پاکستانی معاشرہ

مصنف : سرفراز خان سعيد

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : جنوری 2026

پاكستانيات

پاکستانی معاشرہ

 ڈاکٹر سرفراز سعید خان

چند دن پہلے میں ، میری اہلیہ اور دو بچے ایک عرب شادی پر مدعو تھے۔ ہم اس شادی میں موجود سینکڑوں مہمانوں میں واحد پاکستانی تھے۔ یہ شادی بنیادی طور پر شام ، فلسطین ، مصر اور اردن کے مسلمان مہمانوں کی تقریب تھی۔ دولہا کے والد میرے جاننے والوں میں سے تھے اور اُن کا بیٹا انڈیانا یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں ، میرا سٹوڈنٹ رہا تھا۔ خوش شکل ، تہذیب یافتہ اور با ادب نوجوان ڈاکٹر اس وقت ریڈیالوجی میں ریزیڈنسی کر رہا ہے۔

عربی ثقافت ہم سے کچھ مختلف ہے اور اس کی بنیاد دین ہے۔ بنیادی طور پر مرد اور خواتین الگ الگ جگہوں پر بیٹھتے ہیں۔ شادی کا انتظام شیریٹن ہوٹل ، ڈاؤن ٹاؤن انڈیاناپلس میں تھا اور لا محالہ مکمل پردے کا انتظام تھا۔ درجہ حرارت منفی میں تھا اور زمین پر برف پڑی ہوئی تھی۔ پارکنگ کافی دور ایک پارکنگ گیراج میں ملی اور خاصا پیدل چل کر ہوٹل کی لابی میں داخل ہونے کے بعد خواتین پہلی منزل سے نیچے ایک زمین دوز ہال میں چلی گئیں اور ہم مرد حضرات کو اکیسویں منزل پر جانے کا کہا گیا جہاں داخلے پر مختلف جھنڈے بھی لہرا رہے تھے اور عربی روایات کے مطابق ثقافتی خوبصورت تلواریں اور دف نما ڈھول موجود تھے۔ چونکہ اس نوجوان کا خاندان بھی بہت مذھبی ہے اس لئیے ہم سب کے بیٹھ جانے کے بعد روایات کے مطابق اس نوجوان کو اپنے والد کے ساتھ ہی ہال نما کمرے میں داخل ہونا تھا ۔ عرب نوجوان شادی کے موقع پر اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ آتے ہیں ۔ عرب حضرات شادی کے موقع پر دف کے بہت شوقین ہیں اور یہ مذھب اور دین کے عین مطابق ہے۔ شادی کے موقع پر ان کا ایک روایتی نغمہ ہر عمر کے حضرات مل کر دف پر گاتے ہیں اور سننے میں کانوں کو بہت بھلا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ مل جل کر دائرہ بنا کر دولہا کو خوش آمدید کہتے ہوئے رقص کرتے ہیں اور اس میں دولہا کے بھائی اور والد پیش پیش ہوتے ہیں۔

بحثیت میڈیکل اسکول کے استاد کے ، سینکڑوں طالب علم مجھ سے پڑھ لکھ چُکے ہیں اور بحثیت ڈائرکٹر اور اب چیف میڈیکل آفیسر اب سینکڑوں ڈاکٹر میرے ساتھ کام کر چُکے ہیں جن میں ہر ایک کا اپنا مزاج اور اخلاقیات ہیں۔ بہت سے لوگوں نے میرے ماتحت کام کرتے ہوئے گرین کارڈ بھی لیا۔ چند ایک کو بہت سے معاملات میں اُن کو وارننگ بھی دینی پڑی اور معدودے چند مواقع پر نوکری سے نکالنے کی بھی نوبت پہنچی۔

سالوں پہلے ایک عربی النسل مسلمان جو میرے ساتھ کام کرتے تھے اُن کے کچھ معاملے خراب ہوئے نتیجتاً معاملہ اس حد تک بگڑا کہ اس کی نوکری خطرے میں پڑ گئی۔ بہت خوش شکل اور نستعلیق نوجوان ڈاکٹر تھا لیکن غلطیاں تو کسی سے بھی ہو سکتی ہیں۔ اسی دوران ایک دن کچھ خفا ہوا اور میرے پاس شکوہ کرنے چلا آیا کہ آپ نے میرے متعلق جو خط سٹیٹ کو لکھا ہے اس میں میرے مسئلے کا ذکر کر دیا۔ میں نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اول تو یہ معاملہ اسٹیٹ تک جا پہنچا ہے اور میں کسی صورت بھی اس کو چُھپا نہیں سکتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سچ لکھنا بہت ضروری تھا۔ وقت گزر گیا۔ وہ نوجوان کہیں اور چلا گیا اور ہمارا رابطہ کم و بیش ختم ہو گیا۔ سالوں بعد مجھے ایک انجان پاکستانی ڈاکٹر کا کہیں سے پیغام آیا اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ کچھ حیرانگی تو ہوئی لیکن اُس نے کہا کہ اب میں اور وہ عرب نوجوان اکٹھے کام کرتے ہیں اور وہ آپ کا اتنا اچھا ذکر کرتا ہے کہ مجھے آپ سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ یہ ایک کشادہ دل اور صاف ذہن کے مالک معاشرے کے فرد کا فیصلہ تھا۔

