قرآن کتاب ہدایت ہے، ہر ہدایت کی افادیت اس پر عمل کرنے میں مضمر ہوتی ہے. اس کی تلاوت کا ثواب، تلاوت کی اہمیت کا تعلق اس امر سے ہے کہ ہدایت ربانی اپنی اصل شکل میں موجود رہے. اس کے الفاظ ،تراکیب، ترتیب اور سیاق و سباق میں کوئی تبدیلی نہ کی جا سکے تاکہ اس سے ہدایت پذیری میں کوئی دقت اور رخنہ واقع نہ ہو۔لیکن قرآن جن نتائج، دنیوی کامیابی اور اخروی فلاح کی ضمانت دیتا ہے اس کا تعلق اس کے الفاظ پڑھنے، یاد کرنے اور تلاوت سے نہیں بلکہ اس کی ہدایات پر عمل کرنے سے ہے۔ عمل کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے قرآن سمجھ کر پڑھا جائے۔ سمجھیں کیسے؟ اس کے لیے آج ہم فہم قرآن کے دو پہلوؤں پر بات کرتے ہیں۔
قرآن خلا میں نازل نہیں ہوا، یہ ہمیں لکھا لکھایا نہیں ملا، یہ ایک دن یا ایک سال میں مدون نہیں ہو گیا، یہ تالیف کے اسلوب کا حامل بھی نہیں بلکہ یہ ایک سماج میں نازل ہوا، جو سماج اپنی روایات، اقدار اور حریت فکر و نظر رکھتا تھا۔یہ لکھا ہوا نہیں آیا بلکہ نازل ہوا، ہم اس نوع بشری سے تعلق نہیں رکھتے کہ ہم نزول کی کیفیت کا ادراک کر سکیں. یوں صرف سمجھنے کے لیے ایک کمتر تعبیر یہ اختیار کی جا سکتی ہے کہ جیسے کسی شاعر، ادیب، یا تخلیق کار پر فکر و خیال اپنے الفاظ و بندشوں کے ساتھ نازل ہوتا ہے تقریباً اسی طرح قرآن آپ پر نازل ہوا۔ یہ ایک دن یا سال برس کی بات نہیں بلکہ تئیس سال کی تاریخ کے دروبست، سماجی نشیب و فراز، مخالفین کے الزامات، ریشہ دوانیوں اور دلائل، حامیوں کے قلب و نگاہ کی کیفیات، ایثار و قربانی کی داستان، ربع صدی میں وقوع پذیر ہونے والی مکمل داستان ایک سلسلہ وار تالیف یا ڈائری کے اسلوب پر نہیں بلکہ خطیبانہ انداز میں لیکچرز کے اسلوب پر اور ایک اور صرف ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہوئی کہانی ہے۔
اس کتاب کو سمجھنے کا سب سے مستند اور موثر حوالہ اس ایک شخصیت کی حیات طیبہ کا مطالعہ ہے۔ نہ معلوم ہم نے کیوں کتاب اور حیات طیبہ کو الگ الگ کر دیا۔ شاید ہمارا یہ خیال تھا کہ کتاب کی وسعتیں اور پہنائیاں شخصیت میں نہیں سمو سکتیں کہ کتاب زمان و مکان کی حدبندیوں سے ماورا ہے جبکہ شخصیت محدودیت سے ہم کنار ہے یا شاید کتاب کو شخصیت کے تناظر میں سمجھنے کی صورت میں ان تاویلات کی راہیں مسدود ہو جاتی تھیں جو ہم نے الفاظ کے خم و پیچ سے یا آیات کو اخباریین کے بیانات کی سان پر چڑھا کر کشید کئیے ہیں۔
اگر قرآن کو کتاب الہی کے حوالے سے پڑھیں اور پیران حرم سے تھوڑی دیر کے لیے معذرت کر لیں تو آئیے دیکھتے ہیں کتاب کا سیرت کے بغیر کوئی تصور ہے نہ پیغام۔ یہ دراصل گفتگو ہے الہ العالمین اور رحمۃ للعالمین کے درمیان، مثال کے طور پر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت الکوثر دیکھئے اس میں تین آیات میں چار بار رسالت مآب کا ذکر ہے. یعنی ک، صل، نحر، شائنک ۔ کوئی بھی دوسری سورت نکال کر دیکھ لیں مثلا سورہ والضحی میں تیرہ بار اور انشراح میں گیارہ بار آپ سے خطاب ہے.
سو فہم قرآن کے مناھج میں سب سے پہلی اہمیت سیرت طیبہ کو ہے اور یہ تصور سرے سے غلط ہے کہ سیرت النبی اپنی محدودیت کے باعث عملًا قرآن کی تفسیر نہیں کر پاتی. کاش کسی مفسر نے قرآن پاک کی تفسیر سیرت طیبہ کی روشنی میں کی ہوتی اور اس کا انطباق اپنے عہد کے مسائل پر کیا ہوتا۔
فہم قرآن کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ قرآن ماضی کے تمام واقعات کو مستقبل کے انتباہات کے طور پر بیان کرتا ہے مثلا اس نے یہود کی ایک ایک خرابی محض تاریخی بیانات کے طور پر نہیں بتائی بلکہ یہ بتانا مقصود تھا کہ تم اللہ سے بدعہدی نہ کرنا، اپنے علماء اور پیروں کو حلال و حرام کے اختیارات نہ دینا، نمازوں سے لا پرواہی نہ برتنا، احکام خداوندی کا بزنس نہ کرنا، حیلوں سے شریعت کو شکست دینے کی راہ اختیار نہ کرنا، نام بدل کر سود، شراب اور جوئے کو حلال نہ کر لینا، اپنے آپ کو منتخب اور برگزیدہ نہ سمجھنے لگ جانا، ان کے قول کہ یہود یا نصرانی ہی بخشے جائیں گے سے عبرت حاصل کرنا۔غرض یہ کتاب اللہ کا ایسا پہلو ہے جسے سب سے زیادہ اہمیت ہے اور
یہی سب سے زیادہ نہ صرف نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ یہ سب سے زیادہ تاویلات کا تختہ مشق ہے ۔خوف فساد خلق کے باعث کئی مثالیں نہیں دی جا رہیں تاہم توجہ کریں گے تو قرآن کے مفاہیم کھلتے چلے جائیں گے۔