"کیا یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے؟" اصل قرآنی حُکم کیا ہے؟

مصنف : مولانا ابوالکلام آزاد

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : نومبر 2025

قرآنيات

"کیا یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے؟" اصل قرآنی حُکم کیا ہے؟

ابوالكلام آزاد

اس سورت(التوبہ) میں جا بجا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دشمنو ں سے رفاقت و اعانت کے رشتے نہ رکھو، اگرچہ وہ تمہارے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں، اور دوسری سورتوں میں بھی ایسے ہی احکام موجود ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ یہ اور اس طرح کے تمام احکامِ جنگ میں سے ہیں نہ کہ معیشت و علائق کے عام احکام، اور یہ بات خود قرآن نے  جا بجا اس درجہ وضاحت اور قطعيت کے ساتھ واضح کر دی ہے کہ شک و تردد کی ذرا بھی گنجائش نہیں رہی ہے۔جہاں تک ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ معاملہ کرنے کا تعلق ہے، قرآن کہتا ہے، اصل اس باب میں محبت و شفقت، ہمدردی و سلوک، اور تعاون و سازگاری ہے۔ اس کے سوا کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ وہ کہتا ہے ، ہر انسان دوسرے انسان کا بھائی ہے، خواہ اُس کا ہم وطن ہو یا نہ ہو، ہم نسل ہو یا نہ ہو، ہم عقیدہ ہو یا نہ ہو اور امتیاز و تفریق کی وہ تمام باتیں جو اس انسانی بھائی چارگی کا رشتہ قطع کرتی ہیں، خدا کی طرف سے نہیں ہیں، خود انسانوں کی گٖڑھی ہوئی معصیت اور گمراہی ہے- پیغمبرِ اسلام کی دُعاؤں میں سب سے زیادہ اعتراف اِسی حقیقت کا ہوتا تھا کہ "انی اشھد ان العباد کلھم اخوۃ" (مسلم) خدایا! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں!

لیکن جب تمام ملک و قوم نے اس دعوت کو بہ زور شمشیر نابود کر دینے کا فیصلہ کر دیا، اور پیروانِ دعوت پر محض اختلافِ عقائد کی بنا پر ظلم و ستم کرنے لگے، تو قدرتی طور پر جنگ کی حالت پیدا ہو گئی۔ اب دو فریق ایك دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ ایک فریق مسلمانوں کا تھا جو اپنا بچاؤ کر رہا تھا۔ دوسرا دشمنوں کا تھا جو حملہ آور تھا۔ پس ایسی حالت میں ناگزیر ہو گیا کہ دوستوں اور دشمنوں میں صاف صاف امتیاز ہو جاے۔ جو دوست ہیں، وہ دشمنوں کے کیمپ سے کسی طرح کا تعلق نہ رکھیں جو دشمن ہیں، وہ دوستوں سے کسی طرح کی سازش نہ کر سکیں۔ قرآن میں جس قدر احکام عدم موالات کے ہیں وہ سب اسی صورت حال سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سورت کی آئت 23 بھی اسی سے متعلق ہے۔

اصل اس باب میں سورہ ممتحنہ کی یہ آیات ہیں جو ایک ایسے ہی معاملہ کی نسبت نازل ہوئی تھیں۔إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ(سورۃ ممتحنہ آئت 09)

ترجمہ:خدا تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ اُن مشرکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انصاف کے ساتھ پیش آؤ جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔ خدا تو تمہیں صرف اُن لوگوں کی رفاقت و سازگاری سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی ہے (یعنے محض اس لئے کہ تم نے ان کا دین چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کر لیا ہے، تم پر حملہ کر دیا ہے) اور(ظُلم و ستم) کر کے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے نیز تمہیں جلا وطن کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے پس جو کوئی ایسے لوگوں سے رفاقت و سازگاری رکھے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں۔

اس آئت سے معلوم ہو گیا کہ قرآن میں جہاں کہیں مسلمانوں کو مشرکین ِ عرب یا یہود و نصاریٰ کی موالات سے روکا گیا ہے، تو اس سے مقصود صرف وہی جماعتیں تھیں جو مسلمانوں سے  حالت جنگ ميں تھيں -محض اختلافِ عرب  كی وجہ سے یا یہود و نصاریٰ ہونے كی وجہ سے  ترکِ علائق کا حکم دے دیا ہو ،ظاہر ہے کہ قرآن کا یہ حکم کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ اُس کی دعوت سر تا سر اخوت و مساوات کی دعوت اور عمومِ شفقت و احسان کا عالمگیر پیام ہے۔(تفسیر ترجمان القران مطبوعہ مکتبہ مصطفائی کشمیری بازار لاہور از مولانا ابوالکلام آزاد (آخری حاشیہ سورہ التوبہ) جلد دوم صفحہ 145، 146