چند ہی سال پہلے ایک یا دو بر صغیر کے لوگوں نے بھی میرے ساتھ کام کیا۔ ایک صاحب تو باقاعدہ آنسو بہاتے تھے کہ ، “ سرفراز بھائی میرے حالات بہت خراب ہیں اور مجھ پر قرضہ بہت ہے “۔ میں نے اس شخص کی شاید کہیں کوئی مدد بھی کی ہو ۔ ایک دن میرے دفتر میں آ کر مجھ سے کسی کاغذ پر دستخط کروائے جو بادی النظر میں درست دکھائی دئیے۔ دستخط کرنے کے چند گھنٹوں بعد ہیومن ریسورسز سے فون آیا اور معلوم ہوا کہ اپنی درخشاں روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھائی صاحب کچھ فراڈ کر گئے ہیں۔ معاملے اس حد تک بگڑے کہ یہ صاحب دھمکیاں دینے پر اُتر آئے۔ جب معاملے ہاتھ سے نکلتے دکھائی دئیے تو استغفی دے کر نکل بھاگے۔ یہ میرے ساتھ کام کرنے والے دوسرے صاحب بھی ہمارے ہی جغرافیائی حصے کے تھے اور پہلوں کی کہانی بھی مختلف نہیں تھی۔ میرے سی ای او نے مجھے اتنا ضرور کہا کہ اب تک تو ہم پاکستان کو صرف آپ سے ہی جانتے تھے۔ سب لوگ بے حد ناراض ہوئے اور یہ صاحب بھی اپنا سامان سمیٹ کر چلے گئے۔ بعد میں ان کی زبان کے ہاتھوں بہت سے لوگ تنگ ہوئے اور میرے متعلق بھی بُری بات کہنے سے باز نہیں آئے۔ دہائیاں گزرنے کو آئیں لیکن میری زبان خاموش ہی رہی۔

جن صاحب کے صاحبزادے کی شادی پر ہم پہنچے تھے ، سالوں پہلے انہوں نے میرے ساتھ کام کیا تھا اور شاید ایک آدھ مرتبہ کہیں کچھ خفگی بھی در آئی ہو۔ جب شادی کے موقعے پر اپنے صاحبزادے کے ساتھ داخلی دروازے کی طرف بڑھ رہے ہوئے تھے اور مروجؔہ تہذیبی انداز میں ہم سب مرد حضرات ، راہ داری کی دونوں جانب استقبال کے لئیے کھڑے تھے جہاں سے دف یا تلواروں والے نوجوان گزر رہے تھے اور یہ صاحب اور ان کا خاندان اُن کے بیچوں بیچ تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اپنے خاندان سے الگ ہو کر فوراً میری جانب بڑھے اور مجھے محبت سے گلے لگا کر عربی روایتی انداز میں دونوں رخساروں پر واجبی سا بوسہ دیا۔ یہ عربوں میں محبت کا قرین انداز ہے۔ بالفاظ دیگر مجھے سب موجود عزیزوں سے فوقیت دے کر مجھے بالفاظ محبت یہ کہا کہ تُم میرے دل کے نزدیک اور میرے بھائی ہو۔ایک طرف تو محبت کا انداز بہت اچھا لگا لیکن لامحالہ بہت سے زندگی کے واقعات آنکھوں کے سامنے سے پھر گئے۔ پاکستانیوں اور پاکستان میں گزرے ہوئے دن اور اپنوں کی اخلاقیات بھی بہت یاد آئیں اور ٹوٹے دل کے ساتھ یہ بھی سوچا کہ اپنے ملک سے دور اور بے وطنی میں اسلام سے بڑھ کر بہتر رشتہ تو کیا ہو گا لیکن کیا یہی محبت ہم پاکستانی بھی آپس میں دکھلا پاتے ہیں۔ مذاق ، استہزاء ، خود غرضی ، حسد اور لالچ تو ہمارا کلچر کبھی بھی نہیں تھا۔ دو نسلیں پہلے ہم بہت بہتر لوگ تھے لیکن آج قائد اعظم کے پاکستان میں یہ محبت اور اخلاص ڈھونڈنے سے دیکھنے کو کیوں نہیں مل سکا۔

غلطی ہم سب سے کہاں اور کیونکر ہوئی ؟ جب سوچتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے اور میرے پاس اس سب کُچھ کا کہیں بھی جواب نہیں ہے۔ معاشرتی طور پر ہم کیوں ناکام رہے اور ایک محبت کرنے والی قوم نہیں بن سکے ؟

عَجم کے خیالات میں کھو گیا--یہ سالک مقامات میں کھو گیا

بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے--مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے