کیا موت کا ایک دن معین ہے

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : جولائی 2025

دين و دانش

کیا موت کا ایک دن معین ہے

پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی

ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے جو کسی قیمت پر آگے پیچھے نہیں ہو سکتا. اس نظریہ کی تائید متعدد قرآنی آیات سے بھی کی جاتی ہے

مثلاً-اذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون--لو کنتم فی بیوتکم لبرز الذین کتب علیھم القتل الی مضاجعھم--لیکن اس نظریے پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر واقعتاً ہر شخص کی موت کا وقت مقرر ہے تو خود کشی کرنے والے نے الوہی مشن مکمل کیا، اسی طرح کسی کو قتل کرنے والے نے بھی اللہ کا منشا پورا کیا ہے-پھر یہ سب گناہ کیوں ہے اور قتل پر قصاص یا دیت کیوں ہے؟ دوسری طرف بعض احادیث میں ایسے اعمال کا ذکر بھی ہے جن سے عمر بڑھ جاتی ہے. نیز سائینسی تحقیقات بھی اس نظریے کو سپورٹ کرتی ہیں کہ کچھ چیزیں عمر کم کر دیتی ہیں اور کچھ بڑھا دیتی ہیں-اگر ہم قرآنی آیات میں اجل مسمی سے  عمر طبعی کا اختتام مراد لیں تو سب اشکالات کا جواب ہو جاتا ہے-گویا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح ہر پراڈکٹ کی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے یا جس طرح الیکٹرانک آلات کی وارنٹی ہوتی ہے اسی طرح ہر انسان کی ایک وارنٹی ہوتی ہے اور اس سے قبل اگر اسے موت آگئی تو طبعی موت نہیں ہو گی-اس ضمن میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں پانچ امور طے کر دئیے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک اس کی موت کا وقت بھی ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہ حدیث یہ بتاتی ہے کہ ہر بندے کے جینز میں یہ تحریر ہوتا ہے کہ اس کی اجل مسمی یعنی ایکسپائری ڈیٹ کیا ہے. اگر اسے کوئی غیر طبعی صورت حال نہ پیش آئی تو یہ سٹرکچر اتنا عرصہ چل سکتا ہے.

واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک تفسیری سوال ہے جس کا تعلق فکری مناھج سے بھی ہے .اس مسئلہ کو عقیدہ تقدیر کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا اور ان نصوص کا یہ مفہوم کہ موت کا وقت معین ہے عہد بنو امیہ میں مسئلہ تقدیر کی سرکاری تشریح سے وابستہ ہو گیا. بنو امیہ نے اپنے اقتدار کے استحکام اور مخالفانہ تحریکوں کو روکنے کے لیے مسئلہ تقدیر کی ایسی توجیہ کی جس کا منشا یہ تھا کہ ان کی حکومت اور اگر وہ عوام کے لئے غیر مفید ہیں تو یہ سب نوشتہ تقدیر ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا. تقدیر کا یہ مفہوم انبیاء کرام کی ساری دعوت اور الہامی کتب کے نزول سے ہم آہنگ نہ ہونے کے ساتھ  کسی بھی زمانے کے موجود حالات کے خلاف جدوجہد کو روکنے کی فکری کاوش تھی. تقدیر کا یہی مفہوم ہر دور کے حکمرانوں کا پسندیدہ بیانیہ قرار پایا-جبکہ اجل کے موخر ہونے اور قبل از وقت آجانے کا ذکر قرآن میں موجود ہے -قرآن میں سورہ نوح میں نوح علیہ السلام کے وعظ کا ایک حصہ یہ ہے

"اللہ کی عبادت کرو، اس کا تقوی اختیار کرو، میرا کہا مانو، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں مقرر وقت تک فرصت عمل دے گا.- اللہ کی مقرر مدت جب ان پہنچتی ہے تو وہ موخر نہیں ہوتی--گویا ایک ہی آیت میں اجل میں مشروط تاخیر کی بشارت بھی ہے اور اجل کے موخر نہ ہونے کا ذکر بھی.

