تحریفاتِ یہود

مصنف : عبدالسلام ندوی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : مئی 2025

دين و دانش

تحریفاتِ یہود

مولانا عبد السلام ندوی

اگر ہمارے مفّسرین مفّسر ہونے کے ساتھ مورخّ بھی ہوتے تو مذاہب قدیمہ کی تاریخ کے بڑے بڑے راز ہائے سرِ بستہ کھُل جاتے۔قدیم مذاہب میں سب سے بڑا تاریخی مذہب، یہودیوں کا مذہب ہے دنیا میں اس مذہب نے بڑے بڑے سیاسی انقلابات پیدا کئے ہیں اور خود بھی بڑے بڑے سیاسی انقلاب دیکھے ہیں، اس مذہب کے پیرو ابتدا ہی سے دنیا کے ہر حصہ میں پھیلے اور اب تک تمام ممالک میں تقریباً اُن کی آبادی موجود ہے، یہ نا ممکن تھا کہ ایسی سریع الانفعال قوم جو خود حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے زمانہ میں ہر وقت بدلتی رہتی تھی، ان مختلف ممالک کے تمدّن، حکومت، مذہب اور آب و ہوا سے متاثر نہ ہوتی، اور یہ اثر ان کی مذہبی تاریخ سے نمایاں نہ ہوتا لیکن کیا ہماری قدیم تفسیروں میں اُن کے اس مذہبی انقلاب کی تاریخ مل سکتی ہے؟

قران مجید میں سب سےزیادہ جامعیت، وُسعت، اور تفصیل کے ساتھ اسی قوم کا قصّہ بیان کیا گیا ہے اس لئے اگر ہمارے مفسّرین کو یہودیوں کے ہر دور کی تاریخ کا علم ہوتا، اور وہ اسکے ساتھ قران مجید کی تصریحات کو تطبیق دیتے تو قرآن مجید کی تاریخی صحت کا ایک نہائت عمدہ ثبوت بہم پہونچتا، لیکن اب تک ہمارے مفسّرین کے نزدیک یہی عقُدہ حل نہیں ہوا کہ قرآن مجید میں جن یہودیوں کے حالات مذکور ہیں، وہ کس زمانہ کے یہودی ہیں؟اس وقت ہم کو یہود کی پوری مذہبی، قومی اور سیاسی تاریخ سے بحث نہیں ہے، سرِ دست موضوع بحث کا وہ خیانت آمیز طرزِ عمل ہے جو اُنھوں نے ایک قدیم آسمانی کتاب کے متعلق اختیار کیا ہے، قران مجید نے اس افسوس ناک داستان کو بار بار دہرایا ہے۔

فویل للذین یکتبون الکتب بایدیھم ثم یقولون ھٰذا من عند اللہ لیشتروا ثمناً قلیلا فویل لھم مما کتبت ایدیھم وویل لھم مما یکسبون ترجمہ: پس تُف ہے اُن لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے آئی ہے اور اُسکا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تھوڑا سا مالی فائدہ حاصل کریں پس تُف ہے اُن پر اُن چیزوں کی بنا پر جو اُنہوں نے لکھیں اور تُف ہے اُن کی کمائی پر۔

من اللذین ھادو ا یحرفون الکلم عن مواضعہترجمہ: بعض یہودی کلمات کو اپنی جگہ سے بدل دیتے ہیں

