خاكے
ضيا محی الدين
سرمد صہبائی
شہر یار راشد، ن م راشد کا بیٹا اور میرا قریبی دوست سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تاشقند میں پاکستان کا سفیر تھا۔ ایک دن مجھے اس کا خط ملا جس میں اس نے لکھا کہ ’گل بہار جو اردو میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے پہلی بار تاشقند سے پاکستان آرہی ہے۔ وہ کچھ ہفتے اسلام آباد رہے گی۔ میں نے اسے تمہارا فون اور پتہ دیا ہے۔ تمہیں اس کی میزبانی کرنا ہوگی۔‘
چند دنوں کے بعد گل بہار کا فون آ گیا۔ اسی دن دوپہر کے قریب دروازے پر گھنٹی ہوئی، دروازہ کھولا تو ایک خوب رو خاتون مشرقی تہذیب کی پوری آب و تاب کے ساتھ میرے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے پازیب، چوڑی دار پائجامہ اور پشواز پہن رکھی تھی، ہاتھوں پر مہندی اور بالوں میں موتیے کے پھول ٹانکے ہوئے تھے، کتابی چہرہ، ستواں ناک، نتھنے میں ہیرے کی کنی، غزالی آنکھیں اور بوٹا سا قد۔ لگتا تھا اردو شاعری کا سراپا میرے دروازے کی چوکھٹ میں فریم ہو گیا ہے۔ ادب آداب، ناز و انداز، نشست و برخاست اور لب و لہجے سے ایسا لگتا تھا جیسے میں لکھنو کی کسی ڈیرہ دار خانم یا رسوا کی امراؤ جان کو چلتے پھرتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ نہایت شائستہ لہجے میں روانی سے اردو بول رہی تھی۔ میں نے اس شام چند دوستوں کو کھانے پر بلا لیا، دیر تک خوب محفل ہوئی، گل بہار پرتکلف مگر شفاف شین قاف کے ساتھ اردو بولتی رہی۔ جب سب لوگ چلے گئے تو اس نے کہا ’سرمد صاحب آپ لوگوں کے پاس تو بہت خوبصورت الفاظ ہیں پھر آپ اپنی ریشم جیسی زبان میں فرنگی زبان کے ٹاٹ کا پیوند کیوں لگاتے ہیں، اب کیا دلکش لفظ ہے‘ خواب گاہ ’، مگر آپ اسے بیڈ روم کہتے ہیں، ایسے ہی غسل خانے اور حمام کو آپ باتھ روم کہتے ہیں۔ ‘ میں نے کہا بول چال کی زبان میں ایسے ہی چلتا ہے۔ لیکن وہ اس کے بارے میں بہت حساس نکلی، نہ خود کوئی انگریزی کا لفظ بولتی نہ مجھے بولنے دیتی، گلاس کو آب خورا کہتی، ڈرائینگ روم کو دیوان خانہ یا نشست گاہ اور گیسٹ روم کو مہمان خانہ۔ وہ روزانہ اسی طرح میری اردو صحیح کرتی رہتی۔ مجھے اس کی ’اردو بچاؤ‘ مہم سے شک گزرا کہ مقتدرہ کا ادارہ، جس کے فرائض میں متروک الفاظ جمع کرنا شامل ہے وہ شاید تاشقند میں بھی کھل چکا ہے۔ میں نے بھی اسے چھیڑنے کے لیے گولڈ لیف کو برگِ طلائی، کھانا کھانے کو شغلِ کام و دہن، ویکیوم کلینر کو برقی جھاڑو اور سکوٹر کو اسپ آہنی کہنا شروع کر دیا۔
’سرمد صاحب‘ ، ایک دن ان عفیفہ نے مجھ سے کہا ’وہ پالکیاں اور نواب کہاں ہیں؟ میں نے تو ان کے بارے میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے، آپ مجھے کسی نواب سے تو ملوائیے‘
’نواب‘؟‘ میں بے ساختہ ہنس پڑا اور کہا ’بھئی آپ نے جو اردو نصاب پڑھا ہے وہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا ہے، دینا بالکل بدل چکی ہے۔ اسلام آباد میں تو کوئی نواب نہیں رہتا، وہ تو صرف پردہ سیمیں پر یا پھر داستانوں یعنی ناولوں میں نظر آتا ہے‘ ۔ میرے لاکھ سمجھانے پر بھی گل بہار روز مجھ سے یہی ضد کرتی۔اتفاق سے ایک دن ضیا محی الدین صاحب کا فون آیا کہ وہ اسلام آباد آئے ہوئے ہیں اور انٹر کان میں ٹھہرے ہوئے ہیں، میں نے فوراً کہا ’میں اور میری ایک دوست آپ سے کل ملنے آ رہے ہیں۔ ‘ دوسرے دن میں گل بہار کو لے کر ہوٹل پہنچ گیا، ضیا صاحب سوٹ اور ٹائی میں، ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ میں نے گل بہار کا تعارف کروایا اور اس کے اردو زبان سے والہانہ عشق کا ذکر کیا۔ تھوڑی دیر بعد اتفاق سے میرے اور ضیا صاحب کے درمیان غالب پر گفتگو شروع ہو گئی، گل بہار کافی دیر تک ضیا صاحب کی گفتگو بڑے انہماک سے سنتی رہی اور اگرچہ ضیا صاحب نے نہ تو کوئی کج کلاہ پہن رکھتی تھی اور نہ کوئی انگرکھا لیکن گل بہار یک دم خوشی سے اُچھل پڑی اور بے اختیار ہو کر بولی، ’سرمد صاحب یہی تو وہ نواب ہیں جن کا میں ذکر کر رہی تھی۔ یہ پہلے شخص ہیں جو نوابی اردو بولتے ہیں۔‘
