تاریخ
نیویارک اور وال سٹریٹ
امجد ثاقب
نیویارک۔ فیصلے یہاں نہیں ہوتے
نیویارک ڈاؤن ٹاؤن اور مین ہیٹن کی عمارتیں دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوبنے لگتا ہے۔ نیویارک کو دنیا کا فنانشل کیپیٹل کہتے ہیں۔ یہاں کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ معیشت اور کاروبار کا عالمی مرکز…… پچھلے دو سو سال کے دوران امریکہ آنے والوں نے زیادہ ترنیویارک کا راستہ اختیار کیا۔ بحراوقیانوس کا ساحل‘ مجسمہء آزادی اور مین ہیٹن کی بلند و بالا عمارات ان لوگوں کو سب سے پہلے خوش آمدید کہتی ہیں۔ نیویارک کی کہانی بہت زیادہ طویل نہیں۔ تین سو سال پہلے یہاں ایک وسیع و عریض جنگل تھا۔ بہار میں پھول کھلتے اور سردیوں میں برف کی چادر پڑی رہتی۔ کبھی کبھی سمندر کو جوش آتا تو لہریں سر پھوڑنے چلی آتیں۔ ایک روز انسان کو اس جنگل کی خبر ہوئی اور یہ آباد ہونے لگا۔ سترھویں صدی کے آغاز میں ولندیزی تاجروں نے یہاں قبضہ کیا۔ 1664 میں برطانیہ نے اس علاقہ کو اپنی کالونی بنالیا۔ایک سو سال تک یہاں برطانیہ کا جھنڈا لہراتا رہا۔ ایک روز یہاں کے لوگوں نے تاجِ برطانیہ سے بغاوت کا نعرہ بلند کیا۔آزادی کی جنگ کے بڑے بڑے واقعات یہیں رونما ہوئے۔ امریکہ میں ہونے والی سول وار میں بھی نیویارک کا کردار مرکزی تھا۔ یہاں سے تقریباً چار لاکھ فوجی اس جنگ میں شرکت کرنے گئے۔ یہ سب لنکن کے سپاہی تھے۔ ان میں سے پچپن ہزارکے قریب لقمہ اجل بنے اور جو زخمی ہوئے ان کا کوئی شمار نہیں۔ شمال اور جنوب کے درمیان اس خونی تصادم کے زخم کب کے مندمل ہوچکے۔ یہی امریکہ کی کامیابی ہے۔
بحر اوقیانوس کے کنارے ایستادہ آزادی کا مجسمہ نیویارک کی پہچان ہے۔ یہ مجسمہ فرانس کی جانب سے آزادی کے صد سالہ جشن (1886) کے موقعہ پر اہل ِ امریکہ کو پیش کیا گیا۔ ایسا ہی ایک مجسمہ فرانس کے شہر پیرس میں بھی ہے۔آزادی کا یہ مجسمہ دراصل ایک علامت ہے۔ شاید اس امر کا اعلان کہ آپ ایک آزاد سرزمین میں داخل ہورہے ہیں۔ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کے باشندے نیویارک میں آباد نہ ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہاں ایک کروڑ سے زائد رجسٹر ڈ گاڑیاں اور سوا کروڑ کے لگ بھگ ڈرائیونگ لائسنس تھے۔ اگر نیویارک ایک ملک ہوتا تو دنیا کی سولہویں بڑی معیشت قرار پاتا۔ اس شہر میں آمدو رفت کا زمین دوز نظام کسی عجوبہ سے کم نہیں۔ سخت پتھر یلی سرزمین کی وجہ سے اس نظام کی تعمیر انتہائی مشکل امر تھی۔ اسی پتھریلی زمین کی وجہ سے ہی مین ہٹن کی سر بفلک عمارتیں تعمیر ہوئیں اور انسان آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ یوں تو نیویارک میں بہت سے اہم اور تاریخی مقام ہیں لیکن دنیا کا معاشی مرکز ہونے کی حیثیت سے یہاں کی سب سے اہم جگہ وال سٹریٹ اور نیویارک سٹاک ایکسچینج ہے۔ نیو یارک سٹاک ایکسچینج اور وال سٹریٹ اب ہم معنی ہوچکے ہیں۔