قرآنيات
ترجمہء قرآن كی مُشکلات
مولانا عبد الماجد دریابادی
ترجمہ کے عُنصر ترکیبی دو ہی ہوتے ہیں۔ ایک اصل کا خود صحیح سمجھنا دوسرے اُسے صحیح ادا کرنا اگر اس دوسرے جزو کی طرف سے کسی حد تک بھی اطمینان ہو جائے تو یہ نعمت بہت تھوڑی ہے؟پھر اردو زبان خود بھی اپنی ساخت اور ترکیبوں کے لحاظ سے تمام تر بیگانہ نہیں بلکہ الفاظ کا اچھا خاصہ ذخیرہ تو دونوں میں مشترک انکے ترجمہ کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ اصطلاحی اور غیر اصطلاحی صدہا لفظ ایسے ہیں کہ بے تکلف قرآن سے ترجمہ قرآن میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ اللہ، رسول، نبی، وحی، جنت، جہنم، حور، جن، انسان، عذاب،عقاب، منیب، قریب، بعید، نبوت، رزق، رحمت، مغفرت، اسلام، ایمان، شیطان، مومن، مسلم، مُخلص، کفر، نفاق، کافر، دعوت، ریا، رزق، منافق، شرک، مشرک، آخرت، قیامت، حشر، قبلہ، حج، زکوٰۃ ، نکاح، طلاق، رسالت، دعا، زنا، جہاد، بشر، انسان، خبر، خیر، شیر، عرش، کرسی، توبہ، نعمت، دنیا، دین، موت، حیات، تقویٰ، ضرب، قتل، قتال، کتاب، حساب، فضل، صبر، شکر، صابر، شاکر، احسان، مال، زینت، غضب، قلب، قصاص، لعنت، امام، درجہ، بلا، موعظت، خشیت، مودّت، ربّ، علم، علیم، حلیم، حکمت، حکیم، عدو، قلم، طعن، حاسد، عدد، فوت، قوت، طاقت، قوی، خلق، امر، خالق، قادر، قدیر، ظلم، ظالم انتقام، غفور، حسد، حق، باطل، نور، روح، نفس، امت، مالک، عدل، عمل، اعمال، آئت، سورت، قول، قوم، فتنہ، فساد، رحیم کریم، مہاجرین، انصار-اتنے لفظ تو بلا تلاش از خود زبان قلم پر آ گئے ہیں، تلاش کے بعد تو فہرست خدا جانے کتنی طویل ہو جائے! اس پر بھی کلام الٰہی، کلام الٰہی ہی ہے، کسی بندے کی کیا مجال کہ مکمل ترجمانی کا دعویٰ کر سکے۔ اردو میں اب تک جتنے ترجمے ہوئے ہیں، سب مترجمین کی مادری زبان اردو ہی تھی اور بعض مترجمین تو اپنے علم و فضل کے لحاظ سے مرتبہ امامت رکھتے تھے لیکن دو ترجمے ، جو در حقیقت چوٹی کے ترجمے ہیں وہ بھی اصل سے کس قدر بُعد رکھتے ہیں اور بلحاظ ترجمانی کس قدر ناقص و نا مکمل ! قصور ان فاضل و متبحر مترجمین کا نہیں، ان کی بشریت کا ہے بندہ محدود جب نامحدود کے کلام کا مفہوم اپنی زبان میں بیان کرنا چاہے گا تو ہر کوشش و کاوش کے باوجود لازماً بہت سے پہلو نظر انداز ہو کر رہیں گے۔ قرآن پاک کی عبارت کے بے نظیر اور معجز ہونے پر سب متفق ہیں۔ حیرت ہے کسی نے یہ نہ لکھا کہ قرآن اس لحاظ سے بھی ایک معجزہ ہے، کہ جب اس کا ترجمہ کرنا چاہیں تو پوری طرح، اور جیسا کہ اس کا حق ہے، کسی سے بن نہ پڑے۔ یہ حال جب ان سہولتوں کے باوجود اردو ترجمے کا ہے تو انگریزی ترجمے کی دشواریوں کا کیا پوچھنا۔ ایک تو مترجم کے لئے خود دونوں زبانیں اجنبی ، لیکن اس شخصی سوال سے قطع نظر انگریزی زبان کے الفاظ کی ساخت ، جملوں کی ترکیب، طرز ادا، کوئی شئے بھی عربی سے مناسبت نہیں رکھتی۔ جو صنعتیں(صفتیں) عربی میں لازمۂ بلاغت سمجھی جاتی ہیں، اُنہیں بجنسہِ اگر انگريزی میں منتقل کر دی جائے تو انگریزی مذاق کے اعتبار سے مُضحِک بن جائیں۔ اسی لئے عربی کی آسان کتابوں کا بھی انگریزی ترجمہ آسان نہیں چہ جائیکہ قرآن مجید جو اپنے احکام و قوانین کے لحاظ سے بہ طور ایک ہدائت نامہ اور دستور العمل کے گو نہائت صاف اور سُلجھی ہوئی کتاب ہے لیکن اپنے نُکاتِ بلاغت کے لحاظ سے ترجمہ پذیر ہونے کے اعتبار سے اُسی قدر دقیق و نازک بھی ہے چند دُشواریاں محض تمثیلاً عرض ہیں۔
1۔ کلام پاک میں اسم فاعل بہ کثرت آئے ہیں اور وہ بھی بصیغہ جمع، مُفلحون، مجرمین، فائزون، راشدون، متقون، متقمون تائبون، وغیرہا۔ انگریزی میں، ان میں سے بیشتر کے ترجمے بہ صیغہ اسم فاعل ممکن نہیں، صرف بصورت صفت ہو سکتے ہیں اور صفت کی جمع آتی نہیں، اس لئے اس سے چارہ نہیں، کہ انہیں بحیثیت صفات صیغہ واحد ہی میں لایا جائے اور معنی جمع کے لئے صرف سیاقِ کلام پر اعتماد کیا جائے۔
2۔ قرآن پاک میں حروفِ تائید، متعدد آئے ہیں، اِنّ، اَنّ، قَد، لقد، لی، وغیرہا ۔ انگریزی میں ہر ایک کے مقابل الگ الگ لفظ ملنے ذرا مشکل ہیں۔ عموماً انگریزی مترجمین نے یہی کیا ہے کہ ایک لفظ کو عربی کے کئی کئی لفظوں کے مقابل رکھا ہے۔
3۔ پھر اکثر دو دو تاکیدیں ایک ہی جگہ جمع ہو کر آئی ہیں اِنّی لَغَفّارُ ، اِن اور ل کا اجتماع، ان اللّٰہ لعفوُ غفور(اجتماع مذکور)۔ یہ دِقّت اردو مترجمین کو بھی محسوس ہوئی ہے اور اس کا حل انہوں نے یہ نکالا ہے کہ ایک تاکید کو حذف کر دیا بلکہ اکثر تو دونوں کو -انگریزی مترجم کے لئے یہ دُشواری اردو والوں سے کہیں زیادہ بڑھی ہوتی ہے۔
4۔ سب سے بڑی دُشواری، مضارع کے ترجمہ میں آ کر پڑتی ہے۔ عربی میں اس میں مفہوم حال و استقبال دونوں کا شامل رہتا ہے۔ اس دوہرے مفہوم کو ایک لفظ سے ادا کرنے کی کوئی صورت، جس طرح اردو میں نہیں، انگریزی میں بھی نہیں۔ مجبوراً یہ کرنا پڑتا ہے کہ سیاق سے صرف ایک مفہوم متعین کر کے اُسی کے ادا کرنے پر قناعت کرنی ہوتی ہے۔
5۔ قرآن پاک میں محذوفات و مقدرات کثرت سے ہیں۔ کہیں حروف شرط، لو، لَولاَ وغیرہ) مذکور ہیں لیکن جواب مذکور نہیں اور کہیں دوسرے قسم کے محذوفات ہیں ایسے موقعوں پر مترجم کو بلحاظ سیاق عبارت اپنی طرف سے پوری کرنی پڑیگی ور نہ دوسری زبان میں عبارت بے معنی نظر آئے گی۔
6۔ متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں خُطبہ کی ابتداء صیغہ واحد سےہوتی ہے۔ ( مثلاً من آمنَ باللّٰہ و الیوم الآخر لیکن جہاں خبر نکلی ہے وہاں فعل اور ضمیر دونوں صیغہ جمع کے ہیں (مثلاً فلا خوفُ علیہم ولا ھم یحزنون) ہاں اتنا تصرف کئے بغیر انگریزی مترجم کو چارہ نہیں کہ صیغہ جمع وہ شروع ہی رکھے-