لیکن اگر ہمارے مفسرین سے اُن آیات اور احکام کی نسبت سوال کیا جائے جن پر یہودیوں نے دست تطاول دراز کیا ہے، تو اُس کا مُختصر جواب یہ ملے گا کہ یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کے اوصاف علامات اور آپ کی نبوت کی بشارت کو چُھپا دیا، اور احکام رجم میں توراۃ کے خلاف ایک نہائت غیر عادلانہ تفریق و امتیاز قائم کی، ان کے سوا وہ اور مثالوں کے پیش کرنے سے عاجز اور درماندہ ہوں گے لیکن یہودیوں کی مذہبی تاریخ، ان کی عالمگیر آبادی کی طرح نہائت وسیع ہے ، یہودیوں نے بابل میں شام میں فلسطین میں مصر میں، غرض تمام متمدّن ممالک میں کہیں ظالمانہ اور کہیں مظلومانہ زندگی بسر کی ہے اور اختلاف ملک، اختلاف سلطنت اور اختلاف تمدّن کا اثر اُن کے مذہب پر نہائت شدّت کے ساتھ پڑا ہے- جب ذاتی اغراض کی بنا پر اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو چھپا دیا تھا اور احکام ِرجم میں غیر مساویانہ تفریق قائم کی تھی اسی قسم کے مصالح کی بنا پر اُنھوں نے شریعت ِموسویہ میں اور بھی نہائت کثر ت سے تغیّرات کئے قران مجید میں اُنکی تحریفات کو جو ذکر آیا ہے اس میں کسی حكم کی تخصیص نہیں کی گئی ہے اس لئے ہم کو بکثرت اس قسم کی مثالیں جمع کرنی چاہئیں جن سے قُران مجید کی صداقت اور بھی زیادہ واضح، مبرہن اور مدللّ ہو جائے-

یہود کے تمام مذہبی احکام و عقائد کا مجموعہ ایک کتاب ہے جسکا نام تلمود ہے- تلمود ایک عبرانی لفظ ہے جس کے معنی تعلیم کے ہیں-عربی زبان میں تلمیذ کا لفظ اس سے بہت کچھ ملتا جُلتا ہوا ہے، تلمود دو کتابوں کا مجموعہ ہے "مشناۃ" اور "جیمارہ" جس طرح مسلمانوں کے ہاں مذہبی احکام کا ماخذ دو چیزیں ہیں "کتاب و سنت" اسی طرح یہودیوں کے یہاں توراۃ کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذاتی ارشادات و ہدایات ہیں جو روایات کے ذریعہ سے مختلف کتابوں میں جمع کی گئیں، لیکن ان روایات کا سب سے موثق مجموعہ مثناۃ تھا جس کو یہود احناسی نے مرتب کیا تھا -مشناۃ کالفظ عربی زبان کے لفظ سنت اور مُثنیٰ دونوں سے  ملتا جلتا  ہے اور عبرانی زبان میں عربی حروف کے تغیر و تبدل کے جو قاعدے ہیں (مثلاً سین کو شین کر دیتا) اس کے لحاظ سے وہ لفظاً معناً دونوں الفاظ سے مناسبت رکھتا ہے اگر وہ اور سنت دونوں ایک ہی لفظ ہیں تو لفظی و معنوی مناسبت ظاہر ہے اور اگر یہ اور مثنیٰ ایک چیزہیں تو لفظی مشابہت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے اور معنوی حیثیت سے بھی تورات کو کتاب اوّل اور اس مجموعہ کو کتاب ثانی کا لقب نہائت موزونیت کے ساتھ دیا جا سکتا ہے، جیمارہ ان شروح، تفاسیر اور زیادات کا مجموعہ ہے جو علمائے یہود نے مختلف زمانوں میں احکام و احادیث میں کئے ہیں اور چونکہ یہ تفسیریں مختلف زمانوں میں مختلف آئمہ نے کی ہیں، اس لئے ان میں باہم عظیم الشان اختلاف پایا جاتا ہے، انہی دونوں کتابوں کے مجموعے کا نام تلمود ہے، اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پانچ سو سال بعد یعنی ظُہور اسلام سے ایک صدی پیشتر مکمل ہوا لیکن یہ کتاب بھی اسلامی فقہ کی طرح یہودیوں کی کوئی متفقہ مذہبی کتاب نہیں ہے -اگر اسلامی فقہ کی تاریخ مرتب کی جائے تو اُن کے اختلافی مسائل و احکام کے تمام علل و اسباب میں ایک بڑا سبب ملک و قوم کا اختلاف قرار پائے گا۔ یہودیوں کے نزدیک یہی حال تلمود کے اختلاف کا بھی ہے، علمائے یہود ایک طرف تو دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے تھے، اس لئے ان کے خیالات میں توافق و اتحاد نا ممکن تھا دوسری اُنہوں نے اورشلم اور بابل کو دو مُختلف مرکز قرار دیا تھا، اس لئے زمانہ وقت اور سلطنت کے اثر سے اُن کے عقائد و احکام میں سخت اختلاف پیدا ہو گیا تھا - یہی وجہ ہے کہ تلمود اور شیلمی اور تلمود بابلی میں ہر موقع پر اصولی اور جوہری اختلافات نظر آتے ہیں۔

