قرآنيات
"فضل " كيا ہے
محمد اكبر
قرآن کریم ہمیں جینے کے جو نئے انداز دیتا ہے، ان میں سے ایک "فضل" ہے۔ فضل کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد عدل کا تقاضا تو کرتا ہے لیکن فضل کو بھول جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ دو ناراض لوگوں کے درمیان صلح کرواتے وقت پوچھیں کہ : میں تمہارے درمیان عدل سے فیصلہ کروں یا فضل سے؟
تو ان کا جواب ہوگا : عدل سے۔کیونکہ عدل میں اپنا حق وصول ہوتا دکھائی دیتا ہے اور ہر ایک کو اپنے حق کی وصولی کی فکر ہوتی ہے۔ لیکن قرآن سے پوچھیں گے تو وہ کہے گا:
لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْؕآپس میں فضل کرنا نہ بھولیں۔ (سورت بقرہ: 237)
کیونکہ عدل سے مسئلہ تو حل ہو سکتا ہے ، دل نہیں جیتا جا سکتا جب کہ فضل مسئلہ بھی حل کرتا ہے اور دلوں میں محبت و تعلق کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔ عدل کے باوجود زخم تازہ اور ہرے بھرے رہ سکتے ہیں جب کہ فضل سے زخم مندمل ہو جاتے ہیں۔ عدل کی تلوار نہایت مضبوط اور بے لچک ہوتی ہے جب کہ فضل کے پھول نرم و ملائم اور لچکدار ہوتے ہیں۔ عدل معاشرہ کی اساس ہے تو فضل اُس کا جمال اور کمال ہے۔ عدل اگر معاشرے کو ناگواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو فضل اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔
قرآن کریم میں ایک سو سے زائد بار فضل اور اس روٹ ورڈ(Root Word) سے بنے ہوئے الفاظ موجود ہیں جو در اصل ہماری طبیعت میں فضل کو پیدا کرتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے حقوق پر کمپرومائز کر کے دوسروں کو مقدم رکھنے کا درس دیتے ہیں، دوسروں پر احسان و کرم اور عنایت و مہربانی کر کے اللہ کے احسان و کرم اور عنایت و مہربانی کا مستحق بناتے ہیں۔
فضل کا معنی ہوتا ہے: زیادہ یعنی جتنے کا کوئی مستحق ہے، اُس سے زیادہ اُس کو دیا جائے۔ جب کہ عدل کا معنی ہوتا ہے: جو جتنے کا مستحق ہے، اُتنا ہی دیا جائے۔ قرآن کریم نے ان دونوں کو ایک ہی آیت میں اکٹھے ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى بے شک اللہ تعالی عدل، احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ (سورت نحل: 90)یہاں عدل اور احسان کو الگ الگ ذکر کیا کیونکہ اکثر جگہوں پر عدل تو ہو جاتا ہے لیکن احسان و فضل رہ جاتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالی چاہتے ہیں کہ جس طرح میں لوگوں کی نافرمانیوں، گناہوں اور بُرے کرتوتوں کے باوجود ان پر فضل و احسان کرتا ہوں، عدل سے کام نہیں لیتا کیونکہ اگر عدل کروں تو پھر کوئی مخلوق زمین پر باقی نہ رہے، ایسے ہی لوگ بھی میری صفات کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے پر فضل و احسان کریں۔ اللہ تعالی نے اپنے بارے میں فرمایا: وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ اور بے شک تیرا رب لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔ (سورت نمل: 73)
ہمیں ایسے ہی "ذو فضل" بن کر لوگوں کی زندگیوں میں اپنے فضل و کرم کی کرنیں بکھیرنی چاہیں۔ اب دیکھیے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تو حضرت مسطح بن اثاثۃ رضی اللہ عنہ جو مہاجر صحابی تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار تھے اور حضرت ابوبکر ان کی مالی مدد فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی منافقین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر حضرت عائشہ کے خلاف کچھ بولنا شروع کر دیا۔ جب یہ بات حضرت ابوبکر کو پتا چلی تو انہوں نے مسطح رض کی مدد نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ اس موقع پر یہ آیات اتریں جن میں حضرت ابوبکر کو " ذو الفضل" کہا گیا :
وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ -وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ اور تم میں سے جو لوگ فضل والے ہیں اور مالی وسعت رکھتے ہیں، وہ ایسی قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتہ داروں ، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے۔ اور انہیں چاہیے کہ معافی اور درگزر سے کام لیں۔ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ اللہ تمہاری خطائیں بخش دے؟ اور اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے۔ (سورت نور: 22)
یعنی اگرچہ مسطح رض نے آپ کی پاکدامن بیٹی کے بارے میں کچھ باتیں کی ہیں لیکن آپ تو فضل والے ہیں، آپ نے نہ صرف ان کی امداد جاری کرنی ہے بلکہ دل سے انہیں معاف بھی کر دینا ہے ، اس سارے فضل کے بدلے آپ کو اللہ کی بخشش نصیب ہوگی۔
اس فضل کو سامنے رکھ کر جب آپ گھركی اور باہر کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہزاروں مظاہر فضل کے منتظر نظر آتے ہیں، ہزاروں جگہیں ایسی ہیں جہاں عدل کے بجائے فضل اور انصاف کے بجائے احسان کرنا چاہیے۔ آپ گھر میں ہیں تو بیوی بچوں اور والدین پر فضل کریں، باہر ہیں تو اپنے ساتھ کام کرنے والوں پر فضل کریں، تعلیمی اداروں میں ہیں تو پڑھنے والوں پر فضل کریں ، کسی بڑے عہدے پر ہیں تو چھوٹوں پر فضل کریں یعنی جتنے کے وہ مستحق ہوں، اُس سے کچھ زیادہ دے دیا کریں، اس عمل سے ربِ محبت بھی نہ صرف تمہیں تمہارے اعمال کا بہتر بدلہ دے گا بلکہ مزید بھی کچھ دے گا جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے: لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ تاکہ اللہ ان کے پورے اجر ان کو دیدے اور اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے۔ (سورت فاطر: 30)
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ہمیں اپنا فضل تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے:
وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ اور اللہ کے فضل کو تلاش کرو۔ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ جو اللہ کے فضل کو تلاش کرتے ہیں۔ لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔
ان ساری آیات کو پڑھ کر ایسے لگتا ہے جیسے ہر قدم پر اللہ کا فضل موجود ہے، بس ہماری نظر کا مسئلہ ہے کہ دیکھ نہیں پاتے۔ لیکن جب کوئی خالص نیت کے ساتھ اُس کے فضل کا متلاشی بنتا ہے تو ہر سانس، ہر قدم، ہر حرکت اور ہر معاملہ اُس کے فضل سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ ربِ محبت ہمیں دنیا و آخرت میں اپنا فضل نصیب کرے اور اس بشارت کا مستحق بنا دے: وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًااور ایمان والوں کو بشارت دے دیں کہ ان پر اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہونے والا ہے۔ (سورت احزاب: 47)