خاكے
عبدالمجید سالک
ہوش کی آنکھ کھولی تو گھر بھر میں مولانا ظفر علی خاں کا چرچا تھا۔ ’’زمیندار‘‘ کی بدولت خاص قسم کے الفاظ زبان پر چڑھے ہوئے تھے۔ انہی الفاظ میں ایک ٹوڈی کا لفظ بھی تھا۔ زمیندار نے اس کو خالص وسعت دے دی تھی کہ مولانا ظفر علی خاں کے الفاظ میں راس کماری سے لے کر سری نگر تک ،سلہٹ سے لے کر خیبر تک اس لفظ کا غلغلہ مچا ہوا تھا، جس شخص کا ناطہ بلاواسطہ یا بالواسطہ برطانوی حکومت سے استوا رتھا وہ فی الجملہ ٹوڈی تھا۔ اس زمانہ میں ہمیں سیاسیات کے پیچ و ختم سے زیادہ واقفیت نہ تھی ہم نے ٹوڈی کے مفہوم کو اور بھی محدود کر رکھا تھا، وہ تمام لوگ جو مولانا ظفر علی خاں کے مخالف تھے یا جنھیں مولانا سے اختلاف تھا ہمارے نزدیک ٹوڈی تھے۔ اب چوں کہ انقلاب کے دونوں مدیر (مہر و سالک) زمیندار کے مقابلہ میں تھے اور مولانا سے کٹ کے انقلاب نکالا تھا ، لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا عرف یا تخلص بھی ٹوڈی تھا۔ پھر یہ ہفتوں یا مہینوں کی بات نہ تھی، برسوں تک یہی خیال ذہن پر نقش رہا حتی کہ ایک دہائی بیت گئی۔ دوسری دہائی کے شروع میں یہ لفظ کسی حدتک کچلا گیا اور اس کی جگہ بعض مستور الفاظ رواج پاگئے، مثلاً رجعت پسند، کاسہ لیس وغیرہ ان الفاظ میں دشنام کی بدمزگی تو نہ تھی لیکن حقارت کامخفی اظہار ضرور تھا۔ بالآخر ان ہجویہ الفاظ کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ یہ تمام الفاظ پھلجڑی کا سا سماں باندھ کر ٹھنڈے پڑگئے۔ جن تحریکوں کے ساتھ ان کا شباب تھا ان کے ختم ہوتے ہی ان کی رونق بھی مرجھا گئی اور ان کا تذکرہ سیاسی افکار کے عجائب گھروں کی زینت ہوگیا۔
اس دوران سالک صاحب سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں، دفتر زمیندار ہی میں ان سے تعارف ہوا لیکن اس تعارف سے صرف علیک سلیک کا راستہ کھلا۔ وہ اپنی ذات میں مستغرق تھے ہم اپنے خیال میں منہمک، تاثر یہی رہا کہ سالک صاحب ٹوڈی اور انقلاب ٹوڈی بچہ ہے۔ سالک صاحب ہمیں کیا رسید دیتے وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ادھر زمیندار نے ہمیں یہاں تک فریفتہ کر رکھا تھا کہ انقلاب کو ہم نے خود ہی ممنوع قرار دے لیا تھا۔ پانچ سات برس اسی میں نکل گئے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو لمبی لمبی قیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم کوئی دس گیارہ نوجوان منٹگمری سنٹرل جیل میں رکھے گئے۔ سخت قسم کی تنہائی میں دن گزارنا مشکل تھا، قرطاس و قلم موقوف، کتب و رسائل پر قدغن، جرائد و صحائف پر احتساب، یہاں تک کہ عزیزوں کے خط بھی روک لیے جاتے۔ وحشت ناک تنہائی کا زمانہ۔ جیل کے افسروں سے بارہا مطالبہ کیا کہ اخبار مہیا کریں لیکن ہر استدعا مسترد ہوتی رہی۔ جب پانی سر سے گزرگیا تو ہم نے بھوک ہڑتال کردی، نتیجتاً حکومت کو جھکنا پڑا۔ ’’سول‘‘اور ’’انقلاب‘‘ ملنے لگے۔ ہمارے وارڈ کا انچارج ایک مذہبی سکھ سردار شیر سنگھ تھا، کالا بھجنگ، بدہیئت اور بدرو۔ قیدیوں کو ستانے میں اسے خاص لطف محسوس ہوتا، یہی اس کی خصوصیت تھی۔ چوں کہ اخبار اس کی مرضی کے خلاف ملے تھے اور اسے سنسر کرنے کا اختیار تھا لہٰذا ہر روز اخبار کے مختلف صفحے قینچی سے اس طرح کاٹتا کہ سارا اخبار بے مزہ ہوجاتا، سیاسی خبریں تو بالکل ہی کٹ کے آتی تھیں۔ یہی زمانہ تھا جب افکار و حوادث سے روز مرہ کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ شیر سنگ کو پتہ چلا کہ افکار و حوادث باجماعت پڑھے اور سنے جاتے ہیں تو اس نے افکار و حوادث کاٹنا شروع کیے۔ پہلے دن ہمارا خیال تھا کہ کوئی سیاسی خبر کاٹی ہوگی۔ جب ہر روز قینچی چلنے لگی تو ہم نے شیرسنگھ کو متوجہ کیا، وہ معمول کے مطابق طرح دے گیا۔ ہم نے احتجاج کیا اس کابھی اس پر کوئی اثر نہ ہوا، ہم نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی، وہ مسکراکے ٹال گیا۔ آخر کار بھوک ہڑتال کی نیو اٹھائی تو وہ اگلے ہی روز پسپا ہوگیا۔ افکار و حوادث مقراض سے محفوظ ہوگئے۔ بظاہر یہ ایک لطیفہ تھا کہ جس اخبار کو ہم سرکاری مناد سمجھتے اور جس کالم میں قومی تحریکوں یا قومی شخصیتوں پر سب سے زیادہ پھبتیاں کسی جاتی تھیں ہم نے اسے بھوک ہڑتال کرکے حاصل کیا۔ غرض افکار و حوادث کی ادبی دلکشی کا یہ عالم تھا کہ ہم اس کی چوٹیں سہہ کر لطف محسوس کرتے۔ سیاسی تاثر تو ہمارا وہی رہا جو پہلے دن سے تھا، لیکن اس کی ادبی وجاہت کے شیفتہ ہوگئے۔ مہر صاحب کے اداریے ایک خاص رنگ میں ڈھلے ہوتے، ان میں تحریر کی دلکشی اور استدلال کی خوبی دونوں کا امتزاج تھا۔ سالک صاحب افکار و حوادث میں مطائبات کی چاشنی او رطنزیات کی شیرینی اس طرح سموتے تھے۔ جی باغ باغ ہوجاتا، محسوس ہوتا گویا ہم میکدے میں ہیں کہ رندانِ درد آشام تلخ کام ہوکر بھی خوش کام ہو رہے ہیں۔
ساتھیوں کا ایک مخصوص گروہ تھا، جس میں جنگ کی وستعوں اور شدتوں کے باعث اضافہ ہوتا رہا۔ میں منٹگمری سنٹرل جیل سے تبدیل ہوکر لاہور سنٹرل جیل میں آگیا تو پہلا مسئلہ انقلاب ہی کے حصول کا تھا۔ سید امیر شاہ (جیلر) کی بدولت فوراً ہی انتظام ہوگیا۔ غرض قید کا یہ سارا زمانہ انقلاب سے آشنائی میں کٹ گیا۔ رہا ہوا تو سالک صاحب سے ان کے دفتر میں جاکے ملا۔ مہر صاحب اس وقت موجود نہیں تھے ۔ ان سے کھلا ڈلا تعارف تھا، سالک صاحب تپاک سے ملے۔ یہ سن کر انھیں تعجب ہوا کہ پانچ سال قید کٹوانے کے باوجود سرکار نے مجھے تھانہ انار کلی کے حدود میں نظربند کردیا اور تحریر و تقریر پر پابندی انھوں نے اگلے ہی روز شذرہ لکھا جس میں حکومت کو مشورہ دیا کہ ان ناروا پابندیوں کو واپس لے لے، گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی اس ملاقات میں وہ پھلجڑیاں چھوڑتے رہے۔ باتوں کو سنوارنا، گفتگو کو تراشنا، ان سے لطائف نکالنا ان کی طبیعت کا وصف خاص تھا۔ اس معاملہ میں ان کی تقریر، تحریر سے زیادہ دلفریب ہوتی۔ انسان اکتاتا ہی نہیں تھا۔ ایک آدھ دفعہ پہلے بھی یہ مشورہ دے چکے تھے اور اب کے بھی یہی زور دیتے رہے کہ سیاسیات میں اپنے آپ کو ضائع نہ کرو، صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاؤ اور کتاب و قلم کے ہوجاؤ۔ اب جو ان سے تعلقات بڑھنے لگے تو دنوں ہی میں بڑھ کے وسیع ہوگئے۔ یہ زمانہ انگریزی حکومت کے ہندوستان سے رخصت ہونے کا تھا۔ برطانوی سرکار کے آخری دو سال تھے۔ احرار سے روزنامہ ’’آزاد‘‘ نکال رکھا تھا، ’’انقلاب‘‘ پنجاب کے مسلم لیگی لیڈروں کی مرضی کے مطابق نہ تھا۔ لہٰذا معتوب تھا۔ تمام ملک میں فساد و انتشار سے آگ لگی ہوئی تھی۔ اس افراتفری کے دنوں ہی میں سالک صاحب سےملاقات کے مزید راستے کھلے۔ خلوت و جلوت میں ان کا اندازہ ہونے لگا۔ سیاسیات سے قطع نظر یہ بات ذہن میں آگئی کہ وہ ہمارے مفروضہ سے مختلف انسان ہیں بلکہ خوب انسان ہیں۔ یہ بات بری طرح محسوس ہوئی کہ بعض لوگ مستعار عصبیتوں کی وجہ سے بدنام ہوتے ہیں۔ اور انسان بلاتجربہ اپنے دماغ میں مفروضے قائم کرکے انھیں حقیقتیں بنادیتا ہے لیکن جب یہی لوگ تجربہ یا مشاہدہ میں آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاسنگ کا سونا ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ تجربہ و مشاہدہ میں آنے کے بعد دور کاڈھول نکلتے ہیں، ان کی ہم صحبتی ان کے خط و خال کو آشکار کردیتی ہے۔ سالک صاحب کو مستعار عصبیتوں سے دیکھا تو ان کی شگفتہ تصویر نہ بن سکی، یہی باور کیا کہ خوان استعمار کے زلّہ ربا ہیں۔ قریب سے دیکھا تو ایک روشن تصویر نکلے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری فسادات میں امرتسر کے طوفانوں سے نکل کر لاہور میں تھے۔ انھوں نے اس تصویر کو اور بھی چمکا دیا۔ ذکر اس پروی وش کا اور پھر بیاں اپنا -انھیں سالک سے ملے ہوئے کئی برس ہوچکے تھے۔ لاہور میں ان کے قیام کی بدولت دفتر احرار میں میلہ سا لگا رہا، یہ سلسلہ کوئی ڈیڑھ برس جاری رہا۔ اس سارے عرصہ میں سالک صاحب کا ذکر بھی کئی دفعہ آیا بلکہ آتا ہی رہا۔ شاہ جی ان سے کیھ کئے ہوئے تھے لیکن ان کی تعریف کرتے اوراس تعریف میں یہاں تک فیاض تھے کہ سالک کی قسمیں کھاتے۔ مثلاً فرماتے کہ اس کی جوانی بے داغ رہی ہے، وہ ایک شریف انسان ہے، اس میں ایک ادیب کا حسن ہے، اس کو اخبار نویسی کے داؤ پیچ آتے ہیں، وہ قابل اعتماد دوست ہے، وہ دغاباز نہیں، اس کے نفس نے کبھی خیانت نہیں کی وغیرہ۔ اور جب ان سے کوئی شخص یہ کہتا کہ آپ نے ان کے ساتھ اتنے برس سے بول چال کیوں بند کر رکھی ہے تو شاہ جی آبدیدہ ہوجاتے، فرماتے،میں نے تعلقات کا انقطاع نہیں کیا، اس نے خود کنارا کیا ہے۔ اور جب یہ عرض کرتے کہ آپس میں صلح صفائی کرلیجیے تو ذرا ترش ہوجاتے۔ فرماتے، جی نہیں میں اس سے قیامت تک نہیں بولوں گا۔ اس نے میرا دل دکھایا ہے، میں اس کو کیوں کر معاف کرسکتا ہوں، مجھے اس کے بچھڑ جانے کا قلق ہے، قلم سے جو نشتر اس نے لگائے ہیں دل کا ناسور ہیں، یہ اسی کا بویا ہوا ہے جو ہم کاٹ رہے ہیں اور وہ خود بھی کاٹ رہا ہے۔ سالک صاحب سے تذکرہ ہوتا کہ شاہ جی آپ کے بارے میں یہ کہتے ہیں تو وہ بھی خفی خواہش کو دباجاتے۔ فرماتے کہ شاہ جی تو بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں بھلا یہ عمر اب طعنے مینوں کی ہے۔ دونوں طرف دلوں میں صلح صفائی کی امنگ موجود تھی۔ لیکن دونوں کو بارش کے پہلے قطرے کا انتظار تھا۔ آخر ایک روز برکھا ہوگئی۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے شاہ جی کو دفتر احرار سے اٹھایا اور احمد شاہ بخاری (پطرس مرحوم) کی کوٹھی پر لے گئے، وہاں سالک صاحب پہلے سے موجود تھے۔ صورت حال یہ تھی۔وہ ہم سے خفا ہیں ہم ان سے خفا ہیں --مگر بات کرنے کو جی چاہتا ہے
نظریں چار ہوئیں، سارا گلہ جاتا رہا، شام گلخپ میں کٹ گئی۔ رات بھر پطرس، سالک، تبسم اور شاہ لاہور کی سڑکوں پر آوارہ پھرتے رہے۔ شاہ جی اور سالک دونوں خوش آواز تھے۔ شاہ جی حافظ کی اس غزل کا مصرع اولیٰ اٹھاتے، سالک مصرع ثانی۔ اسی میں نصف رات کٹ گئی۔
دریں زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل است --صراحی مے تاب و سفینۂ غزل است
شاہ جی خود راوی تھے کہ اس رات ہم نے اپنی شخصیتوں کو اپنے وجود سے خارج کردیا تھا۔ اکثر راہ گیروں کو حیرت ہوتی کہ شرفا قسم لوگ موٹر میں اس طرح ٹاپتے پھر رہے ہیں۔ غرض شاہ جی اور سالک صاحب اس مراجعت اور مفاہمت سے بے حد خوش تھے۔ پاکستان اور ہندوستان آباد ہوگئے تو انقلاب عارضی طور پر بند ہوگیا۔ شاہ جی لاہور سے اٹھ کر مظفر گڑھ چلے گئے۔ میں نے ’’آزاد‘‘ جاری رکھنا چاہا لیکن پرایا پنچھی تھا پھر سے اڑ گیا۔ 'چٹان' کا ڈیکلریشن لے چکا تھا، اس کو جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ احرار کے دفتر سے چوٹ کھاکر ویرا ہوٹل میں آگیا۔ چٹان نکالا، سالک صاحب بےحد خوش ہوئے خیر مقدم کا ایک دلآویز خط لکھا جو پہلے شمارہ میں شائع ہوا۔ حالات معمول پر آگئے تو انقلاب دوبارہ جاری کرنے کا قصہ کیا۔ انقلاب کا اپنا دفتر فسادات کی وجہ سے تباہ ہوچکا تھا۔انھیں دفتر کی تلاش تھی، میں نے اپنے دفتر کا ایک بڑا حصہ انھیں دے دیا اور وہ اس میں فروکش ہوگئے۔ انقلاب دوبارہ جاری ہوا لیکن زمانہ موافق حال نہ تھا، سال چھ مہینے بعد بند ہوگیا، سالک صاحب اس زمانہ میں خاصے پریشان تھے، تاہم ان کا فقر استغنا حیرت انگیز تھا۔ اپنے چہرے مہرے سے کبھی پریشانی کا اظہار نہ کیا۔ یہی دن تھے جب ان سے تعلقات اور بھی گہرے ہوگئے۔ مجید ملک ان دونوں مرکزی حکومت میں پرنسپل انفرمیشن آفیسر تھے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت کا زمانہ تھا، ان کی تقاریر لکھنے کے لیے مجید ملک نے سالک صاحب کو کراچی بلالیا اور وہاں اٹھارہ سو روپے ماہوار پر یہ خدمت سونپ دی۔ سالک صاحب وہاں تین چار سال رہے، سارا عرصہ ان سے خط و کتابت کا تانتا بندھا رہا۔ میں خط لکھنے میں ذرا سست تھا، وہ خط لکھتے اور اتنے پیارے خط لکھتے کہ سطر سطر سےان کی شخصیت پھوٹی پڑتی۔ اس سارے عرصہ میں انھوں نے کوئی دوسو خط لکھے ہوں گے، پھر ۱۹۵۱ء سے یہ شعار بنالیا تھا کہ ہرسال کے پہلے شمارے میں چٹان کا افتتاحیہ لکھتے۔ اس اداریہ میں اتنی حوصلہ افروز اور نکتہ آفریں باتیں ہوتیں کہ ہم میں خود اعتمادی پیدا ہوتی۔ وہ بڑ کادرخت نہ تھے کہ اس کے سایہ میں کوئی پودا ہی نہیں کھلتا، وہ سورج اور ہوا کی طرح مہربان تھے۔ دوسروں کا دل بڑھانا بالخصوص نوجوانوں کو اچھالنا اور اجالنا ان کی طبیعت کا خاصہ تھا، ہرشخص کے کام آنا ان کی فطرت ثانیہ تھی، ہر ضرورت مند کی سفارش کرتے اور اس میں کوئی عیب نہ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ سفارش تعلقات کی زکوٰۃ ہوتی ہے۔ وہ یہ نہیں مانتے تھے کہ سفارش کرنے سے سرکاری فرائض مجروح ہوتے ہیں۔ ان کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ اس نظام اور اس معاشرہ میں سفارش کرنا انصاف اور حق کی دستگیری کرنا ہے۔ جب تک ضرورت مند کا کام نہ ہوتا انھیں بے چینی رہتی۔ کراچی سے مجھے ایک خط لکھا کہ فلاں شخص تمھارے پاس آرہا ہے اسے فلاں شخص سے کام ہے، میں خود آنہیں سکتا سفارش کا کام میں نے اپنے دو خلیفوں کے سپرد کردیا ہے۔ لاہور کے خلیفہ تم ہو اور کراچی کے مجید لاہوری۔ اس شخص کے ساتھ جاکر پرزور سفارش کردو، رتی برابر تساہل نہ ہو، یہ ہر طرح سفارش کے مستحق ہیں۔ میں سال ششماہی کراچی جاتا تو میری خاطر دوستوں کو کھانے پر مدعو کرتے۔ ایک دفعہ نگار ہوٹل میں پرتکلف عشائیہ دیا، میں نے لاہور واپس آکر خط لکھا کہ اس تکلف کی ضرورت کیا تھی، بزرگوں سے خوردوں کی نسبت ہی بڑی شے ہے۔ فوراً خط آیا کہ اس کی ضرورت تھی، تمھارے متعلق یار لوگوں نے بہت کچھ کہہ سن رکھا تھا۔ دفتر چٹان کی عمارت میں انقلاب کا دفتر کھلا تو بعض نے خوف زدہ کرنا چاہا کہ بے ڈھب آدمی کے ساتھ گزارہ مشکل سے ہوگا لیکن جو کچھ میں نے دیکھا اور جو کچھ میں نے پایا اس سے میرے دل میں تمھارے لیے محبت اور عزت پیدا ہوگئی ہے۔ وہ لوگ تمھیں درشت کہتے تھے، میں نے تمھیں ایک جاں نثار دوست پایا، جو سلوک تم نے انقلاب کے ساتھ کیا اس احسان سے میرا بال بال بندھا ہوا ہے۔ خط پڑھتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ ان کے لفظوں میں ایک ایسا انسان بسا ہوا ہے جس کی فطرت سلیم اور روح عظیم ہے۔ معاملہ اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا کہ میں نے ان سے کرایہ نہیں لیا تھا یا ایک دو مہینے بجلی کا بل اور فون کا کرایہ ادا کردیا تھا۔ لیکن سالک صاحب ہمیشہ کے لیے رطب اللسان ہوگئے۔ مجھے اسی طرح عزیز رکھتے جس طرح اپنے دوسرے عزیزوں سے انھیں تعلق خاطر تھا۔ دولتانہ وزارت نے چٹان بند کیا تو وہ سخت مضطرب ہوئے۔ اپنے طور پر انھوں نے کوشش بھی کی کہ بندش دور ہوجائے لیکن ان کی پیش نہ گئی۔ خواجہ شہاب الدین ان دنوں وزیر داخلہ تھے، ان سے کہا لیکن وہ بھی چٹان سے کچھ زیادہ خوش نہ تھے۔ قصہ کو تاہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ چٹان سال بھر بند رہا، دوبارہ نکلا تو افتتاحیہ لکھا اور اس ٹھاٹھ سے لکھا کہ ادب و انشاء کا مزہ آگیا۔ اس اثنا میں جب کبھی لاہور آتے دفتر چٹان میں ضرور تشریف لاتے۔ فرماتے، گھر سے نکلتا ہوں تو صرف چٹان کے لیے یا راستہ میں مرزا محمد حسین سے مل لیتا ہوں۔ غرض لاہور میں ہوتے تو دفتر چٹان میں التزاماً آتے ، شاذ ہی ناغہ کرتے۔ یہ ان کا معمول تھا۔ کئی کئی گھنٹے نشست ہوتی۔ ابوصالح اصلاحی ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ ان سے دن بھر گپ شپ رہتی۔ میں ایک روز کسی رومانی دلچسپی میں غائب ہوگیا تو گلہ کیا اور میرے اباجی سے کہہ گئے کہ میں صرف اس کے لیے آتا ہوں اور یہ محفل کی محفل ایک گرہ طلب مصرع پر قربان کرگیا ہے۔ اگلے روز کراچی گئے، ایک پہلودار خط لکھا کہ عشق رسوا ہوجائے تو عشق نہیں رہتا، عیاشی ہوجاتا ہے۔ وہ بڑوں کی طرح چھوٹوں کو ان کی غلطیوں پر لتاڑتے یا جھاڑتے نہیں تھے، نہ ان کے کان کھینچتے اور نہ ان پر وعظ و نصیحت کا بوجھ لادتے۔ ہنسی مذاق میں اصلاح کرتے، دوستوں کی طرح توجہ دلاتے۔ اور بزرگوں کی طرح نقش جماتے تھے۔ ان کی چال ڈھال یا بات چیت سے کبھی یہ احساس نہ ہوتا تھا کہ وہ کوئی سرزنش کر رہے ہیں یا ان کے سامنے کوئی مطالبہ ہے۔ ان کاایک خاص انداز تھا جو انھیں کے لیے مخصوص تھا وہ سب کے لیے یکساں لب و لہجہ رکھتے۔ حفظ مراتب تو بہر حال ہوتا ہی ہے لیکن جہاں تک کسی سے مخاطب ہونے، اس کی سننے، اپنی سنانے اور باہمی مبادلہ افکار کا تعلق تھا وہ خوردو کلاں سب کی عزت نفس کا احترام کرتے تھے۔ البتہ زبان کے معاملہ میں کسی سے خم نہ کھاتے۔ خود اہل زبان ان سے خم کھاتے تھے۔ ان میں اَنا ضرور تھی اور ایگو کا یہ اظہار ہرفن کار یا قلم کار میں ہوتا ہے لیکن دوسروں کے جذبات مجروح کرنے کا تصور بھی ان کے ہاں نہیں تھا۔ وہ اس طرح سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے ایک ہی فن سیکھا تھا، کہ دوسروں کاحوصلہ کیوں کر بڑھایا جاتا ہے۔ پختہ مشق ادباء و شعرأ سے لے کر ناپختہ کار ادباء و شعراء اکثر و بیشتر ان کے پاس آتے وہ کسی کی حوصلہ شکتی نہ کرتے۔ ہرشحص کی استعداد کا خیال رکھتے اور شوق بڑھاتے تھے۔ ان کا فیض صحبت عام رہا۔ پطرس مرحوم ان سے مستفید ہوتے رہے، تاثیر مرحوم نے بھی استفادہ کیا، امتیاز علی تاج نے بھی فیض اٹھایا، احمد ندیم قاسمی ان کے شاگرد ہیں۔ قاسمی ان پر نازاں ، سالک کو ان پر فخر، مجید لاہوری کو بھی انہیں سے تلمذ تھا۔ دونوں ایک دوسرے پر ناز کرتے تھے۔ ’’نیاز مندان لاہور‘‘ کا سارا حلقہ ان کا گرویدہ رہا تاہم یہ کوئی مجلس یا حلقہ نہ تھا۔ خود ایک مضمون میں جو انھوں نے حلقہ ارباب ذوق میں پڑھاتھا، اس حلقہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ آج کل نوجوان ہر چار یاری کو ایک تحریک بنالیتے اور اس پر خیالات کے تانے بانے بنتے ہیں۔ نیاز مندان لاہور کا اور چھور صرف یہ تھا کہ عبدالرحمن چغتائی نے لاہور سے ایک سالنامہ ’’کارواں‘‘ نکالا جو اپنی خصوصیتوں کے اعتبار سے منفرد تھا۔ اس میں اہل زبان کی مدارات کے لیے نیاز مندان لاہور کے نام سے دو ایک مضمون لکھے گئے۔ جمنا پار کے بعض اہل قلم کا شیوہ تھا کہ وہ پنجاب کے ادیبوں اور شاعروں کی زبان پر ناک بھوں چڑھاتے۔ پطرس، سالک، تاثیر اور مجید ملک نے مل جل کر ان کا جواب دینا شروع کیا۔ سالک صاحب کی اپنی روایت کے مطابق نیاز مندان لاہور ان چاروں احباب کامشترکہ نام تھا، جو کچھ کہنا ہوتا باہم صلاح مشورہ کرلیتے۔ پطرس مضمون لکھتے آپس میں غور کیا جاتا، اس کے بعد مضمون چھپ جاتا۔ غرض ان مضمونوں کی خاصی شہرت ہوگئی۔ یہ گویا پہلا تابڑتوڑ حملہ تھا جو راوی و چناب کے اہل قلم نے گنگا و جمناکے اہلِ قلم پر کیا۔ ان مضامین میں معذرت کا انداز تھا ہی نہیں۔ اس سے پہلے اہلِ زبان پنجاب کے اہلِ قلم پر حملہ کرتے تو یہاں کے لوگ مسخر و معروب ہوجاتے یا پھر ایک ہی چارہ تھا کہ مدافعت میں سند و جواز لائیں یا اہلِ زبان جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے سا منے سر جھکادیں۔
نیاز مندان لاہور کے ان مقالوں کا ردعمل یہ ہوا کہ روبرو بات کرنے کی گنجائش پیدا ہوگئی۔اہل زبان کو بھی کان ہوگئے، برتری کا غرور جاتا رہا، محض اہل زبان ہونافضیلت کا باعث نہ رہا۔ نتیجتاً تو تکار بھی زیادہ عرصہ نہ رہی اور نہ اس طرف کے سنجیدہ اہلِ قلم نے اس میں حصہ لیا۔ سالک صاحب نے اسی مضمون میں لکھا ہے کہ اس کو تحریک کہنا یا کسی باقاعدہ حلقے سے منسوب کرناصحیح نہیں اور نہ کبھی اس انداز میں سوچا ہی گیا۔ اب جو لوگ نیاز مندان لاہور میں شریک ہوتے ہیں وہ پطرس، سالک، تاثیر اور مجید ملک کے دوست ضرور تھے لیکن نیاز مندان لاہور کے شریک قلم نہ تھے۔ مثلاً صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، حفیظ جالندھری اور امتیاز علی تاج ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے، تاثیر مرحوم ان دنوں اسلامیہ کالج لاہور میں استاد تھے، انھوں نے اپنے گرد خوش ذوق شاگردوں کا ایک حلقہ جمع کیا ہوا تھا جس میں محمود نظامی اور حمید نسیم کو خصوصیت حاصل تھی۔ اس سارے گروہ نے عہد کر رکھا تھا کہ ادب و شعر میں جو کچھ ہے انہی کے دم قدم سے ہے۔ پنجاب میں ان سے باہر کچھ نہیں۔ سالک صاحب ان کے پیر و مرشد تھے۔ اس حلقہ نے (یا نیاز مندان لاہور ہی کہہ لیجیے) یکے بعد دیگرے چار محاذوں پر جنگ چھیڑی، راوی پار سے جمناپار پر حملہ ترکانہ ان کا دوسرا مورچہ تھا۔ اس سے پہلے یہ لوگ علامہ سیماب اکبر آبادی کو لاہور سے بھگا چکے تھے۔ سیماب مرحوم اپنے چہیتے ساغر نظامی کے ساتھ لاہور میں وارد ہوئے اور یہاں ٹکناچاہا۔مشاعروںمیں جھڑپیں ہوئیں جس سے باقاعدہ محاذ کھل گیا۔ سیماب نے ہرچند مقابلہ کرنا چاہا اور کچھ دنوں خم ٹھونک کی ، ڈٹے رہے لیکن بالآخر پسپا ہوکر بھاگ گئے۔ سیماب سے تکرار کی ایک وجہ ساغر نظامی بھی تھے۔ ان دنوں ساغر خود ایک غزل تھے۔ سیماب ان کے بغیر جی نہیں سکتے تھے۔ اپنے کلام کا بڑا حصہ ان کے حوالے کردیا۔ ساغر بلا کے خوش آواز تھے۔ سرخ و سپید رنگ، بوٹا ساقد، سر تا قدم ادا ہی ادا۔ مشاعرہ پڑھتے تو سامعین کو بہا کے جاتے۔ نیاز مندان لاہور کے واحد شاعر حفیظ جالندھری تھے۔ وہ شکل و صورت کے اعتبار سے تو واجبی تھے لیکن گلا انھوں نے بھی نورانی پایا تھا۔ نہ ایک نیام میں دو تلواریں سماسکتی ہیں نہ ایک مشاعرے میں دو گلے۔ سیماب کو زعم تھا کہ وہ میرتقی میر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم رتبہ ہیں، زبان ان کی لونڈی ہے۔ نیاز مندان لاہور اپنی قلمرو میں کسی دوسرے کی فرمانروائی کا تصور ہی نہ کرسکتے تھے۔ وہ زبان کو اپنی گھوڑی سمجھتے تھے۔ نتیجتاً آپس میں ٹھن گئی۔ شیخ عبدالقادر کی صدارت میں طرحی مشاعرہ تھا۔ قافیہ تھا سیلاب، ردیف تھی ، رہ گیا۔ ساغر نے دون کی لی، مقطع پڑھا۔۔۔ ساغر کے زمزموں کی تب و تاب الاماں--ہر معرکہ میں شاعر پنجاب رہ گیا -چوٹ حفیظ پر تھی، سالک پھر یری لے کر اٹھے، میاں صاحبزادے! وہ دوسرا مقطع بھول گئے ہو۔ پیر مغان کی بادہ گساروں سے ٹھن گئی --ساغرکی تہ میں قطرۂ سیماب رہ گیا
مشاعرہ لوٹ پوٹ ہوگیا، سیماب کٹ کے رہ گئے، ساغر کارنگ اڑ گیا۔ اسی طرح کے ایک اور مشاعرہ میں مڈبھیڑ ہوگئی۔ ساغر نے رباعی پڑھی، چوتھا مصرع تھا۔
یوسف کی قمیص ہے جوانی میری -سالک صاحب نے آواز دی۔۔۔ میاں! وہ بھی پیچھے ہی سے پھٹی تھی۔ مشاعرہ زعفران زار ہوگیا۔ ساغر نے کسی مصرع میں کوئی محاورہ غلط باندھ دیا، سالک صاحب نے سرعام ٹوکا، ساغر نے اپنے طور پر کاٹنا چاہا۔ کاش آپ کی زبان مجھ میں ہوتی --سالک صاحب نے چمک کر فرمایا۔ میاں صاحبزادے! میں اپنی زبان کی بات نہیں کر رہا تمھاری مادری زبان کا ذکر کر رہا ہوں۔نتیجہ یہ ہوا کہ سیماب صاحب زیادہ دن لاہور میں نہ رہ سکے، ساغر کو لے کر لوٹ گئے۔ میدان حفیظ کے لیے رہ گیا۔ جو عموماً جمنا پار کے مشاعروں سےدل آزردہ ہوکر آتے تھے۔ سالک صاحبِ زبان سے بغاوت کے حامی نہ تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کو ان کی خفی و جلی غلطیوں پر ٹوکتے اور ان کی اصلاح کرتے۔ لیکن وہ اہل زبان کی صرف زبان کے غرور پر برتری کے بھی قائل نہ تھے۔ پاکستان بنا تو دہلی و لکھنؤ کے بعض اہلِ قلم لاہور آگئے۔ ان میں نواب خواجہ محمد شفیع دہلوی بھی تھے۔ باتوں باتوں میں خواجہ صاحب نے سالک صاحب سے کہا، چلیے ہم لوگوں کے آنے سے ایک فائدہ تو ہوگا کہ پنجاب والوں کی زبان صاف ہوجائے گی۔ سالک صاحب نے بھٹ سے فرمایا جی ہاں، انشاء اللہ مادری زبان ہوجائے گی۔ خواجہ صاحب تاڑ گئے لیکن مسکراکے رہ گئے۔ ان کا تیسرا محاذ علامہ تاجور نجیب آبادی کے خلاف تھا۔ سالک صاحب بظاہر کیا طبیعتاً لڑاکا نہ تھے۔ اب چونکہ نیاز مندان لاہور ان کے بھی نیاز مند تھے لہٰذا وہ ان کے لیے تلوار بھی تھے، اور سپر بھی۔ اصل لڑائی حفیظ و تاثیر کی تھی۔ حفیظ کو شاعرانہ حسد و رقابت سے مفر نہ تھا، تاثیر کو فطرتاً چوچلوں میں مزہ آتا تھا۔ تاجور سے کٹا چھٹی کا سبب بھی یہی تھا۔ ان سب نے ان پر یلغار کی۔ وہ بھی کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہ تھے، انھوں نے بھی خم ٹھونک کر مقابلہ کیا۔ کوئی اور ہوتا تو لازماً بھاگ جاتا لیکن تاجور آخر وقت تک ڈٹے رہے جھکے نہیں۔ آخری عمر میں انھیں سید عابد علی عابد کے ہاتھوں سخت آزار پہنچا۔ لیکن وہ ہر چوٹ کھانے کے عادی ہوگئے تھے۔ عابد صاحب اب تو نیاز مندان لاہور میں شمار ہونا چاہتے ہیں لیکن اس وقت تاجور کے عقیدت مندوں میں تھے۔ ان کی شاعری کو پروان چڑھانے میں بھی تاجور کا ہاتھ تھا، انہی کے رسالوں نے انھیں جلا بخشی۔
تاجور نے لاہور سے جس پائے کے ادبی رسالے نکالے وہ آج تک صحافت میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ’’ادبی دنیا‘‘ کی نیو رکھی۔ جب تک اس کے ایڈیٹر رہے اس کا ڈنکا بجتا رہا، پھر ’’شاہکار‘‘ نکالا، اور شاہکار بنادیا۔ بچوں کے لیے ہفتہ وار ’’پریم‘‘ نکالا، اردو مرکز قائم کیا، اس کے اہتمام میں بہت سے مجموعے مرتب کرکے شائع کیے، بیسیوں نوجوانوں کی ادبی تربیت کی، مشاعروں کو عام کیا۔ غرض جہاں تک زبان اردو کے مذاق کو عام کرنے کاتعلق ہے، ایک ادارہ سے بڑھ کر کام کیا اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جو کام پطرس، تاثیر، تبسم، حفیظ اور تاج سے نہ ہوسکا وہ تاجور نے تنہا کیا۔ ان کی خدمات کااعتراف نہیں کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے گرد و پیش نیاز مندان لاہور جیسا کوئی حلقہ نہ تھا کہ وہ لوگ سیاسی فطرت کےادبی کھلاڑی تھے۔ سالک نے تو عمر بھر قلم ہی کی خدمت کی۔ اور اتنا لکھا کہ انتخاب ہی کے کئی مجموعے شائع ہوسکتے ہیں، لیکن پطرس ادب میں کب تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ یہ محل نظر ہے۔ مرحوم ایک ادیب سے زیادہ ایک محفل آرا شخصیت تھے جنھیں مختلف زبانوں کے ادبیان کا انسائیکلو پیڈیا کہا جاسکتا تھا لیکن ان کی یہ خوبی ان کے ساتھ ہی دفن ہوگئی۔ تاثیر کا ادبی تر کہ محدود ہےاور ان میں زندہ رہنے کی صلاحیت بھی برائے نام ہے لیکن وہ زبردست ادبی اور سیاسی کھلاڑی تھے۔ انھیں اس برعظیم میں ترقی پسند تحریک کا سرخیل کہا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے ہی داؤپیچ کی وجہ سے وہ اسی پودے کے ہاتھوں مارے گئے جسے انھوں نے خود تیار کیا جس کا بیج ان کے اپنے ہاتھوں بویا گیا تھا۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کو ان کے ہاتھوں شدید نقصان پہنچا۔ لیکن ترقی پسندوں کے ہاتھ سے انھیں بھی بہت سے گھاؤ لگے۔ مجید ملک سرکاری افسر ہوکر سرکاری افسر ہی رہ گئے انھوں نے اس جوڑ توڑ میں کبھی حصہ نہ لیا جو تاثیر مرحوم کا شیوہ خاص رہا۔ تبسم عمر بھر طلبہ کے استاد رہے۔ پھر ریڈیو کے ہوگئے۔ ان کے کلام میں پختگی ضرور ہے، شگفتگی ٹاواں ٹاواں ہے۔ امتیاز علی تاج مرنجان مرنج ہیں۔ لیکن انارکلی یا چچا چھکن میں اتنا بوتا نہیں کہ انھیں دوام حاصل ہو۔ ان کی حیثیت ایک مہر شدہ ادیب کی ہے۔ البتہ حفیظ میں ایک بڑے شاعر کی تمام خصوصیتیں موجود ہیں۔ ان کے بغیر اردو غزل یا اردو نظم کا ہر تذکرہ ادھورا رہ جاتا ہے۔
غرض نیاز مندان لاہور جس حلقہ کا نام رہا وہ پہلی سازش تھی جو ادب میں کی گئی۔ ان لوگوں نے انجمن ستائش باہمی کی بنیاد رکھی۔ صوبہ بھر نے اپنے حلقہ سے باہر نہ تو کسی اہلِ قلم کی ادبی وجاہت کو یہ لوگ تسلیم کرتے اور نہ اپنے سوا کسی کو بالا سمجھتے تھے۔ علامہ اقبال کے گرد انھوں نے عقیدت کا حصار بنارکھا تھا اور اس کے وجوہ تھے۔ سالک صاحب کے مرشد بننے یا بنانے کے بھی محرکات تھے، مثلاً زمیندار نے انقلاب کی کٹا چھنی، عام آویزشوں میں ایک روزنامہ کی ضرورت، سالک کا قلم جس سے ادبی اور سیاسی محاذوں میں رسد پہنچتی تھی۔ ماہناموں میں نیرنگ خیال کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے مقابلے میں عالمگیر تھا لیکن وہ ان جھگڑوں سے ہمیشہ الگ رہا۔ اس پر یوپی اور حیدرآباد کے اہل قلم چھائے ہوئے تھے۔ تاجور پہلے ادبی دنیا پھر شاہکار کے مالک و مدیر رہے۔ حفیظ نے ان کے خلاف قلم اٹھایا، مشاعروں میں تکافضیحتی ہوئی تو علامہ نے بھی طبیعت کی جولانی دکھائی۔ بڑے زور کا رن پڑا۔ علامہ صاحب کے ادبی دنیا کے سالنامہ میں حفیظ کا نام لیے بغیر لیکن انھیں مخاطب کرکے اس زور کی نظم لکھی کہ زبان و فن کا لطف آگیا اس نظم میں کھلی ہجو تو نہ تھی لیکن سخت قسم کے نشتر ضرور تھے۔ سالک صاحب نے اس ساری نظم میں نیازمندان لاہور کی مدافعت کی، اور خوب کی۔ تاجور البتہ سالک سے لڑنا نہیں چاہتے تھے ان کی ہلکی پھلکی چوٹیں ہوتی رہیں۔ نتیجتاً یہ محاذ کبھی سخت گرم ہوتا کبھی سخت سرد۔ ادھر تاجور نے بھی نوجوان لکھنے والوں کی ایک کھیپ پیدا کی اور وہ نیاز مندان لاہور کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب رہے۔ اختر شیرانی کو ان سے تلمذ تھا، وقار انبالوی ان کے صحبت یافتہ تھے، عبدالحميد عدم نے ان سے فیض اٹھایا، احسان دانش زبان و فن کے رموزمیں ان سے متمتع ہوئے، فاخر ہریانوی، فیاض ہریانوی، اودے سنگھ شائق، کرپان سنگھ بیدار ان کے باقاعدہ شاگرد تھے۔ اس باب میں ان کے شاگردوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔
ادبی معرکوں کی تفصیلات اس وقت سامنے نہیں اور نہ زیر قلم خاکے میں یہ ساری تفصیل آسکتی ہے البتہ انھیں جمع کیا جائے تو ایک دلچسپ ادبی تاریخ تیار ہوسکتی ہے۔
’’موت سے کس کو رستگاری ہے‘‘ تاثیر دیکھتی آنکھوں رخصت ہوگئے۔ پطرس کو امریکہ میں سناؤنی آگئی، سالک کو بھی بلاوا آگیا اور وہ اپنے رب سےجاملے۔ ان سے پہلے تاجور صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ آخری عمرمیں ان کی خواہش تھی کہ سالک سے ان کی صلح ہوجائے۔ خود مجھ سے کئی دفعہ کہا۔ چوں کہ روھیلا پٹھان تھے اس لیے طبیعت میں ضد بھی تھی۔ بہرحال ایک دن صلح ہوگئی، دونوں استاد بھائی تھے جب گلے سے آملے سارا گلہ جاتا رہا۔ادھر کئی برس پہلے نیاز منداں لاہور کی ہماہمی کارنگ پھیکا پڑچکا تھا۔ حفیظ ان سب سے الگ رہنے لگے۔ بلکہ ان کے خلاف تند وترش باتیں کرتے۔ تاثیر اور حفیظ میں مدۃ العمر کھچاؤ رہا۔ حفیظ نے سوز و ساز میں سالک صاحب کے خلاف چٹکی لی۔ سالک صاحب کا بیان تھا کہ گرامی علیہ الرحمۃ نے مرنے سے پہلے حفیظ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا تھا کہ اس کی شاعری پرنگاہ رکھنا۔ یہ روایت حفیظ کو ناگوار گزری، ہوا کہ طرفین کے دلوں میں غبار آگیا لیکن موت نے یہ قضیہ بھی۔ ۔۔سالک رہے نہ تاجور پطرس رہے نہ تاثیر، رہے نام اللہ کا۔ حفیظ بقید حیات ہیں لیکن ان دوستوں اور ان دنوں کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں۔
۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۴ء تک جوش ملیح آبادی کی انقلابی شاعری کے ظہور اور عروج کا زمانہ تھا۔ نیاز مندان لاہور ان پر بھی حملہ آور ہوگئے۔ اسلامیہ کالج میں فروغ اردو کے نام سے طلبہ کی جو انجمن قائم تھی تاثیر اس کے سرپرست تھے۔ اس میں خاص خاص مصلحتوں سے خاص خاص مضمون لکھوائے پڑھوائے اور چھپوائے جاتے تھے۔ جوش بھی ان کا ہدف بنا۔ انھیں دنوں احسان دانش نے چمکنا شروع کیا۔ لاہور سے ان کا اٹھنا حفیظ کے لیے قیامت ہوگیا۔ حفیظ اپنے رنگ کے شاعر تھے ان کا ترنم ان کے ساتھ مخصوص ہوچکا تھا ، احسان دانش کی شاعری جوش سے شانہ ملاکر نکلی، آواز اس بلا کی تھی کہ جس مشاعرے میں جاتے انھیں کا ہوجاتا۔ نیاز مندان لاہور کے لیے یہ نئی افتاد تھی۔ احسان میں کمزوری یہ تھی کہ وہ کسی مدرسے کے فارغ التحصیل نہ تھے قدرت کے عطیہ نے انھیں بالا بلند شاعروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ ان دنوں تاثیر کا یہ شہرہ تھا کہ فن و ادب میں بیگانہ ہیں۔ احسان نے غزلوں کا مجموعہ ’’حدیث ادب‘‘ مرتب کیا تو اصلاح کی غرض سے تاثیر کے پاس لے گئے، تاثیر نے مجموعہ ضائع کردیا لیکن احسان سے کہا کہ گم ہوگیا ہے۔ احسان نے دوبارہ محنت کرکے مجموعہ مرتب کیا، تاثیر نے اب یہ کیا کہ اسے گم تو نہ کیا لیکن اس کے معیاری اشعار مجروح کردیے۔ عجب نہ تھا کہ احسان اور نقصان اٹھاتے لیکن ان پر اصل حقیقت آشکار ہوگئی کہ حفیظ انھیں گوارا نہیں کرتے۔ حفیظ کی مملکت میں کسی دوسرے شاعر کا شاعری یا ترنم کی وجہ سے مقبول ہوناان کے لوگوں کے نزدیک جرم تھا۔ تاجور نے احسان کا ساتھ دینا شروع کیا۔ احسان روز بروز چمکتے گئے حتیٰ کہ ہر مشاعرہ کے لیے ناگزیر ہوگئے۔ ان کی آواز کا جادو صوبائی عصبیتوں کو ختم کرگیا۔ نیاز مندان لاہور کی ہیبت ماند پڑگئی، شاعری کی نئی نئی راہیں کھلیں، کئی مدرسہ ہائے فکر پیدا ہوگئے، ادب و انشاء میں اس تیزی کے ساتھ سیلاب آیا کہ نیاز مندان لاہور کا جارہ خود بخود بیٹھ گیا۔ ’’نیازمندان لاہور‘‘ کا چوتھا محاذ مولانا ظفر علی خاں کے خلاف تھا۔ یہ محاذ زمیندار اور انقلاب کے تصادم سے کھلا۔ سالک صاحب اس کے سالار تھے۔ ایک طرف مولانا ظفر علی خاں تن تنہا، دوسرے طرف مہر، سالک ، دونوں ہی قلم کے دھنی، ان کے لاؤلشکر میں حفیظ، تاثیر، تبسم، پطرس۔ تاثیر، قدوسی نظامی کے فرضی نام سے ظفر علی خاں کے مقابلے میں نکلے۔ لیکن کہاں راجہ بھوج کہاں ننوا تیلی، ظفر علی خاں چومکھی لڑنے میں بے مثال تھے۔ انھوں نے ایک ایک سے دو دو ہاتھ کیے، جو سامنے آیا ڈھیر ہوگیا۔ ہجونگاری میں ان سے کون نپٹ سکتا تھا۔ بہ قول سید سلیمان ندوی وہ اردو کے تین کامل الفن اساتذہ میں سے ایک تھے۔ اوّل محمد رفیع سودا دوم اکبر الہٰ آبادی سوم ظفر علی خاں۔سنگلاخ سے سنگلاخ زمینوں میں طرحیں نکالتے اور ادق سے ادق قافیوں میں رونق پیدا کرتے تھے۔ مولانا باخبر رہتے کہ فلاں نظم کس کی ہے؟ اور فلاق دشنام کہاں سے آئی ہے؟ تاثیر کو اس بری طرح آڑے ہاتھوں لیا کہ چھٹکارا مشکل ہوگیا۔ مولانا نےانقلاب کے میمنہ و میسرہ میں ان لوگوں کو دیکھا تو للکارتے ہوئے اعلان کیا۔ زمیندار ایک آپ اتنے مگر اوج صحابت پر --یہ اک تکّل لڑے گا آپ کی ساری پتنگوں سے
چنانچہ اس تکل کے ہاتھوں ساری پتنگیں کٹ گئیں۔ کوئی دو ماہ گھمسان کا یدھ رہا، ادھر بیسیوں سورما، ادھر ایک ہی پرانا پھکیت۔ ہر ضرب کاری۔ آخر علامہ اقبال کی مداخلت سے میثاق ہوگیا۔
سالک صاحب زبان کی باریکیوں سے کما حقہ آگاہ تھے۔ روز مرہ اور محاورہ میں کبھی ٹھوکر نہ کھاتے۔ قواعد زبان سے بخوبی واقف تھے۔ املا کا غایت درجہ خیال رکھتے، اردو اخبار نویسی میں اعلیٰ معیار قائم کیا۔ وہ صحافتی قبیلے کی آخری کھیپ کے شہسوار تھے۔ ان کی ذات میں بیک وقت ادب و شعر کی بہت سی روایتیں جمع ہوگئی تھیں۔ وہ شاعر بھی تھے۔ ’’راہ و رسم منزلہا‘‘ کے نام سے ان کا ایک مجموعہ کلام بھی چھپا۔ انقلاب نکلا تو شاعری گاہے ماہے کی چیز ہوگئی۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، اتنا شستہ اور رفتہ ترجمہ کرتے کہ بسا اوقات اصل ماند ہوجاتا۔ کئی ترجمے طبع زاد معلوم ہوتے۔ ٹیگور کی گیتانجلی کا ترجمہ بڑا مقبول ہوا، گاندھی جی نے بھی اس کو سراہا۔ نثر لکھنا ان کے لیے اتناہی آسان تھا جتنا آبشار کے لیے بہنا، بے تکان اور بے تکلف لکھتے۔ کسی اسلوب کے مقلد نہ تھے۔ فرماتے مطالعہ انسان کے ذخیرہ معلومات میں اضافے کا باعث ہوتا اور اس سے اسلوب بنتا ہے۔ جس آدمی کی معلومات جتنی وسیع ہوں گی اس کا اسلوب تحریر اتنا ہی صاف ستھرا ہوگا۔ وہ محض انشا پردازی یا محض لفّاظی کے حق میں نہ تھے۔ ان کی تحریریں اس لحاظ سے بڑی دلفریب ہوتیں کہ سیدھے سادے الفاظ میں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے تھے۔ وہ کسی مسئلہ میں صرف الفاظ پر گزارہ نہ کرتے اور نہ ان کا سہارا لیتے تھے، انقلاب کے شذرات اور مہر صاحب کی غیرحاضری میں اداریے بھی وہی لکھا کرتے۔ کم لوگ جاتنے تھے کہ جو شخص مطائبات نویسی میں یکہ تاز ہے وہ اس قسم کی ثقہ عبارت بھی لکھ سکتا ہے۔ انھیں نثر کے ہر اسلوب پر قابو تھا، وہ شگفتہ ضرور تھے لیکن مزاح کے علاوہ بھی ان کا قلم کسی موضوع پر بند نہیں تھا۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں تاریخ، تذکرہ، سیرت اور ادب کے موضوع بھی ہیں۔ ان سے یہ ظاہر ہی نہیں ہوتا کہ ان کا مصنف کوئی ادیب طناز، بذلہ سنج صحافی یا مطائبات نویس ایڈیٹر ہے۔ انکی شہرت افکار و حوادث کی وجہ سے ہوئی۔ بلکہ یار لوگوں میں ان کا نام ہی پیر افکار شاہ پڑ گیا۔ افکار و حوادث نے روز ناموں میں مطائبات کو آب و دانہ بخشا۔ اس کی دیکھا دیکھی کئی ایک مطائبات نویس پیدا ہوگئے لیکن افکار و حوادث سرفہرست ہی رہا۔ سند باد جہازی (چراغ حسن حسرت) سے قطع نظر شائد ہی کوئی مطائبات نویس ہو جس کی زبان میں سالک صاحب جیسی شوخی، ندرت، برجستگی، شگفتہ پن، طنز، گھاؤ، بے ساختگی اور سادگی پائی جاتی ہو۔ انھوں نے سب سے بڑا جہاد جعلی پیروں اور مصنوعی صوفیوں کے خلاف کیا، غلط گو شعرا اور پوچ نویس ادباء کو آڑے ہاتھوں لیا جس سے اصلاح زبان ہوتی گئی۔ اس کے علاوہ افکار و حوادث میں کانگریس اور اس کے زعما پر پھبتیاں کسی جاتی یا ان لوگوں پر چوٹیں ہوتیں جو کانگریس سے قریب اور سرکار کے حریف تھے۔ انقلاب کے اس کردار کادفاع نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا مزاج حکومت کے نزدیک رہا لیکن زبان کا ذائقہ جوان کے ہاں تھا اور کہیں بھی نہ تھا زبان ہی کا لطف تھا کہ ان کی پھبتیاں بھی پھول معلوم ہوتی تھیں۔ بسا اوقات ان کی پھبتی ننگی بھی ہوجاتی مگر وہ جس رخ سے پھبتی کستے، طعن توڑتے، مصرع اٹھاتے، بذلہ فرماتے، لطیفہ گھڑتے اس میں ایک خاص سرور تھا کہ خود چوٹ کھانے والوں کی زبان پر کلمہ تحسین ہوتا۔ وہ اس فن میں بڑے ہی مشّاق تھے۔ کوئی پھبتی ان کی زبان پر آکر رہ نہیں سکتی تھی۔ اصل خوبی ان کی یہ تھی کہ وہ الفاظ سے مزاح پیدا نہیں کرتے تھے بلکہ ظرافت ان کے دماغ سے اگتی تھی۔ سیدھے سادے الفاظ میں چوٹ کرجاتے۔ انھیں مزاح و ہزل کی حدوں کا بھی اندازہ تھا اور بذلہ و طنز کی رگیں بھی پہچانتے تھے۔ وہ فحاشی، پھکڑ، گالی گفتار، ضلع جگت، پھبتی، طنز، ہجو، تضحیک اور طعن کے فرق کو بخوبی سمجھتے تھے۔ کبھی کبھار ان کے الفاظ غصیل بھی ہوجاتے اور ان سے شدید قسم کا گلہ بھی پیدا ہوتا، لیکن شاذونادر۔ اس قسم کا گلہ عموماً ذومعنی الفاظ کے استعمال سے پیدا ہوتا۔ وہ قلم اور زبان دونوں کے حاتم تھے، جس محفل میں بیٹھتے، پھبتیوں کی جھاڑ باندھتے اور لطیفوں کا انبار لگاتے۔ قلم اٹھاتے تو ان کا یہی حال ہوتا۔ نام بگاڑنے میں عجیب و غریب خصوصیت کے مالک تھے، مثلاً انگلستان کے وزیر اعظم ریمزے میکڈانلڈ کا نام اس کی ہندو نوازی کے باعث رام جی مکندامل رکھا، عطاء اللہ شاہ بخاری کا ، بخار اللہ شاہ عطائی، مظہر علی اظہر کا ، ادھر علی ادھر۔ ان کے علاوہ کچھ اور راہنماؤں کے نام بھی مسخ کیے لیکن ان میں مطائبات کی شیرینی نہ تھی، دشنام کی سنگینی تھی۔ ایک دفعہ مولانا حبیب الرحمٰن صدر مجلس احرار اسلام نے تقریر میں کہا بعض تھڑدلے ہمیں بدنام کرنے کے لیے چندے کا حساب مانگتے ہیں، ہم لوگ بنیانہیں کہ حساب لیے پھریں۔ ہمیں اپنی دیانت پر اعتماد ہے جو لوگ ہم پر بھروسہ کرتے ہیں وہ چندہ دیں باقی ہوا کھائیں، سالک صاحب نے افکار و حوادث میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، حضرت مولانا کس کم بخت نے آپ سے کہہ دیا کہ آپ بددیانت ہیں؟ دیانت تو آپ کے گھر کی لونڈی ہے۔ شکایت یہ ہے کہ آپ نے بے نکاحی رکھی ہوئی ہے۔
ایک محفل میں اختر علی خاں (اللہ انہیں بخشے) کے لاابالی پن کا ذکر ہو رہا تھا کہ وہ شہید گنج میں کوئی دستاویز اٹھاکر ماسٹر تارا سنگھ کو دے آئے تھے۔ سالک صاحب نے تبسم فرمایا اور کہا، چھوڑ یار، اختر علی خاں بھی تو تارا سنگھ ہی کا ترجمہ ہے۔ کلیم صاحب ملٹری اکاؤنٹس میں غالباً ڈپٹی اکاؤنٹینٹ جنرل یا اس سے بھی کسی بڑے عہدے پر فائز تھے۔ انھیں شعر و سخن سے ایک گونہ لگاؤ تھا، اکثر مشاعرے رچاتے۔ ایک مشاعرہ میں سالک صاحب بھی شریک تھے۔ کسی نے ان سے کلیم صاحب کے بیٹے کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ آپ کلیم صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ رگ ظرافت پھڑک اٹھی فرمایا۔ تو یہ کہیے آپ ضرب کلیم ہیں۔ غرض ان کا سینہ اس قسم کے لطائف الادب کا خزینہ تھا، جس محفل میں ہوتے چھاجاتے۔ برجستہ گوئی، حاضر جوابی، بدلہ سنجی، شگفتہ مزاجی، شعر فہمی، نکتہ آفرینی، یہ سب گویا ان کے خانہ زاد تھے۔ طبیعت میں آمد ہی رہتی، آورد کا ان کے ہاں گزر ہی نہیں تھا۔
ایک تہائی صدی انھوں نے بڑے آدمیوں کی رفاقت اور صحبت میں بسر کی۔ اس زمانہ کا شاید ہی کوئی بڑا ہندوستانی یا پاکستانی ہو جن سے ان کے تعلقات نہ رہے ہوں، بڑے بڑوں سے ان کا ملاپ رہا۔ چنانچہ میری ہی تحریک پر انھوں نے ’’یاران کہن‘‘ لکھی۔ جو مکتبہ چٹان سے شائع ہوئی۔ اس میں کوئی بیس نامور لوگوں کا ذکر کیا ہے جن میں اکثر ملک و ملت کے جلیل القدر راہنما تھے۔ ان بزرگوں اور دوستوں کا شاید ہی کوئی لطیفہ ہو جو انھیں یاد ہو اور رہ گیا ہو۔ ’’سرگذشت‘‘ کے نام سے انھوں نے اپنے سوانح حیات قلم بند کیے، پہلے ’’امروز‘‘ پھر ’’نوائے وقت‘‘ میں قسط وار چھپتے رہے، آخر کتابی شکل میں شائع ہوگئے۔ اس کتاب سے ان کے ذہنی نشو و نما اور ادبی و سیاسی مذاق ہی کااندازہ نہیں ہوتا بلکہ بہت سی برگزیدہ ہستیوں اور نامور شخصیتوں کی سیرت کا عکس بھی مل جاتا ہے۔ حسرت کے الفاظ میں ’’سرگزشت‘‘ ہمارے ملک کی چہل سالہ علمی ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرقع ہے۔ ظرافت ان کے قلم سے یوں نکلتی ہے جیسے کڑی کمان سے تیر۔ عام طور پر وہ لکھتے لکھاتے کوئی ایسا لطیفہ یا چٹکلہ بیان کرجاتے ہیں کہ خشک سے خشک بحث بھی بامزہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ ’’سرگزشت‘‘ میں بھی یہی رنگ نمایاں ہے، اور ’’یاران کہن‘‘ تو زیادہ تر ان شخصیتوں ہی کے لطائف کا تذکرہ ہے۔
لاہور میں جمعیۃ العلما ء کا اجلاس ہو رہا تھا، ملک بھر کے علماء جمع تھے۔ سالک صاحب نے ان پر ریشتاغ کی پھبتی کسی۔ مہر صاحب نے مولانا ابوالکلام سے ذکر کیا، انھوں نے بہت داد دی اور کہا کہ لمبی لمبی ڈاڑھیوں کے مجمع کو اس سے بہتر کیانام دیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ریشتاغ، ہٹلر کی پارلیمنٹ کا نام تھا۔
آغا حشرسے ان کی ملاقات ۱۹۱۶ میں ہوئی جب وہ لاہور میں مقیم تھے ، دونوں ہی میں گاڑھی چھننے لگی۔ آغا بلا کے بذلہ سنج، نکتہ طراز، اور یدیہہ گو تھے، سالک بھی ان خصوصیتوں میں پیچھے نہیں تھے البتہ آغا صاحب پھلڑ بھی تھے اور گالی گفتار سے رکتے نہیں تھے۔ اہل قلم پر یہ زمانہ کچھ زیادہ مہربان نہ تھا۔ آغا صاحب کا ہاتھ اکثر تنگ رہتا، جب کہیں سے کوئی رقم آتی تو دِنوں میں لٹا دیتے۔ طبیعت سخی اور لکھ لٹ پائی تھی۔ سالک صاحب روایت کرتے تھے کہ وہ اور حشر ان دنوں مونگ پھلی سے جیبیں بھرکے آدھی آدھی رات تک لاہور کی بڑی بڑی سڑکوں پر پھیرے ڈالتے اور دنیا بھر کی گپیں ہانکتے تھے۔ ایک روز آغا صاحب کو کلکتہ سے پانچ ہزار روپیہ آیا، بہت خوش ہوئے۔ تعلیاں بگھارنا ان کی فطرت میں تھا۔ سالک صاحب شام کو ان کے ہاں پہنچے تو عالم ہی دوسرا تھا۔ کہنے لگے، آغا حشر ڈرامہ کا خدا ہے، ہندوستان بھر میں کوئی شخص اس کامقابلہ نہیں کرسکتا، وہ انڈین شیکسپیئر ہے۔ سالک نے کہا، جیسا تھرڈ کلاس انڈیا ہے ویسا ہی اس کا شیکسپیئر ہوگا؟ بہت بھنائے، چوں کہ سالک صاحب سے گالی گلوچ کا لین دین نہ تھا لہٰذا سٹپٹا کر رہ گئے۔ کہنےلگے جانتے ہو پانچ ہزار روپے کتنے ہوتے ہیں؟ سالک نے کہا جی ہاں سنا ہے پانچ ہزار کی چھاؤں میں کتّا بیٹھتا ہے۔ بے اختیار ہنس پڑے، فرمایا مسخرے پن سے باز نہیں آتے۔ خواجہ حسن نظامی بھی قدرت سے طباع اور طرار طبیعت لے کر آئے تھے، ان کے ہاں بھی زبان کا زور بندھا ہوا تھا۔ دہلی مرحوم کی آبرو تھے۔ جہاں تک ان کی خصوصیتوں کا تعلق تھا وہ کئی خوبیوں کی تصویر تھے، مثلاً پیر بھی تھے، پیرزادے بھی، اخبار نویس بھی تھے اور اہل اللہ بھی، صاحب طرز ادیب بھی تھے اور صوفی باکرامت بھی، تاجر بھی تھے اور سجادہ نشین بھی۔ گویا ایک ذات میں کئی وجود جمع ہوگئے تھے۔ شوشہ چھوڑنے، مصرعہ اٹھانے، تھگلی لگانے، کرتب دکھانے، پتنگ اڑانے، ناٹک رچانے اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ نظام الدین اولیا کے جوار میں رہ کر ایک دنیا سے لڑائی لے رکھی تھی۔ مولانا ظفر علی خاں کو حیدرآباد سے پٹخنی دلوائی، مولانا محمد علی کے لیے بھڑوں کا چھتا ہوگئے، دیوان سنگھ مفتون سے تاناری ری شروع کی اور آن واحد میں ملہار گانےلگے، مہاتما گاندھی کی چرغ چون کا بھرکس نکالا، شر رہانند کا ٹینٹوا دبایا، شدھی کو ناکوں چنے چبوائے، تبلیغ کا ڈول ڈالا، انسان کیا! طوفان تھے۔ سالک صاحب چوں کہ نظام خانقاہی کے خلاف لکھا ہی کرتے تھے اس لیے ان سے بھی کبھی کبھار چاؤ چونچلے ہوجاتے۔ خواجہ صاحب بہرحال ایک زندہ دل اور یار باش شخصیت تھے، حجرے میں مجرے کا جواز بھی پیدا کرلیتے۔ بھارت بیاکل تھیڑیکل کے ایک نو عمر ادا کار، چونی لال پر خواجہ صاحب کی نظر عنایت ہوگئی، سالک صاحب کو شوخی سوجھی، تین چار اشعار فارسی میں لکھ کر گم نام کی طرف سے خواجہ صاحب کو ڈاک میں بھیج دیے۔ اے خواجۂ نامدار چونی --در صحبت گلفدار چونی،
سن در ہجر تو ایں چنینم --تو در پہلوئے یار چونی،
در حسرت قرب ذات بیچوں --اے صوفی ہرزہ کار چونی،
خواجہ صاحب لاہور تشریف لائے تو سالک صاحب نے چونی لال کا پوچھا۔ خواجہ صاحب بھانپ گئے، فرمایا اچھا تو وہ اشعار آپ کے تھے؟
حکیم فقیر محمد چشتی جگراؤں کے تھے، لیکن ان کا وطن ثانی لاہور تھا۔ قدرت نے ان میں حذاقت و طبابت کے علاوہ لطافت و ظرافت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ پھبتی کہنے اور ضلع جگت میں بے نظیر تھے۔ سالک صاحب بھی ان کا لوہا مانتے وہ پھبتی کستے ہی نہیں اس میں اصلاح بھی کرتے تھے۔ مثلاً سالک صاحب نے ان کی بو قلمونی پر آٹھوں گانٹھ کمیت کی پھبتی کسی، لگے کیا سائیسوں کی زبان بولتے ہو؟
مطب میں حکیم صاحب کے پاس نجو طوائف بیٹھی تھی، اتنے میں سالک صاحب آگئے۔ حکیم صاحب نے نجو سے کہا ان سےملو ہمارے شہر کے بہت بڑے ادیب اور شاعر عبدالمجید سالک ہیں۔ وہ آداب بجالائی۔ سالک سے کہا کہ یہ لاہور کی مشہور طوائف نجو ہے۔ سالک صاحب نے کہا، نجو؟ بھلا کیا نام ہوا؟ فرمانے لگے لوگ نجو نجو کہہ کر پکارتے ہیں، پورا نام تو نجات المومنین ہے۔ نجو کا کھلا چمپئی رنگ، سرپہ سفید ریشمی دوپٹہ، کناروں پر چوڑا نقرئی ٹھپہ۔ سالک نے کہا، ملاحظہ فرمایا آپ نے، ڈبیہ کا انگور ہے، تشبیہہ تام تھی بہت داد دی، حکیم صاحب نے فرمایا۔ بھلا اس تشبیہہ کے بارےمیں کیا خیال ہے آپ کا؟
خمیرۂ گاؤز بان بہ ورق نقرہ پیچیدہ -سالک صاحب پھڑک اٹھے۔
سالک صاحب کی سب سے بڑی خوبی ان کا باغ و بہار ہونا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک دفعہ ان سے پوچھا، سالک صاحب آپ کو معلوم ہے عربی میں کھٹائی کو کیا کہتے ہیں۔ جواب دیا حموض۔ فرمایا کھٹا کرنا تحمیض کہلاتا ہے، برے معنی میں نہیں بلکہ چٹپٹا بنانے کے معنی میں۔ عربی میں ایک قول ہے، نسخ مجالسکم، اپنی مجلسوں اور صحبتوں کو چٹپٹا بناؤ۔ تو آپ کے آنے سے ہماری مجلس چٹ پٹی بن گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ سالک صاحب جس مجلس میں ہوتے وہ چٹ پٹی ہوجاتی، شرکاء مجلس دیر تک لطف اندوز ہوتے۔
ہرشخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمر ہی سے جن لوگوں کے ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایۂ ناز تھے، اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی۔ جس پایہ کے لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے۔ ہم سفروں میں انھیں مہر جیسا رفیق قلم ملا۔ ہم نشینوں میں چراغ حسن حسرت، مرتضی احمد میکش، احمد شاہ بخاری، محمد دین تاثیر۔ شاگردوں میں احمد ندیم قاسمی اور اولاد میں عبدالسلام خورشید۔ تمام عمر قرطاس و قلم میں کیغ، سالہا سال لکھا اور سالہا سال پڑھا۔ اس اعتبار سے وہ ایک تہائی صدی کے ادب و سیاست کی چلتی پھرتی کہانی تھے۔ ان کی باتوں سے جی اکتاتا ہی نہیں تھا، کیا کیا باتیں ان کے سینہ میں نہیں تھیں؟ کتنی ہی باتیں ان کے قلم سے صفحہ کاغذ پر آگئیں، کتنی ہی لوگوں کے حافظہ میں بے تحریر پڑی ہیں اور کتنی ہی ناگفتنی ہونے کے باعث محفلوں میں اڑتی پھرتی ہیں۔ اکثر گفتنی و نا گفتنی وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔ جس موضوع پر بولتے موتی رولتے۔ ہا! میر درد نے کس وقت کہا تھا۔
یارب وہ ہستیاں اب کس دیس بستیاں ہیں؟اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں؟
اس بازار میں میری ایک رسوا سی کتاب ہے، یہ فحاشی کی تاریخ ہے۔ اس کا خیال مجھے ایک فیچر سے پیدا ہوا جو میں نے چٹان کے سالگرہ نمبر میں لکھا تھا۔ سالک صاحب نے زور دیا کہ میں اس فیچر کو مختلف ابواب میں تقسیم کرکے کتاب لکھ دوں۔ اس بازار میں پھرتے پھراتے مجھے ایک ایسے گھرانے میں جانا پڑا جس کی مالکن کبھی جوان تھی۔ ایک زمانہ میں علامہ اقبال اس کی آواز سے خوش ہوتے تھے، اس کانام امیر تھا۔ امیر کا زمانہ لد چکا تھا۔ اس وقت ستر پچھتّر برس کے لپیٹے میں تھی، چہرے پر جھریوں کی چنٹ سے معلوم ہوتا تھا کہ لٹے ہوئے عیش کی تصویر ہے۔ میں نےادھر ادھر کے ٹانکے ملاکر سوال کیا کہ وہ مجھے اقبال کے بارے میں کیا بتاسکتی ہے؟ لیکن طرح دے گئی۔ میں نے اصرار کیا، اس نے رسید تک نہ دی۔ میں نے پچکارنا چاہا وہ ٹال گئی۔ ہزار جتن کیے لیکن کسی طرح بھی ڈھب پر نہ آئی۔ جب میں نے سارے داؤں استعمال کرلیے تو خدا کا واسطہ ڈالا۔ لیکن اس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ جب میں نے عذر و انکار کی وجہ پوچھی تو اس نے حقے کی نے چھوڑتے ہوئے کہا۔ ’’ہم لوگ شرفاء کے رازوں کی نمائش یا بیوپار نہیں کیا کرتے۔ آپ خواہ مخواہ ہوا کو مٹھی میں تھامنا چاہتے ہیں۔‘‘ واپس آکر میں نے سالک صاحب سے اس کا ذکر کیا تو وہ امیر کے ذکر سے ششدر رہ گئے۔ پوچھا، ابھی تک زندہ ہے؟ عرض کیا جی ہاں۔ پھر ایک واقعہ سنایا کہ مولانا گرامی لاہور تشریف لائے تو مجھے دفتر سے اٹھاکر علامہ اقبال کے ہاں لے گئے علامہ ان دنوں بازار حکیماں میں رہتے تھے۔ علی بخش سے پتہ چلا کہ علامہ بیمار ہیں، دھسہ لے کر لیٹے ہوئے تھے، ڈاڑھی بڑھی ہوئی چہرہ اترا ہوا، آنکھیں دھنسی ہوئیں۔ گرامی کو دیکھتے ہی آبدیدہ ہوگئے۔ پوچھا خیریت ہے؟ معلوم ہوا کہ امیر کی ماں نے میل ملاقات بند کردی ہے۔ پچھلے تین روز سےملاقات نہیں ہوئی۔ گرامی کھلکھلاکر ہنس پڑے۔ پنجابی میں کہا۔ اوچھڈ یار توں وی غضب کرنا ایں، او تینوں اپنی ہنڈی کس طرح دے دیں۔(چھوڑو یار تم بھی غضب کرتے ہو، بھلا وہ تمھیں اپنی ہنڈی کیوں کر دے دے)۔ علامہ بے حد غمگین تھے۔ گرامی نے علی بخش سے کہا، گاڑی تیار کرو۔ مجھے ساتھ لیا اور اس بازار کو روانہ ہوگئے۔ امیر کے مکان پر پہنچے، دستک دی۔ امیر کی ماں نے گرامی کو دیکھا تو خوش دلی سے خیرمقدم کیا۔ آپ اور یہاں۔۔۔؟ اھلاً و سھلاً۔
گرامی نے امیر کی ماں سے گلہ کیا کہ تونے ہمارے شاعر کو ختم کرنے کی ٹھانی ہے۔ اس نے کہا مولانا شاعروں کے پاس کیا ہے، چار قافیے اور دو ردیفیں۔ کیا میں اپنی لڑکی ہاتھ سے دے کر فاقے مرجاؤں؟ آپ کا شاعر تو ہمارے ہاں نقب لگانے آتا ہے، میری لڑکی چلی گئی تو کون ذمہ دار ہوگا؟ گرامی نے اجلی ڈاڑھی کا واسطہ دیا، اور دو گھنٹہ کی شخصی ضمانت دے کر امیر کو ساتھ لے آئے۔ میں علی بخش کے ساتھ، گرامی امیر کے ساتھ گھوڑادڑ کی میں چلا آرہا تھا۔ علامہ کے ہاں پہنچے تو گرامی نے جھنجوڑتے ہوئے کہا۔ اٹھوجی، آگئی امیر۔
سچ مچ، علامہ نے حیرت سےپوچھا۔ امیر سامنے کھڑی تھی، دفعتاً ان کا چہرہ جگمگا اٹھا۔ سالک صاحب نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا ، زندگی میں اس قسم کی آرزوئیں ناگزیر ہوتی ہیں۔ انسان کو ان راستوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ فرمایا جس زمانہ میں اقبال انار کلی میں رہتے تھے، ان دنوں لاہوری دروازہ اور پرانی انارکلی میں بھی کسبیوں کے مکان تھے۔ ایک دن میں علامہ کے ہمراہ انارکلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک وہ ایک ٹکیائی کے دروازہ پر رک گئے۔ ادھیڑ عمر کی کالی کلوٹی عورت، مونڈھے پر بیٹھی حقہ سلگارہی تھی۔ اندر گئے حقہ کا کش لگایا، اٹھنی یا روپیہ اس کے ہاتھ میں دے کر آگئے۔ میں بھونچکا رہ گیا، ڈاکٹر صاحب یہ کیا حرکت؟ فرمایا، سالک صاحب، اس عورت پر نگاہ پڑی تو اس کی شکل دیکھ کر لہرسی اٹھی کہ اس کے پاس کون آتا ہوگا؟ پھر مجھے اپنے الفاظ میں تکبر محسوس ہوا۔ میں نے خیال کیا کہ آخر اس کے پہلو میں بھی دل ہوگا۔ یہی احساس مجھے اس کے پاس لے گیا کہ اپنے نفس کو سزا دے سکوں اور اس کی دل جوئی کروں۔ یہ عورت صرف پیٹ کی مار کے باعث یہاں بیٹھی ہے ورنہ اس میں جسم کے عیش کی ادنیٰ سی علامت بھی نہیں ہے۔‘‘
سالک صاحب نے علامہ اقبال کے ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، عمر کی آخری تہائی میں وہ ہرچیز سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہوکر رونے لگتے، حضورؐ کا نام آتے ہی ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی، پہروں اشکبار رہتے۔ ایک دفعہ میں نے حدیث بیان کی کہ مسجد نبوی میں ایک بلی نے بچے دے رکھے تھے، صحابہؓ نے بلی کو مار کر بھگانا چاہا، حضورؐ نے منع کیا۔ صحابہؓ نے عرض کی، مسجد خراب کرتی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اسے مارو نہیں، یہ ماں ہوگئی ہے۔حدیث کا سننا تھا کہ علامہ بے اختیار ہوگئے، ڈھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ سالک صاحب کیا کہا؟ مارو نہیں ماں ہوگئی ہے، اللہ اللہ امومت کا یہ شرف؟ سالک صاحب کا بیان تھا کہ حضرت علامہ کوئی پون گھنٹہ اسی طرح روتے رہے، میں پریشان ہوگیا۔ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو مجھے بھی چین آیا، ورنہ جب تک وہ اشکبار رہے میں ہلا رہا گویا مجھ سے کوئی شدید غلطی سرزد ہوگئی ہو۔
۱۹۴۶ء میں سالک صاحب نے میری استدعا پر روزنامہ آزاد میں اپنی جیل یاترا پر ایک مضمون لکھا پھر یہی مضمون انھوں نے تفصیلات کے ساتھ ’’سرگزشت‘‘ میں تحریر کیا۔ وہ نومبر ۱۹۲۱ء میں زیر دفعہ ۱۵۳ الف گرفتا رہوکر ایک سال قید ہوگئے۔ لاہور سنٹرل جیل سے میانوالی جیل منتقل کردیا گیا جہاں پنجاب اور دہلی کے بہت سے پولیٹیکل قیدی رہ رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اور عبدالعزیز انصاری نے مولانا احمد سعید دہلوی سے ادب عربی، صرف و نحو عربی اور منطق کا سبق پڑھناشروع کیا۔ مولانا لقاء اللہ عثمانی پانی پتی نماز میں ہم سب کے پیش امام تھے۔ سید حبیب مولانا داؤد غزنوی کو انگریزی پڑھاتے اور مولانا داؤد سید صاحب کو عربی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ان کو انگریزی آئی نہ ان کو عربی۔ مولانا عبداللہ چوڑی والے، میر مطبخ تھے۔ کبھی کبھی قوالی بھی ہوتی۔ جس میں اختر علی خاں گھڑا بجاتے۔ صوفی اقبال تالی بجاکر تان دیتے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری غزل گاتے۔ مولانا احمد سعید شیخ مجلس بن کر بیٹھے۔ مولانا داؤد غزنوی اور عبدالعزیز انصاری حال کھیلتے۔ آہ ان دوستوں میں سے لقاء اللہ کے سوا ایک بھی حیات نہیں۔ آن قدح بشکست و آں ساقی نماند۔
سرگزشت کا زندانی حصہ بڑا ہی دلچسپ ہے۔ ایک تذکرہ میں کئی تذکرے آگئے ہیں۔ حسرت کے الفاظ میں قید کا یہ ایک سال ان کے سوانح حیات کی قیمتی متاع تھا۔
اس کے بعد کبھی قید نہ ہوئے۔ زمیندار کو بدمزگی سے چھوڑا۔ مہر صاحب کی رفاقت میں انقلاب نکالا۔ جو برطانوی حکومت کے ترک ہندوستان تک چلتا رہا۔ آزادی کے بعد بھی سال چھ مہینے نکلا۔ آخر آب و ہوا کو موافق نہ پاکر بند کردیا۔ یہ ذکر اس سے پہلے آچکا ہے کہ مجید ملک (پرنسپل انفرمیشن آفیسر) کی تحریک پرحکومت پاکستان کی وزارت اطلاعات و مطبوعات سے منسلک ہوکر کراچی چلے گئے۔ وہاں فرضی ناموں سے حکومت کی پالیسیوں کے حق میں مضامین لکھتے رہے۔ بعض سرکاری مطبوعات کے ترجمے کیے۔ خواجہ ناظم الدین کی تقریریں لکھیں۔ ملک غلام محمد کا زمانہ آیا تو اسی خدمت پر مامور رہے۔ کوئی چار سال بعد وہاں سے لوٹے تو یہاں مختلف ادبی و علمی اداروں سے منسلک ہوگئے۔ منیر انکوائری رپورٹ کا اردو ترجمہ کیا۔ ایک روز اچانک بیمار ہوگئے۔ اس بیماری نے صحت کی عمارت ہلادی۔ دواؤں کے سہارے چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے لیکن اندر خانہ کمزور پڑگئے۔ اکثر گھر ہی میں رہتے۔ وضعداری کا یہ حال تھا کہ تعلقات بناکے توڑتے نہیں تھے۔ میری اہلیہ کو انہی دنوں دماغ کا عارضہ ہوگیا۔ خود ان کی پوتی کو بھی یہی عارضہ تھا۔ اس مرض کی اذیت کو سمجھتے تھے۔ میں اپنی جگہ سخت پریشان تھا۔ وہ اس زمانہ میں دوسرے تیسرے روز گھر سے نکلتے اور سیدھے میرے ہاں چلے آتے۔ میری بیوی کے پاس بیٹھ جاتے اور اس کی طبیعت کو بہلانے لگتے۔ اس سے کہتے میرے لیے نمکین چائے بناؤ۔ مطلب اس کو مصروف رکھنے سے تھا۔ وہ بڑے شوق سے چائے بناتی۔ گھٹنوں ٹک کر بیٹھے رہتے۔ مجھے کہتے جاؤ دفتر میں پھیرا ڈال آؤ، میں یہاں بیٹھا ہوں۔میری اہلیہ کے دل میں انھوں نے والد کی سی جگہ بنالی تھی اور وہ بھی اس کو بیٹی ہی کی طرح دیکھتے بھالتے تھے۔ ان کی سیرت کا یہ بانکپن میرے دل پر آج تک نقش ہے۔ کیا وضعداری تھی کہ آج وہ باتیں ہی خواب و خیال ہوگئی ہیں۔ جس روز ان کا انتقال ہوا اس سےایک دن پہلے کوئی نو بجے صبح میرے ہاں تشریف لائے۔ حسب معمول میری اہلیہ کو نمکین چائے بنانے کے لیے کہا۔ اس نے تیار کرکے پیش کی۔ تو بہت خوش ہوئے۔ فرمایا ،قلچہ، نمکین چائے، شلجم اور سفید چاول تو بس کشمیریوں ہی کے ہاتھوں لذیذ پکتے ہیں۔ چار بجے شام واپس چلے گئے، اگلے روز سنا کہ سالک صاحب فوت ہوگئے ہیں تو یقین نہیں آتا تھا۔ بھاگم بھاگ مسلم ٹاؤن پہنچا۔ جس مکان میں ظرافت کے پھول کھلتے تھے، وہ ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ سالک صاحب واقعی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔
وہ اکادکا احباب سے مذاق بھی کرلیتے لیکن خاص قسم کی مجلسوں میں جانے اور عام طرز کی محفلیں رچانے کے عادی نہ تھے۔ ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ مثلاً وہ بذلہ سنج ضرور تھے مگر ریسٹورانوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں آنے جانے سے متنفر رہے۔ اسے اپنی عمر کی متانت کے خلاف سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ریسٹورانوں اور قہوہ خانوں میں بیٹھ کر گپ لڑانا واہیات کھیل تھا۔ ایک دفعہ کافی ہاؤس کے پاس سے گزر رہے تھے۔ چراغ حسن حسرت (سندباد جہازی) نے دیکھا تو کرسی چھوڑ کر باہر آگئے۔ زور دیا کہ اندر چلیں۔ کافی پئیں۔ ’’حلقۂ رنداں‘‘ کو سعادت بخشیں، لیکن مطالقاً نہ مانے۔ ’’اس میں عیب کیا ہے؟‘‘ حسرت نے کہا۔ ’’مجھے عیب ہی نظر آتا ہے! ’’حسرت بھی تو ہر روز بیٹھتے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا۔ ’’ان میں ابھی لڑکپن ہے!‘‘
وہ نوجوانوں کی عزت کرتے لیکن ان سے بے تکلف نہیں ہوتے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ جب کبھی انھیں پتہ چلتا کہ حسرت سے نوجوانوں کی بم چخ ہوگئی ہے اور وہ اختلاج کے مریض ہیں جس سے ان کی حساس طبیعت متاثر ہوتی ہے تو وہ انھیں ٹوکتے کہ ہاتھیوں کی اس ڈار یا کبوتروں کی اس ٹکڑی میں کیا رکھا ہے؟ گھر میں رہا کرو۔ لیکن حسرت صاحب کو کافی ہاؤس کا چسکہ پڑا ہوا تھا۔ وہ اس ریوڑیا گلے میں ضرور آتے اور بلاناغہ آتے۔ جان لیوا مرض میں بھی آتے رہے۔ حالانکہ چپرغٹو اور اول جول قسم کے نوجوانوں سے الجھ کر دل آزردہ ہوتے تھے۔ حسرت بڑے پائے کے مطائبات نگار تھے۔ بامحاورہ زبان لکھنے میں بے مثال تھے۔ ادب و شعر کا ذوق نہایت شستہ و رفتہ پایا تھا۔ ان کے سامنے غلط اردو لکھنا یا غلط اردو بولنا مشکل تھا۔ وہ برخود غلط لوگوں کوچٹکیوں میں اڑا دیتے۔ برگزیدہ ادیب اور کہنہ مشق صحافی ہوکر بھی انھیں شاعرانہ عیبوں سے لگاؤ تھا اس کے برعکس سالک صاحب نے عمر بھر شراب چکھی نہ کوچۂ یار میں گئے۔ رنگ رلیاں منائیں نہ گلچھرے اڑائے۔ انہیں نسوانی موسیقی سے بھی کوئی خاص دلچسپی تھی نہ اس قسم کی محفلوں میں شریک ہوتے۔ خود شاعر تھے۔ جب انقلاب سے سبکدوش ہو گئے اور کراچی سے واپس آگئے تو شعر کہنے کا شوق تازہ ہوگیا۔ مشاعروں میں جانے لگے۔ آواز رسیلی پائی تھی۔ ترنم سے پڑھتے۔ لوگ ان کا احترام کرتے لیکن یہ دور ان کے مشاعروں میں جانے کا نہیں تھا۔ مشاعروں پر کھلنڈرے شاعر اور تان سینی گلے چھائے ہوئے تھے جنھیں زبان کی نزاکتوں سے واجبی سا تعلق تھا۔ انھیں نثر و نظم دونوں میں زبان و بیان کی پابندیوں کااحساس رہتا بلکہ اس بارے میں اہل زبان سے بھی زیادہ سخت تھا۔ وہ نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی طرح ’’ہم جائز سمجھتے ہیں‘‘ کے مرض کا شکار نہیں تھے۔ بلکہ الفاظ اور محاورات کو اصل کی طرح استعمال کرتے۔ وہ ضرورت کے مطابق ان میں ترمیم کے بھی خلاف تھے۔ ان کے نزدیک یہ بدمذاقی تھی۔ ترقی پسند تحریک کی انھوں نے بڑی سرپرستی کی۔ اور اس کی وجہ غالباً احمد ندیم قاسمی تھے۔ لیکن نہ تو کبھی ان کے اجتہاد کو قبول کیا نہ زبان کے معاملہ میں ان لوگوں کی بے راہ روی کو پسند فرمایا۔ اور نہ ان کے ان باپردہ الفاظ و تراکیب کی حوصلہ افزائی کی جن کی آڑ میں یہ لوگ خدا و مذہب کی تضحیک کرتے تھے۔میں نے اپنی کسی نظم میں مشیت کو تماشائی لکھا۔ فرمایا یہ نہ لکھا کرو۔ مشیت اللہ کی رضا اور اس کے ارادہ کا نام ہے۔ ترقی پسندوں کو معلوم ہے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے اور یہاں اسلام کو اولیت حاصل ہے وہ کھل کے خدا کو گالی نہیں دے سکتے۔ انھوں نے استخفاف کے لیے مشیت کا لفظ انتخاب کرلیا ہے۔ ترقی پسند ادیبوں کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایک زوردار خطبہ پڑھا، لیکن ان کے نظریات و تصور کو اسلامی معاشرہ کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ البتہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم، طبقاتی اونچ نیچ اور سرمایہ دارانہ استحصال کے سخت خلاف تھے۔ اس سلسلہ میں ترقی پسندوں کے احساس و اظہار کی تعریف کرتے مگر ان کا خیال تھا کہ ان ادیبوں اور شاعروں میں پچانوے فیصد موت سے پہلے مرجائیں گے، باقی پانچ فیصد میں سے نصف وہ ہیں جن کے ادب میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ادب و فن کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کا نام ترقی پسندی ہے۔ وہ ان کی زبان اور ان کے اسلوب سے کچھ زیادہ خوش نہ تھے البتہ خیالات کے اس حصہ کی تعریف کرتے جس میں طبقات کے خلاف جدوجہد کا حوصلہ پایا جاتا اور محنت کشوں کو ان کا حق دلوانے کی امنگ ہوتی۔ وہ نعرہ بازی کے سخت خلاف تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ نفرت ادب کو ہلاک کردیتی ہے۔ وہ نئی پود کی خودرائی سے بیزار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نفرت کاجواب نفرت نہیں اور نہ موجودہ نوجوان سرزنش یا تادیب سے سمجھنے کے ہیں۔ ان کے نزدیک تجربہ بہترین استاد ہے۔ فرماتے جس ادب میں زندہ رہنے کی خوبو ہی نہیں اور جو محض سیاسی نعروں سے پیدا ہوا ہے اس سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اس کو حالات کے سپرد کردینا چاہیے۔ جونہی یہ حالات ختم ہوں گے اس قسم کا ادب بھی ختم ہوجائے گا۔ انہیں یہ احساس بھی تھا کہ ادیبوں کی نئی پود کے خیالات منہ زور ہیں لیکن زبان کمزور ہے۔ چنانچہ فن کے تسامحات پر وہ اکثر روشن آثار نوجوانوں کو ٹوک دیتے۔ ایک دفعہ تاثیر نے ان سے کہا سالک صاحب کیا ’’ہم نے جانا ہے یا ہم نے کرنا ہے‘‘ لکھنا درست ہے۔ فرمایا خلاف محاورہ اہل زبان ہے۔ ’’مجھ کو جانا ہے۔ مجھ کو کرنا ہے‘‘، درست ہے۔ تاثیر نے کہا میں نے اپنی تحریروں میں اس قسم کے فقرے لکھے ہیں۔ اہل زبان اعتراض کرتے ہیں۔ کیا جواب دوں؟ سالک صاحب نے کہا، غلطی کا جواب کیا ہوگا۔ صاف کہیے کہ مجھے سے غلطی ہوگئی۔ تاثیر راضی نہ ہوئے۔ اصرار کرنے لگے۔ کوئی ایسا جواب بتائیے جو بظاہر معقول ہو۔ سالک صاحب نے کہا وہ تو محض سخن طرازی یا کج بحثی ہوگی۔ تاثیر نہ مانے، ضرور کوئی جواب ہونا چاہیے؟ انھوں نے کہا، تو آپ یہ کہیے کہ ’’نے‘‘ علامت فاعلی ہے اور ’’کو‘‘ علامت مفعولی۔ اگر جانا ہے کافاعل میں ہے تو اس کے بعد ’’نے‘‘ ہی درست ہے ’’کو‘‘ کیوں کردرست ہوسکتا ہے؟ تاثیر سن کر اچھل پڑے۔ بس ٹھیک ہوگیا۔ اب زبان والوں سے نپٹ لوں گا۔ سالک صاحب نے کہا، لیکن محاورے کے اعتراض کا جواب قواعد سے اور قواعد کے اعتراض کا جواب محاورے سے دینا اصول لسانیات کے خلاف ہے۔ تاثیر کہاں مانتے وہ خود ترقی پسندوں کے آدم تھے لیکن ان کی جنت سے نکالے جاچکے تھے۔
فی الجملہ سالک صاحب ایک زندہ دل، بذلہ سنج، کہنہ مشق، خوش گفتار، پاک سیرت، نیک سرشت، دوست نواز، صاحب طرز اور نکتہ طراز ادیب تھے۔ تقریباً نصف صدی تک قلم کا ساتھ دیا۔ زندگی بھر ہزاروں صفحات لکھ ڈالے۔ انقلاب کے بیس بائیس سال کے فائل ہی گواہ ہیں۔ ہمیشہ قلم برداشتہ لکھتے۔ صبح سویرے لکھتے اور گاؤ تکیہ پر ٹیک لگاکر لکھتے۔ خط اتنا خوب صورت تھا کہ موتی پروتے۔ مولانا ابوالکلام نے ایک دفعہ ان کے خط کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا سالک صاحب، مہر صاحب کا خط بھی آپ ہی لکھ دیا کریں۔ مہر صاحب کا خط شکستہ تھا۔ مسودات عموماً پنسل سے لکھتے۔ سفارت خانوں کے خبرناموں کی سلپیس بناکر عمر بھر انکی پشت پر افکار و حوادث لکھتے رہے۔ یا ران کہن کا تمام مسودہ پنسل سے لکھا ہوا تھا۔ فرماتے،میرے لیے صبح سویرے ناشتہ کرنا مشکل ہے۔ افکار و حوادث یا شذرات لکھنا مشکل نہیں، وہ اتنا ہی سہل ہے جیسے چائے پی لی۔ سگریٹ سلگالیا۔
سرگذشت کے آخر میں انھوں نے لکھا تھا۔ آج سرگذشت ختم ہوتی ہے۔ ۱۵؍اگست کو پاکستان قائم ہوگیا۔ اس وقت کے بعد کی سرگذشت لکھنا بے حد دشوار ہے۔ میں ابھی اپنے دل و دماغ اور اپنے قلم میں اتنی صلاحیت نہیں پاتا کہ جوکچھ میں نے دیکھا اور سنا اور بساط سیاست پر شاطرین نے جو چالیں چلیں۔ ان کو قلمبند کرسکوں اور شاید اس سرگذشت کو فاش انداز میں لکھنا مصلحت بھی نہیں۔ اگر چند سال حیات مستعار باقی ہے تو انشاء اللہ سرگذشت کا دوسرا حصہ بھی مرتب ہوگا۔ اور لکھنے والا ہی نہ رہا تو اللہ اللہ ۔۔۔ کار دنیا کسے تمام نکرو۔ آخر ۲۷؍ستمبر ۱۹۵۹ء کو اس سرگذشت کا ’’تمت بالخیر‘‘ ہوگیا۔ الھم اغفرلہ۔