سورہ فاطر میں ہے وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الا فی کتاب -کسی کو بھی لمبی عمر دی جائے یا کسی کی مقرر عمر میں سے کم کر دی جائے سب کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے. گویا عمر بڑھ بھی سکتی ہے اور کم بھی ہو سکتی ہے. ان آیات پر مزید غور کرنے سے وہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ایک اجل مسمی ہے جسے ہم وارنٹی کہہ سکتے ہیں جو طبعی موت ہے اس کے حصول کی شرط یہ ہے کہ زندگی دینے والے سے تعلق مضبوط ہو، تقوی اختیار کیا جائے یعنی پرہیزی زندگی گزاری جائے اور ان تمام آلودگیوں سے بچ کر جیا جائے جو طبعی عمر کو کم کرنے کا باعث ہوتی ہیں. البتہ جب اجل آجائے گی یعنی وارنٹی پوری ہو جائے گی تو کسی کو فرصت عمل نہیں ملے گی. البتہ اس کے سوا آنے والی اجل کے بھی ضابطے مقرر ہیں -لکل اجل کتاب کا یہی مطلب ہے کہ اگر کوئی شخص وہ طریقے اختیار کرے گا جو موت لانے کا باعث ہوتے ہیں خواہ وہ اس کی اپنی بے احتیاطی ہو یا کسی ایسی جگہ موجود ہونا جو کسی دوسرے کے عمل یا بے احتیاطی سے خطرے کی جگہ بن جائے تو اس ضابطے کے تحت آ جانے کے باعث اجل آ جائے گی -اس ساری بحث کا مطلب یہ ہے کہ وبائی حالات میں بھی جو کوئی مکمل احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہو گا فطری قوانین نے اس کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے.

موت کا وقت: ڈاکٹر طفیل ھاشمی صاحب کی رائے پر تبصرہ

فیس بک پر جناب ڈاکٹر طفیل ھاشمی صاحب کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں "موت کے وقت" (مسئلہ اجل) پر گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ جو عام تصور ہے کہ موت کا ایک معین وقت ہے یہ تصور غلط ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق درست بات یہ ہے کہ موت کا وقت ایکسپائری ڈیٹ کی طرح کی چیز ہے جو ایک مدت میعاد تک چلنے والی چیز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر موت کا کوئی وقت خدا کی جانب سے مقرر ہے تو گویا خود کشی کرنے والا خدا کی سکیم کو پورا کرنے والا ہے نیز قتل کے فعل پر سزا و عقاب مرتب ہونے کا کیا مطلب ہوا؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس مسئلے کو بنو امیہ کے دور میں سیاسی ضروریات کے تحت مسئلہ تقدیر کی ایک جبری تشریح کرکے اس کے ساتھ جوڑ دیا گیا تاکہ عوام حکمرانوں کے مظالم پر مطمئن رہیں کہ یہ سب نوشتہ تقدیر ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ موت کے وقت پر اپنے موقف کو مضبوط دکھنا کے لئے آپ نے بعض نصوص سے بھی استدلال کیا ہے۔

تبصرہ

نفس مسئلہ کی یہ پریزنٹیشن محل نظر ہونے کے ساتھ ساتھ علمی منہج پر بھی مبنی نہیں۔ اسے غیر علمی منہج پر مبنی اس لئے کہا کیونکہ یہ مسئلہ ذات باری کے قدیم علم، عموم قدرت و ارادہ کے اصول کی فرع ہے جہاں پہلے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کیا علم خدا کی ازلی صفت ہے یا نہیں، کیا خدا کو جزیات کا علم ہے یا نہیں، خدا کے ارادے کی ہر ہر شے کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا ہے یعنی کیا خدا کا ارادہ بطریق حقیقی ثانوی علل امور کے ساتھ وابستہ ہے یا براہ راست، اسی طرح یہ طے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا بندے اپنے افعال کے خالق ہیں یا کاسب (اسے یوں کہتے ہیں کہ کیا قدرت قبل از فعل ہے یا مع الفعل)، پھر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ کیا نظریہ تولد درست ہے یا غلط؟ ان امور کو طے کئے بغیر براہ راست مسئلہ اجل پر گفتگو بے محل ہے۔

یہاں دلائل بیان کرنے کا محل نہیں، اہل سنت (اشاعرہ و ماتریدیہ) کے متعلقہ اصول یہ ہیں کہ:

خدا کو تمام امور کی جزیات کا علم ازل سے ہے-

اشیا میں کوئی تاثیر نہیں اور اس لئے ثانوی علل نامی کوئی حقیقی شے ثابت نہیں (جنہیں دنیاوی اسباب کہتے ہیں یہ علامات ہیں نہ کہ علتیں)-

