خاكے
رسالدار صاحب
پير الطاف ہاشمی
رسالدار صاحب میں تین خوبیاں تھیں، ایک! وہ رانگڑھ راجپوت تھے، دوسرے! فوجی تھے اور تیسرے! فوجی بھی لڑاکا رسالے کے۔ ان تین خوبیوں کے حامل شخص سے پہاڑ میں دودھ کی نہر تو کھدوائی جا سکتی ہے، اسے ہَٹ سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ ٹینکوں کی یونٹ کو رسالہ اور اس کے صوبیدار کو رسالدار کہتے ہیں۔ پاکپتن کے نزدیک رسالدار صاحب کا گنجان آباد پورا گاؤں ہمارے بزرگوں کا مرید ہے اس لیے 1974ء میں اباجی کے انتقال کے بعد ہر سال 17 شعبان المعظم کو مجھے وہاں جانا ہوتا۔ 1983ء میں فوج کے کاغذی پیر بنانے کے لمبے وقفے بعد ایک روز اس علاقے سے گزرتے ہوئے میں ادھر چلا گیا۔ لوگوں کے ذوقِ عقیدت اور پیار کی شدت کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے مجھے چند گھنٹوں کی بجائے تین دن قیام کرنا پڑ گیا۔ پہلے کے ترتیب شدہ دورے اور آج کی بلاارادہ اور اچانک آمد میں بہت فرق تھا۔ لمبے عرصے کی جدائی نے ذوقِ دید دو آتشہ کر دیا تھا اس لیے لوگوں کی آمد زیادہ اور رفت کم تھی لہٰذا میری قیام گاہ پر تین دن میلے کا سماں رہا۔
دوسرے دن تقریبًا دس بجے کم و بیش تئیس چوبیس سال کی بچی اپنے تین ننھے منے بچوں کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی اور انتہائی ادب سے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر آدھے رکوع تک جھکتے ہوئے سلام کر کے جواب کا انتظار کیے بغیر صفوں پر بیٹھے لوگوں میں جگہ دیکھنے لگی۔ میرے اشارے پر لوگوں نے سُکڑ سَکڑ کر اس کے لیے ایک طرف جگہ بنا دی۔ میں ان سے جو بات کر رہا تھا وہ مکمل ہونے کو تھی۔ چنانچہ بیٹی نے وقت ضائع کیے بغیر کہا کہ اسے علیحدگی میں کچھ کہنا ہے۔ میں نے لوگوں سے چند منٹ برآمدے میں انتظار کرنے کا کہا۔ تخلیہ ہوتے ہی اس نے تعارف کرایا کہ وہ رسالدار صاحب کی بیٹی ہے۔ پانچ سال پہلے دل میں ڈھیروں ارمان سجائے قریب کے گاؤں پیا دیس سدھاری۔ ارمان تو کیا پورے ہونے تھے پیا اسے مکوں اور گھونسوں سے مارتا۔ مار کھاتے کھاتے تین بچوں کی ماں بن گئی۔ بخاری کی صحیح حدیث میں پرسکون ازدواجی زندگی کے لیے رسولِ انور ﷺ نے مرد کو فرمایا: (ترجمہ: تم میں سے اس شخص کے لیے (کتنے شرم کی بات ہے) جو (ایک وقت میں) اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح پیٹے اور دوسرے وقت میں اس سے جنسی خواہش پوری کر رہا ہو۔)
پانچ برس بعد ایک دن رسالدار صاحب اُدھر سے گزرتے ہوئے بیٹی کا حال احوال معلوم کرنے اس کے گھر آ نکلے۔ وہ اس وقت تازہ تازہ مار کھا کے بیٹھی تھی کہ بابل کو دیکھ کر اس کا دل بھر آیا اور اس کے گلے لگ کر کھل کے روئی۔ پنجاب میں باپ کا بیٹی کے گھر جانا معیوب سمجھا جاتا ہے اور دیہاتی لوگ اب بھی بیٹی کے ہاں نہیں جاتے، اگر کسی مجبوری سے جانا پڑ جائے تو بھی رات کسی صورت نہیں ٹھہرتے۔ یہ باتیں سناتے ہوئے اس کی آنکھوں سے اونچے درجے کے سیلاب کا ریلا صبر کے بند ڈھانے لگا۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ میرے سامنے نہیں رو رہی حقیقت میں اس وقت بھی وہ اپنے بابل کی بانہوں میں سمٹی بیٹھی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ پیار کرنے والے باپ کتنے ظالم ہوتے ہیں، بیٹیوں کو پیار کا اتنا عادی بنا دیتے ہیں کہ ان کے بعد کسی کا پیار وہ کمی پوری ہونے ہی نہیں دیتا۔ رسالدار صاحب کے بس میں نہیں تھا ورنہ بیٹی کے جہیز میں نصیبوں کی پوٹلی بھی رکھ دیتے۔ پیار کے زُعم میں مار پیٹ کی کچھ کہانی بابل کے سامنے اس کی زبان سے پھسل گئی۔ نازوں پلے کنول کے اس پھول سے یہ دردناک سلوک باپ سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ بیٹی کو اپنے گھر لے آیا۔ بیٹی اُجڑے ہوئے ہاری کی ہو یا ساہوکار کی، بیٹی کا باپ سپاہی ہو یا جرنیل اس معاملے میں جذبات جرنیل اور زبان سپاہی بن کر رہ جاتی ہے۔
بیٹی کو شوہر کے گھر سے نکلتے ہی احساس ہو گیا کہ گڑبڑ ہو گئی ہے، اسے تو باپ کو بتانا چاہیے تھا ’’ابو! میں یہاں جنت میں رہ رہی ہوں۔ میرا شوہر مجھے ہر وقت بادلوں میں اڑائے پھرتا ہے، میری زبان سے نکلی ہر خواہش اس کے لیے آسمانی وحی بن جاتی ہے۔‘‘ اتنے جھوٹ کے بوجھ تلے درد سے بلکتی بیٹی کے آنسو نکل آتے تو ناک اور آنسو ایک ہی پلّو سے پونچھتے ہوئے کہتی ’’ابوجی! یہ کمینے خوشی سے چھلک پڑے ہیں۔‘‘ اسے معلوم ہوتے ہوئے کہ گھر والے ابا کے لیے چائے نہیں بنانے دیں گے ’’ابوجی! وہ گھر میں راشن ختم ہو گیا ہے ناں، تو ’’وہ‘‘ راشن ہی لینے گئے ہیں، آپ تھوڑی دیر ٹھہریں بس وہ گھنٹے ایک تک آ جاویں گے۔‘‘ بیٹیوں سے نوازے گئے باپوں کو تجربہ ہؤا ہو گا کہ بیٹیوں کے باپ تھُڑ دِلے جبکہ بیٹیاں والدین کی عزت، اپنے گھر کی آبادی اور شوہر کی آبرو کے لیے محمد بن قاسم، شیر شاہ سوری، عزیز بھٹی اور راشد منہاس بنی پھر رہی ہوتی ہیں۔
بیویوں کو ناقص العقل قرار دے کر انہیں پیٹنے کا جواز تلاش کرنے والے ’’کامل العقل‘‘ مردوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی تیسویں سورۃ الروم کی اکیسویں آیت میں اسی ناقص العقل کو خوبصورت انداز میں اپنی نشانی قرار دیا ہے: (ترجمہ: اور اس کی (بیشمار) نشانیوں میں سے (ایک نشانی) یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں تخلیق کر دیں تاکہ ان سے تم سکون حاصل کر سکو۔ اور (اس سکون کے حصول کے لیے) تم (میاں بیوی کے) درمیان محبت اور رحم کے جذبات پیدا کر دیے۔ بے شک اس (تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں (جو نظامِ الٰہی میں) غور و تدبر کرتے رہتے ہیں۔)رسالدار صاحب کی بیٹی نے اپنی دکھ چوس ماں سے بات کی ’’ابا سے بات کر کے مجھے واپس بھجوا دو، دو چار تھپڑوں سے کون سا مَرن لاہگ ری۔ اتنا تو سارے مرد ہی لُگائیوں کو پیٹ ڈالے ہیں۔‘‘ ماں نے ابا سے بات کی لیکن صاحب کا رانگڑھ بیچ میں آن کودا۔ اماں نے ’’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل‘‘ میں پہنچنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے اور رسالدار صاحب کے رشتہ داروں کو اکٹھا کرنے سے پہلے انہیں تفصیل سے آگاہ کر کے اپنے مؤقف کے حق میں قائل کرنے میں کچھ ہفتے صَرف کر دیے۔ اجلاس ہؤا مگر صاحب کے اندر کا ٹینک سوار برسوں بعد پھر زندہ ہو گیا اور یوں یہ اجلاس کشمیر کی قرارداد ثابت ہؤا۔ اب اماں اور بھائیوں نے مل کر رسالدار صاحب کو گاؤں کے بارسوخ لوگوں سے کہلوایا لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔ اس ساری کارروائی میں تین ماہ بیت گئے۔میرے لیے بہرحال یہ معمول کا کیس تھا۔ پتھر کے نیچے دبانے، پاک پانی میں بہانے، درخت کی ہری ٹہنی کے ساتھ باندھنے کے لیے، انار کی قلم، زعفران اور عرق گلاب کی روشنائی سے لکھے حُب کے تعویذ، پڑھنے کے لیے ایک آدھ وظیفہ، شوہر کو کھلانے کے لیے دم شدہ چینی اور طفل تسلی کے چند بول، سو اس کے لیے میں ہمہ وقت تیار تھا۔ اس ساری روٹین کا ماہر میرا پیری دورے والا خادم دروازے میں کھڑا انتظار میں تھا کہ حضرت کس وقت کون سے نسخے کا حکم دیتے ہیں۔ حوا کی اس بیٹی نے اپنے ارمانوں کا خون میلے دوپٹے میں سموتے ہوئے مجھے سوچوں سے واپس لوٹایا ’’پیر صاب جی! میرا ایک کام کر دو۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھونے کی کوشش کرتے ہوئے گلوگیر آواز میں کہا ’’میرے ابو سے کہو مجھے میرے گھر چھوڑ آوے۔ انہیں یہ کھیال نہیں آ رہا کہ اگر میرے مرد نے کاغج (کاغذ یعنی طلاق) بھیج دیے تو میں تین بچے لے کر کہاں دھکے کھاؤں گی؟‘‘بچی کی باتیں سن کر اللہ تعالیٰ کی اس نشانی کے ساتھ مرد کا تعلق خراب کرنے والوں کے لیے آقاءِ نامدار ﷺ کا صحیح مسلم میں بیان کردہ فرمان نظروں میں گھومتا ہؤا روح میں پیوست ہو گیا۔ (ترجمہ: ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھا کر اپنے شیطانوں کے لشکر روانہ کرتا ہے۔ ان شیطانوں میں سے ابلیس کا سب سے زیادہ قرب اس شیطان کو نصیب ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ ڈالتا ہے۔ شیطانوں میں سے ایک آ کر ابلیس سے کہتا ہے کہ میں نے لوگوں سے فلاں فلاں برے کام کرائے۔ ابلیس افسوس سے کہتا ہے ’’تم نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ شیطانوں میں سے ایک آ کر ابلیس سے کہتا ہے ’’جس شخص کے ساتھ میں تھا میں نے اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا، جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی نہیں کرا دی۔‘‘ یہ سن کر ابلیس اس شیطان کو اپنے قریب کر لیتا ہے اور اسے کہتا ہے ’’تم ان سب سے اچھے ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر ابلیس اس شیطان کو پیار سے جپھی ڈال لیتا ہے۔) پاکستان کی کتنی آبادی کو ابلیس کے اس پسندیدہ عمل سے استثنیٰ حاصل ہو گا؟
