کیا حج اور عمرہ کے لیے اللّٰہ کا “بلاوا” ضروری ہے؟

مصنف : ڈاكٹر جميل اوركزئی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : اپريل 2025

دين و دانش

کیا حج اور عمرہ کے لیے اللّٰہ کا “بلاوا” ضروری ہے؟

ڈاكٹر جميل اوركزئی

ہمارے معاشرے میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ “جب تک اللہ کا بلاوا نہ آئے، کوئی حرمین نہیں جا سکتا”۔ بہت سے لوگ، جو مالی، جسمانی اور سفری استطاعت رکھتے ہیں، حج اور عمرہ کے لیے کسی “غیبی اشارے” یا “خصوصی دعوت” کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف، کچھ افراد جب حرمین شریفین کی زیارت سے واپس آتے ہیں، تو وہ اسے اپنی برگزیدگی اور مقبولیت کی دلیل سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: “اگر میں اچھا بندہ نہ ہوتا، تو اللہ مجھے اپنے گھر نہ بلاتا”۔

لیکن کیا واقعی حج اور عمرہ صرف اللہ کے “بلاوے” پر منحصر ہیں؟ کیا حرمین جانے کا موقع ملنا کسی کے نیک اور برگزیدہ ہونے کی قطعی دلیل ہے؟ کیا قرآن و حدیث میں کہیں اس “بلاوے” کا ذکر ملتا ہے؟ آئیے ان سوالات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

1. قرآن میں حج کے لیے بلاوے کا تصور نہیں، بلکہ استطاعت شرط ہے

اللہ تعالیٰ نے حج کو استطاعت کے ساتھ جوڑا ہے، نہ کہ کسی خاص دعوت یا بلاوے کے ساتھ۔ قرآن میں واضح طور پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:“وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ ٱسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًۭا”(سورۃ آل عمران 3:97)ترجمہ: “اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے، جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔

یہاں “مَنِ ٱسْتَطَاعَ” (جو استطاعت رکھے) کا ذکر ہے۔ یعنی جو شخص مالی، جسمانی اور سفری استطاعت رکھتا ہے، اس پر حج فرض ہو جاتا ہے۔ اگر وہ پھر بھی کسی “بلاوے” کے انتظار میں حج نہیں کرتا، تو وہ خود کو ایک فرض عبادت سے روکے ہوئے ہے۔

قرآن میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ حج صرف ان کے لیے ہے جنہیں اللہ خاص بلاوے کے ذریعے منتخب کرے-

2. نبی کریم ﷺ نے بھی استطاعت پر زور دیا، کسی بلاوے کا ذکر نہیں

رسول اللہ ﷺ نے بارہا استطاعت رکھنے والوں کو حج میں جلدی کرنے کی تاکید فرمائی، لیکن کہیں بھی کسی “بلاوے” کی بات نہیں کی۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:“تعجلوا إلى الحج فإن أحدكم لا يدري ما يعرض له

(احمد، حدیث 1830)ترجمہ: “حج میں جلدی کرو، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ آگے کیا پیش آئے گا۔اگر واقعی حج کے لیے کوئی “بلاوا” ضروری ہوتا، تو نبی ﷺ لوگوں کو جلدی کرنے کا نہ کہتے، بلکہ انہیں بلاوے کے انتظار کرنے کی تلقین کرتے۔

اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس کے پاس استطاعت ہو، اسے تاخیر نہیں کرنی چاہیے، ورنہ وہ کسی بھی رکاوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔

3. ہر شخص خود جا سکتا ہے، چاہے وہ نیک ہو یا گناہگار۔۔۔۔

کسی کے نیک یا بد ہونے کا حج اور عمرہ پر کوئی اثر نہیں، ہر وہ شخص جو وسائل رکھتا ہے، جا سکتا ہے۔بہت سے ظالم، فاسق اور برے لوگ بھی حرمین جا چکے ہیں، تو اگر واقعی “بلاوے” کا کوئی اصول ہوتا، تو وہ کبھی نہ جا سکتے۔

اگر بلاوے کا تصور حقیقت ہوتا، تو صرف نیک لوگ وہاں جا سکتے، مگر ایسا نہیں ہے

4. ظالم اور فاسق بھی حج و عمرہ کر چکے ہیں

تاریخ میں بہت سے ایسے حکمران، جرائم پیشہ افراد اور ظالم بادشاہ حج اور عمرہ کر چکے ہیں، جو انتہائی برے اعمال کے مرتکب تھے۔ اگر واقعی حج کے لیے اللہ کی خاص دعوت ضروری ہوتی، تو ایسے لوگ کبھی حرمین نہ جا سکتے۔

حجاج بن یوسف – صحابہ کرام اور بے گناہ مسلمانوں کا قاتل

حجاج بن یوسف، جس نے تاریخ میں سب سے زیادہ قتل و غارت گری کی، باقاعدگی سے حج کرتا تھا۔وہ قرآن کی تلاوت بھی کرتا تھا اور مسجد الحرام میں نمازیں بھی پڑھتا تھا، لیکن اس کا ظلم کبھی کم نہ ہوا۔

اگر حج اور عمرہ کی سعادت ملنا نیکی اور برگزیدگی کی دلیل ہوتی، تو حجاج بن یوسف کبھی وہاں نہ جاتا۔

ظالم بادشاہ اور سیاستدان

بہت سے فاسق حکمران، رشوت خور سیاستدان، اور مجرم آج کے دور میں بھی حج و عمرہ کرتے ہیں۔

حرام کمائی سے حج کرنے والوں کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ان کا حج قبول نہیں ہوتا۔

لہٰذا، حج یا عمرہ کرنے سے کسی کے متقی اور پرہیزگار ہونے کی سند نہیں مل جاتی۔

5. “اگر میں بُرا ہوتا، تو اللہ مجھے نہ بلاتا” – غلط استدلال

بعض لوگ جب حج یا عمرہ سے واپس آتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں:

اگر میں گناہگار ہوتا، تو اللہ مجھے اپنے گھر نہ بلاتا”۔

یہ جملہ بلکل غلط ہے، کیونکہ:

1. بہت سے نیک لوگ، جن میں اولیاء اور علماء بھی شامل ہیں، کسی وجہ سے حج نہیں کر پاتے۔

2. بہت سے ظالم، فاسق اور حرام کمائی والے لوگ بھی حج اور عمرہ کر لیتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ حرمین جانا نیکی کی سند نہیں، بلکہ اصل چیز تقویٰ، نیت، اور اعمال صالحہ ہیں۔

6. حج اور عمرہ عبادت کے مواقع ہیں، برگزیدگی کی علامت نہیں

⭐️اللہ تعالیٰ جب کسی کو حج یا عمرہ کی توفیق دیتا ہے، تو یہ اس کے لیے ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو بدل سکے۔

⭐️لیکن اگر کوئی شخص وہاں جا کر بھی اپنی روش نہ بدلے، تو اس کا حج یا عمرہ قبول نہیں ہوتا۔

⭐️اصل کامیابی حج یا عمرہ کے بعد کی زندگی ہے، نہ کہ صرف وہاں جانا۔

بلاوے کے انتظار میں نہ بیٹھیں، فوراً حج کی نیت کریں!

✅یہ عقیدہ غلط ہے کہ جب تک بلاوا نہیں آتا، کوئی حرمین نہیں جا سکتا۔

✅قرآن و حدیث میں صرف استطاعت شرط ہے، بلاوے کا کوئی ذکر نہیں۔

✅اگر صحت، دولت اور وسائل موجود ہیں، تو فوراً حج یا عمرہ کرنا چاہیے، بلاوے کے انتظار میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔

✅بہت سے فاسق، ظالم اور گناہگار بھی حج و عمرہ کرتے ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ ایک اوپن عبادت ہے، کسی مخصوص دعوت کے بغیر۔

لہٰذا، اگر آپ کے پاس استطاعت ہے، تو بلاوے کے انتظار میں وقت ضائع نہ کریں، بلکہ فوراً نیت کر کے حرمین جائیں اور اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کریں!