ضیا صاحب اگرچہ فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے لیکن وہ یا تو کنگز انگلش یعنی شاہی انگریزی اور یا پھر نوابی اردو میں بات کرتے تھے، انگریزی بولتے تو اردو یا پنجابی لفظ سے اسے آلودہ نہ کرتے اور اردو بولتے تو ہرگز انگریزی کا کوئی لفظ استعمال نہ کرتے۔ گل بہار سے ملاقات کے دوران بھی انہوں نے کھانے کو طعام کہا اور مائیکرو فون کو آلہ مکبرالصوت۔
میں نے ضیا صاحب کو پہلی بار 1967 میں گورنمنٹ کالج کی ایک تقریب میں دیکھا تھا۔ میں اس وقت ایم اے انگریزی کا طالب علم تھا۔ ضیا صاحب شیکسپیئر پر کوئی لیکچر دے رہے تھے۔ لیکچر کی تو ہمیں کوئی خاص سمجھ نہ آئی لیکن ہم ان کے ایکسنٹ یعنی لہجے پر خاصے حیران ہوئے۔ اس لیے کہ ایسا لہجہ ہم نے کبھی اپنے کسی پروفیسر سے نہیں سنا تھا، حتیٰ کہ شروع میں ایک انگریز بھی ہمیں پڑھاتا تھا لیکن اس اصل انگریز کا لہجہ بھی ویسا نہیں تھاْ۔ضیا صاحب سے میری دوسری ملاقات اپنے بہنوئی توفیق رفعت کے گھر میں ہوئی۔ ضیا صاحب توفیق صاحب کے پرانے دوستوں میں سے تھے اور وہ اس دن توفیق صاحب سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ اس ملاقات میں میری ان سے کافی گپ شپ رہی۔ ان کا مزاج اور اٹھنا بیٹھنا بڑا شاہانہ اور بورژوازی قسم کا تھا۔ وہ ہائی آرٹ کے دلدادہ تھے جو خاص طور پر اس زمانے کی ایلیٹ میں ایک فیشن بھی تھا۔ ہائی آرٹ یعنی ارفع اور اعلی، ایک مہذب آرٹ جو ہر قسم کے غیر مہذب یا low art سے برتر سمجھا جاتا ہے۔ مجھے ضیا صاحب کی ہر بات اور ہر ادا میں یہ فرق بہت واضح اور نمایاں نظر آیا۔ مجھے پرتکلف زبان اور رسمی رکھ رکھاؤ سے الجھن ہوتی ہے، ایک خوامخواہ کا دباؤ اور تصنع جو لوگوں کو انسانی سطح پر آپس میں ملنے نہیں دیتا۔ میں ان دنوں اچھا خاصا مارکسسٹ بھی تھا اس لیے مجھے ان کی کسی چیز نے متاثر نہ کیا، صرف اتنا گمان ہوا کہ وہ انگریز کے جانے کے بعد اس پڑھی لکھی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جسے عام طور پر براؤن صاحب کہا جاتا ہے۔ براؤن صاحب انگریزی تہذیب کو برتر سمجھتے ہوئے اسے رشک بھری نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی تقلید کرتا ہے۔ اسے ممک مین MIMIC MAN بھی کہتے ہیں۔
ہمارا دوست خالد عباس ڈار اسے کُبا کلچر کہتا تھا۔ کُبا یعنی بندہ اپنے فطری اظہار کی بجائے کسی احساس برتری کی اکڑ میں ٹیڑھا ہوجاتا ہے، یعنی وہ اپنا کوئی پوسچر بنا لیتا ہے اور ہر بات کا اظہار اسی پوسچر میں کرتا ہے۔ضیا صاحب کا زمانہ براؤن صاحبوں کا زمانہ تھا اور ہمارے ملک میں براؤن صاحب کو سب سے زیادہ پڑھا لکھا، معتبر، ماڈرن مہذب اور اعلی سمجھا جاتا تھا۔تقلید یا تو اصل سے زیادہ یعنی مبالغہ زدہ ہوتی ہے یا اصل سے کم، دونوں صورتوں میں ہوبہو تقلید ناممکن ہے، اس کے لیے اصل ہونا پڑتا ہے یعنی انگریز کے لہجے کے لیے اصل انگریز اور اہل زبان کے لہجے کے لیے اصل اہل زبان۔ لیکن اکثر بڑے فنکار اپنی شوخیٔ ایجاد سے تقلید کو تخلیق میں بدل دیتے ہیں۔ ضیا صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تقلید کو اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے ایک فن میں بدل دیا۔ اردو ایسی بولی کہ اہلِ زبان کی فصاحت کو مات کر دیا، اور انگریزی کا لہجہ ایسا بنایا کہ انگریز اپنی مادری زبان بھول گیا۔
آرٹ کی ایک تعریف بناوٹ بھی ہے یعنی آرٹیفشل، اور ضیا صاحب بناوٹ کا شاہکار تھے۔ انہوں نے ساری عمر اپنے لہجے کی بناوٹ، شخصیت کی بناوٹ، تلفظ کی بناوٹ اور چہرے کے تاثرات کی بناوٹ پر کام کیا، نپی تلی چال ڈھال، سر کا ایک ایک بال اپنی جگہ جما ہوا، ہر قدم جچا تلا، ہر جملہ نپا تلا ہوا، انہوں نے اپنے لیے ایک آدرشی شخصیت تشکیل کی تھی، اپنی ہی صورت پر ایک بت تراشا تھا جس کی مٹی نوآبادیاتی انگریزی تہذیب اور اردو تہذیب کی اشرافیہ سے گوندھی گئی تھی، وہ ان دونوں تہذیبوں کے ہائی آرٹ کے نمائندہ تھے۔ بناوٹ کے فن میں ہیئت پر بہت زور ہوتا ہے۔ ہیئت پسند یا فارملسٹ ہیئت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ضیا صاحب بھی الفاظ کی ہیئت اور زبان کی صفائی پر زور دیتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ایک خیال یہ بھی ہے کہ بیان کی ہیئت جذبات کے اتار چڑھاؤ سے متعین ہوتی ہے اور کسی بھی مکالمے کی صوتی شکل احساسات کے مدوجزر سے جنم لیتی ہے۔ اگر ہیئت نمایاں ہو جائے تو تخلیقی واردات کے باطنی اسرار یا تو مدھم پڑ جاتے ہیں یا التوا میں چلے جاتے ہیں، جیسے گویے کی روح داری اور لگاؤ کے بغیر تان پلٹوں کی تیاری ہمیں وقتی طور پر چونکاتی تو ہے مگر دیرپا اثر نہیں رکھتی۔ ایسی صورت میں ’ہیئت‘ ہینگر پر لٹکا ہوا ایک استری شدہ سوٹ ہے جس میں سے بندہ غائب ہوتا ہے۔
میری ان دو ملاقاتوں کے کافی عرصہ بعد جب ’ضیا محی الدین شو‘ لاہور سے شروع کیا گیا تو مجھے ضیا صاحب کے ساتھ کام کرنے اور ان کو کام کرتے ہوئے دیکھنے کا بڑے قریب سے موقع ملا۔ ضیا صاحب کی ٹریننگ انگلستان میں ہوئی تھی اس لیے وہ اپنے کام میں بہت پروفیشنل تھے، شو کے لیے پانچ چھ ادیبوں شاعروں کی ٹیم بنائی گئی تھی جو ان کے لیے سکرپٹ لکھتے تھے۔ یورپ امریکا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے جہاں بہت سے رائٹر ایک ہی شو کے لیے لکھتے ہیں لیکن سکرین پر ان کے نام نہیں آتے اس لیے کہ شو کسی مشہور آدمی کے نام ہوتا ہے۔ ضیا صاحب کوئی بھی لفظ بغیر ریہرسل کے نہ بولتے اور نہ کسی اور کو اس کی اجازت دیتے۔ پورے شو کا سکرپٹ زبانی یاد کرتے اور ایک ایک جملے کی ادائیگی پر بہت محنت کرتے۔ شو مین شپ، پرفارمنس، شائستہ طنز و مزاح اور تفریح کا بھی انہیں گہرا شعور تھا۔ میں ان کے پروفیشنل رویے سے خاصا متاثر ہوا۔
ان پروگراموں کے دوران میری ان سے اکثر ملاقات رہتی۔ وہ عمر میں مجھ سے خاصے بڑے تھے اس لیے میں ان کا بہت احترام کرتا تھا لیکن میری ان سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ ہوتی رہتی تھی۔ایک دن میرے گھر آئے اور کہنے لگے یہ سنو، انہوں نے ایک کیسٹ لگائی جس میں وہ کسی قدیم زمانے کی کوئی تحریر پڑھ رہے تھے، مجھ سے پوچھا تو میں نے ان سے ازراہ مذاق کہا، ’ضیا صاحب اس سے تو مجھے پرانے لحافوں کی بساند آتی ہے۔ ‘ اس پر ان کے چہرے پر ایک خفگی سی آئی لیکن ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں نے یک دم کہا،
’ضیا صاحب آپ لاہور کراچی میں مختلف لوگوں کی تحریریں پڑھتے ہیں کبھی منٹو کو بھی پڑھیں، کہنے لگے‘ ارے بھئی نہ زبان نہ محاورہ، نہ ادب نہ شائستگی، نہ کوئی تہذیب، ’میں نے کہا، ‘ کمال ہے ضیا صاحب آپ کا زبان کے بارے میں بہت فرسودہ نظریہ ہے، منٹو نے تو نئی زبان ایجاد کی ہے، ”اس کے ہونٹ سرخ بوٹی ہو رہے تھے، اس نے واہیات کپڑے پہن رکھے تھے دھڑن تختہ، انٹی فلیش، اپڑ دی گڑ گڑ،“ آپ کو اور کیا چاہیے؟ ’
ایک دن عوام کے بگڑے ہوئے تلفظ اور ذرائع ابلاغ پر اردو زبان کی عصمت دری کا ماتم کر رہے تھے۔ میں نے ان کے سامنے ظفر اقبال کی کتاب ’گلافتاب‘ رکھ دی جس میں ظفر صاحب نے شعوری طور پر اردو کے لفظوں کا تلفظ اور نحوی چلن الٹ پلٹ دیا تھا۔ ’ذرا اس کو دیکھیے شاید زبان کے بارے میں آپ کا رویہ بدل جائے۔ ‘ میں نے شرارتاً کہا، انہوں نے ایک نظر کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور لاحول پڑھ کر اسے ایسے واپس رکھ دیا جیسے کسی پاکباز نے کسی نجس چیز کو چھو لیا ہو۔ کچھ عرصہ بعد غالباً مجھ سے جان چھڑانے کے لیے انہوں نے کراچی میں ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ پڑھا اور مجھے فون کر کے کہا، ’بھئی ہم نے منٹو کو پڑھ دیا ہے‘ ۔
ستر کی دہائی میں میرے چار پانچ ڈرامے سٹیج ہوچکے تھے، فیض صاحب جو اس وقت نیشنل آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر تھے انہوں نے کہا کہ میں چودہ اگست کے موقع پر اپنا کوئی سٹیج ڈرامہ انہیں دوں۔ میں نے انہیں ’سنو گپ شپ‘ کے نام سے ایک ڈرامہ دیا جو ایک میوزیکل بلیک کامیڈی تھی۔ وہ ڈرامہ فرخ نگار عزیز کو پروڈیوس کرنے کو دیا گیا تھا اور ضیا صاحب اس کو ڈائریکٹ کر رہے تھے۔ ڈرامے کے سلسلے میں ایک میٹنگ بلائی گئی جس میں ضیا صاحب کے علاوہ فرید احمد، فرخ نگار عزیز، صفدر میر، شعیب ہاشمی، سلیمہ ہاشمی، فیض صاحب اور چند اور لوگ شامل تھے۔ ضیا صاحب چونکہ ایک پروفیشنل آدمی تھے وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے ہوئے تھے، انہوں نے ڈرامے کے ایک ایک سین کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور اس کے ساتھ بجٹ بھی پیش کیا جو بہت زیادہ تھا۔ ڈرامہ ایک میوزیکل فارس تھا اور اس کے سیٹس اور پراپس بہت سادہ اور غیرحقیقی تھے۔ ضیا صاحب نے کہا کہ انہیں ڈرامے میں کچھ پراپس بالکل اصلی چاہییں جیسے ایک سین میں ہیرو کی سالگرہ کا بہت بڑا کیک دکھایا جاتا ہے جسے سین کے آخر میں نوجوان لڑکے لڑکیاں توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ چودہ اگست کے حوالے سے یہ سین بہت اہم تھا۔ میں نے ڈرامے میں اصلی کیک کی بجانے کاغذی کارڈ بورڈ کا کیک رکھا تھا جس کا علامتی اشارہ یہ تھا کہ یہ کیک جعلی ہے، اصلی نہیں۔ ضیا صاحب نہ جانے کیوں اصلی کیک پر مصر تھے۔ شاید وہ جو تاثر دینا چاہتے تھے وہ انہیں اصلی کیک سے ہی مل سکتا تھا لیکن ہر روز ایک نیا کیک اور اس کا ٹوٹنا پھوٹنا بجٹ اور سٹیج کی مینجمنٹ سے باہر تھا، اس زمانے میں کوئی روالونگ سٹیج بھی نہیں تھا کہ پہلا سین دوسرے سین میں آسانی سے بدل سکے۔ چنانچہ جب اصلی کیک پر ان کی ضد کچھ زیادہ بڑھی تو شعیب صاحب نے کہا، ’یہ ڈرامہ ایک فارس ہے اور اس میں اصلی کیک کا ہونا ضروری نہیں، اگر روزانہ ایک بہت بڑا اصلی کیک استعمال ہو گا تو اتنا ہی بجٹ بڑھے گا۔ ویسے بھی تھیٹر حقیقی زندگی نہیں‘۔اس بات پر ضیا صاحب اور شعیب صاحب کے درمیان بحث شروع ہو گئی جو تلخ کلامی تک پہنچ گئی۔ شعیب صاحب نے کہا، ’تم ایکٹر ہو ایکٹنگ شیکٹنگ کیا کرو،‘ اس پر ضیا صاحب کو خاصا غصہ آیا اور انہوں نے سختی سے کہا، ’یہ ڈرامہ میں ڈائریکٹ کر رہا ہوں اور جیسے میں کرنا چاہتا ہوں اس میں کسی کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ‘ اس پر شعیب صاحب نے پنجابی میں کہا، ’’ لے تے بڈھے دا رول کرن واسطے میں اپنے دند کڈالواں؟ سٹیج از این الوژن۔ بندے نے سٹیج تے مرنا ہووے تے سچی مچی گولی مار لے۔ کمال اے، اصلی کیک دی کوئی تُک نہیں۔ شاہ جی تہانوں ڈرامے دے بارے کچھ پتہ نیں تسی گھر جا کے سوں جاؤ تھیٹر از ناٹ رییل لایف‘ ’ (لو تو میں بوڑھے کا رول کرنے کے لیے اپنے دانت نکلوا دوں؟ بندے نے سٹیج پر مرنا ہو تو سچ مچ اپنے اپ کو گولی مار لے؟ اصلی کیک کا کوئی جواز نہیں۔ شاہ جی ٓاپ کو ڈرامے کا کچھ پتہ نہیں۔ آپ گھر جاکر سو جائیں۔ تھیٹر حقیقی زندگی نہیں۔) ضیا صاحب غصے میں اٹھے اور میٹنگ سے واک آوٹ کر گئے، جاتے ہوئے مجھے کان میں کہا، ’سوری سرمد میں ایسی محفل میں نہیں بیٹھ سکتا‘۔ اس وقت تو مجھے بہت افسوس ہوا لیکن بعد میں جب ان کی ہدایات میں چند ڈرامے دیکھے تو مجھے شعیب ہاشمی کی بات میں کافی وزن نظر آیا۔
وہ ڈرامہ پھر کبھی سٹیج نہ ہوسکا۔ شعیب صاحب نے کہا وہ اس کو ڈائریکٹ کریں گے لیکن انہوں نے سٹیج کی بجائے ٹی وی پر ’سچ گپ‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا جس میں ’سنو گپ شپ‘ کے کچھ موتیف اور گانے استعمال کیے۔ محمد ادریس نے پاکستان ٹائمز میں اس پر The blackest comedy کے نام سے ایک کالم بھی لکھا۔
ضیا صاحب کو کھانے پینے کے آداب سے بھی بہت دلچسپی تھی۔ ایک دن میرے گھر کھانے کی میز پر انہوں نے دال دیکھ کر پہلے تو دال کا قصیدہ کہا، پھر اس کی تیاری کے اسرار و رموز کی پرمغز اور با تفصیل پردہ کشائی کی، ’بھئی دال کو یوں بگھاریے، پیاز یوں کاٹیے، لہسن کو یوں کوٹیے، تڑکا تیز آ نچ پر لگانا چاہیے، چپاتی کو ہاتھ سے خوب چھانٹ کر توے پر ڈالنا چاہیے، پھولنا ضروری ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ دال کی ایسی مرصع مدح سرائی پر میرے منہ سے بے اختیار نکلا، ’ضیا صاحب لگتا ہے وجۂ شہرت غلط ہو گئی ہے‘
ناروے کے پاکستانی میلے میں بہت سے موسیقار، گانے والے اور دوسرے فنکار بلائے گئے تھے، ان میں ضیا صاحب بھی تھے جنہوں نے اقبال کے ابلیس نامے کی پڑھنت کرنا تھی جو انگریزی میں تھی۔ ہم سب ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، اکثر ہم ایک دوسرے کو کھانے پر مل جاتے تھے یا پھر بار میں، لیکن ضیا صاحب اپنے کمرے میں بند رہتے تھے، ایک دن ہم بار میں بیٹھے تھے کہ عثمان پیر نے کہا یار ضیا صاحب ہمارے ساتھ نہیں بیٹھتے، میں نے کہا بھئی ان کا اپنا سٹائل ہے وہ اپنے آپ کو باقیوں سے الگ رکھتے ہیں، اس نے کہا میں ان سے کہتا ہوں کہ ہم صرف دو آدمی ہیں، باقی لوگ جا چکے ہیں اور ان کو لے کر آتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ ضیا صاحب کو لے کر آ گیا-ضیا صاحب نے ایک خاص مشروب کی فرمائش کی، اس مشروب کی ایک بوتل حاضر کردی گئی۔ اب کہا، ’سوڈا منگوائیے‘ ، سوڈے کا ایک کریٹ حاضر کر دیا گیا۔ ضیا صاحب نے بڑے اہتمام سے اپنے گلاس میں خاص مشروب کے چند قطرے انڈیلے اور باقی گلاس سوڈے سے بھر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے بادہ نوشی کے آداب پر ایک پوری کتاب کھول دی۔ ہم وہاں کافی دیر تک بیٹھے رہے جہاں مشروب کی بوتل تو دھری کی دھری رہ گئی لیکن سوڈے کا آدھا کریٹ ختم ہو گیا۔ ضیا صاحب بادہ نوشی کے آداب سے تو تکلیف دہ حد تک باخبر تھے لیکن بے خودی سے ان کی کوئی آشنائی نہیں تھی، ان کا شغل ِمینا و جام بہت محتاط اور واجبی تھا۔
دراصل وہ ہر وقت چوکس رہتے تھے، ریلیکس ہونا شاید ان کے بس میں نہیں تھا۔ ان کی تمام حرکات و سکنات ایک ریہرسیڈ تردد تھا۔ ایک دن اپنی اس بے چینی کا ذکر کر رہے تھے، میں نے کہا ضیا صاحب کبھی بلھے شاہ اور شاہ حسین کو پڑھ لیا کریں۔ ریلیکس ہو جائیں گے ’کہنے لگے، ’اوہو بھئی وہ تو مجھ پر کوئی اثر نہیں کرتے‘۔ میں نے کہا ’ضیا صاحب آپ نے جو ہائی آرٹ کی زرہ بکتر پہن رکھی ہے وہ اتاریں تو شاید آپ پر کوئی اور چیز اثر کرے۔ ’مجھے ان کی تنگ ظرفی پر حیرت ہوئی اور رنج بھی ہوا۔ لیکن پھر مجھے ناہید صدیقی یاد آئی جس کا کہنا تھا‘ ضیا وچ کوئی وی پنجابیاں والی گل نہیں۔‘ (ضیا میں پنجابیوں والی کوئی بات نہیں۔)ایک دن اسلام آباد میں ضیا صاحب میرے گھر تشریف لائے تو میرے ساتھ میرا بہت قریبی دوست اور کالج کا ہم جماعت جاوید بھی بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی گپ شپ اور ناؤ نوش کے بعد میں نے ضیا صاحب سے کہا، ’آپ لاہور اور کراچی اپنی پڑھنت کے پروگرام کرتے ہیں، کبھی اسلام آباد میں بھی کریں‘ ۔ اس پر ضیا صاحب نے بلا لحاظ بھاؤ تاؤ کرنے والے کسی بزنس مین کی طرح مجھے بڑی رعونت سے کہا،’بھیٔ آپ کے پاس روکڑا کتنا ہے؟‘ میں یہ سن کر بالکل خاموش ہو گیا۔ جاوید کی طرف دیکھا تو محسوس ہوا اسے یہ بات بہت ناگوار گزری ہے۔ ہمارے کلچر میں شاید اس طرح کی بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے جب تک کہ دوسرا بھی کوئی بزنس مین نہ ہو۔ جاوید نے، جو کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اور ایک اونچے عہدے پر فائز تھا، بغیر اپنی ناگواری ظاہر کیے غیرمتوقع طور کہا ’سر آپ کو کتنا روکڑا چاہیے؟‘میں نے جاوید کی طرف دیکھا، اس نے مجھے نظر انداز کرتے ہوئے اپنا موبائل اون کر دیا۔’بھئی یہی کوئی اڑھائی تین سو پاونڈ‘ ضیا صاحب نے اسی موڈ میں کہا-’پاکستانی کرنسی میں یا پاؤنڈز میں؟ یہ کیا، جاوید کہیں ضیا صاحب سے مذاق تو نہیں کر رہا، میں نے دل میں سوچا، لیکن وہ اپنے موبائل پر ہر چیز نوٹ کر رہا تھا۔
’بھئی کسی کرنسی میں بھی ہو جائے‘۔ ضیا صاحب نے خوش ہوتے ہوئے کہا
’بینک اکاؤنٹ بتائیے؟کون سی ڈیٹ آپ کو سوٹ کرے گی؟اس مہینے کے آخری ہفتے