مجھے بیٹی نے بہت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ پیری کبھی کبھار بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کے ان الفاظ نے مجھے لطائف، سلوک، عملیات، وظائف، محافل، سماع، عرس اور کاروباری عقیدت کی مصنوعی دنیا سے نکال کر حقیقت کے بے سائبان میدان میں کڑکتے سورج تلے لا کھڑا کر دیا ’’ابا کل دنیا میں نہیں رہیں گے تو بھابیاں اور معاشرہ مجھے اور میرے بچوں کو جینے دے گا؟‘‘ اس کا ایک اک جملہ، ایک اک لفظ میری علمی اور مطالعاتی تھیوریوں کو تلپٹ کیے جا رہا تھا ’’اگر اس نے کاغج نہ بھی بھیجے اور دوسری سادی کر لی تو بھی میں کدھر جاؤں گی؟‘‘ اس نے پھر میرے پاؤں پڑنے کی کوشش میں آنسوؤں کی جھڑی کے ساتھ بندھے ہاتھوں منت سماجت کا آخری حربہ آزمایا ’’پیر صاحب جی! کُھدا کے واسطے میرا گھر بچا لو۔‘‘ عورت کے آنسو ڈاکٹر، پولیس، پٹواری، ہمسائے، سسرال، شوہر اور پیروں پر کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے لیکن اس جملے سے میرا کلیجہ دہل گیا۔
میں بوڑھی عمر میں بھی پیش بینی سے محروم ہوں جس سے زمانے نے اس بچی کو آشنا کر دیا تھا۔ بچی کی سنجیدگی اور بالغ نظری میرے آر پار ہو رہی تھی۔ میں کچھ سوچتے ہوئے پہلی بار بولا ’’بیٹے! میں رسالدار صاحب سے کہہ تو دوں گا لیکن جب وہ بیوی، بیٹوں، بہن بھائیوں، سسرالیوں اور گاؤں کے معزز لوگوں کو ٹھکرا چکے ہیں تو میری بات کیسے مانیں گے؟‘‘ ضرورت اور دکھ انسان کو کیا تجربے عطا کر دیتا ہے ’’پیر صاب جی! ہم جو مرید ہوویں ناں‘‘ اس نے غالبًا جملہ سیدھا کرنے کے لیے چند سیکنڈ کا وقفہ کیا ’’ہم اللہ کی نہ مانے ہیں، رسول کی بھی ٹال دیویں، لیکن پیر کو نہ نہیں کریں ہیں۔‘‘ پیری کے طویل تجربے کے باوجود میں اس تھیوری سے ناواقف تھا۔ ہو سکتا ہے ایسی بات نہ ہو وہ فقط مجھے نفسیاتی بلیک میل کرنا چاہتی ہو ’’پیر جی! تھَم ایک دفعہ کہو تو سہی، اگے مھاری قسمت۔‘‘
میں نے اسے رخصت کر کے رسالدار صاحب کو بلوایا۔ آنکھوں پر دس نمبر شیشوں والی عینک لگائے، فوجی جرسی پہنے، تہبند کے نیچے گرم پاجامہ چڑھائے، سر پر اون کی موٹی ٹوپی اوڑھے، بہت میلی چادر کی بُکل مارے، ہاتھ میں کھونٹی تھامے، بمشکل پاؤں گھسیٹتے چند منٹ میں میرے پاس آن حاضر ہو گئے ’’حجرت صاب جی! اس گنہگار کے واسطے کیا حکم سَے؟‘‘ انہوں نے بندھے ہاتھوں سلام کر کے پوچھا۔ میں نے جھجکتے ہوئے کہا ’’صاحب! ہم پیٹی بھائی ہیں، میں ایک گزارش کروں تو آپ مان جائیں گے؟‘‘ میں نے انہیں کرنیلی سے بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ’’حجرت صاب! ہم کرنیلی شرنیلی کوئی ناں مانے سَیں۔ تھَم مھارے پیر کے صاب جادے ہو، جان بھی کہو گے تو کاہڈ کے تھارے آگے گیر دیویں گے۔