نمک حلال

مصنف : اظہار الحق

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : نومبر 2025

پاكستانيات

 نمک حلال

اظہار الحق

افغانوں کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔ وہ یہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔

اب پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ کون سی برائی ہے جو پاکستان نے افغانوں کے ساتھ نہیں کی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اپنی سرحدیں افغانوں کیلئے کھول دیں۔ انہیں پناہ دی۔ سوچئے! کتنی بڑی برائی تھی جو پاکستان نے کی۔ ایران نے افغانوں کو خاردار کیمپوں میں رکھا مگر پاکستان میں پورا ملک ان کیلئے کیمپ کی طرح تھا۔ گلگت سے لے کر کراچی تک اور لاہور سے لے کر کوئٹہ تک‘ ہر جگہ افغان ٹڈی دَل کی طرح پھیل گئے۔ پاکستان نے ایک اور برائی یہ کی کہ افغانوں کو ہر طرح کے کاروبار کی اجازت دے دی۔ ٹرانسپورٹ کا کام‘ کپڑے کی خرید و فروخت‘ رئیل اسٹیٹ‘ امپورٹ ایکسپورٹ‘ تعمیرات‘ ٹھیکے۔ کون سا کاروبار ہے جو افغانوں نے پاکستان میں رہ کر پاکستانیوں سے نہیں چھینا۔ احسان شناسی اور وفاداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر کا واقعہ ہے۔ پوری مارکیٹ افغان دکانداروں کی تھی‘ صرف ایک دکاندار مقامی تھا۔ اسے انہوں نے قتل کر دیا۔ ہے نا احسان شناسی!!

موجودہ افغان حکمران سالہا سال بلکہ کئی عشرے پاکستان میں رہے۔ ان کے خاندان یہاں رہے۔ ان لوگوں نے تعلیم یہاں کے تعلیمی اداروں سے پائی۔ یہاں کاروبار کیے۔ جائدادیں خریدیں۔ یہاں پاسپورٹ بنوائے۔ یہاں کی دھوپ‘ چاندنی اور ہوا سے متمتع ہوئے۔ یہاں کی گندم کھائی۔ یہاں کا نمک کھایا۔ اُن کی کئی نسلوں نے یہاں پرورش پائی۔ یہ سب وہ برائیاں تھیں جو پاکستان نے ان کے ساتھ کیں۔ اب یہ وفادار اور احسان شناس افغان ان ''برائیوں‘‘ کا پاکستان سے بدلہ لے رہے ہیں۔

کئی ہزار سال سے افغان موجودہ پاکستان سے خوراک اور وہ تمام اشیا حاصل کر رہے ہیں جو زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہیں۔ خود ان کے ہاں جراب تک نہیں بنتی۔ ان کا واحد پیشہ قتل و غارت ہے اور لوٹ مار۔ پہلے یہ لوٹ مار کرنے جتھوں کے ساتھ آتے تھے۔ اہلِ پنجاب کو آج تک وہ محاورہ یاد ہے: کھادا پیتا لاہے دا‘ تے باقی احمد شاہے دا۔ غزنوی سے لے کر ابدالی تک لوٹ مار کر کے یہاں سے لاکھوں اونٹوں پر لوٹ کا سامان لاد کر لے جاتے رہے۔ اب سمگلنگ ان کا معاش ہے۔ سب کچھ پاکستان سے لیتے ہیں۔ پاکستان ایک برائی ان کے ساتھ یہ بھی کر رہا ہے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے اجازت دیتا ہے۔ ایک ہفتہ بارڈر بند رہے تو ان کی چیں بول جاتی ہے۔ ان احسان شناسوں اور شکر گزاروں کے بیماروں کا علاج پاکستانی ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کی رُو سے ہمارے ہسپتالوں کی تیس فیصد سہولتیں یہ لے اُڑتے ہیں۔ ان کے نوجوان پاکستانی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان سب برائیوں کا بدلہ یہ افغان اب بھارت سے مل کر اور ہماری افواج پر دہشت گردی کا ارتکاب کر کے لے رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں نمک حلالی!!

