خواہشات اور مفادات گناہ کی طرف لے جانے والے بنیادی عامل ہیں۔ مگر ان کے علاوہ انسان کی وہ شخصی عادات بھی گنا ہوں کی طرف لے جانے کا ایک اہم سبب ہوتی ہیں جو برسہا برس سے انسان کے معمولات میں غیر محسوس طریقے سے شامل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بارہا تو یہ بچپن کی تربیت، ماحول اور تعلیم کا ایک ایسا اثر ہوتی ہیں جن سے انسان زندگی بھر پیچھا نہیں چھڑا پاتا۔ بڑ ے ہونے کے بعد بھی خارجی حالات اور ترغیبات کے تحت لوگ ایسی عادات اختیار کر لیتے ہیں جن کا بظاہر نیکی وگناہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر یہ عادات گنا ہوں کی اساس ضرور بن جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر بعض لوگ طبعاً سست ہوتے ہیں۔ وہ ہر کام میں سستی کرتے ہیں۔ یہ ایک بری عادت ہے لیکن اس کا دین سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ مگر یہی عادت انھیں اس مقام پر لے آتی ہے کہ وہ آمادگی کے باوجود نمازوں میں بھی سستی کرنے لگتے ہیں۔ نماز کا وقت ہوجاتا ہے۔ مگر وہ نہیں اٹھتے۔ اذان ہوتی ہے۔ مگر ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ نماز کا وقت نکلنے لگتا ہے ، مگر وہ بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخرکار نماز قضا ہوجاتی ہے۔
اسی طرح بہت سے لوگ چاروقت نماز باقاعدہ پابندی سے وقت پر ادا کرتے ہیں۔ مگر فجر کی نماز نہیں ادا کرپاتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ راتوں کو دیر سے سونے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس عادت کا نیکی بدی سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن بہرحال اس عادت کی بنا پر ان کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ رات ایک یا دو بجے سونے کے بعد پانچ بجے فجر کی نماز کے لیے اٹھ سکیں۔ یوں ان کی فجر کی نماز اکثر قضا ہوجاتی ہے۔
ایک اور بری عادت وقت اور معاملات کو درست طریقے سے منظم نہ کرنا ہے جس میں لوگ عموماً مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ بھی کوئی دینی چیز نہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں بہت سی اخلاقی اور دینی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ مثلاً ایسا آدمی ایک متعین وقت پر کہیں پہنچنے کا وعدہ کر لیتا ہے۔ مگر کبھی وقت پر نہیں پہنچتا۔ وہ اپنے ذمے کوئی کام لے لیتا ہے جو گویا کہ ایک عہد ہوتا ہے۔ مگر اپنی غیر منظم طبیعت کی بنا پر وہ اس ذمے داری کو نہیں نبھا پاتا۔ یوں وہ عہد و پیمان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سخت ترین وعیدوں کا مستحق ہوجاتا ہے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔
ایسی ہی عادات میں سے ایک عادت بے مقصد اور بے فائدہ طور پر بولنا ہے۔ ایسا انسان گفتگو کرتا رہتا ہے۔ اس گفتگو میں مباحات اور ضروریات کی چیزیں بھی ہوتی ہیں ، مگر بارہا ان میں دوسروں کا تمسخر، غیبت، الزام و بہتان اور تجسس جیسی حرام چیزیں غیر محسوس طریقے سے داخل ہوتی چلی جاتی ہیں۔
توبہ کی نفسیات میں جینے والے انسان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی عادات کا بھی جائزہ لیتا رہے۔ ہر وہ عادت جو گناہ اور نافرمانی کی سمت لے جانے والی ہے ، اس کی اصلاح کی بھرپور کوشش کرے۔ اس کے لیے دوسروں کی مدد لے۔ اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرے۔ اپنا احتساب کرتا رہے۔ اپنے لیے کچھ مطلوبہ معیارات مقرر کرے۔ ان کی خلاف ورزی کی صورت میں خود پر جرمانہ مقرر کرے ، وغیرہ۔
اسی طرح ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت میں اچھی عادات کو شامل کرنے پر بہت توجہ دی جائے۔ عادات کی کھیتی اصل میں والدین بوتے ہیں۔ وہ اگر اس بات کی اہمیت کو محسوس کر لیں تو بچوں کی بہت اچھی تربیت کر کے انھیں اچھی عادات کا حامل ایک اچھا اور قابلِ قدر انسان بنا سکتے ہیں۔ یہی عادات دنیا اور آخرت دونوں میں ان کی کامیابی کی ضامن ہوں گی۔