ہر چیز کی تخلیق خدا کی قدرت و ارادے سے ہے، بندے افعال کے خالق نہیں کاسب ہیں -

کسب ہی بندوں کی ذمہ داری کی بنیاد ہے، اور

بندوں کے افعال سے متصل جو امور ظاہر ہوتے ہیں (جیسے پتھر پھینکنے پر اس کا لڑھکنا) تو یہ بندے کے فعل سے متولد (generated) نہیں بلکہ براہ راست خدا کے خلق کرنے سے ظاہر ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس معتزلہ کے اصول یہ ہیں کہ خدا کو تمام امور کی جزیات کا علم ازل سے ہے، بندے عطا شدہ قدرت کے باعث اپنے افعال کے خالق ہیں اور بعض معتزلہ کا کہنا ہے کہ افعال متولدہ کی نسبت بھی بندے کی جانب ہے اور بعض معتزلہ اشیا میں تاثیر پر مبنی ثانوی علل کے قائل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اجل کے مسئلے کی جو تفصیل لکھی ہے وہ معتزلہ کے اصولوں پر مبنی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکسپائری کی یہ مثال بھی بعینہہ ان کے ہاں موجود ہے، علم کلام کی کتب میں یہ تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلا امام غزالی (م 505 ھ / 1111 ء) اس مذہب کی تفصیل "الاقتصاد" میں یوں بیان کرتے ہیں:

فأما من جعل الموت سبباً طبيعياً من الفطرة وزعم أن كل مزاج فله رتبة معلومة في القوة إذا خليت ونفسها تمادت إلى منتها مدتها، ولو فسدت على سبيل الاحترام كان ذلك استعجالاً، بالإضافة إلى مقتضى طباعها، والأجل عبارة عن المدة الطبيعية كما يقال الحائط مثلاً يبقى مائة سنة بقدر إحكام بنائه، ويمكن أن يهدم بالفأس في الحال، والأجل يعبر به عن مدته التي له بذاته وقوته، فيلزم من ذلك أن يقال إذا هدم بالفأس لم ينهدم بأجله وإن لم يتعرض له من خارج حتى انحطت أجزاؤه فيقال انهدم بأجله

مفہوم: "جہاں تک وہ شخص ہے جس نے موت کو ایک فطری سبب قرار دیا ہے اور کہا کہ ہر مزاج کی ایک معین طاقت (ایکسپائری) کی حد ہوتی ہے جب کہ وہ (بیرونی اثرات سے) آزاد ہو اور وہ خود مزاج اپنی پوری مدت تک پہنچ جائے، اور اگر وہ اپنی فطرت سے خراب ہو جائے تو یہ ایک قسم کی جلد بازی ہوگی، اور اجل (کو یہ لوگ ایسی) فطری مدت کہتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ دیوار اپنی تعمیر کی مضبوطی کے مطابق سو سال تک قائم رہ سکتی ہے، اور اسے کلہاڑی سے فوراً گرایا بھی جاسکتا ہے، اور اجل سے مراد وہ مدت ہے جو کوئی چیز اپنی ذات اور قوت کے مطابق رکھتی ہے، لہٰذا (اس قول کی رو سے) یہ کہنا لازم آتا ہے کہ اگر دیوار کلہاڑی سے گرائی گئی تو وہ اپنی اجل پر نہیں گری، اور اگر اسے بیرون سے کوئی نقصان نہ پہنچے اور اس کے اجزاء ٹوٹنے لگیں تو کہا جائے کہ وہ اپنی اجل پر گری"

اس مسئلے پر معتزلہ کا موقف کیوں کر غلط ہے، یہ الگ بحث ہے لیکن کم از کم ان کا منہج بحث اس اعتبار سے علمی ہے کہ وہ پہلے اپنا اصول بتاتے ہیں اور پھر متعلقہ فروعات پر اسے لاگو کرتے ہیں۔

جب درج بالا اصول طے ہوجائیں تو یہ بات خود بخود سمجھ آجاتی ہے کہ کسی انسان کی اجل عین وہ وقت ہے جب اسے موت واقع ہوتی ہے اور جو اللہ کے ازلی علم میں مقدر تھا، جیسا کہ قاضی باقلانی (م 403 ھ / 1013 ء) کتاب "تمہید الاوائل" میں لکھتے ہیں:

وَأجل الْمَوْت هُوَ وَقت الْمَوْت ۔۔۔ وَأجل الْإِنْسَان هُوَ الْوَقْت الَّذِي يعلم الله أَنه يَمُوت فِيهِ لَا محَالة

مفہوم: موت کی اجل (مقررہ وقت) موت کا وقت ہی ہے ۔۔۔۔ انسان کی اجل وہ وقت ہے جس کے بارے میں اللہ کو علم ہے کہ وہ اس پر ضرور مرے گا-

