دين و دانش
كائنات ميں توافق اور ہم آہنگی
رضوان خالد چودھری
کہتے ہیں کہ زندگی ایک حادثے کا نتیجہ ہے، آئیے ہم بھی ذرا خود اور اپنے اردگرد بکھرے قوانین میں غور و فکر کر کے جاننے کی کوشش تو کریں کہ کیا ہم واقعی ایک حادثے کی پیداوار ہیں۔ بات اپنی پیدائش سے شروع کر کے کائنات کی طرف آئیں گے۔ ابتدائی زندگی جیسے بھی حادثے سے بنی ہو اب معاملہ یہ ہے کہ اگر پیدا ہونے والے ہر بچے کے سر کی ہڈی اُس کی ماں کے پیٹ میں ہی مکمل بن چکی ہوتی یعنی اگر اُس کے سر کے عین بیچوں بیچ ایک نرم ایریا نہ ہوا کرتا تو ایک بھی بچہ کھوپڑی تُڑوائے اور برین ڈیمیج کروائے بغیر پیدا نہ ہوا کرتا۔
آپکی نروز جو دماغ سے برقی سگنلز لے کر سارے جسم میں جاتی ہیں، کے تمام ایکسِز ایک ڈائی الیکٹرک تہہ سے ڈھکے ہوتے ہیں، ایسا نہ ہوتا تو آپ سادہ الفاظ میں یُوں سمجھیے کہ آپکی موت اپنے ہی اندر کے شارٹ سرکٹ سے ہو جاتی یا پھر آپکا جسم دماغ کی ہدایات پر عمل نہ کر پاتا۔ آپ دائیں جانا چاہتے بائیں طرف قدم اُٹھتے۔
مادے سے بنی کائنات کی بات کریں تو اسکی اکائی ایٹم ہے، اب ایٹم کے اندر موجود الیکٹرونز اپنے مرکزے کے گرد ایک ہزار کلومیٹرز فی سیکنڈ کی رفتار سے گھومتے ہیں، اگر انکی سپیڈ نو سو ننانوے کلومیڑ فی سیکنڈ بھی ہوتی تو ایٹم ہی قائم نہ رہتا، یعنی ہزار کی سپیڈ میں سے ایک کلومیٹر فی سیکنڈ سپیڈ بھی کم ہوتی تو کائنات ہی نہ ہوتی۔
جب ہائیڈروجن کے دو ایٹمز ملتے ہیں تو زیرو اعشاریہ سات فیصد ہائیڈروجن توانائی میں بدل جاتی ہے، اگر یہ تبدیلی زیرو اعشاریہ چھے فیصد ہوتی تو پروٹا نیوٹران سے نہ ملتے، اور کائنات میں ہائیڈروجن کے علاوہ کُچھ بھی نہ ہوتا،اگر یہ تبدیلی زیرو اعشاریہ آٹھ فیصد ہوتی تو ہائیڈروجن ہی دنیا سے فوراً غائب ہو جاتی جس کے بعد کائنات میں کسی بھی قسم کی زندگی ممکن نہ رہتی۔
الیکٹران ماس زیرو اعشاریہ دو فیصد نیوٹران ماس بناتا ہے، اس سے اعشاریہ ایک فیصد کمی بیشی کی صورت میں ایٹم ہی نہ بنتا۔ یعنی کائنات نہ ہوتی۔
پھر واپس خود کی طرف آتے ہیں،ہمارے معدے میں لگا ون وے والو اُس کھانے کو واپس آنے سے روکے رکھتا ہے جو ہاضمے کی پہلی سٹیج پار کر چکا ہو۔ نہ روکتا تو ہم اپنے ہی زہر سے مر جاتے،ہمارے جسم میں سفنسٹر مسلّز موجود نہ ہوتے تو ہمارے جسم کی رطوبتیں ہر وقت ہمیں بدبودار اور غلیظ رکھتیں۔ اگر آپ خود کو ملی صحت خراب نہیں کر چکے تو آپکا پینکریاز اُتنی ہی انسولین پیدا کرتا ہے جتنی آپ شُوگر استعمال کرتے ہیں۔ دل کی جانِب سے اُس قُوّت کا استعمال جو اُسے خون کو پمپ کرنے کے لیے چاہیے ہوتی ہے عین اُتنی ہوتی ہے جتنی انرجی ہمارے مسلّز کو کوئی کام کرتے ہوئے چاہیے ہو۔
