قرآنيات
قرآن مجید کو ”سرگذشت“ قرار دینا کیوں غلط ہے؟
جہانگير حنيف
غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹ قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس سے شدید اختلاف ہے۔ ہم اس اختلاف کی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ قاری اور کلام کا تعلق مستقل غیر متغیر نہیں ہوتا۔ ہر کلام کا ہر قاری ایک جیسا نہیں ہوتا اور ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ایک ہی قاری مختلف متون کو مختلف مواقف سے اپروچ کرتا ہے اور ایک ہی کلام کے قاری اپنے استفادے میں اس کلام سے مختلف نسبتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ لہذا ہمارا کلام سے تعلق ہمارے اندرونی وجود اور شعوری مسلمات سے govern ہوتا ہے۔ اس میں طبیعت کا بھی ایک رول ہے۔ جب ہم کسی کلام کے مطالعہ کا ارادہ کرتے ہیں، تو یہ ارادہ ہمارے اس کلام سے استفادہ کے عوامل کو متعین کرتا ہے۔ ہم کلام کو جس سطح پر رکھیں گے، اس سے ہمارے استفادے کی نوعیت بدل جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم کا حصول ارادۂ علم کے تابع ہوتا ہے۔ قرآن مجید کو بہت سے ملحدین و منکرین بھی پڑھتے ہیں اور متن خواندگی میں وہ مہارت بھی رکھتے ہیں، لیکن ان کے استفادے پر ان کی نیت کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ قرآن مجید کو ”سرگذشت“ قرار دینا، قرآن مجید سے استفادے کی سطح اور ہمارے اس سے تعلق کی نوعیت کو قرآن مجید کو پڑھنے سے بہت پہلے متعین کردیتا ہے۔ ہم قرآن مجید کو ایک ”سرگذشت“ کی حیثیت میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہم دو جملہ لکھتے ہیں: (۱) قرآن مجید خدا کا کلام ہے۔ (۲) قرآن مجید سرگزشتِ انذار ہے۔ فرض کریں کہ قرآن مجید کے دو طالبِ علم ہیں۔ ایک کو قرآن مجید کے بارے میں پہلا جملہ تعلیم کیا گیا ہے۔ دوسرے طالبِ علم کو دوسرا جملہ سکھایا گیا ہے۔ اب یہ دونوں حضرات قرآن مجید کو کھولیں گے، ان کے کلامِ خداوندی سے استفادے میں فرق ہوگا۔ یہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہمارا اس کلام کے ساتھ تعلق ہے، جس کے تحت ہم اس کلام سے استفادہ کرتے ہیں۔ کسی بھی کتاب کو عنوان اس کتاب سے استفادے کی نیت کو متعین کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ عنوان کتاب کی پوزیشن کو متعین کر چکا ہوتا ہے اور قاری سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بھی اپنا قبلہ درست کرلے تاکہ استفادے کی درست صورت مہیا ہو سکے۔ دوسرا یہ کہ عنوان کتاب کے مشمولات کو ان کے مطالعہ سے پہلے ایک کوزے میں بند کر چکا ہوتا ہے۔ مثال کے طور مشل فوکو کی کتاب Archaeology of Knowledge کا عنوان اس کتاب کے مشمولات کی پیشگی خبر فراہم کرتا ہے۔ قاری کو اس کتاب سے کیا حاصل ہو سکتا ہے اور اسے کیا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، عنوان اِس چیز کو اُس کتاب کو پڑھنے سے بہت پہلے متعین کردیتا ہے۔ میں ایک ٹیکسٹ سے خاص امیدیں رکھتا ہوں۔ میری اس ٹیکسٹ سے کچھ تمنائیں اور کچھ امنگیں وابستہ ہیں، وہ سب متن خواندگی سے بہت پہلے میرے وجود اور متن کے درمیان فعال تعلق کی موجب بنتی ہیں۔ خدا کے کلام کے ساتھ میرا تعلق محض علمی نہیں۔ وہ علمی بھی ہے، لیکن علم کے دائرے میں محصور نہیں۔ یہ وہ کتاب ہے، جس کی بلا مفہوم قرآت مجھے فائدہ دیتی ہے۔ اس کے مفھوم اور معانی کی سمجھ میرے لیے جس قدر وجودی و ایمانی تسکین کا باعث بنتی ہے، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