‘‘ میں ان کے جواب سے کچھ خجالت اور کچھ اعتماد کے ملے جلے جذبات سے بِنا تمہید کے بولا ’’صاحب! بیٹیاں اپنے گھروں میں اچھی لگتی ہیں، بیٹی کو اس کے گھر نہ بھیج دیں؟‘‘ وہ بھی بلاتمہید بولے ’’تھَم نے کہا ہم نے مانا، بھیج کیوں دیویں، میں کُھد چھوڈ کے آؤں گا۔‘‘مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، میں کافی دیر تک حیرت سے رسالدار صاحب کے اندر ضدی رانگڑھ اور اکڑے فوجی کو ٹٹولتا رہا۔ کم از کم تیس سیکنڈ بعد میں ردِ عمل کے قابل ہو سکا ’’پھر دیر کاہے کی، اللہ کا نام لیں اور بیٹی کو چھوڑ آئیں۔‘‘ کہنے لگے ’’میں دو دن مصروف ہوں، تیسرے دن کُھد چھوڈ آؤں گا، پھِکر مت کریے۔‘‘ میری چھٹی حِس جاگی کہ صاحب نے کام دکھا دیا ہے، مجھے راضی بھی کر دیا اور میں کل چلا جاؤں گا بعد میں کون پوچھے گا اور کون بتلائے گا ’’صاحب! آپ نے مجھے خوبصورتی سے ٹال دیا ہے۔‘‘ بولے ’’میں بہت جِدی سوں، سارا گاؤں جانَے میں جو کہوں وہی کروں، کہہ دیا ناں اِیب دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جاوے میں بات سے نئیں پھرنے کا۔‘‘ اب میرے پاس یقین دہانی لینے کے سوا کچھ بچا ہی نہیں تھا ’’پھر یوں کیجیے، بیٹی کو اس کے گھر چھوڑ کر مجھے اطلاع دے دیجیے۔‘‘
میں اگلے دن چلا آیا۔ دو دن بعد مجھے فون پر اطلاع ملی کہ رسالدار صاحب حسبِ وعدہ طے کردہ دن اور وقت پر بہ نفسِ نفیس بیٹی کو اس کے گھر چھوڑ آئے تھے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تیسری سورۃ آلِ عمران کی ایک سو پینتیسویں آیت شاید رسالدار صاحب کی طرز کے لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے: (مفہوم: تم میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے بہت بڑی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ جب انہیں اپنی غلطی کا علم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جاتے ہیں اور غلطیوں پر اڑے رہنے کی بجائے اپنے گناہوں سے رجوع کر لیتے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا ہے جو گناہ بخش سکتا ہو؟) مزید دو ماہ بعد خبر پہنچی کہ رسالدار صاحب منہ میں قول کی پکی زبان لیے، سینے میں حلیم الفطرت رانگھڑ بسائے، روح کو رحیم الطبع فوجی بنائے، سیرت پر عجز و خشیت کے تمغے سجائے، سفید کفن پر بیٹی کے ارمانوں کا نیل لگائے خاموشی سے گاؤں چھوڑ سُورِ اسرافیل تک کے لیے قرآن کے نور میں گُندھی اور نبی محتشم ﷺ کی آمد کے شایانِ شان قبر میں جا آباد ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ ان کی تربت پر وہ تمام برکتیں اور سرور نازل فرمائے جو اس نے اپنے اخص الخواص بندوں کے لیے تخلیق کر رکھے ہیں اور ان کی بیٹی کو اتنا سکون عطا فرمائے کہ وہ سارے جہان میں بانٹے تو بھی ختم نہ ہو۔ آمین، بحرمتِ خاتم النبیین ﷺ۔