نبابات کی بات کیجیے تو بیج زمین میں پھُوٹتا ہے تو کونپل کا وہ حصہ جو روشنی برداشت نہیں کر سکتا زمین کی گہرائی کی طرف پرورِش پا کر جڑ بناتا ہے اور دوسرا حصہ زمین سے اُوپر کی طرف بڑھتا ہے تاکہ روشنی سے مل کر جڑ کے لیے خوراک بنائے، اس دو طرفہ سفر کی ہدایات بیج کے اندر پہلے سے موجود ہوتی ہیں ورنہ وہ دونوں ایک ہی جتنی گہرائی میں ہوتے ہیں ایک حصے کو کیسے معلوم جدھر کو وہ بڑھ رہا ہے اُدھر روشنی ہے اور اُسے زندہ رہنے کے لیے روشنی ہی چاہیے، دوسرے حصے کو کیسے معلوم جدھر وہ بڑھ رہا ہے اُدھر روشنی نہیں ہو گی کیونکہ بیچ سے پھُوٹنے والا وہ حصہ اُوپر روشنی میں آ جائے جسے جڑ بننا ہے تو بیج پھُوٹتے ہی مر جائے۔ حادثے نے خیال رکھا کہ بیج تک میں یہ ہدایات ضرور رکھی جائیں تاکہ زندگی قائم رہے۔ نباتات کا زندگی برقرار رکھنے میں جو کردار ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔
پھلوں کے اندر موجود بیشتر بیجوں میں وہ ذائقہ ہی نہیں ہوتا جو پھلوں میں ہوتا ہے، یہ عمُوماً بدذائقہ اور سخت ہوتے ہیں، ایسا اس لیے ہے کہ آپ یا جانور پھل کھا لیں جو آپکی اور اُنکی زندگی کو مدد دیتے ہیں اور بدذائقہ یا سخت جان کر بیج الگ کر دیں، یہ بندوبست اس لیے ضروری تھا تاکہ بیجوں کے بچ جانے کے باعث پھلوں کی پیدائش اور زندگی جاری رہے۔
آپ کی گیلیکسی میں بظاہر ادھر اُدھر بکھرے ہوئے ستارے اور سیارے یا دیگر مادہ ایک ایسی خاص ترتیب سے بکھرا ہے کہ وہ انرشیا یعنی جمود کا ایک خاص نظام ترتیب دیتا ہے اور کائنات کے تمام بڑے یُونٹس کی وہیں خاص موجودگی کی یہ اہمیت ہے کہ یہ مادہ اس ترتیب میں نہ ہوتا تو آپ زمین پر نہ تو چل پھر سکتے، نہ اپنی انگلی ہلا سکتے۔زندگی پیدا ہو بھی جاتی تو پتھر کی طرح ایک ہی جگہ پڑی رہتی، یہ خاص انرشیا اتنا اہم ہے کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو بھی حرکت کرنے میں اسی انرشیا سے مدد ملتی ہے جو آپکی گیلیکسی نے مل کر قائم کیا ہے۔ پھر آپکی گیلیکسی اگلی گیلیکسی سے اسی اصول کے تحت جڑی ہے، اور اگلی گیلیکسی اپنے سے اگلی سے اور یوں ساری کائنات باہم جُڑی ہے،سادہ الفاظ میں اسے یُوں سمجھیے کہ صرف مریخ نہ ہوتا تو آپکے بھاگنے کی رفتار ایسی نہ ہوتی۔
ایک سائنسدان ڈینس ولیم سکی یاما نے اپنے تحقیقی کام "یُونیٹی آف یُونیورس میں اس مفہوم کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ساری کائنات کا ایک ایک سیارہ کیسے ہماری زندگی کی موجودہ شکل کے لیے ضروری تھا۔
ڈینِس ولیم نے تو یہ حقیقت اب جانی اللہ نے سُورة ص کی آیت ستائیس میں عین یہی بات چودہ سو سال پہلے کہہ دی تھی۔