افغانوں کا مائنڈ سیٹ سمجھنے کیلئے ان کی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ کوئی سی بھی کتاب مل جائے‘ پڑھ لینی چاہیے۔ تاہم ولیم ڈالرمپل William Dalrymple کی تصنیف Return of a King نسبتاً تازہ ترین ہے اور ثقہ بھی۔ ڈالرمپل کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ روایتی اور فرسودہ حوالے نہیں دیتا بلکہ اس زمانے کی لکھی ہوئی ذاتی ڈائریوں اور روزنامچوں کو کھنگالتا ہے اور ان سے حقائق نکال لاتا ہے۔ ذاتی ڈائریوں میں جھوٹ کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ایک شخص اپنے لیے واقعات‘ اپنے روزنامچے میں درج کرتا ہے تو اسے غلط بیانی کی کیا ضرورت ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے حالات اور اس وقت کے سیاسی اتار چڑھاؤ کو جس طرح ڈالرمپل نے اپنی کتاب ''دی لاسٹ مغل‘‘ میں بیان کیا ہے اس سے کئی نئی معلومات ملتی ہیں۔ ریٹرن آف اے کنگ میں ڈالرمپل لکھتا ہے کہ افغانستان کے حکمران شاہ شجاع کے امرا میں سے ایک شخص نے اپنے ساٹھ قریبی اعزہ کو دعوت پر بلایا۔ دعوت والے کمرے کے نیچے بارود کی بوریاں پہلے سے رکھوا دیں۔ کھانے کے دوران کسی بہانے سے خود باہر چلا گیا۔ بارود پھٹا۔ یوں اس نے ساٹھ کے ساٹھ رشتہ داروں کو بھک سے راکھ میں تبدیل کر دیا۔ افغانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہر صفحے پر فریب کاریاں‘ دروغ گوئیاں اور حیلہ سازیاں نظر آتی ہیں۔ احمد شاہ ابدالی نے آٹھ بار پنجاب کو لوٹا۔ آخر میں اس کے چہرے کو کوڑھ یا گینگرین قسم کی بیماری لگ گئی۔ اس بیماری نے اس کی ناک کو کھا لیا۔ ناک کی جگہ ایک مصنوعی چیز لگائی گئی جس میں ہیرا جَڑا تھا۔ جس حساب سے وہ اپنی فوج کو بڑھاتا گیا اور سلطنت پھیلاتا گیا‘ بیماری اسی حساب سے بڑھتی گئی یہاں تک کہ اس کا دماغ‘ سینہ اور گلا اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ اسے ایک عبرتناک موت نصیب ہوئی۔

جس قوم کی تاریخ اتنی سیاہ ہو اس کیلئے سفید جھوٹ بولنا ایک عام سی بات ہے۔ جب بھی پاکستان نے ثبوت دیے کہ دہشت گردی افغان سر زمین سے پھوٹ رہی ہے‘ طالبان حکومت نے کہا کہ ان کی سرزمین استعمال نہیں ہو رہی۔ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ معصوم حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان سے فائدے بھی اٹھاتے رہیں اور اسی تھالی میں چھید بھی کرتے رہیں۔ انہیں اپنی تجارت کیلئے واہگہ باردڑ بھی کھلا چاہیے اور پاکستان میں قتل و غارت کرنے کی بھی کھلی چھٹی چاہیے۔ یہ چاہتے ہیں کہ کراچی کی بندرگاہ بھی ان کیلئے استعمال ہوتی رہے‘ وہاں سے سامان بھرے ٹرک بھی ان کے پاس پہنچتے رہیں اور یہ پاکستان میں آگ بھی لگاتے رہیں۔ واہ! کیا اخلاق ہے اور کیا عزتِ نفس ہے! مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب اسلام آباد کے جی نائن سیکٹر میں‘ پشاور موڑ والے بازار میں‘ افغان خواتین ہجوم میں‘ تنوروں کے سامنے اس روٹی کا انتظار کرتی تھیں جو ان کے پاکستانی بھائی خرید کر ان میں تقسیم کرتے تھے۔ آج بھی لاکھوں افغان پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان سے ہر وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں جو ممکن ہے۔ مگر طالبان حکومت ان تمام شرمناک حقائق سے بے نیاز اپنے محسنوں پر تلوار کے وار کرنا چاہتی ہے۔ ان کے وزیروں کی اکثریت کے خاندان آج بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی اور ایسی قوم بھی موجود ہے جو اپنے محسنوں پر تلوار چلائے؟ طالبان کے عجیب و غریب مائنڈ سیٹ کا اندازہ اس ہولناک تضاد سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف یہ اپنی خواتین کا علاج مرد ڈاکٹروں اور مرد نرسوں سے نہیں کرانا چاہتے۔ دوسری طرف یہ اپنی خواتین کو تعلیم نہیں حاصل کرنے دیتے۔ کیا کوئی قوم ایسی سوچ اور ایسے مضحکہ خیز رویے کی حامل ہو سکتی ہے۔ آئے روز عجیب و غریب قوانین نافذ کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے لوگوں کو کہا گیا کہ مکانوں کی کھڑ کیاں بند کر دی جائیں تا کہ گلی میں سے گزرنے والے مرد اندر نہ دیکھ سکیں۔

طالبان کی عبوری حکومت میں اگر رتی بھر بھی عزتِ نفس موجود ہے تو پاکستان میں رہنے والے افغان شہریوں کو فوراً واپس بلائے۔ آئے دن پاکستان کے سامنے گڑگڑاتے ہیں کہ افغانوں کو نکالا نہ جائے۔ آپ تو غیرت مند قوم ہیں۔ اگر پاکستان اتنا ہی کڑوا ہے تو اس پر انحصار ختم کیجیے۔ پاکستان ان کی لائف لائن ہے۔ پاکستان آج اپنی مہیا کردہ سہولتیں واپس لے لے تو دن میں تارے نظر آجائیں۔ پاکستان بنا تو بھارت کی لاٹری نکل آئی۔ لاٹری یہ کہ افغان بارڈر سے بھارت کی جان چھوٹ گئی۔ جائے عبرت ہے کہ جو وزیر خارجہ بھارت جا کر پاکستان کے خلاف محاذ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس کی اپنی جائداد پاکستان میں ہے۔ پاکستان ہی نے اسے پالا پوسا۔ کیا عزتِ نفس ہے اور کیا غیرت مندی ہے! واہ!!