبادت و اخلاق پر منفی اثر نہ ڈالے

4ـ اعتدال برقرار رہے

یہ ایک دوسرے سے ایک ہزار سال کی مسافت پر کھڑے دو بڑے علماء کا موقف ہے۔ جن کو پسند نہیں وہ اپنے محلے کے امام صاحب پر گزارہ فرما سکتے ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں -