جسے اللہ ركھے
خاموش آسمان کی کہانی: جب فلائٹ 9 نے موت کو مات دی
انگلش سے ترجمہ
یہ 24 جون 1982 کی رات تھی۔ بحرِ ہند کے اوپر، زمین سے تقریباً سینتیس ہزار فٹ (37,000) کی بلندی پر، برٹش ایئرویز کا ایک جمبو جیٹ، پرواز نمبر 9، اپنے سفر پر گامزن تھا۔ اس بوئنگ 747 میں 263 مسافر اور عملہ سوار تھا، جو رات کی تاریکی کو چیرتا ہوا نہایت سکون سے پرواز کر رہا تھا۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ آنے والے چند لمحات میں ایک ناممکن واقعہ پیش آنے والا ہے۔
اچانک، عملے نے کاک پٹ کی کھڑکیوں پر ایک نیلی، پُراسرار چمک دیکھی، جسے ’سینٹ ایلمو کی آگ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ منظر ایسا تھا جیسے شیشے پر نیلی بجلی ناچ رہی ہو۔ پھر جہاز کے پروں پر چمکدار چنگاریاں دکھائی دینے لگیں، گویا طیارہ تاریکی میں آگ کے شعلے چھوڑ رہا ہو۔کپتان ایرک موڈی اور ان کے معاونین بے پناہ تجربہ رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی غیر معمولی موسمی حالات اور ہنگامی صورتحال کا سامنا کیا تھا، مگر ایسا خوفناک منظر انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اور پھر، وہ منحوس آواز آئی جس کا ہر پائلٹ کو ڈر ہوتا ہے: انجن فیل ہونے کا الارم۔سب سے پہلے چوتھا انجن رُکا۔ اس سے پہلے کہ عملہ صورتحال کو پوری طرح سمجھ پاتا، دوسرا انجن بھی خاموش ہو گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے پہلا اور تیسرا انجن بھی بند ہو گیا۔ نوے سیکنڈ سے بھی کم وقت میں، جہاز کے چاروں انجن کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔سات میل اوپر سمندر کی وسعت پر مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔
کسی تجارتی طیارے کا ایک انجن فیل ہونا معمول کی بات ہے، دو انجن کا فیل ہونا ایک بڑی ایمرجنسی، اور تین انجن کا فیل ہونا کسی تباہی سے کم نہیں۔ مگر چاروں کا بند ہو جانا؟ یہ تو ناممکن تھا۔پھر بھی کپتان موڈی، انجنوں کے بغیر، بجلی کے بغیر، ایک 300 ٹن وزنی گلائیڈر کو اڑا رہے تھے جس میں 263 جانیں تھیں۔ جہاز خطرناک رفتار سے نیچے آ رہا تھا۔ ان کے نیچے تاریک بحرِ ہند اور جاوا کا پہاڑی ساحلی علاقہ تھا۔ انہیں یہ مسئلہ حل کرنے اور انجنوں کو دوبارہ چلانے کے لیے محض چند منٹ میسر تھے۔
مسافروں کے کیبن میں بھی خوف کا عالم تھا۔ کھڑکیوں سے عجیب چنگاریاں نظر آ رہی تھیں، آکسیجن ماسک نیچے گر گئے، اور ہوا میں تیز، کڑوا دھواں گندھک کی بو کے ساتھ بھر گیا۔ کئی لوگ اسے آخری لمحے سمجھ کر الوداعی خطوط لکھنے لگے۔اسی دوران، کپتان موڈی کی آواز انٹرکام پر گونجی۔ یہ آواز ہوا بازی کی تاریخ کا ایک شہکار بن گئی:
"خواتین و حضرات، میں آپ کا کپتان بول رہا ہوں۔ ہمیں ایک چھوٹا سا مسئلہ درپیش ہے۔ ہمارے چاروں انجن رک چکے ہیں۔ ہم انہیں دوبارہ چلانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو زیادہ پریشانی نہیں ہوئی ہوگی۔"
چھوٹا سا مسئلہ! چاروں انجن بند تھے، آسمان میں سات میل اوپر۔ یہ صرف ایک پُرسکون بیان نہیں تھا، یہ اعلیٰ قیادت کا مظاہرہ تھا، جو تباہی کے عالم میں 263 لوگوں کے حوصلے کو قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا۔
کاک پٹ میں شدید دباؤ کا ماحول تھا۔ سینئر فرسٹ آفیسر راجر گریوز کا آکسیجن ماسک خراب تھا، جس سے وہ كم ہوا میں سانس نہیں لے پا رہے تھے۔ کپتان موڈی نے فوراً نیچے آنا شروع کر دیا تاکہ گریوز کو سانس لینے کے قابل ہوا مل سکے۔ اس طرح انہوں نے قیمتی بلندی قربان کر دی، لیکن عملے کے فرد کو بچا لیا۔فلائٹ انجینئر بیری ٹاؤنلی-فری مین دیوانہ وار انجن دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے، جبکہ فرسٹ آفیسر بیری فری مینٹل جکارتہ سے مواصلات سنبھال رہے تھے۔انہوں نے انجنوں کو دوبارہ چلانے کی کوشش کی: ناکامی۔ دوبارہ کوشش کی: پھر ناکامی۔