’کوئی ہال آپ کے ذہن میں ہے‘۔’امریکن سنٹر۔ ‘’ڈن، کل آپ کے بینک میں تین سو پاؤنڈ پہنچ جائیں گے۔ ‘ جاوید نے بھی کسی بزنس مین کی طرح ڈیل کلوز کرتے ہوئے کہا۔
جب ضیا صاحب چلے گئے تو میں نے جاوید سے کہا،تمہیں ان سے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی، وہ تو مجھ سے بات کر رہے تھے۔ اس نے کہا ’یار تمہارے پاس کون سا روکڑا ہے I find it very insulting۔ میں اپنے دوست کی ہتک نہیں برداشت کر سکتا۔ میں حیران ہوں کہ انہوں نے تم سے ایسی بات کیوں کی، کیا لاہور اور کراچی میں تم ان کے پروگرام کرواتے ہو، ‘ میں نے کہا وہ پروفیشنل آرٹسٹ ہیں، وہ ایسا سوال تو سبھی سے کرتے ہوں گے ’۔’ چلو اگر وہ پروفیشنل آرٹسٹ ہیں تو ہم بھی پروفیشنل پروڈیوسر ہیں۔ ‘ جاوید نے ہنس کر کہا۔ضیا صاحب کو بزنس کلاس میں کراچی سے اسلام آباد بلوایا گیا۔ گاڑی ان کو ہوٹل میں لے گئی۔ شام کو گاڑی ان کو امریکن سنٹر کے ہال لے کر آئی۔ ضیا صاحب نے اپنی بیک سٹیج تیاری کے بعد جب پردے کے پیچھے سے ہال میں جھانک کر دیکھا تو تین سو سیٹوں کے ہال میں صرف پندرہ بندے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اور جاوید ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے گھبرا کر جاوید سے پوچھا، ’یہ کیا؟ بس اتنے لوگ؟ میں ان پندرہ آدمیوں کے لیے تو پرفارم نہیں کر سکتا،‘ جاوید نے مودبانہ انداز میں کہا، ’سر کیا آپ کو آپ کا روکڑا مل چکا ہے؟ ‘’جی ہاں، تھینک یو‘’ دراصل میں نے صرف اپنے ذاتی دوستوں کو بلایا ہے۔ پلیز انٹرٹین دھم۔ please entertain them۔ ‘
اس شام ضیا صاحب نے اپنی زندگی میں مختصر ترین سامعین کے لیے پورے ڈیڑھ گھنٹے تک پرفارم کیا۔
اہل زبان لفظوں کی نوک پلک، روانی اور مناسبتِ لفظی کا فطری طور پر بہت خیال کرتے ہیں۔ انور مقصود ایک بار ٹی وی پر فیض صاحب کا شعر یوں پڑھ گئے۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے چلے گئے-فیض صاحب کا مصرع ہے، ’جو چلے تو جاں سے گزر گئے‘۔ انور صاحب کی اصلاح زبان کے لحاظ سے رواں دواں ہے اور مصرع زبان کا چسکا اور محاورے کی سی کیفیت پیدا کرتا ہے، انور صاحب سے یہ اصلاح مصرع کو چست کرنے کی خواہش میں سرزد ہوئی ۔ لیکن انہیں جاں سے چلے جانے اور جاں سے گزر جانے کا فرق دکھائی نہ دیا۔ فیض صاحب اگرچہ اہل زبان نہیں لیکن شاعر ہیں اور یہاں شاعر اپنی کیفیت اور جذباتی واردات کو زبان کے روایتی شکوہ پر یا مصرع کی چستی پر قربان نہیں کرنا چاہتا۔ شاعر کو معلوم ہے کہ اس کا تخلیقی وفور مناسبت لفظی اور مصرعے کی چستی کی چکا چوند میں ماند پڑ جائے گا۔
فرائیڈ کے مطابق لاشعور میں دبی ہوئی خواہشیں اور ارادے ہماری شعوری طور پر تشکیل کردہ حقیقت یا ذات میں رخنے ڈالتی ہیں۔ غیرارادی غلطی لاشعور میں دبی ہوئی خواہش کے باہر آنے پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس بھول چوک کو ’فرائیڈین سلپ‘ کہا جاتا ہے۔ ضیا صاحب سے بھی مکمل تیاری کے باوجود کچھ غلطیاں سرزد ہوجاتی تھیں-ایک دن فیض صاحب کے گھر ہم ضیا محی الدین شو دیکھ رہے تھے، اس شو میں ضیا صاحب نے فیض صاحب کی نظم ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ پڑھنا تھی۔ وہ اس نظم کو پڑھتے ہوئے ایک مصرع یوں پڑھ گئے۔’تیرے ہونٹوں کی لالی ٹپکتی رہی،‘ اصل مصرع تھا، ’تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی۔‘ یہاں ضیا صاحب نے لالی کو ایک گاڑھے سرخ رنگ کے طور پر دیکھا ہے جو لپکتا نہیں ٹپکتا ہے، لالی ایک گلو یعنی چمک ہے اور جیسے بجلی لپکتی ہے یا جیسے کوئی شعلہ لپکتا ہے ایسے ہی ہونٹوں کی لالی لپک رہی ہے۔ ضیا صاحب اہل زبان نہیں اور نہ شاعر ہیں، ان کے لاشعور میں شاید لالی کا لپکنا نہیں آ سکتا تھا۔