تلمود کا یہ مجموعہ ایک مُدّت تک یہودیوں کے علاوہ اور لوگوں کی نگاہ سے بلکہ خود اکثر یہودیوں کی نظر سے مخفی رہا، لیکن 1871 اور 1889 کے درمیان اس کو یورپ میں فرانس نے فرنچ ترجمہ کے ذریعہ سے عام طور پر روشناس کیا اور یہی ترجمہ ہے جس کے ذریعہ سے یہودیوں کی بہت سی تحریفات کا راز ِسر بستہ فاش کیا جا سکتا ہے -تلمود مُختلف قسم کے مسائل پر مُشتمل ہے، اس میں عبادات کا حصہ بھی ہے ۔ معاملات کے مسائل بھی ہیں، تعزیرات و حدود بھی ہیں، فقہا و مفسرین کے اقوال بھی ہیں قصص و حکایات بھی ہیں، خرافات قدیمہ و افسانہ ہائے پارینہ بھی ہیں، غرض وہ سب کچھ ہے جو اُس کو مذہبی دائرہ سے نکال کر ایک افسانہ کی کتاب بنا سکتا ہے- لیکن اس وقت ہم کو صرف اس کے مذہبی احکام سے بحث ہے، جو تغّیر و تبدّل اور نسخ و تحریف کا محل ہو سکتے ہیں۔ تلمود میں جو قواعد و اصول مذکور ہیں ان کا بہت بڑا حصہ خود یہودی علماو فقہا کا خود ساختہ ہے، توراۃ اور یہودیوں کی قدیم مذہبی کتابوں میں ان کا بالکل پتہ نہیں چلتا، بلکہ اُن کو ملک اور زمانہ کے مصالح کے لحاظ سے خود علماء نے اُن سلطنتوں سے جوان پر حکمرانی کرتی تھیں، یا ان حکومتوں سے جو اُن کے آس پاس قائم تھیں نقل کر لیا ہے اور مصالح و فوائد کے مطابق اُن میں اپنی اصلی شریعت میں تطبیق دے لی ہے، اس لحاظ سے تلمود مذاہب قدیمہ و جدیدہ دونوں کا ایک ایسا مجموعہ بن گیا ہے جس کے اندر سے ان دونوں کی جھلک صاف طور پر نمایاں ہوتی ہے -لیکن ان محدثات کی تعدید و تفصیل سے پہلے ان واقعات و حوادث کو جو یہودیوں پر گذرے، عموماً اور اُس زمانہ کے حا لات کو جس میں تلمود کی ترتيب و تدوین عمل میں آئی خصوصاً پیش نظر رکھنا چاہئیے، جن سے ثابت ہو گا کہ یہ تغیّر و تبدّل جو کچھ ہوا وہ قدرتی اور ناگزیر اسباب کا نتیجہ تھا۔

