پاكستانيات
افغانستان کی پاکستان دشمنی کی مکمل تاریخ۔۔۔۔ 1947 تا 2025!!
ستونت کور
اکثر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ پاک افغان تعلقات میں سرد مہری "انقلاب ثور" اور اس کے اثرات کے بعد شروع ہوئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاک افغان تعلقات نومبر 1947 سے ہی خراب ہوچکے تھے۔ اس تحریر میں 1947 سے 2025 تک افغانستان کے مکروہ ترین کردار، ناپاک عزائم اور سازشوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔
1947.....
30 ستمبر 1947 کو افغانستان دنیا میں واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔اسی دن سے پاک افغانستان تعلقات میں کشیدگی کا آغاز ہوگیا۔ستمبر 1947 میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ نام نہاد "پشتونستان" کا جعلی جھنڈا لگا کر پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھ دی۔
1949.....
12 اگست 1949 کو باچہ خان کے زیر اثر "فقیر ایپی" نے پشتونستان کی حمایت کا اعلان کیا جس کا افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا۔31 اگست 1949 کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچہ خان اور فقیر ايپی دونوں نے شرکت کی اس جرگےمیں پشتونستان کاز کی حمایت کرتے ہوۓ ہر سال 31 اگست کو "یوم پشتونستان" کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔اس کے بعد فقیر اپی کے ذاتی جنگجو گروپ(جس کا نام غالبا سرشتہ گروپ تھا) نے وزیرستان میں افغانستان کی مدد سے چھوٹے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کردیا۔بعد میں 1954 میں اپی فقیر کے گروپ کے کماندار "مہر علی" نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوۓ پاکستان سے وفاداری کا اعلان کردیا جس کے بعد فقیر اپی کی بغاوت کا خاتمہ ہوگیا۔۔
1949 میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
1950 پاکستان پر حملہ:
ستمبر 1950 میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کردیا جس کا مقصد چمن تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا۔ ایک ہفتے تک پاکستانی و افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغان فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہوگئی۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
1951...پاکستانی وزیر اعظم کا قتل:
16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست دہشتگرد "سعد اکبر ببرک" نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کرشہید کردیا۔یہ قتل افغان حکومت کی ایماء پر ہوا تاہم عالمی دباؤ سے بچنے کے لیے کسی بھی انوالومنٹ سے انکار کردیا۔۔۔ لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا یعنی پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز افغانستان نے کیا۔
1952....
6 جنوری 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر "شاہ ولی خان" نے بھارت کے اخبار "دی ہندو" کو انٹرویو دیتے ہوۓ یہ ہرزہ سرائی کی کہ "پشتونستان میں چترال ،دیر،سوات، باجوڑ،تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان شامل ہوں گے"۔
1953.....
26 نومبر 1953 کو افغانستان کےنئے ایمبیسیڈر "غلام یحیی خان طرزی" نے ماسکو،روس کا دورہ کیا جس میں روس(جو تب سوویت اتحاد تھا) نے پاکستان کے خلاف افغانستان کی مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔
1955....
28 مارچ 1955 میں افغانستان کے صدر "داؤد خان" نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اورقندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کردیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔
حملہ کی ایک اور کوشش:
مئی 1955 میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔ جس پر جنرل ایوب خان نے نےبیان جاری کیا کہ" اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جاۓ گا جو وہ کبھی نہ بھول سکے"۔
انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے ایمبیسیڈر "میخائل وی۔ ڈگٹائر" نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کرائی۔نومبر 1955 میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجو، گروپس کی صورت میں 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقےمیں بلوچستان میں داخل ہوگئے جس کے بعد کئی مرتبہ مسلح افغانوں کی پاکستانی فوج سے جھڑپیں ہوتی رہیں۔
1960....دوسرا حملہ:
مارچ 1960 افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری کی جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔28 ستمبر 1960 کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے "باجوڑ ایجنسی" پر حملہ کردیا۔اور پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوۓ واپس دھکیل دیا۔1960 کے دوران پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی۔
1961....تیسرا حملہ:
مئی 1961 میں افغانستان نے باجوڑ ،جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا اس مرتبہ اس حملے کامقابلہ فرنٹیر کور نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔افغان حکومت نے حملہ کی حقیقت سے انکار کردیا۔
1963....
جولائی 1963 میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی کوششوں سے سےپاکستان و افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات بحال کر لیے۔اس کے بعد کئی سال تک امن رہا۔
1972...
1972 میں اے-این-پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر پشتونستان تحریک کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے کام شروع کردیا۔
1973....
افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشی اورپاکستان مخالف سرگرمیوں کےبعد پاکستان کے ذوالفقار بھٹو نے پہلی مرتبہ افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔اب افغانستان کے برے دن شروع ہونا طے پاچکا تھا۔تب تک افغانستان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ مل کر "آزاد بلوچستان" تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر افغان تخریب کاری بھی جاری رہی۔
1973....
1973 میں پشاور میں افغانستان نواز عناصر نے پشتونستان نواز تنظیم "پشتون زلمی" قائم کی۔
1975....حیات خان شیرپاو کا قتل:
فروری 1975 میں افغان نواز تنظیم "پشتون زلمی" نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کردیا۔(بحوالہ کتاب "فریبِ ناتمام" از جمعہ خان صوفی)
1978....
28 اپریل 1978 روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت "پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان" نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کردی جسے "انقلاب ثور" کا نام دیا گیا۔اس کے نتیجے میں صدر داؤد سمیت ہزاروں افغانیوں کو بیدردی سے ہلاک کردیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔ کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی پشتونستان کی عام حمایت کا اعلان کردیا۔
1979...
افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہوگئے اور کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرنے کےباوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکا۔ اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھتے ہوۓ نجیب نے روس سے مدد مانگ لی جس کے بعد 24 دسمبر 1979 کو روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔روسی و افغان کمیونسٹ افواج نے افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا۔ اور روس کے خلاف برسرپیکار افغان مجاہدین کی مکمل مددکی۔
1988۔۔۔۔
10 اپریل 1988 کو روسی انٹیلجنس ایجنسی KGB نے افغان سرزمین سے ، افغان خفیہ ایجنسی'خاد' کی مکمل مدد و معاونت سے راولپنڈی میں ایک خفیہ آپریشن سرانجام دیتے ہوئے پاک فوج کے اوجڑی کیمپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس سانحہ میں کیمپ میں موجود کئی راکٹ آگ لگنے سے شوٹ کرگئے اور راولپنڈی کی آبادیوں پر گرے۔اس واقعہ میں 98 افراد جاں بحق جبکہ 1100 زخمی ہوئے ۔ ساتھ ہی 10 ہزار ٹن ایمونیشن تباہ ہوکر ضائع ہوگیا۔
1979 سے 1989 ۔۔۔۔
اس عرصے میں روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی اور کے جی بی اور افغان خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی شہید ہوۓ۔
2006...
2006 سے اب تک افغانستان بھارت سے ملکر تحریک طالبان پاکستان اور BLA سمیت پچاس کے قریب دہشتگرد تنظیموں کو تربیت دے رہا ہے جن کے حملوں میں اب تک 70000 پاکستانی شہید اور تین لاکھ زخمی ہوچکے ہیں۔
2014...
16 دسمبر 2014 کو بھارتی را اور افغان این ڈی ایس کے پلان پر 7 افغان دہشتگردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے 150 بچوں اور سٹاف کو بیدردی سے شہید کردیا۔
2017....
5 مئی 2017 کو بھارت کی شہ پاکر افغان نیشنل آرمی نے چمن،بلوچستان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں 2 پاکستانی فوجی اور 9 سویلینز شہید جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوۓ۔جبکہ 50 افغان فوجی ہلاک اور 5 ملٹری پوسٹس تباہ ہوئیں۔
2018....
15 اپریل 2018 کو افغان فوج نے کرم ایجنسی میں پاکستانی فوج کے ایک دستے پر گھات لگا کر 2 پاکستانی فوجیوں کو شہید کردیا۔25 ستمبر 2018 میں پاکستان کی خطرناک ترین دہشت گرد تنظیموں میں سے ایک "بلوچ لبریشن آرمی" BLA کا سربراہ افغانستان کے صوبہ قندھار کی سب سے محفوظ اور ڈیویلپڈ پوش کالونی "عینو مینہ" میں اپنے 5 ساتھی کمانڈروں سمیت پاکستانی خفیہ ایجنسی کے ایک خصوصی آپریشن میں مارا گیا۔افغان حکومت نے قندھار کی سب سے مہنگی اور جدید رہائشی کالونی عینو مینہ میں کئی پاکستان مخالف تخریب کاروں کو پناہ دے رکھی ہے۔
2019 اور 2020۔۔۔۔
ان دو سالوں کے درمیان افغان فورسز اور افغانستان کی سرزمین سے دہشتگردوں نے پاک-افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام کررہی پاکستانی سکیورٹی فورسز کی ٹیموں پر بیسیوں حملے کیے جن میں 50 کے قریب پاکستانی فوجی اور سویلینز شہید و زخمی ہوگئے۔
2021۔۔۔۔
2021 میں امریکہ و نیٹو کے انخلاء کے بعد تالے بان نے افغان حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ جس کے بعد پاکستان نے درجنوں مرتبہ ہر دو ممالک کے درمیان اچھے اور دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے کوششیں کیں۔ لیکن اس نئی افغان حکومت نے ان تمام کوششوں کو ٹھکراتے ہوئے TTP کو اپنے ملک میں پناہ، ٹریننگ کیمپس اور پاکستان میں حملوں کے لیے لانچنگ پلیس فراہم کرنے کا کام جاری رکھا۔
2021 تا 2025
نئی افغان حکومت کے قیام سے اب تک افغان ہر فورم پر پاکستان کے خلاف ہر وہ کام کرنے میں سر تا پا ملوث ہے کہ جس سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکے۔ ان چار سالوں میں پاک افغان سرحد پر افغان فوج نے ان گنت مرتبہ پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ہر دو ممالک کے درمیان بے شمار سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔اسی دوران تباہ حال TTP اچانک سے دوبارہ طاقت پکڑنے لگی ہے اور ان چار برسوں میں ٹی ٹی پی پاکستان میں 1 ہزار سے زائد حملے کر چکی جن میں سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی سکیورٹی اہلکار اور عوام جاں بحق و زخمی ہو چکے ہیں۔ جس کے جواب میں پاکستان بھی ہر چند ماہ بعد افغانستان کے اندر قائم ٹی ٹی پی کے مراکز پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
2025 میں پاکستان نے انتہائی دو ٹوک الفاظ میں افغانستان کو خبردار کیا کہ " اسے پاکستان اور TTP میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔۔ لیکن افغانستان ابھی بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی سے منحرف ہونے کو تیار نہیں۔نتیجتاً پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلی مرتبہ افغانستان کو " ایک دشمن ملک " قرار دے دیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ہٹ دھرمی کے جواب میں پاکستان کیا لائحہ عمل اختیار کرتا ہے۔