کہتے ہیں ضیا صاحب غلط تلفظ پر کھانا چھوڑ کر چلے جاتے تھے مگر ذرا یہ سنیے ’اب تک فیتے کا صرف پہلا پہلو سنا ہے، کبھی تمہاری آہ میں شریک ہوا اور کبھی وہ آہ بھری جو صرف اپنی تھی۔ دو چار مقام ایسے آئے کہ تسلسل میں خلل محسوس ہوا۔ شک ہوا کہ جو ایڈیشن آپ کے سامنے ہے اس میں کاتب سے کچھ سہو ہوا ہے، خیر۔ اس فیتے کے سننے والے سب کے سب منشی فاضل نہ ہوں گے اس لیے تلفظ کی صراحت کا التزام ان خطوط کی قرات میں رکھنا ہی پڑے گا، اس لیے فیتے کو الٹے پاؤں چلا کر دو تین بار سننے پڑے، تب سمجھ میں آئے۔لو اب اپنا فیتہ چلاؤ اپنی آواز سنتے جاؤ کہ کہاں تمہارے نمبر کٹے، کہاں کہاں چالان ہوا، (حسن میاں تالی بجاؤ اب کے ابا میاں کے نمبر کٹے) لفظ وَزَن نہیں، صحیح تلفظ وزن ہے، ہر چند کہ اس تلفظ میں بھی خفیف سی زبر ہے لیکن یہ زبر ذرا دبی دبی ہی رہے تو بہتر ہے ’(داود رہبر بہ نام ضیا محی الدین۔ بوسٹن 19 نومبر۔ 1989 بہ شکریہ ڈاکٹر خورشید عبداللہ)ظاہر ہے ضیا صاحب نے لفظ ’وزن‘ کی ز پر زبر ڈال کر پڑھا ہو گا۔
حسن ضیا صاحب کے بیٹے کا نام ہے۔ داؤد رہبر اشارتاً یہ کہہ رہے ہیں کہ اس بات کا تو بچے کو بھی پتہ ہے۔ ضیا صاحب نے اپنے گرو کی نصیحت پلے باندھ لی اور ساری عمر لفظ وزن کو بغیر زبر کے پڑھنے کی سعی میں گزار دی۔ اگر دیکھا جانے تو وزن کو پنجابی زبر کے ساتھ ہی بولتے ہیں۔ فرائیڈ کی سلپ غلط نہیں ہے-
’سرمد صاحب یہ مکالمے نستعلیق نہیں ہوسکتے۔‘ضیا صاحب کراچی میں صبح صبح میرے فلیٹ میں تشریف لائے ، ان کے ہاتھ میں جمیل دہلوی کا فلم سکرپٹ The immaculate conceptionتھا جس میں ضیا صاحب کی کاسٹنگ سے پہلے ان کے کردار کے مکالمے میں نے جمیل کے ساتھ مل کر اردو میں لکھے تھے۔ جمیل ساری عمر ملک سے باہر رہا تھا اسے پاکستانی کلچر کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، وہ نہ تو اردو جانتا تھا نہ پنجابی اس کے لیے وہ سکرپٹ کے معاملے میں صرف میری رائے پر یقین کرتا تھا۔ ضیا صاحب اس فلم میں خواجہ سرا کا کردار ادا کر رہے تھے جو ملتان کے ایک مزار کا گدی نشین تھا۔ میرے لکھے ہوئے مکالموں میں ’چراند‘ ’ہواڑ‘ اور ’مشکی‘ کے الفاظ استعمال ہوئے تھے جو ضیا صاحب کی طبع نازک پر گراں گزر رہے تھے۔ نستعلیق گوئی کا مطلب ”تکلف اور مخارج کی ادائی کے ساتھ گفتگو کرنا، کتابی عبارت میں گفتگو کرنا ہے، میں نے ان سے کہا کہ یہ فلم کا مکالمہ ہے کوئی ادبی کتاب نہیں۔ میں نے تو آپ کے کردار کی مناسبت سے مکالموں میں پنجابی اور سرائیکی زبان کی مٹھاس شامل کی ہے۔ لیکن آپ جمیل سے بات کر لیں اگر وہ مجھے نستعلیق لکھنے کو کہے گا تو میں ضرور لکھ دوں گا۔ ضیا صاحب نے جمیل کو فون کیا، اس نے کہا جو سرمد نے لکھا ہے وہی بولنا ہو گا، اب انہوں نے کہا، ’مجھے اس کی ٹون یعنی لہجہ بتائیے ‘میں نے کہا ’ضیا صاحب میں کون ہوتا ہوں آپ کو ٹون بتانے والا، وہ تو جمیل ہی بتائے گا‘ انہوں نے کہا جمیل کہتا ہے ٹون بھی سرمد سے پوچھو۔ میں نے اس زمانے کی ایک نامور مغنیہ کا نام لیا اور ان سے پوچھا آپ نے کبھی ان کو باتیں کرتے سنا ہے؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ اس گائیکا کی آواز خاصی بھاری تھی، اگر ان کا چہرہ نہ دکھایا جائے تو ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ عورت ہے کہ مرد۔ لیکن لہجے کی گھلاوٹ میں ایک ایسی لٹک ہے جو ایک لطیف جنسی تلذذ پیدا کرتی ہے اور یہ سب کسی نستعلیق پڑھنت لکھت میں نہیں آ سکتا۔ضیا صاحب نے تھینک یو کا نعرہ لگایا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئے۔ضیا صاحب نے پاکستانی کمرشل فلموں میں بھی کام کیا لیکن وہ بطور اداکار بری طرح ناکام ہو گئے، کچھ سٹیج ڈراموں میں ہدایت کاری اور اداکاری کی لیکن اس میں بھی وہ کوئی زبردست کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ امیتابھ بچن کے کروڑ پتی کے سامنے ایک غریب آدمی کا کروڑ پتی بھی نہ ٹھہر سکا۔