یہودی اگرچہ بخت نصر ہی کے زمانے میں بے خانماں ہو کر تمام دنیا میں مُنتشر ہو گئے تھے، لیکن جس زمانہ میں رومیوں نے ایشیاء فلسطین اور مصر کو فتح کیا، اس کے بعد اُن کی جمعّیت کا شیرازہ اور بھی پراگندہ ہو گیا، اور اُنہوں نے دنیا کے مُختلف حصوں میں جا کر اقامت اختیار کر لی- ایک گروہ نے مصر میں شہر ہیلو بولس کے اطراف میں ڈیرے ڈالے، ایک گروہ بخت نصر ہی کے زمانہ میں گرفتار ہو کر آیا اور کلدانی شہروں میں آباد ہو گیا، کچھ لوگ باوجود رومیوں کے مظالم کے اپنے وطن فلسطین ہی میں رہ گئے جو یہود کلدانی ممالک میں اقامت گزین تھے، انکار سردار ایک خلیفہ تھا جو حضرت داؤد علیہ السلام سے انتساب و تعلق رکھتا تھا، یہی شخص مصلحت وقت اور حالاتِ زمانہ کے موافق اُن کے لئے شرعی احکام نافذ کرتا تھا۔جو لوگ فلسطین میں مقیم تھے ان کا مذہبی پیشوا ایک بطریق تھا جو شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ اُن پر مذہبی حکومت کرتا تھا، اُس نے بہت سے عہدہ دار مقرر کئے تھے جو مالگذاری وصول کرتے تھے، اور دوسرے فرائض سلطنت کو انجام دیتے تھے وہ اپنے زیر اثر ممالک میں وفد اور فرمان بھیجتا رہتا تھااور تمام لوگ اُن کے سامنے اپنی گردن جھُکا دیتے تھے۔ چونکہ اب تک یہودیوں کی کافی تعداد دنیا کے ہر حصہ میں موجود تھی، اور اُنہوں نے اپنی قوت دولت اور عصبیت کا سرمایہ محفوظ رکھا تھا، اس لئے اُنہوں نے ایک بار پھر متفقہ طاقت کے ساتھ اپنی بگڑی ہوئی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہا، اس لئے اپنے دشمن رومیوں پر ایک متحدہ حملہ کیا جس میں بد قسمتی سے اُن کو ذلت آمیز شکست نصیب ہوئی، اب رومیوں نے محسوس کیا کہ یہودی عصبیت و طاقت کا یہ تحفظ جس نے یہ جنگ برپا کرائی اُن کی سیاسی خود مُختاری کا نتیجہ تھا، اس لئے اُنھوں نے ان کے تمام سیاسی اختیارات سلب کر کے اُن کو بالکل دست شل بنا دیا لیکن با ایں ہمہ رومیوں نے اُن کے مذہبی عقائد و اعمال میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کی، بلکہ اُن کو تمام معاملات میں اپنی قدیم شریعت پر عمل کرنے کی آزادی عطا کی تا ہم رومیوں کا یہ اختلاط بالکل بے اثر نہیں رہ سکتا تھا۔

یہودیوں کے پیشوایان مذہبی نے جب دیکھا کہ ہمارے تمام معاملات اب رومیوں اور رومیوں کی طرح قرب و جوار کی فاتحانہ طاقتوں کے ساتھ وابستہ ہو گئے ہیں تو اُنھوں نے اپنے شرعی احکام کو اُن قوموں کے احکام و قوانین پر مُنطبق کرنا چاہا، چنانچہ یہود کے بہترین دماغ یعنی پیشوایان ِ مذہبی نے کافی اختیارات اور کامل آزادی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی، اور خصوصیت کے ساتھ غیر قوموں کے وہی احکام انتخاب کئے جو اُن کے لئے سب سے زیادہ مفید اور بہتر ہو سکتے تھے- حسنِ اتفاق سے ان کی قوت فیصلہ کے لئے بہترین میدان بھی ہاتھ آ گیا تھا، یعنی ان کے انتخاب سے پہلے رومی کلدانی اور مصری قانون نے علمی حیثیت سے عظیم الشان ترقی کر لی تھی اور اس میں بکثرت کتابیں تصنیف ہو چکی تھیں- ان پیشوایانِ مذہبی نے اس مجموعہ کو سامنے رکھ لیا اور اُن کے ذریعہ سے بہت سے مفید احکام انتخاب کر کے اپنی قدیم مذہبی کتاب مشناۃ میں داخل کر لئے اور اس میں اضافہ کا نام جیمارہ یعنی تلمود بابلی اور تلمود اور شیلمی کی شرح رکھا۔ اس حسنِ انتخاب کے ذریعہ سے اُن کی قدیم شریعت میں جن متبدعانہ احکام کا اضافہ ہوا اُنکی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔

1۔ یونانیوں کے یہاں عورتوں کا درجہ نہائت پست قائم کیا گیا تھا، ان کے نزدیک مرد عورت کے فرمان روائے مطلق تھے نکاح کے بعد عورت کی تمام جائیداد مرد کی ملکیت میں آ جاتی تھی- مرد عورت کا وارث ہوتا تھا، لیکن عورت کو مرد کے ترکہ میں سے وراثت نہیں ملتی تھی اُس کے بخلاف مصر میں مرد اور عورت کے حقوق بالکل مساویانہ حیثیت رکھتے تھے البتّہ مصریوں کے یہاں نکاح کی ایک آسان ترین صورت تھی جس کو ان کی اصطلاح میں کتوبہ کہتے تھے اس نکاح میں اگر عورت باکرہ ہو تو دو درہم اور ثيبہ ہو تو سو درہم مہر اور نفقہ ادا کرنا ہوتا تھا، نکاح کا یہ سب سے کم مالی معاوضہ تھا - اس رقم کے ادا کرنیکی مدت بھی نہائت وسیع تھی، شوہر بوقت نکاح یا بوقت طلاق، یا تعلقات زنا شوئی کے قیام کے تمام زمانے میں کبھی بھی اس رقم کو ادا کر سکتا تھا۔یہود کے پیشوایان مذہبی نے ان احکام مختلفہ پر نظر ڈالی تو اُن کو مصریوں کے نکاح کی یہ آسان ترین صورت سب سے زیادہ پسند آئی، اس لئے اُنہوں نے اُسکو اپنی شریعت میں داخل کر لیا، لیکن مرد اور عورت کے دوسرے حقوق میں اُن کو مصریوں کا قانون سخت اور غیر مفید نظر آیا اس لئے اُنھوں نے اس مسٔلہ میں یونانیوں کی تقلید کی اور جو درجہ اُن کے یہاں عورتوں کا تھا وہی اپنے یہاں قائم کیا۔

2۔ قدما ئے یونان کے نزدیک وراثت صرف اولاد ذکور (اولادِ ذکور کی قید صرف اس لئے ہے کہ اُناث کو یہود کی شریعت میں کوئی حصہ نہیں ملتا تھا) کو ملتی تھی، لڑکیوں کو صرف نفقہ اور بوقت نکاح مہر ملتا تھا، اور بقیہ حقوق سے وہ محروم تھیں، یہودیوں نے اس منفعت بخش قانون کو اپنے شریعت میں داخل کر لیا، لیکن اس کے ساتھ ایک اور مفید اضافہ یہ کیا کہ لڑکی کو نفقہ اور مہر صرف جائداد غیر منقولہ سے مل سکتا ہے، جائداد منقولہ اس بار سے سبکدوش ہیں، یونانیوں کے قانون میں یہ قید نہیں تھی، معلوم نہیں کہ یہ اضافہ انھوں نے کس قوم اور کس شریعت سے کیا-

3۔ ایک اور طریقہ سے احبار یہود نے تمام دنیا کی دولت کو اپنے دامن میں سمیٹنا چاہا ، قدما سے مصر کے یہاں رہن کا ایک طریقہ یہ تھا کہ راہن اپنی جائداد غیر منقولہ کو رہن رکھ دیتا تھا، اور اس کا تمام تر تعلق اُس جائداد سے ہوتا تھا، خود راہن پر اُس کا کوئی اثر نہیں پڑتا تھا، یعنی اگر جائداد مرہونہ زر رہن کی پوری قیمت ادا نہیں کر سکتی تھی تو مُرتہن کو غریب راہن کے غلام بنا لینے کا اختیار نہ تھا، یہودیوں کو اس مفید قانون کا علم ہوا تو انھوں نے توراۃ کی طرف رجوع کیا، توراۃ نے بعض حالات میں کل زر رہن کا ذمہ دار صرف جائداد کو قرار دیا ہے، اس سہارے کو پا کر احبار نے اس مصری قانون کو اپنی شریعت ،میں داخل کر لیا-