بندے کے قتل کا فعل اس کی موت کی علت نہیں بلکہ اس کی علت خدا کا فعل ہے۔ بندے کی ذمہ داری ان افعال کا کاسب ہونا ہے جو موت واقع ہونے کے ساتھ متصل ہوتے ہیں جیسے مثلاً ہاتھ کی حرکت، تلوار کا چلنا وغیرہ (کسب کے پہلو کی نوعیت بیان کرنے کا یہ موقع نہیں، اس پر ہماری ایک تحریر ملاحظہ کی جاسکتی ہے: "مسئلہ جبر و قدر: متکلمین کا طریقہ بحث"، ماہنامہ الشریعہ)۔ خود کشی کا فعل ہو یا قتل کا فعل، ان میں سے کوئی بھی شے اس ازلی علم کو بدلنے والی نہیں جو کسی شخص کی موت کے وقت سے متعلق مقدر تھا۔ یہاں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر قاتل قتل نہ کرتا تو کیا مقتول زندہ رہتا یا مرجاتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ زندہ رہتا یا مرجاتا، اگر خدا کے علم میں اس کا زندہ رہنا مقدر ہوتا تو زندہ رہتا اور اگر موت مقدر ہوتی تو بھی اسی لمحے مرجاتا۔ قاضی باقلانی اس نکتے کو یوں واضح کرتے ہیں کہ قتل نہ زندگی کی ضد ہے اور نہ بدل کہ یہ کہا جاسکے کہ قتل نہ ہونے کی صورت میں وہ شخص ضرور زندہ رہتا۔ متعلقہ اصول پیش نظر ہوں تو اس بات کی غلطی بھی خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ ادویات یا بہتر خوراک وغیرہ کے استعمال سے گویا کسی کی زندگی بڑھ جاتی ہے، خلق مستمر (continuous creation or occasionalism) میں ایسی باتوں کا کوئی معنی نہیں۔

رہا یہ اعتراض کہ اس طرح تو خود کشی کرنے والا خدا کی سکیم کو پورا کرنے والا ہوگا تو یہ اعتراض یہیں نہیں رکے گا بلکہ ناقد کو پھر قدریہ کی طرح ماننا ہوگا کہ خدا کو بندوں کے افعال کا کوئی علم نہیں ہوتا یہاں تک کہ بندے وہ فعل کر گزریں۔ یہ سوال (ماتریدیہ کے نکتہ نگاہ سے) ویسے بھی خدا کی مشیت اور خدا کی رضا میں خلط پر مبنی ہے (معتزلہ کے نزدیک یہ دونوں ایک ہیں)۔ ہم ڈاکٹر صاحب سے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا قاتل اللہ کے ازلی علم کو بدل دینے والا ہے یا اس کے ارادے کو بدل دینے والا ہے یا ان کا ماننا یہ ہے کہ بعض افعال اللہ کے ارادے کے بغیر رونما ہوتے ہیں؟

ڈاکٹر صاحب کی جانب سے پیش کردہ یہ بات بالکل کمزور ہے کہ مسئلہ تقدیر کی یہ تعبیرات بنو امیہ کے مظالم کا جواز بنانے کے لئے وضع کی گئیں۔ مسئلہ جبر و قدر میں جبری تعبیرات وضع کرنے والے صف اول کے لوگوں میں سے ایک جھم بن صفوان (م 128 ھ / 745 ء) بھی تھا جو اموی مملکت کے خلاف بغاوت کرنے والے حارث بن سریج کی جدوجہد کا جواز بیان کرنے والوں میں پیش پیش تھا اور اسی سبب قتل بھی ہوا! یعنی بنو امیہ کے خلاف جدوجہد کرنے اور نہ کرنے والے ہر گروہ میں قدریہ و جبریہ دونوں گروہوں کے افراد شامل تھے۔ الغرض مسئلہ جبر و قدر کو ایسا سیاسی رنگ دینا ایک بے بنیاد بات ہے۔ یوں تو کوئی پلٹ کر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ قدری تشریحات خود کو وارثین اہل بیت قرار دینے والوں کی جدوجہد کا شرعی جواز بیان کرنے کے لئے سامنے لائی گئی تھیں لیکن ڈاکٹر صاحب انہیں نصوص میں تلاش کررہے ہیں!

رہ گئیں وہ نصوص جنہیں محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے نظرئیے کے حق میں پیش کیا ہے ان میں بھی نیا پن نہیں، ان سب کا ذکر کتب کلام میں موجود ہے جن کا جواب بھی وہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے (مثلا دیکھئے علامہ تفتازانی (م 792 ھ / 1390 ء) کی "شرح المقاصد")، خوف طوالت کے باعث یہاں دھرانا مفید نہیں۔