یہاں کے مکین سمجھتے ہیں کہ دنیا کی دولت اور معیشت کا فیصلہ اسی جگہ ہوتا ہے شاید وہ نہیں جانتے کہ اللہ کے ہاں معیشت کے قانون جدا ہیں۔ پکڑ دھکڑ‘ جرم و سزا۔ وہ ساراکھیل ہی کچھ اور ہے۔ خدا افراد اور اقوام کو اس وقت پکڑ میں لیتا ہے جب وہ اپنی معیشت پر اترا رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ اس زعم کا شکارہوتے ہیں کہ غربت اور امارت محض ان کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ”کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کردیں جب وہ لوگ اپنی معیشت پر اِترا رہے تھے“ القصص(28۔58)۔ انسان جلد باز ہے۔بار بار بھول جاتا ہے کہ بازی اسی وقت پلٹتی ہے جب کوئی خدا کی ہمسری کا اعلان کردے۔ خدا کو شاید سب گوارا ہو سوائے غرور کے‘ سوائے شرک کے۔
امریکی معیشت کی پناہ گاہ۔ وال سٹریٹ
وال سٹریٹ کی وجہ تسمیہ ایک چھوٹی سی دیوار ہے۔جو کبھی نیویارک شہر کے لیے فصیل کا کام دیتی تھی لیکن اب یہ دیوار سرمایہ دارانہ نظام کی فصیل بن چکی ہے۔ بظاہر اس قدر مضبوط کہ کوئی اس میں شگاف نہیں ڈال سکتا۔اس دیوار کے اولین معماروں میں ایک بڑا نام الیگزینڈر ہملٹن کا ہے۔ جسے مرنے کے بعد وال سٹریٹ کے قریب ہی دفن کردیا گیا۔
الیگزینڈر ہملٹن امریکہ کا پہلا وزیرخزانہ اور جارج واشنگٹن کا معتمد ساتھی تھا۔ اس نے ایک سپاہی‘ ماہر معیشت‘ سیاسی مدبر اور قانون دان کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔ امریکہ کے مشہور بنک‘”بنک آف نیویارک“ کی بنیاد بھی اسی نے رکھی۔ معاشی معاملات کااسے گہرا ادراک تھا۔ اس نے غربت میں آنکھ کھولی لیکن اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر امریکہ کے بانیوں میں شمار ہونے لگا۔ دولت‘ عزت‘ شہرت اور مرتبے کے باوجود اس کی زندگی کا اختتام ایک المیہ پہ ہوا۔ الیگزینڈر ہملٹن اور امریکی نائب صدر”بر“ کے مابین مختلف وجوہات کی بناء پر مخالفت اور پھر دشمنی شروع ہوگئی۔ اس عناد کی کئی وجوہات تھیں۔ بر کو شکایت تھی کہ ہملٹن کی مخالفت کی وجہ سے اسے امریکہ کی صدارت کا الیکشن ہارنا پڑا۔ جب یہ دشمنی حد سے بڑھنے لگی تو Duel کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اس زمانے میں دو آدمی اپنے اختلاف حل نہ کرپاتے تو Duel یا ”موت کی جنگ“ کا راستہ اپنایا جاتا تھا۔ یہ ایک انتہائی اقدام تھا۔ ہملٹن اور بر کے مشترکہ دوستوں نے انہیں اس سے روکنے کی کوشش کی لیکن غصے نے ان کی نگاہوں پہ پٹی باندھ دی۔ ذاتی مخاصمت اور انا۔ انسان غرور کی رومیں کہاں تک بہہ جاتا ہے۔ ڈوئل کیلئے گیارہ جولائی 1804 کا دن مقرر ہوا۔ نیو جرسی‘ دریائے ہڈسن کا مغربی کنارہ‘ وی ہاکن نامی جگہ۔ ہملٹن اور بر جو امریکہ کے نامی گرامی سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے علی الصبح اس بدقسمت مقام پہ پہنچ گئے۔ ایک امریکہ کا سابق وزیر خزانہ‘ جنگِ آزادی کا ہیرو‘ اور دوسرا امریکی نائب صدر……یہی نہیں ان کی حیثیت اس سے بڑھ کر بھی تھی…………دونوں آزادی کے معمار‘ جواں فکر اور دور اندیش بھی تھے۔ ہملٹن کی عمر انچاس برس اور بر اس سے کچھ ہی بڑا۔ گھڑیال بجا‘ حریف آمنے سامنے آئے‘ دونوں نے نشانہ تاکا۔ صلح کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ انا سب سے بڑی تھی۔ زندگی سے بھی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے پشت جوڑی۔ مخالف سمت میں دس دس قدم آگے بڑھے۔ رومال ہلنے پر پھرتی سے واپس پلٹے۔ گولیاں چلیں۔ ہملٹن کی گولی بر کے سر پہ لٹکی درخت کی ایک شاخ کو چیرتی ہوئی گذر گئی لیکن بر کی گولی نشانے پہ تھی۔ ہملٹن کے پیٹ کے نچلے حصہ پہ لگنے کے بعد یہ گولی گھومتی ہوئی پسلیوں تک جاپہنچی۔ خون کا فوراہ سا پھوٹا اور ہملٹن اپنے ہی پاؤں پہ گر گیا۔ زخم بہت کاری تھا۔ہملٹن اس زخم کی تاب نہ لاسکا اور اگلے روز بارہ جولائی کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہملٹن نے جان بوجھ کر غلط نشانہ لیا کیونکہ وہ بر کے خون میں ہاتھ رنگنا نہیں چاہتا تھا۔ ہملٹن کا ایک خط بھی پیش کیا گیا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ برکو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ اس کا خاتمہ اس کے پستول سے نکلی ہوئی گولی سے ہو۔ اس لیے گولی داغتے ہوئے اس نے پستول کا رخ بر کی طرف نہیں کیا۔ لیکن لوگ اسے محض افسانہ طرازی سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ ایک اداس دن تھا۔ درد سے بھرا اور خون آلود۔گولیوں کی آواز سے دریا ئے ہڈسن کا گہرا سکوت ٹوٹ گیا۔ معصوم پرندے اپنے گھونسلوں سے اڑ کر انسان کوخون بہاتے ہوئے دیکھنے لگے۔ ہملٹن اور بر آج دنیا میں نہیں۔ وہ پرندے بھی کہاں ہوں گے۔ لیکن وی ہاکن نامی جگہ بھی ہے‘ دریا کا کنارہ بھی ہے‘ شاہ بلوط کے دیوقامت درخت بھی ہیں۔ شاید ان پرندوں میں نسل در نسل یہ کہانی سنائی جاتی ہو۔ کوئی بوڑھا پرندہ کفِ افسوس ملتے ہوئے کہتا ہو کہ انسان کس قدر ضدی ہے۔خود ہی انا کی صلیب پہ لٹک جاتا ہے۔ جنگِ آزادی کے دو ہیرو کتنے کم نگاہ نکلے۔ وال سٹریٹ الیگزینڈر ہملٹن کا خواب تھی۔ اسے ابدی استراحت کیلئے جگہ بھی یہیں ملی۔ میں کچھ دیر الیگزینڈر ہملٹن کی قبر پہ کھڑا رہا۔ خزاں رسیدہ درخت اور قبر پہ بکھرے ہوئے زرد پتے۔ قبرستانوں میں بہار نہیں آتی۔ پھول نہیں کھلتے۔ البتہ اس قبر ستان سے ملحقہ وال سٹریٹ کا معاملہ اور ہے۔یہاں بہار رہتی ہے‘ خزاں نہیں آتی۔ یہاں کے مکین دولت میں کھیلتے ہیں۔ وال سٹریٹ ان کیلئے پناہ گاہ ہے۔ ایک مضبوط فصیل۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مزدور اور محنت کش اس دن کے منتظر ہیں جب یہ فصیل الیگزینڈر ہملٹن کی طرح خود ہی اپنے پاؤں پہ گر جائے گی۔ غربت ہمیشہ کیلئے ان کا مقدر تو نہیں۔
کب ڈوبے گاسرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تِر ی منتظرِ روزِ مکافات
٭٭٭