اصلاح و دعوت
جماعت كی نماز اور نابينا
فہد حارث
پرسوں کزن کے ہاں رات کھانے پر فیملی کے ساتھ پہنچا تو عشاء کی جماعت کا وقت ہونے کو تھا۔ فیملی کو کزن کے ہاں اتار کر میں نیچے سے ہی عشاء پڑھنے چلا گیا۔ گاڑی پارکنگ میں لگا کر مسجد کے مین دروازے کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ دروازے پر ایک خاتون ایک نہایت ضعیف العمر نابینا بزرگ کے ساتھ کسی کے انتظار میں کھڑی ہیں۔ مجھے اندر جاتے دیکھا تو مخاطب ہوکر درخواست کی کہ بیٹا! کیا آپ ان (بزرگ) کو اپنے ساتھ ہاتھ پکڑ کر اندر مسجد میں باجماعت نماز کے لیے لے جاسکتے ہیں؟میں نے ہامی بھرتے ہوئے بزرگ کا ہاتھ تھاما اور نہایت آہستہ آہستہ ان کو لیکر اندر مسجد کی مرکزی عمارت کی طرف صحن سے گزرتے ہوئے جانے لگا۔ چلتے ہوئے بزرگ نے مجھ سے پوچھا کہ میرا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ پاکستان کراچی سے تو خوش ہوکر بتانے لگے کہ ہمارے بھی کئی رشتے دار بزنس روڈ کراچی میں رہتے ہیں جبکہ میں خود ممبئی انڈیا سے ہوں۔ وہ جیسے کراچی کے علاقوں کے نام لے رہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کراچی آتے جاتے رہے ہیں لیکن میں ان سے یہ پوچھنا بھول گیا۔خیر ان کو آرام سے سیڑھیاں چڑھا کر اندر ہال میں لے گیا اور دوسری صف کے آخر میں کرسی پر ان کو بٹھادیا۔ بٹھاتے ہوئے انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ بیٹا بعد از جماعت تم ہی مجھے باہر تک لے چلنا۔ میں نے حسنات ملنے کی امید میں بخوشی ہامی بھرلی۔ عشاء کی جماعت کے بعد میں پچھلی صف میں آکر بزرگ کے برابر میں ہی کھڑا ہوکر سنن و وتر ادا کرنے لگا۔ وہ بھی سنن و وتر کی ادائیگی میں مشغول تھے۔وتر سے فارغ ہوکر ان کے برابر ہی بیٹھ گیا جبکہ انہوں نے اسی وقت وتر شروع کی تھی۔ وہ زیرِ لب سِّری طور پر اس طرح نماز پڑھ رہے تھے کہ میں ان کی پوری نماز سن سکتا تھا۔ اس قدر بڑھاپے میں بھی نہایت صاف لہجے اور باقاعدہ مخارج و ترتیل کے ساتھ سورتیں اور دعائیں پڑھ رہے تھے۔ میں ان کو صاف سن سکتا تھا۔ ان کی آواز دھیمی لیکن بہت صاف تھی۔وہ بہت ہی خوبصورت طریقے سے پڑھ رہے تھے اور یوں اس تجربے نے مجھ پر ایک اور حدیث کا شرح صدر کیا کہ جب بھی میں اس طرح کی احادیث پڑھتا جس میں کوئی صحابی بیان کرتے کہ نبیﷺ نے ہمیں ظہر یا عصر کی باجماعت نماز میں فلاں سورت پڑھائی تو میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ سری نماز میں پڑھی سورت کی بابت صحابہ کو کیسے پتہ چلا کہ نبیﷺ نے کونسی سورت پڑھی ہوگی لیکن آج ان بزرگ کے برابر میں کھڑے ہوکر ان کی سری وتر کو سن کر شرح صدر ہوگیا کہ کیونکر صحابہ سری نمازوں میں پڑھی گئی سورتوں پر آگاہ ہوتے ہونگے۔وہ بزرگ قیام سے لیکر سجود تک اور دعائے قنوت سے لیکر قعدہ تک کچھ اس خوبصورت طریقے سے قرات و دعائیں پڑھ رہے تھے کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنی نماز لمبی کردیں اور میں ان کو اس ہلکی سی آواز میں نماز پڑھتاسنتا رہوں۔ اس قدر ضعیف العمری کے باوجود کس قدر صاف لہجہ تھا۔ واہ۔ مجھے وہ بہت اپنے اپنے سے لگے۔ دل پر ایک رقت سی طاری ہوگئی۔وتر کی تیسری رکعت میں بعد از رکوع جب انہوں نے دعائے قنوت پڑھنے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ان کے ہاتھوں میں کوئی لرزش و کپکپاہٹ نہ تھی جبکہ وہ نہایت کمزور تھے اور نہایت سست روی سے چل کر کافی وقت میں اندر مسجد تک پہنچ سکے تھے کہ ان کا جسم بڑھاپے کے سبب بہت کمزور ہوچکا تھا ۔ میں ان کی دعائے قنوت کے الفاظ گن سکتا تھا۔ تشہد میں جب انہوں نے سلام سے قبل اللھم انت ربی لا الہ الا انت خلقتنی کے جملے سے سید الاستغفار کی شروعات کی تو میں بھی ان کے ساتھ ساتھ اپنے دل میں سید الاستغفار پڑھنے لگا۔ ایک سکون تھا جو دل میں اتر رہا تھا۔
انہوں نے سلام پھیرا اور میں ان کو لیکر واپس آہستہ آہستہ مسجد سے باہر جانے کے راستے پر گامزن ہوگیا۔ دروازے پر ان کی اہلیہ ان کا انتظار کررہی تھیں۔ اپنی اہلیہ کو میرا تعارف کروایا اور بتلایا کہ میرے اجداد کا تعلق بھی الہ آباد ہندوستان سے ہے اور ابھی بھی میری پھوپھو وغیرہ وہاں رہتی ہیں۔ خیر ان بزرگ کو ان کی چپلیں لا کر دیں اور ان دونوں میاں بیوی سے پوچھا کہ ان کو گاڑی سے ان کے گھر چھوڑ آؤں تو انہوں نے کہا کہ نہیں وہ قریب ہی رہتے ہیں اور خود چلے جائینگے۔اور یوں میں ان کو چھوڑ کر اپنی گاڑی کی طرف چلا آیا لیکن کافی دیر تک گاڑی کے شیشے سے ان دونوں ضعیف العمر میاں بیوی کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے جاتے دیکھتا رہا۔ جانے کیوں مجھے وہ بہت اپنے اپنے لگے۔ دل پر ایک رقت سی طاری ہوگئی۔ دل چاہا کہ ان سے خوب باتیں کروں۔ کھنڈرات دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ عمارت کافی شاندار رہی ہوگی کہ اس عمر میں بھی ان بزرگ کے چہرے پر روشنی سے محروم آنکھوں کے باوجود وجاہت و جمال دیکھا جاسکتا تھا۔
جس بات نے مجھے سب سے زیادہ اور شدت سے متاثر کیا وہ میری یہ خود احتسابی تھی کہ ایک ۸۰، ۸۲ سالہ شخص دیارِ غیر میں نابینا ہونے کے باوجود اپنی بوڑھی بیوی کا ہاتھ پکڑ کا مسجد جماعت سے نماز پڑھنے آتا ہے جبکہ وہ اس قدر ناتواں ہے کہ کھڑے ہوکر نماز تک نہیں پڑھ سکتا۔ وہ نابینا ہونے کے سبب اس قدر مجبور ہے کہ مسجد کے دروازے پر اسے اور اسکی بیوی کو کسی "غیر" کا منتظر رہنا پڑتا ہے کہ وہ اسے ہاتھ پکڑ کر مسجد کے اندر تک لے جائے لیکن پھر بھی عبادت کی ایسی تڑپ، حسنات کی ایسی خواہش کہ اپنے جی سے عذر گھڑنے کے بجائے کہ میں بیمار و بوڑھا و نابینا گھر میں نماز پڑھ لوں ، وہ مسجد جاتا ہے۔ بڑی بات ہے بہت بڑی بات ہے اور ڈوب مرنے کا مقام ہے ہم جیسے ہٹے کٹے اور جوان لوگوں کے لیے جو مارے سستی گھر میں نماز پڑھنے کے "فقہی عذر" بطور بہانہ تراشنے میں اپنا علم اور عمل دونوں ضائع کرتے ہیں۔
جب ایک ۸۰، ۸۲ سالہ ضعیف العمر نابینا شخص باجماعت نماز پڑھنے مسجد آسکتا ہے کہ ہم جیسوں کو کوئی عذر تراشتے سے پہلے سو دفعہ سوچنا چاہیئے۔