ضیا صاحب زندگی میں جو بھی کرتے وہ ضیا محی الدین ہی رہتے، وہ اپنی عام گفتگو میں بھی ضیا ہی رہتے۔ اداکاری اور ضیا صاحب میں ایک ناقابل عبور فاصلہ تھا۔ اداکار کا کوئی جامد یا مستحکم تشخص نہیں ہوتا، اگر ہو تو وہ کردار اور اداکار کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اپنے تشکیل کردہ تشخص کے علاوہ کسی اور تشخص میں ڈھلنے نہیں دیتا، جبکہ اداکار اپنے تخلیقی بہاؤ میں آزادہ رو ہوتا ہے اور مختلف کرداروں میں ڈھل سکتا ہے۔ اگر مکالموں کے تحرک کے ساتھ جسم میں کوئی تحرک پیدا نہ ہو تو وہ ریڈیو کی آواز رہتی ہے۔ جسم اور آواز کی مغائرت میں فلم یا تھیٹر کی اداکاری ممکن نہیں۔ پڑھنت میں دھڑ سے اوپر کا جسم استعمال ہوتا ہے اور لفظ کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے، ریڈیو میں آواز ہی سب کچھ ہوتی ہے، جسم نہیں ہوتا لیکن تھیٹر اور فلم میں آواز اور جسم میں مناسبت لازمی ہوجاتی ہے۔ ہائی آرٹ میں جسم کا ہلنا جلنا ذرا معیوب سمجھا جاتا ہے اور کمرشل فلمی ناچ گانا ضیا صاحب کے ہائی آرٹ کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس کے لیے انہیں low art کی ریاضت چاہیے تھی، اور اپنے آدرشی بت کو توڑنا پڑنا تھا جس کے لیے وہ لاشعوری طور پر ہرگز تیار نہیں تھے۔ ضیا صاحب کو جب مجرم کون میں ناچنا پڑا تو نہ وہ کوئی ڈھنگ کا ٹھمکا لگا سکے اور نہ ہی وحید مراد یا شاہ رخ خان کی طرح جسم کو متحرک کرسکے۔ اس لیے کہ،
’ تراشیدم صنم بر صورتِ خویش
(میں نے اپنی صورت پر ایک بت بنایا ہے )
بہ نقش خود خدا را نقش بستم
(اور اس شکل میں گویا خدا ہی کا نقش باندھا ہے )
مرا از خود برون رفتن محال است
(میرے لیے اپنے آپ سے باہر نکلنا محال ہے )
بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم
(میں جس رنگ میں بھی ہوں، خود پرست ہوں )
ضیا صاحب کو اس ملک میں جو پذیرائی ملی وہ ان کی پڑھنت سے ملی (ضیا صاحب نے اپنے ایک خط میں جو انہوں نے میرے دوست محمد شہزاد کو لکھا تھا لفظ پڑھنت استعمال کیا ہے۔)پڑھنت کی بہت بڑی اور مضبوط روایت، شاعروں، خطیبوں اور ذاکروں کی ادائیگی اور شعلہ بیانی سے ہے۔ یہاں صرف دھڑ سے اوپر ہاتھ کا ہلانا جھلانا اور چہرے کا اتار چڑھاؤ استعمال ہوتا ہے۔ ضیا صاحب کی پڑھنت میں بھی صرف لفظ اور آواز کا جادو ہے۔ انہوں نے زیڈ اے بخاری سے جملہ ادا کرنا سیکھا تھا، ریڈیو میں آواز ہی سب کچھ ہوتی ہے، دل میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا آواز میں آنا ضروری ہے اس لیے کہ جسم حاضر نہیں۔ ہر باطنی واردات پڑھنت میں سمٹ جاتی ہے، آواز کی تمثال سازی ہی اس کا سحر ہے اور ضیا صاحب آواز کے جادوگر تھے، زیڈ اے بخاری تو مندرستان میں ہی گھومتے پھرتے تھے لیکن ضیا صاحب مدھ استھان تک ساری سپتکیں بآسانی پھر سکتے تھے۔ ریڈیو اور تھیٹر کی ٹریننگ کی وجہ سے وہ آواز کے اتار چڑھاؤ اور اس کی باریکیوں سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان پر کمال کی مہارت بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے شاعروں، خطیبوں اور ذاکروں کی روایتی پڑھنت سے اپنا ایک الگ انداز تخلیق کیا تھا جو ان کے ہم عصروں میں سے کسی کو نصیب نہیں ہوا تھا، وہ اپنی پڑھنت میں ہر لفظ ایسے ادا کرتے کہ لفظ کا پورا سراپا نمایاں ہو جاتا، زیر زبر کی انگڑائیاں، شین قاف کے عشوے اور لہجے کی بناوٹ ایسی کہ الفاظ اپنی پوری صوتیات کے ساتھ سننے والے کے سامنے جلوہ افروز ہو جاتے۔ ان کی پڑھنت میں زبان بذات خود ایک کرافٹ یا فن کی صورت اختیار کر لیتی ہے ان کی شیریں بیانی، زبان کی آرائستگی اور لفظوں کی مشاطگی ہمیں دیر تک بہلاتی رہے گی۔
زبان کی حفاظت زبان کی بقا کے لیے ضروری ہے اور ایک ذمہ داری بھی ہے جو ضیا صاحب نے مرتے دم تک پوری کی۔ جوش صاحب نے شاید ان کے لیے کہا ہے۔
صیاد شعر ہوں کہ گرفتار ہوں ترا
لہجہ ملیح ہے کہ نمک خوار ہوں ترا
صحت زبان میں ہے کہ بیمار ہوں ترا
غالب کہتا ہے اگر برہمن اپنے عقیدے پر استوار رہے تو اسے بت خانے کی بجائے کعبے میں گاڑنا چاہیے۔ ضیا صاحب کی لفظوں سے وفا داری آخری دم تک استوار رہی۔ اس لیے وہ بت جو انہوں نے اپنے لیے تراشا تھا ہمیشہ کے لیے معبد فن میں نصب رہے گا اور ہزاروں لوگ ان کی زیارت کو آتے رہیں گے۔