قرآن مجید کے مشمولات کو سرگذشت کے زمرے میں بند کرنا اس کلام کے آفاقی ہونے کو متاثر کرتا ہے۔ لہذا ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سرگذشت کا لفظ قرآن مجید کے آفاقی ہونے کے مقدمہ کو نظروں سے غائب کردیتا ہے۔ میں اس کلام کو اس کی آفاقیت میں اپروچ کرنے کی بجائے، اسے ایک گزری ہوئی واقعاتی تاریخ کی حیثیت میں دیکھنے پر خود کو مائل پاتا ہوں۔ کیونکہ میں قرآن مجید کے سرگذشت ہونے کے مقدمہ کو پہلے ہی سے قبول کر چکا ہوتا ہوں، لہذا میں اس کو ایک سرگزشت کی حیثیت میں دیکھنے میں متردد نہیں ہوتا۔ سرگذشت کا لفظ قرآن مجید کے متن کو تاریخ کے دھارے میں fixed کردیتا ہے۔ یہ واقعات یوں رونما ہوئے تھے، یہ ایسے ہوا تھا۔ قرآن مجید ایک آفاقی کتاب ہے۔ اس میں واقعات بھی آفاقی ہیں اور ان واقعات سے حاصل تعلیمات بھی آفاقی ہیں۔ قرآن مجید میں بلا شبہ کچھ خصوصی احکامات وارد ہوئے ہیں۔ ہم ان کی تعمیم کے دعویدار نہیں۔ یہ اصولی مبحث ہے۔ تخصیصات جزوی ہے۔ سرگزشت کا لفظ کلام کو اس کی کلیت میں historicized کرتا ہے۔ ہماری تنقید یہاں ہے۔ خاص احکامات کے زمرے میں نہیں۔ امت کی چودہ سو سالہ تاریخ میں قرآن مجید کو اس کی کلیت میں کبھی تخصیص نہیں دی گئی، جو آج غامدی صاحب نے سرگذشت کے لفظ سے قرآن مجید پر نافذ کی ہے۔ غامدی صاحب نے قرآن مجید کو اس کی کلیت میں historicized کیا ہے۔ یہ آج تک نہیں کیا گیا۔ تخصیص کی یہ عمومی صورت ہمارے ایمان و علم کے لیے مضر ہے۔
جب ہم اس لفظ کی تخریج میں جاتے ہیں، تو ہمیں اس لفظ میں غامدی صاحب کی فکر کا مکمل ڈھانچہ دکھائی دیتا ہے۔ غامدی صاحب نے قرآن مجید کا پورا نظام اس تصور سے کشید کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر، قرآن مجید کا جو نظام غامدی صاحب کے ذہن میں موجود تھا، اس کے لیے انھیں ایک مناسب اصطلاح کی ضرورت تھی، جو ”سرگذشت“ کے لفظ سے فراہم ہوتی ہے۔ نظمِ قرآن ہو یا نظامِ قرآن یہ قرآن مجید کے سرگذشت ہونے کے تصور سے جڑا ہے۔ لہذا ”سرگذشت“ کا قرآن مجید کے داخلی اسٹرکچر جسے فکرِ غامدی میں نظام القرآن کہا جاتا ہے اور اس کے معنوی دروبست سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ قانون رسالت غامدی صاحب کی فکر کا میٹا نریٹو ہے۔ غامدی صاحب کی فکر کا theoretical framework قانونِ رسالت پر مبنی ہے اور ان کے فقہی آراء کا بیشتر حصہ قانون رسالت سے مراجعت کرتا ہے۔ قانون رسالت ہی سے قانون جہاد جڑا ہے اور اسی سے حدود و تعزیرات۔ ان کی بہت سے فقہی آراء جیسے پردے کے احکامات وغیرہ بھی قانونِ رسالت سے تشکیل پاتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غامدی صاحب کی فکر کا مَبنیٰ قانون رسالت ہے اور قانونِ رسالت انذار کے سرگذشت ہونے سے جڑا ہے۔ یہ تفصیل ہمیں اس بات کا شعور دیتی ہے کہ ”سرگذشت“ کا لفظ محض ایک سادہ لفظ نہیں۔ بلکہ غامدی صاحب کی فکر کی بنیادیں اس لفظ سے جڑی ہیں۔ یہ اس لفظ کی اہمیت کا بیان ہے اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر ہم نے اسے اپنا موضوع بنایا ہے۔ خود غامدی صاحب نے اصول و مبادی میں پیغمبر کی سرگذشتِ انذار کے تحت اس اصول کے تین نتائجی معنی بیان کیے ہیں۔ پہلے انھوں نے اس ہیڈنگ کے تحت قانونِ رسالت کی شرح و وضاحت کی ہے اور پھر آخر میں تین نتائج بیان کیے ہیں۔ یہ تینوں نتائج قرآن مجید کے انذار ہونے سے کم اور اس کے سرگذشت ہونے سے ذیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ ۲
پہلا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سورہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مراحل میں سے کسی مرحلہ کے ساتھ تعلق ہے۔ تدبر سے اس مرحلہ کا متعین کرنا ضروری ہے۔ یعنی یہ کہ وہ زمانۂ انذار میں نازل ہوئی ہے، یا زمانۂ ہجرت و براءت میں اور جزا وسزا میں۔ اس سورہ کی ہر آیت کا مدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔
دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سورہ کے بارے میں متعین کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطبین مشرکین ہیں، یا منافقین ہیں یا پیغمبر اور ان کے ساتھی۔ چناچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لامِ تعریف کا معہود، اور ہر تعبیر کا مصداق اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔
تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ اس میں غلبۂ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد و قتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اور کیا چیز اس انذارِ رسالت کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے، جو اب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔
یہ تینوں نتائج غامدی صاحب کی میزان سے منقول ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو اس کی کلیت میں دعوتِ انذار کے ادوار میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ہر ہر آیت کے مدعا و مقصود کو اس تنظیمِ نو کی روشنی میں دیکھنے اور طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے تمام عمومی بیانات کو ان کے خصوص میں متعین کرنا ضروری ہے اور وہی خصوص ان کے معانی کو متعین کرے گا۔ حتی کہ اُس حکم کا اُس دور تک محدود ہونا بھی اسی اصول سے معلوم ہوگا۔ وہ حکم محض اسی دور تک رک جائے گا اور اسے اگلے ادوار تک ممتد نہیں کیا جائے گا۔ یہ تمام نتائج قرآن مجید کے سرگذشت ہونے کا حاصل ہیں۔
¹ میزان، اصول و مبادی، جاوید احمد غامدی
۲ جو لوگ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سرگذشت بطور لفظ کے غامدی صاحب کی ہرمانیوتک میں کوئی تاثیر نہیں رکھتا، انھیں چاہیے کہ وہ تنقید کا جواب دینے میں تیزی کی بجائے میزان کے مطالعہ میں وقت لگائیں، تو شاید انھیں چیزوں کی تہہ میں چپھی معنویت کا اندازہ ہو سکے۔ سرگذشت کے لفظ کی معنوی مرادات غامدی صاحب نے خود واضح کی ہیں۔ لیکن ہمارے دوست اسے پڑھنے کی بجائے، ہمیں سمجھانے میں کوشاں ہیں کہ سرگذشت کا لفظ محض ایک سادہ لفظ ہے۔ ہم خواہ مخواہ اس کی مٹی پلید کرنے میں مصروف ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ میزان میں قرآن مجید کے سرگذشت ہونے سے جو نتائج غامدی صاحب نے خود نکالے ہیں، ان کی مراجعت فرمالیں-
قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت
قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کروایا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے، تو قرآنِ مجید کا کتابِ ہدایت ہونا ان سب کو شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اگر کسی ایک لفظ سے تعارف کروانے کی ضرورت پیش آجائے، تو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں، ہمیں محض اسے کتابِ ہدایت سے متعارف کروانا چاہیے۔ قرآنِ مجید نے ہدایت کا عنوان خود اپنے لیے اختیار کیا ہے۔ ہمیں قرآن مجید کو انھی الفاظ میں متعارف کروانے کے ضرورت ہے۔ قرآن مجید کو کسی بھی دوسرے عنوان سے متعارف کروانے میں بہت کچھ خطرات ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عنوان قرآن مجید نے اپنے لیے اختیار نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ ہمارے مزعومہ عنوان سے قرآن مجید کے آفاقی اور من جانب اللہ وحی ہونے کے کسی نہ کسی پہلو پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تیسرا مسئلہ تفسیری ہے۔ عنوانات کسی بھی کتاب کے لیے اس کتاب کے محتویات کا پیشگی تعارف فراہم کرتے ہیں۔ ہم کسی بھی کلام کے فہم سے اس کلام کے محتویات کا فہم حاصل کرنے کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر قرآن مجید کو کسی ایسے عنوان سے موسوم کیا جائے گا، جو قرآن مجید نے خود اپنے لیے اختیار نہیں کیا، تو ہم قرآن مجید کے محتویات کا غلط فہم منتقل کرنے کی داغ بیل ڈالیں گے۔ آخری دلیل کے طور پر یہ سمجھ لیں کہ قرآن مجید خالقِ کائنات کا کلام ہے۔ وہ اس کلام کو اتارنے والا ہے۔ اسی نے ہمیں اور ہمارے فہم کو خلق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نے اگر مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اپنے کلام کے لیے کسی ایسے عنوان کا انتخاب کرے، جو ہم جیسے اس کو دے رہے ہیں، تو وہ عنوان یقیناً قابلِ تردید ہوگا۔ اس عنوان سے بلا شبہ قرآن مجید کے درست فہم میں نقصان کا خدشہ ہے۔
قرآن مجید کو ”پیغمبر کی سرگذشتِ انذار“ قرار دینا، ان تمام وجوہات کی بنا گمراہ کن ہے۔ یہ قرآن مجید پر خواہ مخواہ کا تحکم ہے۔ یہ کلام پر قاری کا وہ غلبہ ہے، جو کلام بالعموم اور کلام اللہ بالخصوص جس کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ قرآن مجید کے قاری کو قرآن مجید کا فہم حاصل کرنے کے لیے اپنے ذہن کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس اجازت میں یہ شامل ہے کہ قاری اپنے علم کو قرآن مجید پر پیش کرے۔ یعنی یکسر خالی الذہن ہو کر کلام فہمی ناممکن ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قاری کلام کو ایسے حدود میں باندھ دے کہ کلام خود ان حدود کی پابندی کرنے والا نہ ہو۔ اگر یہ درست ہے، تو پھر قرآن مجید سے سائنس اور مارکسی نظریات اخذ کرنا کیوں غلط ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید سائنس کی کتاب نہیں۔ اس میں دور جدید کے آئیڈیاز کو تلاش کرنا غلط ہے۔ علی ھذا القیاس، اس کتاب کو دور جدید کی ساختیات کے سپرد کرنا بھی غلط سے غلط تر ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن مجید کا ہر فہم جو اسے کتابِ ہدایت مانے بغیر کیا جائے گا، وہ فہم کے نقص یا اس کے باطل ہونے پر منتج ہوگا۔ اس پر یہ اعتراض کہ قرآن مجید کو غیرِ مؤمن پڑھ کر کيسے ایمان لا سکتا ہے، قیاس مع الفارق ہے۔ اس کے دو جواب ہیں۔ پہلا یہ کہ قرآن مجید کے ایمانی محتویات اور اس کے علمی و دینی محتویات جو اصول الدین اور فقہ الدین کا موضوع بنتے ہیں، ان کے مابین نوعی امتیاز ہے۔ جو لوگ قرآن مجید کے ایمانی محتویات کو اس اعتراض کے تحت مشکوک بناتے ہیں، ان کے فہم پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہ اللہ عنھما جب قرآن مجید کو دین کی بنیاد کی حیثیت میں دیکھتے ہیں، تو وہ دین کے کلی اور مجموعی موقف کو بیان کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ محترم غامدی صاحب نے قرآن مجید کے جن معانی کو میزان میں تفصیل دیا ہے، وہ اصول الدین اور فقہ الدین کے دائرے سے متعلق ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہدایت ایمان کے پہلو سے بھی اس وقت ہمارے فہم میں داخل ہوتی ہے، جب قرآن مجید ہمارے ذہن کو تسخیر کر چکا ہوتا ہے اور یہ منوا چکا ہوتا ہے کہ مجھے خدا کا کلام تصور کرو۔ کلام اللہ اپنے قاری کو پہلے اپنی پوزیشن درست کرنے پر مائل کرتا ہے اور پھر جب قاری وہ پوزیشن اختیار کرلیتا یے، تو وہ اس کے دل و دماغ میں اپنے پیغام کو رسوخ دیتا ہے۔
پیغمبر کی سرگذشتِ انذار یہ کوئی ایمانی قضیہ نہیں۔ یعنی خدا ایک ہے، آخرت میں جوابدہی ہوگی۔ یہ ایمانی قضایا ہیں۔ پیغمبر کی سرگذشتِ انذار کوئی ایمانی قضیہ نہیں۔ غامدی صاحب نے اسے ایک علمی قضیہ کی حیثیت میں پیش کیا ہے۔ میزان غامدی صاحب کے فہمِ دین کو بیان کرتی ہے۔ ان کا فکر انحراف پر مبنی اور اصول سے کٹا ہوا ہے۔ وہ اس بات کو خود تسلیم کرتے ہیں اور اسے اپنے فکر کے امتیاز کی حیثیت میں بیان کرتے ہیں۔ اس علمی قضیہ کی حیثیت ایمانی قضایا جیسی نہیں۔ اس قضیہ کو مفروضہ مان کر قرآن مجید کا مطالعہ قرآن مجید کے کتاب ہدایت ہونے کو زک پہنچاتا ہے۔ اس کی آفاقیت کو متاثر کرتا ہے اور اس کے زماں و مکاں سے ماورا تمام انسانوں سے براہ راست مخاطب ہونے کو پسِ پشت ڈالتا ہے۔ اس علمی مگر غلط قضیہ سے قرآن مجید کے محتویات کا ایک غلط فہم قاری کے ذہن میں منتقل ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے محتویات کے بارے میں ایک غلط رائے قاری اس کلام کو پڑھنے سے پہلے قائم کرلیتا ہے۔ قرآن مجید کو کتابِ ہدایت قرار دینے میں اس نوعیت کے کسی بھی خطرہ کا سامنا نہیں ہوتا۔ قرآن مجید نور ہے۔ یہ دلوں کے لیے شفاء ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآن مجید کا کتابِ ہدایت اس کے کل کو اپنے احاطہ میں لیے ہیں۔ سرگذشتِ انذار اسے ایک کہانی کی نوع میں لے جاتا ہے۔ جو قرآن مجید کے بارے میں انتہائی گمراہ کن موقف ہے۔ قرآن مجید زندہ جاوید کلام ہے۔ یہ کوئی سرگذشت نہیں۔ اس میں کچھ قصص بیان ہوئے ہیں۔ یہ خود کوئی قصہ نہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ جس کتاب میں کچھ قصص بیان ہوئے ہوں، اور ان سے مقصود سامعین کی تعلیم و تربیت ہو۔ کوئی شخص اٹھے اور خود اس قرآن کو قصہ بنا دے۔ یہ ظلمِ عظیم ہے اور وہ بھی قرآن مجید جیسے بے مثل کلام کے ساتھ۔