4۔ شریعت موسویہ کے مطابق سن سبتیہ کی ابتدا سے ہر قرضدار قرض سے سبکدوش ہو جاتا تھا اور قرض خواہ کا اُس پر کوئی حق مطالبہ نہیں رہتا تھا، لیکن امرا، اہل دول، اور متمول لوگوں کی حالت کے لحاظ سے یہ مسلہ نہائت سخت اور غیر موزوں تھا۔ حُسن اتفاق سے علماء فقہاء، اور حکام اسی گروہ میں داخل تھے، اس لئے اُنھوں نے اپنے مالی حقوق کے تحفظ کے لئے ایک عجیب و غریب شرعی حیلہ ایجاد کیا، یعنی علماء کی ایک مجلس جس کو مجلس الشیوخ کہ سکتے ہیں قائم کی جو سب سبتیہ کی ابتداء سے پہلے قرضدار پر قرض کو لازمی کر دیتی تھی۔ اب یہ قرض تاریخ لزوم سے گویا جدید قرض ہو جاتا تھا اور سب سبتیہ کا دوران اُس پر سے نہیں ہونے پاتا تھا، یہ بالکل اسی قسم کا حیلہ ہے جیسا کہ ہمارے فقہا حولان حول سے پہلے زکوٰۃ کے متعلق کرتے ہیں اور اس کو ہبہ وغیرہ کے ذریعہ سے دوسرے کے ملک میں منتقل کر دیتے ہیں۔

5۔ انھوں نے قرض کے متعلق ایک دوسرا حیلہ یہ ایجاد کیا کہ قرض اور قرض دار کی مدت زندگی کو ایک کر دیا یعنی قرض دار کی موت کے ساتھ بجز جائداد مرہونہ کے اُس کا تمام قرض ساقط ہو جاتا تھا اس بنا پر اگر کوئی شخص اولاد ذکور چھوڑ کے مر جائے اور اُس کی جائداد منقولہ و غیر منقولہ کا کچھ رہن اور کچھ آزاد ہو تو قرض خواہ صرف جائداد مرہونہ سے اپنا قرض وصول کر سکتا تھا اور جائداد کا بقیہ حصہ بالکل محفوظ رہتا تھا۔

رومیوں مصریوں اور یونانیوں کی طرح احبار یہود نے کلدانیوں سے بھی بہت کچھ اخذ کر کے تلمود میں اضافہ کیا، چنانچہ یہ مسٔلہ کہ اگر کوئی شخص کسی معاملہ میں تحریری شہادت دے تو پھر دوبارہ اس کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا مثلاً ایک شخص نے اس استحقاق کی بنا پر کوئی جائداد فروخت کی کہ وہ اُس کی موروثی چیز ہے اور اس پر اپنے ہمسایوں سے شہادت دلوائی تو دوبارہ وہ لوگ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ بایع اس جائداد کا مستحق نہ تھا کیونکہ اُنکی شہادت اُنکے لئے حُجت ہے" -یہود کی اس اثر پذیری یا مذہبی خود غرضی سے مختلف نتائج پیدا ہے۔

1۔ دولت اور جائداد غیر منقولہ کا بہت بڑا حصہ صرف ایک جنس یعنی مردوں کے ہاتھ میں آ گیا۔

2۔ چونکہ یہودیوں کا یہ امتیازی وصف قرار پا گیا تھا کہ وہ ہر شریعت اور ہر حکومت کے قالب میں ڈھل جاتے تھے، اس لئے اُن کو ہمیشہ ارکان حکومت و روسائے مذہب کی بارگاہ میں تقرب حاصل رہا اور اُنھوں نے اس سے مختلف فائدے اٹھائے، چنانچہ جو ممالک یورپ کے زیر اثر تھے  مدتوں اُن کو یہ امتیازی حق حاصل رہا کہ وہ کسی قسم کا جرم کریں لیکن اُن کو کسی حالت میں سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی۔