دس کوششیں، بارہ، پندرہ کوششیں!ہر ناکامی کا مطلب تھا: کم بلندی، کم وقت، اور موت سے قریب تر۔ جہاز 15,000، پھر 14,000 اور پھر 13,000 فٹ پر آ چکا تھا۔ ان کے نیچے جاوا کے اونچے پہاڑ تاریکی میں چھپے تھے۔ ان کے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
ساڑھے تیرہ ہزار (13,500) فٹ کی بلندی پر— جب زمین کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا— اچانک چوتھے انجن میں کھانسی ہوئی، وہ جھٹکا کھا کر گونجا، اور دوبارہ چل پڑا۔پھر تیسرا انجن، پھر پہلا اور آخر میں دوسرا انجن بھی زندہ ہو گیا۔
تیرہ منٹ کی موت کی خاموشی اور تیرہ ہزار فٹ کی گراوٹ کے بعد، چاروں انجن کسی طرح دوبارہ چل چکے تھے۔ ان کے پاس طاقت تھی، ان کے پاس کنٹرول تھا۔لیکن وہ ابھی بھی محفوظ نہیں تھے۔ جس چیز نے انجنوں کو تباہ کیا تھا، اس نے کاک پٹ کے سامنے کے شیشے بھی تباہ کر دیے تھے۔ یہ شیشے اوپیک ہو چکے تھے، 500 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والے لاکھوں ذرات نے انہیں ریت سے اتنا رگڑا تھا کہ ان میں سے نظر آنا ناممکن تھا۔کپتان موڈی کو تقریباً اندھے پن کی حالت میں جہاز کو اتارنا تھا۔ انہوں نے صرف سائیڈ کی کھڑکیوں سے جھلک دیکھی، آلات پر انحصار کیا، اور جکارتہ سے ریڈیو پر آنے والی رہنمائی پر مکمل بھروسہ کیا۔اور کسی طرح، ایک ناممکن کرتب دکھاتے ہوئے، کپتان موڈی نے اس زخمی 747 کو جکارتہ کے حلیم پرداناکوسوما ہوائی اڈے پر بحفاظت اتار لیا۔
ایک بھی شخص ہلاک نہیں ہوا۔ تمام 263 مسافر اور عملہ صحیح سلامت باہر نکل آئے۔
لینڈنگ کے بعد، تحقیقات کاروں نے اصل حقیقت دریافت کی۔ جاوا میں ماؤنٹ گالنگ گنگ آتش فشاں پھٹ رہا تھا۔ اس نے آٹھ میل اونچا راکھ کا ایک بہت بڑا بادل فضا میں بھیج دیا تھا۔فلائٹ 9 اندھیرے میں سیدھا اس راکھ کے بادل سے گزر گئی تھی۔ آتش فشاں کی راکھ دراصل پگھلا ہوا پتھر اور خوردبینی شیشے کے ٹکڑے ہوتے ہیں جو ریڈار پر نظر نہیں آتے۔ جب 1,000 ڈگری سے زیادہ پر چلنے والے جیٹ انجن اسے کھینچتے ہیں، تو یہ راکھ فوری طور پر پگھل کر انجنوں کے اندرونی حصوں پر چِپک جاتی ہے اور انہیں مکمل طور پر گلا گھونٹ دیتی ہے۔انجن صرف اس لیے دوبارہ شروع ہوئے کیونکہ کپتان موڈی کی دانشمندانہ گراوٹ جہاز کو راکھ کے بادل سے نیچے لے آئی تھی، جہاں ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے پگھلا ہوا شیشہ جم کر ٹوٹ گیا اور انجن صاف ہو گئے۔
یہ جتنی مہارت تھی اتنی ہی قسمت۔ لیکن ان کی مہارت نے انہیں اتنا وقت دیا کہ قسمت اپنا کام کر سکے۔
برٹش ایئرویز فلائٹ 9 نے ہوا بازی کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس واقعے سے پہلے راکھ کو معمولی چیز سمجھا جاتا تھا، مگر اس کے بعد:
کپتان موڈی کا تجربہ اور ان کے عملے کی فوری سوچ نے صرف 263 لوگوں کی جان نہیں بچائی، بلکہ بعد کی دہائیوں میں ہزاروں لوگوں کو بچا لیا۔
کپتان موڈی کو نہ صرف ان کی مہارت، بلکہ اس مشہور پُرسکون اعلان کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے، جو آج بھی دنیا بھر میں قیادت کی تربیت میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے: "ہمیں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ ہمارے چاروں انجن رُک چکے ہیں۔"
سبق یہی ہے کہ ناممکن کبھی کبھار ہو جاتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں تیار رہنا چاہیے۔ پُرسکون قیادت زندگی بچاتی ہے۔ گھبراہٹ مار دیتی ہے۔ اور سب سے اہم: کبھی ہمت نہ ہاریں۔ موڈی کے عملے نے 15 سے زیادہ بار کوشش کی۔ 15ویں کوشش کامیاب رہی۔ اگر وہ 14 پر رُک جاتے، تو کہانی ختم ہو جاتی۔
یہ صرف ہوا بازی کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ جب آپ کے زندگی کے چاروں انجن فیل ہو جائیں— حقیقی اور علامتی دونوں معنوں میں— تب بھی آپ کوشش کرتے رہیں، پُرسکون رہیں، اور ہار نہ مانیں۔ کیونکہ کبھی کبھی، 15ویں کوشش ہی وہ ہوتی ہے جو آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