3۔ چونکہ یہود کے تمام فقہی مسائل کا دار و مدار خود غرضی، ضرورت اور مصلحت وقت پر تھا اس لئے تلمود میں جو احکام مذکور ہیں، اُن کا دار و مدار کسی کلیہ ، کسی اصول اور کسی شرعی رواج پر نہیں ہے۔ اور اس لئے اُس کے قواعد و احکام میں کوئی مناسبت نہیں پائی جاتی-

اب جب کہ اس تاریخی تفصیل سے ثابت ہو گیا کہ یہود نے اپنی قدیم شریعت میں جو تغیر و تبدل کیا اس کو کیونکر کیا؟ اور کیوں کیا؟ اس سے کیا کیا فائدے اٹھائے؟ تو قران مجید کی ان پٗر از صداقت آئیتوں کی تلاوت ایک بار پھر کر لینی چاہئیے تا کہ معلوم ہو جائے کہ یہود قرآن، رسول اللہ اور مذہب اسلام کی مخالفت کن اسباب کی بنا پر کرتے تھے اور مذہب اسلام اُن کے کن خصائص قومی کی بیخ کنی کرنا چاہتا تھا، قرآن ہم کو صاف صاف بتاتا ہے کہ یہود نے اپنے مذہبی پیشواؤں کو خدا بنا لیا تھا وہ جس چیز کو چاہتے تھے حرام اور جس چیز کو چاہتے حلال کر دیتے تھے-

اتخذوا احبارھم و رُھبانھم ارباباً من دون اللہان لوگوں نے خدا کے علاوہ اپنے احبار و رُہبان کو خدا بنا لیا ہے۔

قران مجید ہم کو صاف صاف بتاتا ہے کہ یہ لوگ یہ تحریف جان بوجھ کر کرتے تھے۔

افمطمعون ان یومنوا لکم وقد کان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ثم یحرفونہ من بعد ما عقلوہ و ھم یعلمونترجمہ کیا تم کو لالچ ہے کہ وہ تمہارے لئے ایمان لائیں، حال آنکہ ان میں ایک فریق خدا کے کلام کو سُنتا تھا پھر سوچ سمجھ کر اُن میں تحریف کرتا تھا اور اُس کو جانتا تھا-

قرآن مجید ہم کو صاف صاف بتاتا ہے کہ اس تحریف کا مقصد صرف کسبِ زر تھا۔

فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ھٰذا من عند اللہ لیشتروا بہ ثمناً قلیلا فویل لھم مما کتبت ایدیھم و ویل لھم مما یکسبون۔ ترجمہ۔ پس تُف ہے ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے ہے، تا کہ تھوڑا سا مالی معاوضہ حاصل کریں پس تف ہے اُس پر جو کہ اُنھوں نے لکھا اور تف اُس پر جو کہ اُنھوں نے کمایا۔

قران مجید ہم کو صاف صاف بتاتا ہے کہ اُنھوں نے باوجود اس ذلت و مسکنت کے جو اُن پر نازل ہوئی تھی، دولت کا معقول سرمایہ اپنے پاس جمع کر لیا تھا-

یا ایھا اللذین آمنوا ان کثیراً من الاحبار والرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل و یعبدون عن سبیل اللہ واللذین یکنزون الذھب و الفضہ لا ینفقونھا فی سبیل فبشرھم بعذاب الیم،ترجمہ" مسلمانو۔بہت سے احبار اور رہبان لوگوں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں اور خدا کی راہ سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اُس کو خدا کی راہ میں صرف نہیں کرتے، اُن کو دُکھ دینے والے عذاب کی بشارت دو۔

ان آئیتوں کو بار بار پڑھو اور اُن کو اس تاریخی تفصیل پر مُنطبق کرو جو ابھی گُذر چُکی ہے باہم اس قدر تطابق نظر آئیگا کہ دونوں متن و شرح معلوم ہوں گی۔(معارف ستمبر 1917)